السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کےوالدین زید سے کیا کہ ہم اپنی لڑکی ہندہ کا نکاح تیرے ساتھ کردیں گے۔لیکن زید کو قرآئن سے معلوم ہوگیا کہ میرے ساتھ وعدہ صرف کھانے کے لئے کیا ہے نکاح نہیں کرنے دیں گے۔اس وجہ سے زید نے ہندہ سے زنا کیا۔ہندہ حاملہ ہوگئی۔پھر والدین نے حمل میں قبل وضع حمل پانچ ماہ زید سے ہندہ کا نکاح کردیا۔کیا یہ شرعا نکاح صحیح ہے ؟قرآن وحدیث سے جواب ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام احمد کے نزدیک یہ نکاح حرام ہے اور یہی صحیح ہے۔اس لئے کہ زانی کو حد لگانی واجب ہے۔جب تک حد نہ لگائی جائے۔اور توبہ ہ ہو تب تک نکاح صحیح نہیں۔اور یہ حمل زناکا ہے۔اورولد ولدزنا ہوگا۔حاملہ من الزنا کانکاح حالت حمل میں صحیح اس وجہ سے بھی نہیں کہ یہ عموم و اولات الاحمال میں داخل ہے اخراج اس کا محض قیاس ہے اورنیز زانیہ سے نکاح کرنے والا زانی ہوتاہے۔اور جب تک حمل موجود ہے حکم زنا بھی موجود ہے۔بناء علیہ یہ نکاح حرام ہے۔فقط واللہ اعلم۔
ابو اسحاق نیک محمد امرتسر ھوالموفق نکاح زانیہ بزانی میں سلف کا اختلاف ہے فمن قال مجوز ومانع مگر بعد تو یہ نکاح صحیح ہے۔امام احمد بعدتوبہ صحت کے قائل ہیں۔یعنی حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے عدت میں نکاح درست نہیں۔(نیل الاوطار)اور توبہ صحیحہ شرعی حد پر منحصر نہیں۔قصہ افک صحیح بخاری میں ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا تھا۔
فان كنت الممت بذنب فاستغفري الله وتوبي اليه فان العبد اذا اعترف ثم تاب تاب الله عليه
(الحدیث) صحت نکاح کی دلیل یہ ہے کہ سورہ نور کی آیت کی منع کی دلیل میں علت منع وصف زنا ہے۔قضیہ مشروط ہے۔اور بعد توبہ وذصف زنا ذائل ہے بحکم حدیث نبوی ﷺ
التائب1من الذنب كمن لا ذنب له(سنن ابن ماجه وغيره)
اس عورت کی عدت شرح میں اس مدت کا نام ہے جس میں عورت فراق زوج یا وفات
1.گناہ سے توبہ کرنےوالا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اس کا گناہ تھا ہی نہیں۔ٰ
زوج یا سید کے بعد نکاح یا وطار سے رہی رہتی ہے۔فتح الباری نیل االاوطار سبلالسلام)قرآن وحدیث میں انھیں مواضع میں عدت عورت کازکر آیاہے۔استبراء اس میں داخل ہے عدت کا تعلق اصل میں زوج یا سیدسابق سے ہے۔سورہ احزاب کی آیت ۔
بھی امر مذکور کی دلیل ہے۔نظر برآں اولات الاحمال کے عموم میں عامل من الزنا کا دخول محل نظر ہے۔قطعی نہیں صرف احتمال ہے۔جیسا کہ خروج قیاسی کہا گیا دخول بھی قیاسی ہے۔اور العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب بھی قیاس ہے۔نص یہ بھی نہیں نیز عموم ہر چیز کا اپنے نوع میں ہوتا ہے۔نہ غیر میں اور اس عموم کی تصریح صرف مطلقہ اور متوفی عنہا (جس کا خاوند مرگیا)میں خود حضور ﷺ نے فرمائی ہے۔
عن ابي بن كعب قال قلت يا رسول لله واولات الاحمالاجلهن للمطلقة ثلاثا وللمتوفي عنها قفال هي للمطلقة ثلا ثا وللمتوفي عنها
(رواہ احمد و دارقطنی)اور نکاح زانیہ بعد توبہ زنا نہیں کما تقدمخلاصہ یہ ہے کہ صورت مسئولہ منصوصہ نہیں کتاب و سنت سے استنباط ہے۔ایسے مسائل میں ترک احوط (بہتر) ہے ۔مخلص تجدید نکاح ہوسکتاہے۔مگر حمل مذکور صحیح النسب نہ ہوگا۔(راقم ابو سعید محمد شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ دہلی) (اخبار محمدی دہلی جلد نمبر 19 ش 14)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب