السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وحی کا آغاز کب ہوا۔نزول وحی کے وقت کیا کیفیت ہوتی تھی۔جمع تدوین کا کام کیسے ہوا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پروردیگار عالم نے قرآن حکیم سید المرسلین خاتم النبیین سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کر کے 23 سال کی مدت میں نازل فرمایا۔ہمارے عقیدے کے مطابق قرآن مجید وحی الٰہی ہے۔حضرت جبریئل امین علیہ السلام یہ وحی لے کر آئے۔جو نبی کریم ﷺ لفظ بہ لفظ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین کو سنا دیتے۔اور کاتبان وحی قلم بند کر لیتے۔وحی کے لغوی معنی پیغام دینے اشارہ کرنے دل میں کوئی دل میں کوئی بات ڈال دینے ای چھپ کر کوئی بات کہہ دینے کے ہیں۔قرآن مجید میں وحی کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔مثال کے طور پر
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ
ترجمہ ۔اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
سورۃ النحل میں یوں ارشاد ہوتا ہے۔
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو سکھایا۔
ایک او ر جگہ فرمایا!
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ
اور ہم نے موسیٰ ؑ کے ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی۔کہ اس کو دودھ پلائو۔
ان مثالوں سے واضح ہوتاہے۔کہ مختلف معانی کے باوجود وحی کے مفہوم میں خفیہ طور سے اطلاع دینا ایک ایسا مطلب ہے جو مشترک ہے۔لیکن شرعی اصطلاح میں وحی سے مراد وہ زریعہ غیبی ہے۔جسےبروئے کار لا کر اللہ تعالیٰ کسی نبی کو اپنا علم سکھا تا ہے۔جس میں پیغام الٰہی اوراحکام خداوندی سب کچھ شامل ہوتاہے۔
وحی کا مفہوم سمجھنے کے بعد اب اس کی مختلف صورتوں اور قسموں کازکر کیا جاتاہے۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے خوابوں یعنی روئے صادقہ کے زریعے کوئی بات بتائے۔جس طرح خلیل اللہ ؑ کو بیٹے کی قربانی کا حکم یا بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ پروحی کا آغاز روئے صادقہ سے ہوا۔آپﷺ جو خواب دیکھتے۔صبح کی سفیدی کی طرح سچا نکلتا۔دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ نظر آئے بغیر کوئی بات دل میں ڈالے۔جیسے مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس علیہ السلام کو دعا اور توبہ پرآمادہ کرنا وغیرہ۔تیسری صورت یہ ہے کہ جرس کی صدا بلند ہو۔اس بارے میں صحیح بخاری کی حدیث ہے۔کہ آپ ﷺ نےفرمایا!کبھی میرے پاس وحی گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے۔جو میرے لئے سخت ہوتی ہے۔جب وحی ختم ہوتی ہے۔تو مجھے سب کچھ یاد ہوجاتاہے۔چوتھی صورت یہ ہے کہ فرشتہ اپنی اصلی شکل یا انسانی پیکر میں پیغام لے کر آئے۔جس طرح اکثر حضور ﷺ کے پاس آتا رہا۔پانچویں اور آخری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست وحی نازل فرمائے۔مثلا! حضرت موسیٰ علیہ السلام پر طور سینا پر اپنے حبیب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ پر شب معراج میں۔
وحی کا مفہوم سمجھنے کے بعد اب نزول قرآن اور آغاز وحی پرروشنی ڈالی جائے گی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کے بعدآپﷺ کو تنہائی اور یکسوئی سے محبت ہوگئی۔چنانچہ آپ غارحرا میں جا کر کئی کئی راتیں عبادت میں گزار دیتے خوردونوش کاسامان آپ ﷺ ہمراہ لے جاتے تھے۔اورختم ہونے پر دوبارہ گھرسے لے جاتے تھے۔اسی طرح آپﷺ کی عبادت میں کئی برس گزر گئے۔ایک روز اچانک آپﷺ کے سامنے اللہ کا فرشتہ ظاہر ہوا۔اور کہنے لگاپڑھ ۔آپﷺ نے فرمایامیں پڑھ نہیں سکتا۔یہ سن کر فرشتہ آپ سے بغل گیر ہوگیا۔اورزور سے اتنا دبایا کہ آپ تھک گئے۔فرشتے نے دوسری بار چھاتی سے لگاکر آپ کو اور بھی زور سے دبایا اور چھوڑنے کے بعد کہا!
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ
(پڑھ اپنے رب کے نام سے) یہ پہلی وحی تھی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر چالیس برس کی تھی۔اس وحی کے بعد آپ گھر تشریف لے گئے۔ چونکہ زندگی میں اس قسم کاپہلاواقعہ تھا۔نیزامت کی تعلیم اور اسلام کی تبلیغ کا با ر عظیم آپﷺ کو سونپا جا رہا تھا۔اس لئے آپﷺ کا قلب ازہر لرز گیا۔اورآپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سہمی ہوئی آواز میں کہا کہ مجھے کملی اوڑھا دو۔انہوں نے حکم کی تعمیل کر دی۔کچھ وقفہ کے بعد جب خوف و ہراس کم ہوگیا تو آپ ﷺ نے تمام ماجرا اپنی نیک سیرت شریک حیات سے بیان کردیا۔اور کہا کہ مجھے جان کا خطرہ ہے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو تسلی دی اور کہا!کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کسی لمحے بھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔کیونکہ آپ اعزا ء و اقرباء سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔محتاجوں اور بے کسوں کے کام آتے ہیں۔مہمانوں کے لئے آرام و آسائش مہیا کرتے ہیں۔آڑے وقت میں مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں۔اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔جو عیسائی تھے۔انجیل اورتورات کے جید عالم تھے۔انہوں نے تمام ماجراسننے کے بعد کہا!یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوا تھا۔انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب اللہ کے اس پیغمبر ﷺ کو قوم وطن سےنکال دے گی۔اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی کاسلسلہ منقطع ہوگیا۔اصطلاح میں اسے فترہ وحی کہتے ہیں۔وہی کے اچانک رک جانے کا آپﷺ کو انہتائی رنج وملال ہوا۔قادر مطلق نے جب دوبارہ وحی بھیجی تو اپنے پیغمبر ﷺ سے یوں مخاطب ہوا۔
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
(اے کملی والے !اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر)اس کے بعد رب کریم کے وصال تک وحی کاسلسلہ جاری رکھا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے آپﷺ تو وحی الٰہی سناتے ہیں۔شروع شروع میں آپﷺ نزول وحی کے موقع پراپنے لب مبارک تیز تیز ہلایا کرتے تھے۔تاکہ کوئی چیز رہ نہ جائے۔لیکن ذات باری کو یہ گوارا نہ تھا۔کہ اس کا حبیب ﷺ اتنی تکلیف اٹھائے۔چنانچہ فرمایا! آپ ﷺاپنی زبان کو قرآن سیکھنے کے لئے جلدی جلدی حرکت نہ دیں۔اس کاجمع کرنا اور پڑھانا ہمارے زمہ ہے۔اس فرمان کے بعد آپﷺ کی عاد ت ہوگئی۔کہ جب بھی جبرئیل امین علیہ السلام آتے۔آپﷺ خاموش ہوکر بیٹھ کر سنتے رہتے۔اور پھر اس کے جانے کے بعد بالکل اسی طرح پڑھتے ۔جس طرح روح القدس سے سنتے تھے۔آخری عمر میں وحی کاسلسلہ عروج پر تھا۔پہلے بتا یا جا چکا ہے کہ آغاز وحی میں آپﷺ پر خوف وہراس اور دہشت قائم ہوگئی تھی۔لیکن رفتہ رفتہ جب مانوس ہو گئے۔تو اشتیاق کا یہ عالم ہوا کہ وحی آنے میں زرا دیر ہوجاتی تو آپ ﷺ بے چین اور مضطرب ہوجاتے۔وحی کے نازل ہونے کا کوئی وقت یا مقامقرر نہیں تھا۔حسب ضرورت جہاں چاہتاجب چاہتا اللہ حضرت جبرئیل ؑ کو آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیتا۔البتہ ماہ رمضان میں روح القدس روز حاضر ہو کر آپ ﷺ سے قرآن مجید سنتے۔اور خود آپﷺ کو سناتے تھے۔قرآن الحکیم کے نزول کی مدت جیسا کہ قبل زکر ہوچکاہے 23 سال ہے۔اس میں سے پہلے 12 سال ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرے۔اس وقت چونکہ اسلام نے ابتدائی منازل میں قدم رکھا تھا۔اس لئے مضامین جو قرآن کریم میں ناذل کیے گئے۔وہ بالکل سادہ اورعام موضوعات سے متعلق تھے۔لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی اپنی ایک الگ ریاست قائم ہوگئی۔اور علیحدہ معاشرہ وجود میں آگیا۔تو خدائے بزرگ و برتر نے اپنی رحمت سے پورے قواعد و ضوابط او ر رہن سہن کے طریقے بھی وحی کے زریعے بھیج دیئے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام صورتوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔پہلی جو مکہ مکرمہ میں ناز ل ہوئی۔انہیں مکی کہتے ہیں۔اور دوسری جومدینہ منورہ میں یا قرب جوار میں نازل ہوئیں۔انہیں مدنی کہتے ہیں۔آپﷺ کا معمول تھا۔کہ جب بھی وحی نازل ہوتی۔آپ ﷺ لفظ بالفظ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو سنادیتے۔کئی حاضرین اسے زبانی یاد کر لیتے۔انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ہے کہ یہ قرآن روشن آیات کا مجموعہ ہے۔جو علم والوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ان لوگوں کے علاوہ حضورﷺ نے چند لکھنے والے بھی مقرر کررکھےتھے۔انکو کاتبان وحی کے نام سے پکارا جاتاتھا۔جب کوئی آیت یا سورت نازل ہوتی تو آپﷺ فورا لکھوالیتے۔اور ساتھ یہ بھی بتادیتے کہ اس کو فلاں سورت میں فلاں مقام پر لکھا جائے۔لہذا ثابت ہوا کہ قرآن کریم کی موجودہ صورت اور ترتیب خود آپﷺ نے حکم الٰہی سے دلوائی تھی۔اور اس میں کسی قسم کاردو بدل نہیں ہوا۔تدوین قرآن کا کام اصل میں عہد نبوی ﷺ سے شروع ہوچکا تھا۔ مکہ میں وحی لکھنے کا کا م حضرت ابو بکر۔حضرت علی۔اور حضرت عثمان رضوان اللہ عنہم اجمعین کے سپرد تھا۔لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا وحی کثرت سےنازل ہونے لگی۔چنانچہ مدینہ میں ان کاتبان وحی کے علاوہ زید بن ثابت۔حضرت معاویہ۔اور حضرت زبیر بن عوام۔ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بھی اس کام پرمعمور کر دیا گیا۔یہ لوگ تو بارگاہ نبویﷺ کی طرف سے مقرر کیے گئے۔اور ان کے علاوہ بھی کئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ایسے تھے۔جنہوں نے اپنے جزبہ شوق کے تحت قرآن مجید لکھا۔عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے تو سارا قرآن مجید جمع کیا تھا۔ اور رات بھر پڑھتے رہتے تھے۔یہ سن کر آپﷺ نے ایک ماہ کے اندر ختم کرنے کاحکم دیا۔قرآن مجید میں بھی کئی جگہ شہادت موجود ہے۔کہ قرآن کتاب کی صورت میں یکجا جمع ہے۔اس کے علاوہ امام قرطبی فرماتے ہیں۔کہ مسلسل حدیثوں سے یہ بات مصمم ہے۔کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے زید بن ثابت ۔ابی بن کعب۔ابو زید۔اور معاز بن جبل۔ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ہمارا قرآن مجید نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے سن کر جمع کیا تھا۔اور کچھ دوسروں سے بھی سنا تھا۔لیکن بعد میں اسے کتاب کی شکل میں ایک جگہ جمع کر لیا گیا تھا۔قرآن میں کئی جگہ کتاب کا زکر آیا ہے۔ویسے تو شروع ہی میں سورۃ البقرہ میں کہہ دیا کہ اس کتاب میں کوئی شک شبہ نہیں۔لیکن سورۃ واقعہ میں اور بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔''یہ قرآن عزت والا ہے محفوظ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔اس کو پاک لوگ ہاتھ لگاتے ہیں۔بہر حال یہ امر اچھی طرح واضح ہوگیا ہے۔ کہ تدوین قرآن کا کام عہد نبوی ﷺ میں سرکاری طور پرشروع ہوچکا تھا۔جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ اب دین اسلام کی تبلیغ پوری ہوچکی اور جس مشن کے لئے آپ ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا۔وہ اُس میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکے ہیں۔تو آپ ﷺ پر آخری وحی اسی طرح نازل ہوئی۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
(آج ہم نے تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا ) اس کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا کچھ عرصہ بعد آپﷺ کا وصال بھی ہوگیا۔آپﷺ کے وصال کے بعد عہد خلفائے راشدین کا آغا ز ہوتا ہے۔خلفائے راشدین کے ابتدائی دور میں جب حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی۔تو ایک ایساواقعہ پیش آیا جس کے بعد قرآن مجید کی حفاظت کا مسئلہ وقت طلب ہوگیا جنگ یمامہ میں حفاظ قرآن کی اکثریت شہید ہوگئی۔چنانچہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی دوررس نگاہوں نے فوراً بھانپ لیا۔کہ اگر دوسرے معرکوں میں اسی طرح کثرت سے حفاظ شہید ہونے لگے تو قرآن مجید کی حفاظت مخدوش ہو جائے گی۔انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کےسامنے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بحث و تمحیص ک بعد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا کر ہدایت کر دی۔کہ ان حالات کے پیش نظر قرآن مجید کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔یہ بات تو پہلے بیان کی جا چکی ہے۔ کہ پورے کا پورا قرآن مجید آپ ﷺ کے حکم سے لکھا ہوا موجود تھا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ مختلف چیزوں پر مختلف حصےلکھے ہوئے تھے۔کھجور کی چھال بڑی بڑی ہڈیوں اور پتھر کے ٹکڑوں پر لکھنے کے بعد اب یہ خطرہ تھا کہ اگر سارےحفاظ شہید ہوگئے تو پھر ترتیب و تدوین میں ردو بدل کا جائزہ لینے والا کوئی نہ ہوگا۔لہذا یہ ضروری ہوگیا کہ حفاظ کی امداد سے مختلف چیزوں پرلکھے ہوئے قرآن مجید کو عہد نبوی کی ترتیب کے مطابق یکجا کردیا جائے تاکہ ردو بدل کا امکان باقی نہ رہے۔اور یہی کام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خلیفہ وقت کے حکم سے سر انجام دیا۔مختلف ٹکروں پر لکھے قرآن مجید کا حفاظ کے حافظ سےمقابلہ کر کے از سر نو اکھٹا کر دیا۔اور ترتیب وہی رکھی جو جوعہد نبوی میں تھی۔یہ پہلا قرآن مجید تھا جو اوراق پر کتابی شکل میں لکھاگیا۔یہ نسخہ قرآن خلیفہ وقت حضرت ابو بکر رضی للہ عنہ کے پاس ر کھ دیا گیا۔ان کے بعداسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں دے دیا گیا۔اوران کی وفات کے بعد ان کی صاحبزادی ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت میں حضرت عمر رضی للہ عنہ نے اپنے دور میں قرآن کریم کے کئی نسخے ملک کے اندر تقسیم کرائے کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد مصر و شام اور عراق و یمن کے ملکوں میں تقریباً ایک لاکھ افراد کے پاس قرآن مجید کے نسخے موجود تھے۔حضرت عثمان رضی للہ عنہ کا دور آیا۔توحفاظت قرآن کی ضرورت اہمیت اختیار کر گئی۔کیونکہ حذیفہ بن یمان جب خلیفہ کے حکم سے آزر بائی جان کے صوبہ پربحیثیت سپہ سالار حملہ کر رہے تھے۔تو انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔انہوں نے واپس پر اپنے مشیر سعید بن عاص سے بات چیت کی۔اور اس نتیجے پر پہنچے کے ہر علاقہ کے لوگ یہ سمجھ بیٹے ہیں کہ ہم نے فلاں سے قرآن مجید پڑھنا سیکھا ہے لہذا ہماری قراءت دوسروں بہتر ہے۔چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان رضی للہ عنہ کو تمام حالات سے آگاہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ بروقت معاملات پر قابو پا لیا جائے۔ورنہ علاقائی اختلافات زور پکڑنے کے بعد ہمیشہ کے لئے معاملہ بگڑجائے گا۔اور اس کا صرف یہی حل ہے۔کہ سرکاری نسخہ شائع کر دیا جائے۔بات واقعی قابل غور تھی۔ اس لئے حضرت عثمان رضی للہ عنہ نے تمام صحابہ کا اجلاس طلب کیا۔اور حالا ت سے آگاہ کیافیصلہ یہی ٹہرا کہ سرکاری نسخے کی اشاعت نا گزیر ہے۔
اس کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی للہ عنہا سے حضرت ابو بکر صدیق رضی للہ عنہ والا نسخہ منگوایاگیا جس کی کئی نقلیں پورے عالم اسلام میں تقسیم کر وادی گئیں۔نقل نویسی کے کام کے لئے جس کمیٹی کی تشکیل کی گئی۔اس کے انچارج حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ مقرر ہوئے ۔باقی ممبران میں عبد اللہ بن زبیر رضی للہ عنہ سعید ابن عاص رضی للہ عنہ اور عبد الرحمٰن بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اختلافی رسم الخظ ختم کر دیئے گئے۔اور قرآن مجید کو قریش کے رسم الخظ میں رقم کیا گیا ہے۔
اس مرحلے میں پہنچ کر دو چیزوں کی وضاحت ضروری ہو جاتی ہے۔اول یہ کہ حفاظت قرآن کمیٹی کا انچارج حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ کو کیوں مقرر کیا گیا۔دوئم اختلاف قراءت کا مسئلہ حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ وہ نوجوان سمجھ دار اور دانا تھے۔اس کے علاوہ چونکہ حضور ﷺ کے زمانہ میں قرآن مجید لکھا کرتے تھے۔لہذا خلیفہ وقت کو ان پر اعتماد تھا۔کہ پوری محنت اور تحقیق کے بعد یہ کام سر انجام دیں گے۔امام قرطبی کی رائے میں حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ کو دوسرے اکابر صحابہ کی نسبت زیادہ قرآن یادتھا۔انہوں نے آپ ﷺ کی موجودگی میں سارا قرآن زبانی یاد کرلیا تھا۔ان کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔کہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید جب حضرت جبرئیل امینؑ کے سامنے رکھا گیا۔تو وہ خود بھی موجود تھے۔نیز آپﷺ اور جبرئیل امین ؑ کے ساتھ دورہ قرآن میں شریک تھے۔یہ وہ شرف تھا جو کسی دوسرے صحابی کے حصہ میں نہیں آیا تھا۔اس امتیاز کے پیش نظر حضرت عثمان رضی للہ عنہ نے ان کا انتخاب کیا تھا۔ظاہر ہے کہ عہد صدیقی رضی للہ عنہ میں حفاظت قرآن کا مقصد یہ تھا کہ قرآن مجید کے کسی حصہ ک تلف ہونے کاامکان نہ رہے۔ (الارشاد جدید جنوری سن 1965ء)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله الذي اور ثنا علم النبي وجعله احسن المواريث
والصلواة والسلام علي رسوله محمد الذي اوتي جوامع الكلم وخير الاحاديث وعلي اله واصحابه الذين ور ثو العلم وصاروابه ملاويث وعلي اتباعهم الذين اشاعو سنن نبيهم وقمعوا اهل البدع كالبر اغيث
اما بعد!
پہلی امتیں جو آسمانی کتابوں کی وارث بنی تھیں۔وہی اُن کی کتابوں کی محافظ بھی مقرر کی گئیں تھیں۔جیسا کہ قرآن کی سورت مائدہ میں بیان ہوا ہے ۔
اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ
(وہی لوگ کتاب اللہ کے محافظ بنائے گئے۔اور وہی لوگ اس کے کتاب اللہ ہونے پر شاہد تھے۔)لیکن اُن لوگوں نے نفسانی خواہشوں اور دنیا کی لالچوں میں پھنس کر اُ ن کی کتابوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔جیسا کہ سورۃ آل عمران (آیت نمبر 187) میں فرمایا!
فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا
(اُنھوں نے کتاب اللہ کو ا پنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔اور اُس کے عوض دنیا کی متاع قلیل لے بیٹھے)یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں من مانی تحریف بھی کرنی شروع کر دی تھی۔ جیسا کہ سورۃ مائدہ آیت نمبر 13) میں ارشاد ہوا۔
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ
کلمات کو اس جگہ سے بدلتے اور جن امور کی نصیحت کئےگئے تھے۔اُس کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے تھے۔)اس لئے اللہ تعالیٰ نے آخر میں ایسی کتاب نازل فرمائی۔جس کی حفاظت کا بار بجائے اس کے کہ کسی انسان کے کاندھوں پر ڈالا جاتا۔خوداپنے زمہ لے لیا۔اورسورۃ حجر آیت نمبر9 میں فرمایا!
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
( بے شک ہم ہی نے اس نصیحت نامے کو بھیجا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے زمہ دار ہیں۔)پس جب قرآن مجید کا محافظ وہ خود ہوا۔ تو اُسی کواس کا جامع بھی ہونا چاہیے تھا۔چنانچہ اُس نے اس کابھی زمہ لیا اور سورۃ قیامہ آیت نمبر17 میں اعلان فرمادیا۔
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
(بے شک ہمارے ہی ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور ترتیب دینا)
سبحان الله جل جلا له
مسلمان مصنفین اور واعظین نے چونکہ ان امور پر غورنہیں فرمایا!اس لئے اُن کے قلم اور زبان سے بکثرت یہ جملہ شائع ہوکر مشہو ر ہوگیا کہ''قرآن مجید کے جمع کرنے والے حضرت عثمان ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔(حالانکہ وہ محض ناقل۔اور ملکوں میں اسکو پھیلانے والے تھے۔)اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخالفین اسلام کو ایک سند ہاتھ آئی۔اور اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔عیسائی حضرات نے اس میں سب سے سبقت کی انہوں نے دیکھا کہ خود تو ہم اصلی صحیفہ ربانیہ کھوچکے ہیں۔لاو مسلمان کی الہامی کتاب قرآن کو بھی غیر اصلی کہنا شروع کر دیں۔چنانچہ اُن کے پادریوں اور مصنفوں نے شور مچانا شروع کیا کہ قرآن مجید ناقص ہے۔(نعوذ باللہ من ذالک)یہ انسانوں کا جمع کیا ہوا ہے۔لہذا یہ بھی غیرمعتبر ہے۔اور ثبوت میں حضرت عثمان ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جامع قرآن ہونے کا حوالہ پیش کیا۔چنانچہ زمانہ حال کا مشہور عیسائی مصنف پادری اکبر مسیح اپنی کتاب تاویل القرآن کے تیسرے باب ص27 میں تاریخ قرآن پر ریویو کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
''موجودہ قرآن خلیفہ ثالث حضرت عثمان ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتب کیا ہوا ہے۔جو کہ اُس قران کا کچھ تھوڑا سا حصہ ہے جو محمد (ﷺ)پر اُترا تھا۔قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ ساقط ہوگیا۔ او ر جو بچ گیا وہ بدنظمی سے مرتب ہوا۔''
اسلام کی نئی مد مقابل سوسائٹی جو آریہ سماج کے نام سے مشہور ہوئی۔اس نے بھی عیسایئوں کی پوری کاسہ لیسی کی۔چنانچہ آگرہ کے اخبار ''آریہ مسافر'' میں پنڈت بھوجدت آنجہانی ایڈیٹر نے ایک طویل مضمون لکھاتھا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
قرآن الہامی کتاب نہیں ہے۔بلکہ وہ انسانی دماغ کا نتیجہ ہے۔اور صحابہ کی مرتب کی ہوئی کتاب ہے۔
اس لئے میں نے مارچ 1922ء میں ایک مضمون جمع قرآن کے متعلق اخبار اہل حدیث امرتسر جلد 19 کے نمبر 18۔19 میں شایع کرایا۔اور آخر میں وعدہ کیا کہ اسی چیز کو تفصیل سے رسالہ کی صورت میں شائع کروں گا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشی۔اور مجھے احباب میں سر خرو کیا۔میں نے اس کتاب کو دو بابو میں منقسم کیاہے۔باب اول جو تین فصلوں اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔اس میں بدلائل واضح ثابت کر دیاہے کہ موجودہ قرآن مجید اسی ترتیب کے ساتھ عہدنبو یﷺ میں جمع کیا جاچکا تھا۔ دوسرے باب میں اس امر کا ثبوت ہے۔کہ احادیث نبویہ آخری زمانہ رسالت اور عہد صحابہ میں کتابی صورت میں جمع کی جاچکی تھی۔ نہ کہ دوسری صدی ہجری میں مدون ہویئں۔جیسا کہ مشہورہے۔
والان اشرع في المقصود متوكلا علي واهب الخير والجود
(راقم محمد ابو القاسم ماہ محرم الحرام 1344ہجری)
جو قرآن مجید اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔وہ بعینہ وہی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریئل ؑ کی معرفت اپنے ر سول محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔اور اسی ترتیب پر ہے۔جس پر آپ ﷺ نے اپنے عہد سعادت میں لکھوایا۔صحابہ کرام کو یاد کروایا۔اورخود پڑھا۔نہ اس کے کلمات میں کمی بیشی ہوئی نہ اس کی ترتیب میں تبدیلی ہوئی۔اس دعوے کی دلیلیں زیل کی فصلوں میں ملاحظہ ہوں۔
جامع قرآن خدائے رحمٰن ہے۔
دلائل قرآنیہ
دلیل اول۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔!
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
اس آیت میں تاکید جملہ کے لئے۔اِنَ اور حصر کے لئے عَلَینَا
مقدم کیا گیا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ جمع قرآن صرف ہمارا ہی کام ہے۔اور اہم اسے ضرور ضرور کریں گے۔جمع کی صورتیں دو اور صرف دو ہی ہیں۔
1۔جمع صدر یعنی سینوں میں محفوظ رہنا۔
2۔جمع مکتوبی یعنی تحریر کی صورت میں جمع ہونا۔
1۔اول یعنی جمع صدر کی بابت ارشاد ہے۔
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ
یعنی یہ کتاب روشن آیات کا مجموعہ ہے۔جو علم والوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔
2۔دوم۔یعنی جمع مکتوبی(جو ہمارا مضمون ہے اس کی) کی بابت آیات زیل ملاحظہ ہوں۔
1۔سورہ طور میں ارشاد ہے۔
وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ
یعنی یہ کتاب (قرآن جس کو جمع مکتوبی کے لہا ظ سے ''کتاب''فرمایا)کشادہ اوراق میں لکھی ہے۔عربی زبان میں ورق پتلے چمڑے کو کہتے ہیں۔ جس میں اگلے زمانے میں کتابیں لکھی جاتی تھیں۔صراح میں سے رق بالفتح پوست آہو کہ بروے نودیسند''قامو س میں ہے۔رق جلد رقيق يكتب عليه (باریک کھال جس پر لکھا جاتا ہے۔اس کی تایئد عمارۃ بن غزیۃ کی ر وایت قطع الادیم سے ہوتی ہے۔جو فتح الباری میں ہے۔
انما كان في الاديم اولا قبل ان يجمع في عهد ابي بكر
(پ20 صفحہ 423)
یعنی عہد ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمع سے پیشتر قرآن مجید پہلے قطعات ادیم یعنی چمڑہ پر لکھا جاتا تھا۔
2۔ا ِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (سورة واقعه 79۔77)
یعنی یہ قرآن عزت والا ہے۔محفوظ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔اس کو پاک لوگ(صحابہ کاتبان وحی لکھنے کے وقت )چھوتے ہیں۔اس آیت میں کاتبین قرآن کی طہارت اور صفائی کا بیان ہوا ہے۔جس سے حفاظت کے لئے احتیاط کا بیان کرنا مقصود ہے اس کی تفصیل تیسری آیت میں ملاحظ ہو۔
3۔ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾ (سورۃ عبس 13 تا 16)
یعنی یہ قرآن عزت والے۔بلند قدر۔پاکیزہ۔صحیفوں میں ۔بزرگ اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں سے لکھا ہے۔اس آیت میں قرآن کے لکھنے والے صحابہ کی نیکی اور بزرگی نیز اُن کا عمل و اعتقاد دونوں میں درست ہونا بیان ہوا ہے۔جس کی وجہ سے کمی بیشی کا شبہ اور خیانت کا احتمال پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔
4۔ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ﴿٢١﴾ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ﴿٢٢﴾ (بروج 21۔22)
یعنی یہ بزرگ قرآن (لکھا جاتا ہے۔)تختہ استوان میں جو حفاظت سے رکھا جا تا ہے۔لوح کہتے ہیں کاندھے کی چوری ہڈی کو ۔صراح میں ہے۔لو ح کتف وہرچہ پہن باشد از استخوان وچوب وتختہ۔یعنی لوح کہتے ہیں۔کتف کو اور ہڈی ۔لکڑی۔تختہ سے جو چوڑے ہوں۔کتف کی بابت مجمع البحار میں ہے۔
هو عظم عريض في اصل الحيوان كانو ا يكتبون فيه لقلة القراطيس عندهم
یعنی چوڑی ہڈی جس پرلوگ کاغذ کی کمی کی وجہ سے لکھا کرتے تھے۔(کاغذ کا رواج حجاز میں خلیفہ اول کے وقت سے ہوا ہے۔اور سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پورے قرآن مجید کو کاٖغذوں پر لکھوایا ہے۔جیسا کہ موطا میں ہے۔
(دیکھو فتح الباری ص423 پ20)
لوح و کتف کے بارے میں صحیح بخاری میں آیا ہے۔کہ جب آیت
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
الایۃ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا!
ادع لي زيدا وليجيئ باللوح والدواة والكتف (باب کاتب النبی پ20)
یعنی زید کو بلائو۔( اور کہہ دو کہ قلم ) اوردوات اور شانہ کی ہڈی لے کرحاضر ہو۔معلوم ہواکہ قرآن مجید لوح یعنی چوڑی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا۔پھر با حفاظت رکھ دیا جاتا تھا۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ﴿٢٢﴾
یہا ں تک مکی آیتوں کا زکر تھا۔جن سے مکہ مکرمہ میں قرآن مجید کی کتابت باحفاظت کا حال معلوم ہوا۔اور اس کا اقرار کفار مکہ کو بھی تھا۔کہ محمد(ص)قرآن لکھوایا کرتے ہیں ۔جیساکہ مکی صورت سورۃ فرقان (آیت 5) میں اكْتَتَبَهَا صاف موجود ہے۔مفصل تیسری دلیل میں ملاحظہ ہو۔علاوہ ازیں مکہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےاسلام لانے کی وجہ تمام کتب تاریخ وسیر کتب احوال صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین میں مرقوم ہے۔کہ وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں گئے۔اوران کو لکھا ہوا قرآن پڑھتے ہوئے پایا آخر میں کہنے لگے۔
اعطوفي الكتب الذي عند كم قراءه (دارقطنی ص45)
یعنی یہ جو لکھا ہوا قرآن تمہارے پاس ہے۔زرا مجھے دنیا میں بھی اُسے پڑھوں۔معلوم ہوا کہ مکہ سے ہی صحابہ میں قرآن لکھنے کا رواج ہو گیا تھا۔یہ واقعہ ایسا مشہور ہے کہ سرولیم میور انگریز نے بھی اپنی کتاب لائف آف محمد جلد اول ص5 مطبوعہ لندن 1861 ء میں اس واقعہ کا تذکر ہ کیا ہے۔اور لکھا ہے کہ ''جب اُس زمانہ میں قرآن کی نقلیں لکھ لی جاتی تھیں۔تو پیغمبر اسلام کے قوت پانے کے بعد قرآن کے نسخے بکثرت بڑھ گئے ہوں گے۔
اب بعض مدنی آیتیں ملاحظہ ہوں۔جن میں قرآن کے مکتوب ہونے کا بہت زیادہ زکر ہے۔
5۔رَسُولٌ مِّنَ اللَّـهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً
یعنی اللہ کے رسول ﷺنوشتہ پاک کی تلاوت فرماتے ہیں۔اس آیت کی تفسیر فتح الباری میں یوں مرقوم ہے۔
قد اعلم الله في القران بانه مجموع في الصحف في قوله يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً الاية وكا ن القران مكتوبا في الصحف (پ2 ص422)
یعنی اللہ نے آیت مذکورہ میں خبر دی ہے۔کہ قرآن مجید صحیفوں میں مکتوب و مجموع ہے۔
6۔سارے قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر اس کتاب کا نام الکتاب (یعنی مکتوب) آیا ہے شروع میں ہی ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (سورة بقرہ ۔2)
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق دونوں مذکورہ صورتوں (جمع صدر جمع مکتوبی) کے زریعے سے قرآن کو زمانہ نبوت ہی میں جمع کرادیا تھا۔اور ان دونوں صورتوں کو باہم اس لئے مقرر فرمایا کہ بسا اوقات کتابت میں غلطی ہو جاتی ہے۔تو اسکی اصطلاح ضبط صدر(حافظہ)سے ہوجائےگی۔اور حافظ میں نسیان یا بھول واقع ہو تو ضبط کتاب سے غلطی رفع ہو جائے گی۔اس لئے آپ ﷺ حفاظت قرآن کے لئے ہردو امور(ضبط صدر۔ضبط مکتوبی)کا بہت خیال رکھتے تھے۔صحابہ کرام کو یاد بھی کرادیتے (چنانچہ حدیث بیئر معونہ میں جو ستر قراء شہید ہوئے ان قراء کی بابت فتح الباری میں ہے۔
الذين اشتهروا بحفظ القران (پ2)
یعنی یہ ستر صحابہ قرآن کے مشہور حافظوں میں سے تھے۔اس طرح ان کو لکھوا بھی دیتے تھے۔جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث زید کو لکھنے کے لئے اوپر گزری اور آئندہ بھی مذکور ہوں گی ۔ان شاء اللہ
دوسری دلیل
سورۃ فرقان آیت 32 میں فرمایا!
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً
یعنی کافروں نے کہا کہ سارا قرآن محمد ﷺ پر ایک ہی بار کیوں نہ اُتارا گیا ۔اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے تھوڑا تھوڑا اتارنے کی دو وجہیں بیان فرمایئں۔
كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا (25 تا32)
اول تثبیت یعنی ضبط صدر دوم ترتیل یعنی ضبط کتابی ترتیل لغت میں ہم جنس اشیاء کو عمدہ طور پر بالترتیب رکھنے کوکہتے ہیں۔قاموس میں ہے۔الرتل حسن تناسق الشی اساس بلاغت میں ترتیل کے معنی حسن تالیف بھی مذکور ہیں۔اور حسن تالیف کی ایک صورت یہ ہے کہ جن کلمات سے کلام مرکب ہو۔ان کومضمون نویسی میں مناسب موقع پررکھا جائے اور یہی ضبط کتابی ہے۔
آیت مذکورہ سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے۔کہ جمع صدر اور جمع مکتوبی ہردو میں آیات کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمائی ہوئی ہے۔اس کا بیان اس طور پر ہے۔کہ آیتوں کا نزول حسب ضرورت ہوا کرتا لیکن جمع کی ترتیب (جس کا زکر اس حدیث میں ہے۔
كان النبي مما تتنزل عليه الايات فيدعوا بعض من يكتب له ويقول له ضع هذه الاية في السورةالتي يذكر فيهاكذا وكذا (رواہ ابودائود)
یعنی آپ پر جب آیتیں اتریں۔تو کاتب کوبلاکر فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھو۔یہ ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوتی جیسا کہ سورہ نحم (آیت 473)میں فرمایا !
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
یعنی دین سے متعلق جو کچھ آپ فرمایئں۔وہ سب وحی خدا ہوتا ہے۔آپ کی خواہش کو اس میں دخل نہیں ہے۔چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ آلایة نازل ہوئی۔
فقال جبرئيل للنبي ضعها علي راس ما ئتين وثمانين من سورةالبقرة (خازن ج1 ص 206)
تو جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اس آیت کوسورۃ بقرہ کی دو سواسی آیت کے بعد لکھوایئے گا۔موجودہ قرآن میں اس آیت کا نمبر 281 ہے۔معلوم ہواکہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت نمبر وار اور ترتیب سے ہے۔نیز یہ ترتیب توفیقی یعنی من جانب اللہ ہے۔علاوہ ازیں سنن ابی دائود میں آیا ہے۔
كان النبي صلي الله عليه وسلم لا يعرف فصل السورة حتي تنزل بسم الله الرحمان الرحيم
یعنی جب تک بسم اللہ نہ اُترتی آپ کو سورۃ پوری ہو جانے کاعلم نہیں ہوتا تھا۔ (مشکواۃ ص 185)
اس روایت سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
1۔ہر سورۃ کی بسم اللہ منزل من اللہ اور آیت قرآنی نیز اُس سورۃ کاجز ء ہے۔
2۔جب کہ بسم اللہ ایک سورۃ کی انتہا اوردوسری سورۃ کی ابتداء کی علامت ہے۔توجب تک ہر سورۃ کی آیتیں شروع سے آخر تک کسی خاص ترتیب میں مرتب نہ ہوں۔کسی خاص سورۃ کے خاتمہ کا علم نہیں ہوسکتا۔
3۔سورتوں کافصل وحی ربانی سے ہے۔اجتہادی نہیں ہے۔
یہ کہ ترتیب آیات کا مسئلہ خود قرآن سے ثابت ہے۔قرآن خود شہادت دیتاہے کہ وہ زمانہ نزول میں لکھا جاتا رہا ہے۔اورروایت بالا سے صاف ثابت ہورہاہے۔کہ آپ ﷺ قرآن کو خود بڑے اہتمام سے لکھواتے تھے۔اتقان میں ہے۔
كتابة القران ليست بمحدثةفانه صلي الله عليه وسلم كان يا مر بكتابته (نوع 18)
یعنی قرآن کا لکھنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔آپ ﷺ نے اسےخود اپنے حکم سے لکھوایا تھا۔
کفار ( مخالفین اسلام ) کو بھی اس بات کا اقرار تھا کہ آپ ﷺ قرآن لکھواتے ہیں۔جیسا کہ قرآن میں اُن کا مقولہ منقول ہے۔
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿٥﴾ (فرقان ۔5)
یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ قصے ہیں پہلوں کے جن کو آپﷺ نے لکھوایا ہے۔پس یہ لکھ کر سنائے جاتے ہیں۔ آپ کو ہرصبح شام۔طبرانی اوسط میں ہے۔حضرت زید رضی اللہ عنہ کاتب وحی فرماتے ہیں۔
فااذافرغت قال اقرء فافرءه فان كان فيه سقط اقامه (مجمع الزوائد ج1 صفحہ 60)
یعنی جب میں لکھ چکتا تو آپ فرماتے کہ اسے سنائو۔میں پڑھتا اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی۔تو آپ اس کی اصلاح کر ادیتے پس دیکھو قرآن مجید کے لکھے جانے کی بابت کافروں نے جو کہا تھا۔وہ واقعہ کے کس قدر مطابق تھا۔
قرآن مجید میں کسی آیت یا سورۃ کا جو حوالہ دیاجاتاہے۔وہ بھی موجودہ جمع و ترتیب کو من جانب اللہ ثابت کرتاہے۔چنانچہ سورۃ ھود میں فرمایا!
قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ (آیت 13)
یعنی لے آئو دس سورتیں مثل اس کے گھڑ کر۔
یہ حکم سورہ ھود میں دیا گیا ہے۔جو گیارہویں سورۃ ہے۔اس سے پیشتر واقعی دس ہی سورتیں ہیں۔اسی طرح سورۃ نساء میں فرمایا!
وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ (سورۃ النساء آیت 127)
اس آیت میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔وہ علیٰ اختلاف الاقوال آیت میراث یا
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ (آیت نمبر 2)
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ
(آیت نمبر 3)ہے اور یہ سب آیتیں سورۃ النساء کی ہیں۔اور پہلے واقع ہیں۔علیٰ ہذالقیاس سورۃ حج میں فرمایا!
وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ (آیت نمبر 30)
اس آیت میں جن حرام جانوروں کی آیتوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔وہ سب اسی سورت سے پہلے کی سورتوں میں واقع ہیں۔یعنی سورۃ بقرہ سورہ مائدہ سورہ انعام اور سورہ نحل اس کے بعد کسی سورت میں تاآخر قرآن نہیں ہیں۔اس حسن ترتیب کے لہاظ سے قرآن مجید کو''کلاموصول''بھی فرمایا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٥١﴾ (قصص 28 پ ۔51آیت)
دلائل از حدیث
دلیل اول۔
جو قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بلحاظ کلمات و ترتیب وہی ہے۔جو آپ ﷺ کو حفظ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو کرایا تھا۔اوراپنی زندگی میں لکھوایا تھا۔نیز بطور ورد وظیفہ کے اسی کی تلاوت کرتے تھے۔اس دعوے کی دلیلیں نمبر وار ملاحظہ ہوں۔
1۔مسند احمد۔وابو دائود۔وابن ماجہ کی روایت سے ثابت ہے۔کہ آنحضرت ﷺ وفد بنی ثقیف کے پاس شب کو جا کر ان کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ایک شب کو آپ معمول کے خلاف دیر کر کے تشریف لائے۔تو آپ سے دریافت کیا گیا۔وجہ تاخیر کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا!
انه طر ء علي جز ئي من القران فكرهت ان اجيئ حتي اتمه قال اوس سالت اصحابه كيف تحربون القران قالو ثلاث وخمس وسبع وتسع واحدي عشرة وثلاث عشرة وحذب المفصل وحده (ابو دائود باب تخریج القرآن )
یعنی کچھ منزل قرآن مجید کی پڑھنے سے رہ گئی تھی۔تو مجھے پسند نہ آیا کہ اسے ناتمام چھوڑ آکرآئوں۔اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی راوی حدیث) کہتے ہیں۔کہ میں نے آپﷺ کے اصحاب سے پوچھا کہ آپ لوگ قرآن کی منزلیں کیسے پڑھا کرتے ہیں۔تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری منزلیں یہ ہیں۔تین سورتیں فاتحہ سے مائدہ تک۔گویا چار سورتیں ہوتی ہیں۔لیکن اس میں سورۃ فاتحہ کا زکر استغناء نہیں کیا ہے۔اس لئے کہ وہ ام القرآن(مستقل قرآن) ہے۔اورمشہور ہے۔پانچ سورتیں(مائدہ سے یونس تک)سات سورتیں (یونس سےبنی اسرائیل تک)نو سورتیں(بنی اسرائیل سے شعراء تک)گیاروہ سورتیں۔(شعرا سے سے والصافات تک)تیرہ سورتیں (والصافات سے سورہ قاف تک)اورمفصل سورتیں (قاف سے آخر تک 65 سورتیں جو مفصل کہلاتی ہیں۔)سب کی سب ایک دفعہ انتہیٰ۔(دیکھوکتاب المعتصر)اس روایت سے قرآن پاک کی سات منزلیں ثابت ہویئں۔جو فمی بشوق کے نام سے مشہور ہیں۔اور موجودہ قرآن میں اُسی طرح ہیں ۔جس طرح صحابہ کرام اور عہد نبوی میں قرآن مجید کی منزلیں رکھتے اور پڑھتے تھے۔کیونکہ راوی حدیث اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حذیفہ خودصحابی ہیں۔اور ثقیف کے اس وفد کے ایک فرد ہیں۔جو طائف سے مدینہ رمضان 9 ء میں غزوہ تبوک کے بعد آیا تھا۔آپ ﷺ روزانہ شب کے وقت ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیاکرتےتھے۔چند دنوں کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے۔پھر عہد نبوی میں دوبارہ مدینہ نہ آسکے۔ لہذا اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زمانے میں اُن صحابیوں سے منازل قرآنیہ کو پوچھ لیا تھا۔جن کو صحبت پیغمبر ﷺ میں کئی سال گزر چکے تھے۔ نیز اُس بیان سے یہ بھی ظاہرہوگیا کہ آپ ﷺ خود بھی التزاماً قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔اور اسی کے آپ ﷺ مامور بھی تھے۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ (پارہ 21)
او ر چونکہ آپ پڑھے لکھے نہ تھے۔ اس لئے جب تک کسی خاص ترتیب سے حفظ نہ کریں تلاوت مشکل ہے۔اسی واسطے مولانا بحر لعلوم شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔
ظهر من هذا ان الترتيب الذي يقرء عليه القران ثابت عن النبي صلي الله عليه وسلم (مطبوعہ مصر ص10 ج 2)
یعنی جس ترتیب سے آج قرآن پڑھا جاتا ہے۔وہ وہی ہے جس ترتیب سے آپ ﷺ تلاوت کیا کرتے تھے۔
2۔قرآن مجید کا ایک خاص ترتیب میں ہونا صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ثابت ہوتاہے۔
يعر ض القران عل النبي كل عاممرةفعرض عليه مرتين في العام الذي قبض (پ20)
یعنی ہر سال آپ پرایک قرآن سنایا جاتا۔اور وفات کے سال دو بار سنایا گیا ظاہر ہے کہ دور میں جب تک کوئی خاص ترتیب ملحوظ نہ ہو کسی کتاب کے(جس کے اجزاء متعدد اورمضامین مختلف ہوں) کامل ختم کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے۔پس وہ ترتیب وہی ہے۔جو ابودائود کی روایت بالا میں بیان ہوئی او ر وہی اس وقت بھی موجودہ ترتیب ہے۔چنانچہ مسند احمد میں بطریق عبیدہ سلمانی مروی ہے۔
ان الذي جمع عليه عثمان الناس يوافق العرضة الاخيرة (فتح الباری پ20 ص 438)
یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک قراءت پر تمام لوگوں کواکھٹا کیا وہ قراءت اُس قرآن کے موافق ہے۔جو آپﷺ پرآخری بار پیش کیا گیا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے بھی فضائل قرآن میں اسی طرح لکھا ہے۔صفحہ 92 مطبوعہ مصر) وجہ اس کی یہ ہے کہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ثابت جنہوں نے عہد نبوی میں از خود قرآن کو جمع کیاتھا كما سيجي اور عہد صدیقی میں بفرمائش حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیفہ میں نقل کیا تھا۔پھر عہد عثمانی میں بھی انہیں زید نے اس صحیفہ کی متعدد نقلیں کی تھیں۔)وہ خود اس عرصہ اخیرہ کے وقت حاضر تھے۔جیساکہ قسطلانی نے شرح بخاری میں ہے۔
كان زيد شهد العرضة الاخيرة وكان يقري الناس بها حتي مات ولذالك اعتمده الصديق في جمعه و ولاه عثمان كتابة المصاحف (مطبوعہ مصر ص437 ج7)
یعنی زید بن ثابت پچھلے دور (ما بین جبریئل امین ونبی کریمﷺ) میں حاضر اور شریک تھے۔ او ر اپنی موت تک اسی کے مطابق لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتےتھے۔اسی لئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کو جمع قرآن کی خدمت سپرد کی تھی۔اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی انھیں سے قرآن کی کئی نقلیں کرائی تھیں۔لطف یہ ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض عرصہ اخیرہ کے وقت آپ ﷺ اور حضرت جبرئیل کے دور کو ہی سنا بلکہ اپنا لکھا اور جمع کردہ قرآن بھی اسی وقت آپﷺ کوسنایا او اسی کا مقابلہ بھی کرتے گئے تھے۔جیسا کہ کتاب المعارف لا بن قتيبة مین ہے۔
كان زيد اخر عرض النبي القران مصحفه وهواقرب المصاحف من مصحفنا وكتب زيد لعمر (مطبوعہ مصر ص88)
یعنی زید نے عرصہ اخیرہ میں اپنا لکھا ہوا قرآن آپﷺ پر پیش کیا۔اور سنایا وہ قرآ ن ہمارے لئے موجودہ قرآن جیسا تھا۔اورانہی زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (کہنے سے عہد صدیق میں خلیفہ کے)لئے قرآن لکھا تھا۔یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خاص ایک نسخہ لکھاتھا۔ (فتح الباری ص423 پ20)
3۔مسند احمد اور سنن نسائی میں عبد للہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
قال جمعت القران فقرات به كل ليلة فبلغ النبي فقال اقراه في شهر (مسند احمد ج2 ص 163) اسناده صحيح
(فتح الباری پ20 ص442)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عہد نبویﷺ میں سارا قرآن جمع کیا تھا۔او ر ہر رات کو سب پڑھ ڈالتا تھا۔یہ خبر جب آپ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے ایک ماہ تک ختم کرنے کا حکم دیا۔
قال اني اجد قوة قال اقرء في عشر ين قال اني اجدقوةقال اقرء في خمس عشر قال اني اجد قوة قال اقرء في عشر قال اني اجد قوة قال اقرء في سبع ولا تزيدن علي ذلك (ابو دائود۔ص196 ومسند احمد حوالہ مرقومہ)
عبد اللہ نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ قوت ہے فرمایا! تو بیس دن میں ختم کرو۔عبد اللہ نے کہا کے مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔فرمایا اچھا پندرہ دنوں میں کہا مجھے اس سے زیادہ استطاعت ہے۔ارشاد ہوا کہ خیر دس دن میں صحیح عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ سکت رکھتا ہوں۔حکم ہوا کہ بس سات شب میں ختم کرو۔اس سے زیادہ کم زمانہ میں ختم نہ کرنا۔ اس روایت سے بھی قرآن مجید کی ایک خاص ترتیب ثابت ہوئی۔ماہانہ ختم کے لہاظ سےقرآن پاک کی تقسیم تیس پاروں میں ہوتی ہے۔ اور ہفتہ وار ختم سے سات منزلیں(جن کا زکر اوپر آچکا ہے۔)وہ بھی خاص زبان وحی ترجمان سے اور حقیقت میں یہ سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔جس نے خود ہی فرمایا ہے۔
وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
دوسری دلیل
زرا ان حدیثوں پر نگاہ ڈالو جن میں صحابہ کو جو قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کی ہدایتیں فرمائی گئیں ہیں۔او ر اُن پر ثواب کے وعدے کئے گئے ہیں۔جو کتب حدیث میں باکثرت روایت کی گئی ہیں۔اُن میں سے چند ہم نقل کرتے ہیں۔
1.عن ابي سعيد قال قال النبي اعطو ا اعينكم حظها من العبادة النظرني المصحف والتفكر رواه البيهقي في شعب الايمان
(جامع الصغیر للسیوطی مطبوع مصر ج1 ص35)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا!آنکھوں کی عبادت کا حصہ آنکھوں کودو۔او ر وہ قرآن کو دیکھ کر پڑھنا۔اور اُس میں غوروفکر کرنا ہے۔
2۔عن ابن مسعود قال قال النبي من سره ان يحب الله و رسوله فليقرء في المصحف (جامع الصغیر ج2 ص 157 و منتخب کنز العمال ص 386 ج1)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا! جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت رکھنا چاہتا ہے۔وہ قرآن دیکھ کر پڑھا کرے۔
3۔عن اوس الثقفي قال قال النبي قراءة الرجل القرانفي غير المصحف الف درجة وقراءته في المصحف تضعف علي ذالك الي الفي درجة رواه البيهفي في شعب الايمان (مشکواۃ ص180 جامع صغیر ص72 ج2۔منتخب کنزالعمال ص357و ص 262 ج1)
حضرت اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو وفد ثقیف میں آئے تھے۔جنہوں نے صحابہ سے قرآن کی سات منزلیں دریافت کی تھیں۔جن کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ انہوں نے اپنی اُسی آمد میں بھی آپ ﷺ سے سنا۔آپﷺ فرماتے تھے۔کہ بغیر قرآن کے (یعنی زبانی) اس کی تلاوت کا ثواب ایک ہزار نیکی ہے۔ اورقرآن کھول کر دیکھ کر پڑھنے کا ثواب دو ہزار ہوتا ہے۔
4۔عن عمرو بن اوس قال قال النبي قراءتك نظرا تضا عف علي قراتك ظا هرا كفضل المكتوبة علي النافلة
(جامع صغیر جلد دوم ص72 و ص63 و فضائل قرآن لابن کثیر ص141)
اوس کے بیٹے عمرو کہتے ہیں۔کہ آپﷺ نے فرمایا!جس طرح فرض نماز کو نفل نماز پر فضیلت ہے۔اسی طرح قرآن دیکھ کر پڑھنے کو فضیلت ہے زبانی پڑھنے پر۔
5.عن عبادة بن الصامت قال قال النبي افضل عبادة امتي قراءةالقران نظرا (جامع صغیر ص42 ج1 ومنتخب کنز ص357 ج1)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی افضل عباد ت قرآن دیکھ کر پڑھنا ہے۔
6۔عن ابن عباس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم من ادام النظر في المصحف متع ببصره ما دام في الدنيا
(منتخب کنز العمال برحاشیہ احمد جلد اول ص362)
آپﷺ نے فرمایا ! کہ جو شخص قرآن مجید کو ہمیشہ دیکھ کر پڑھا کرے گا۔جب تک وہ دنیا میں زندہ رہے گا اس کی بینائی باقی رہے گی یعنی خراب نہ ہوگی۔
7۔عن عبد الله ابن زبير قال قال النبي صلي الله عليه وسلم من قراء القران ناظرا حتي يختمه غرس الله له شجرة في الجنة (کتاب مذکور ص363 ج1)
آپ ﷺ نے فرمایا! کہ جو مسلمان قرآن مجید کو شروع سے ختم تک برابر دیکھ کر پڑھے گا اُس کے لئے اللہ تعالیٰ بہشت میں درخت لگائے گا۔سبحان اللہ
اسی لئے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لوگوں سے فرمایا کرتے تھے۔
قال ابن عمر اذا رجع احدكم فليات المصحف فليفتحه واليقرءفيه (کتاب مذکور ص370 ج1۔وفضائل قرآن ابن کثیر ص141)
یعنی جب تم گھر میں داخل ہو تو سب سے پہلے قرآن کھول کر پڑھ لیا کرو۔پھر دوسرے کاموں میں مشغول ہو۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا عمل بھی اسی پرتھا۔جیسا کہ خثیمہ کہتے ہیں۔
دخلت علي ابن عمر وهو يقراء المصحف (فضائل قرآن صفحہ 141)
یعنی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مکان پر گیا تو وہ قران کھولے تلاوت کر رہے تھے۔ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال تھا ۔كما سيجي
8.عن ابي هريرة قال قال النبي صلي الله عليه وسلم الغرباء في الدنيا اربعة مصحف في بيت لا يقرء فيه (منتخب کنز العمال ج1 ص 394)
آپ ﷺ نے فرمایا !دنیا میں وہ قرآن کسمپرسی کی حالت میں ہے۔جو کسی گھر میں وہ اور سے پڑھا نہ جائے۔
9۔وعنه قال قال النبي صلي الله عليه وسلم ان مما يلحق المومن من عمله وحسنا ته بعد مو ته علما نشره ومصحفا ورثه الخ
(رواہ ابن ماجہ ۔مشکواۃ ص28 جامع صغیر ص83 ج1)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا! کہ مومن کو اس کے مرنے کے بعد اس کے اعمال اور نیکیوں سے جن کا ثواب اُسے ملتاہے۔علم ہے کہ اس کو پھیلایا اور نسخہ قرآن ہے کہ اپنے وارث کے لئے چھوڑ گیا۔
مقام غور ہے کہ آپﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین کو اپنی ذندگی میں قرآن مجید کو گھر میں رکھنے اس کو دیکھ کر پڑھنے اور وارثوں کےلئے اس کو پیچھے چھوڑ جانے کی موکد ترغیبیں دلا رہے ہیں۔پس اگر ہر صحابی کے پاس نہیں تو کم از کم اُن کے ہر گھر میں تو ایک ایک نسخہ پورے قرآن مجید کا لکھا ہوا موجود ہوگا۔ہاں ہاں یقیناً موجود تھا۔جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمین خود کہتے ہیں۔
بين اظهر نا المصاحف وقد تعلمنا ما فيها وعلمنا هاابناءنا وذرارينا وخدمنا
(مسند احمد ج5 ص266)
یعنی ہم صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمین کے درمیان لکھے ہوئے قرآن موجود تھے۔جس سے ہم نے سیکھا اپنے بچوں اور خادموں کو سکھایا چنانچہ اُن کے بچے بھی قرآن میں دیکھ کر پڑھتے تھے۔جیسا کہ اُسی مسند احمد میں ہے۔
ان رجلا جاء بابن له فقال يا رسول الله ان ابني يقرء المصحف بالنهار (فضائل قرآن ابن کثیر مطبوعہ مصر صفحہ 199)
یعنی ایک صحابی اپنے بچوں کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے۔اور کہا کہ میرایہ بچہ دن میں قرآن مجید ناظرہ پڑھا کرتاہے۔تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی ذاکر خدا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین نے کثرت سے قرآن مجید کو لکھا اور لکھوایا اور ناظرہ خوانی شروع کی کہ آپ ﷺ کو خطرہ ہوا۔کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ اسی لکھے ہوئے قرآن پر بھروسہ کر بیٹھیں۔اور اسے حفظ کرنا ترک کردیں۔تو آپ ﷺ نے اُن کے گھروں میں بکثرت لکھے ہوئے قرآنوں کو دیکھ کر یہ بھی فرمایا(جو آگے آتا ہے۔)
10۔عن ابي امامة قال قال النبي لا تغرنكم هذه المصاحف المعلقة ان الله لا يعذب وقلبا وعي القران
(منتخب کنز العمال ص362 ج1)
آپ ﷺ نے فرمایا ! کہ تم یہ لکھے ہوئے قرآن کے نسخے جوتمہارے گھروں میں لٹکے ہوئے ہیں۔حفظ کرنے سے غفلت میں نہ ڈال دیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو عذاب نہیں کرے گا۔جسکے دل میں قرآن حفظ ہو۔
اللہ اکبر! معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ نے قرآن کے بے شمار نسخے لکھ ڈلے تھے۔
تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ
تیسری دلیل
جب قرآن مجید کتابی شکل میں بکثرت ہوگیا تو ضرور تھا کہ شارع ؑ کی طرف سے اُس کے آداب بھی بتا ئے جاتے۔چنانچہ ارشاد ہوا۔
عن حكيم بن حزام ان النبي قال تمس القران الا طاهرا
(دار قطنی ص45)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا!کہ قرآن پاک کو طہار ت کی حالت میں چھونا ۔ظاہر ہے کہ یہ حکم کتابی شکل کے لئے ہے۔کیونکہ جو چیز ہاتھوں سے چھوئی جاسکے۔اُسے خارج میں موجود ہونا چاہیے۔لطف یہ کہ یہ حکم نہ محض مدینہ طیبہ کے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو دیا گیا بلکہ دیگر ملکوں میں جہاں جہاں مسلمان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین موجود تھے۔یہی حکم تحریری صورت میں بھیجا گیا۔چنانچہ یمن والوں کو عمر و بن حزم صحابی کی معرفت جو بہت سےاحکام حدیثی آنحضرت ﷺ نے لکھوا کر روانہ فرمائے تھے۔جس کا مفصل بیان اس کتاب کے دوسرے باب میں جمع و کتابت احادیث کی بحث میں آئےگا۔اس میں ایک حکم یہ بھی تھا۔
ان لا يمس القران الا طاهرا
(مشکواۃ ص42۔وبلوغ المرام مطبوع مصر ص38)
یعنی قرآن کو بجز پاک شخص کے اور کوئی نہ چھوئے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں یمن والوں کے پاس بھی لکھا ہوا۔قرآن بکثرت موجود تھا۔پھر پایہ تخت نبوت ودارلحکومت اسلام یعنی مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کے پاس قرآن مجید کے مکتوبی نسخے کتنی کثیر تعداد میں ہوں گے۔
خدا بس خوب می داند شمار نسخہ ء قرآن
چوتھی دلیل
دوسرا ادب قرآن پاک کا کی بابت یہ بتایا گیا۔
عن ابن عمران النبي صلي الله عليه وسلم نهي ان يسافر بالقران الي ارض العدو (کتاب الجہاد صحیح بخاری)
وفي رواية الاحمد نهي ان يسافر بالمصحف الخ
(فتح الباری انصاری پارہ 12 ص109)
یعنی آپ ﷺ نے فرمایا!کہ دشمن کے ملک میں قرآن مجید کو ساتھ لے کر کوئی مسلمان نہ جائے۔صحیح مسلم میں اتنا زیادہ ہے۔
مخافة ان ينا له العدو (ج2 صفحہ 131)
یعنی اس خوف سے کہ( بصورت شکست)دشمن اسے چھین لیں گے۔اوراس کی توہین کریں گے۔دشمنوں کے ہاتھ میں جانے والا قرآن لکھا ہوا ہی ہو سکتا ہے۔ورنہ قرآن کے ساتھ سفر کی ممانعت کے کیا معنی جو قرآن سینوں میں محفوظ ہے۔اس کو اعداء چھین نہیں سکتے اسی لئے۔امام بخاری ؒ نے حدیث مذکور کے بعد لکھا ہے۔
وقد سافر النبي صلي الله عليه وسلم واصحابه وهم يعلمون القران (پ 12)
کہ آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کےصحابہ کرام نے اس حال میں سفر کیا ہے کہ وہ قرآن جانتے تھے۔یعنی اُن سینوں میں حفظ تھا۔
گذشتہ دلائل نمبر 2۔3۔4 سے آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوگیا کہ قرآن مجید کے متعدد نسخے صحابہ کرام کے پاس عہد نبوی میں کتابی صورت میں جمع شدہ موجود تھے۔وہ لوگ ان نسخوں میں تلاوت کرتے اور ختم کرتے تھے۔جیسا کہ مجمع البیان میں ہے۔
ان القران كان عليعهد النبي مجمو عا مو لفا علي ما هو عليه الان وان جماعة من الصحابة ختمو االقران عليه مرة ختمات يدل علي انه كان مجموعا مرتبا 1
یعنی قرآن مجید آج جس ترتیب سے موجود ہے۔اس ترتیب میں عہد نبوی سے جمع ہو چکا تھا۔ اور اسی ترتیب سے صحابہ نے آپ پر بہت سے ختم قرآن کے سنائے تھے۔امام مالک فرماتے ہیں۔
1۔تفسیر مجمع البیان للطبری طبع ایران جلد اول ص5
انما الف القران علي ما كانوا يسمعونه من النبي صلي الله عليه وسلم
(کتاب فضائل قرآن ابن کثیر مطبوعہ مصر ص86)
یعنی قرآن کی ترتیب وہی ہے۔جو صحابہ نے آپ ﷺ سے سنی ہے۔حافظ نووی تبیان میں لکھتے ہیں۔
ان القران كان مولفا في زمن النبي علي ما هو في المصاحف اليوم
(کتاب التبیان فی آداب القرآن)
یعنی قرآن آج جس ترتیب سے مصحفوں میں موجود ہے ۔
یہ عہد نبوی کا یہ ترتیب دیا ہوا ہے۔اور تو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
ان القران كان مجموعا مولفا علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم
(رسالہ تواتر قرآن)
یعنی یہ قرآن عہد نبوی کا ہی جمع کیا ہوا اورترتیب دیا ہوا ہے پس یہ کہنا بالکل درست ہوگاکہ
نہ تنہا من درین میخانہ مستم جنید و شبلی و عطار شد مست
پانچویں دلیل
ترغیب نبوی سے جب کہ صحابہ کرام کے پاس قرآن مجید کی جلدیں بکثرت موجود ت تھیں۔تو کیاآپ ﷺ کے پاس قرآن کی کوئی مکمل جلد موجود نہ ہوگی۔ضرورموجودتھی۔چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس امر کا ایک خاص باب ہی منعقد کیا ہے۔ملاحظہ ہو۔
باب لم يترك النبي الا ما بين الدفتين
پھر بالاسناد روایت لائے ہیں۔
قال ابن عباس ومحمد بن الحنفية ما ترك النبي صلي الله عليه وسلم الا ما بين الدفتين (بخاری پ21)
یعنی آپ ﷺ نے پورا قرآن مجید دو چوبی و فتویوں کے درمیان میں چھوڑا تھا۔حافظ ابن حجر فتح الباری میںایک مقام پر لکھتے ہیں۔
كانو يكتبون المصحف في الرق و يجعلون له دفتين من خشب
(ص508۔پ24)
یعنی قرآن مجید چرمی اوراق میں مکتوب تھا۔دو چوبی و فتیاں اس کے دونوں طرف تھیں۔چنانچہ صحیح مسلم میں ہے۔۔
قالت اميعقوب لقد قرات ما بين لوحي المصحف (ج2ص205)
یعنی میں نے قرآ ن مجید پڑھا تھا۔جو دو تختیوں کے درمیان میں تھا۔صحیح بخاری کی روایت مذکورہ اس امر میں نص صریح ہے۔کہ آپ ﷺ نے قرآن مجید کو مکمل و مرتب و مجلد چھوڑا تھا۔اسی کو بوقت انتقال فرمایاتھا۔
تركت فيكم شيئين لن تضلو ا بعد هما كتاب الله وسنتي رواه الحاكم عن ابي هريره (جامع صغیر للسیوطی ص7 مطبوع مصر)
یعنی میں تم سے دوچیزیں چھوڑ چلا ہوں۔ان کے رہتے تم گمراہ نہ ہوگے۔قرآن مجید اور دوسری حدیث
آثار صحابہ
صحیح بخاری میں ہے۔
عن انس جمع لقران علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم اربعة كلهم من الانصار ابي و معاذ و ذيد بن ثابت و ابو ذيد قلت من ابو ذيد قال احد عمومتي قال انس ونحن ورثناه (پارہ20 باب القراءت)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عہد نبوی میں چار انصاریوں نے قرآن جمع کیا تھا۔ حضرت ابی ومعاز زید بن ثابت رضی اللہ عنہ انس سے پوچھا گیا۔ کہ ابو زید کون ہیں جواب دیا کہ میرے چچا تھے۔پھر انس نے کہا کہ ابو زید کا جمع کیاہوا قرآن مجھے ورثہ میں ملا تھا۔
انس کا مقول مذکورہ درحقیقت ایک سوال اک جواب ہے۔جیسا کہ بخاری کی دوسری حدیث میں مذکورہ ہے۔
قال قتادة سالت انسا من جمع القران علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم قال اربعة (پ20 باب القراء)
اس روایت میں القرآن کا الف لام عہدی حضور ہے جوہذا کے معنی میں ہے۔قتادہ تابعی نے انس صحابی سے دریافت کیا کہ یہ قرآن (جو ہمارےزمانہ میں اس ترتیب سے جمع شدہ موجود ہے۔اس کو)عہدرسالت میں کن لوگوں نے جمع کیا تھا۔حضرت انس نے قتادہ کو اسی قرآن زیر سوال کی بابت جواب دیا کہ انصار میں سے چارشخصوں نے ابی و معاویہ و زید و ابو زید رضوان اللہ عنہم اجمین
حضرت زید کا اپنے لکھے ہوئے قرآن کوآپﷺ پرعرضۃ اخیرہ میں پیش کرنے کاذکر کتاب المعارف سے ہم نے صفحہ 15 پر کر دیا ہے۔
حضرت ابو سعید بن عبید بن نعمان انصاری کے حال میں اسد الغابہ میں ہے۔
هو اول من جمع القران من الانصار
یعنی انصار میں یہ اول جامع قرآن میں۔
حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے قرآن کو سادے طور سے لکھا تھا۔اورجب عہد عثمانی میں لوگوں نے مطلیٰ و محلیٰ (چاندی او سونے سے مزین)کیا جیسا کہ منتخب کنز العمال میں ہے۔
جمعو القران علي عهد عثمان و انهم فضضوا المصاحف
(ص 400 ج1۔برحاشیہ احمد)
تو حضرت ابی سخت ناراض ہوئے۔اورفرمایا۔
قال ابي ابن كعب اذا حليتم مصاحفكم فعليكم الدعار
(کتاب مذکور ص401 ج1)
یعنی تم لوگوں نے اپنے قرآنوں کو مطلیٰ ومحلیٰ کیا ہے۔اب تمہای ہلاکت کا وقت آگیا ہے۔نیز حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا!
جيئ ابن مسعود بمصحف قد زين بالذهب فقال انه احسن ما زين به لمصحف تلاوته (کتاب مذکورص403 ج1)
جب ابن مسعود کے سامنے ایسا قرآن پیش کیا گیا۔جوسونے سے مذین تھا۔ تو فرمایا کہ قرآن مجید کی عمدہ زینت اس کی تلاوت کرنی ہے۔
یہ عبد اللہ بن مسعود بھی قرآن مجید کے لکھنے اور جمع کرنے والوں میں سے ہیں۔صحیح بخاری باب تالیف القرآن میں تالیف ابن مسعود کازکر موجود ہے۔نیز آگے ازالۃ الخفا کے حوالہ سےمنقول ہوگا۔ان شاء اللہ۔ابن مسعود۔کے شاگردوں کے پاس بھی لکھا ہواقرآن موجود تھا۔صحیح مسلم میں ہے۔
عن ابي الاحوص قال كنا في دارابي موسي مع نضر من اصحاب ابن مسعود وهم ينظرون في مصحف (ج1 ص 293)
ابو الاحوص کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابو موسیٰ اشعری کے گھر میں ابن مسعود کے شاگردوں کے پاس تھے۔اوروہ لوگ لکھے ہوئے قرآن میں دیکھ رہےتھے۔حافظ ابن کثیر فضائل قرآن میں لکھتے ہیں۔
عن ابن مسعود انه كان اذا اجتمع اليه اخوانه لشروا المصحف وقال ابن مسعود اويموا النظر في المصحف (ص 141 مطبوعہ مصر)
یعنی ابن مسعود کے پا س جب لوگ جمع ہوئے تو قرآن کھول کر بیٹھ جاتے حضرت ابن مسعود اُن کو تاکیداً فرماتے کہ ہمیشہ قرآن میں دیکھ کر پڑھاکرو۔غالباً ابن مسعود کو وہ مرفوع حدیث پہنچ گئی تھی جوفصل دوم کی دوسری دلیل کے نمبر 3 میں بیان ہوئی ہے اورحدیث نمبر2 کے توراوی وہی ہیں۔ابن مسعود سے یہ بھی منقول ہے۔کہ وہ فرمایا کرتے ۔
يكتب لمصاحف مصري (منتخب کنز ص402 ج1)
یعنی قرآن مجید کے لکھنے والے قبیلہ مضر سے سے ہوں یعنی قریشی ہوں۔غرض عہد نبوی میں قرآن مجید کو کتابوں کی شکل میں لکھنے والوں میں پانچ شخصوں کا بیان ہوچکا ہے۔1۔ابی۔2۔زید۔3ابوزید۔۔4۔ابن مسعود5۔معاز۔اور چھٹے عبد اللہ بن عمر عاص رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ان کا عہد نبوی میں قرآن لکھنا اور جمع کرنا مسند احمد و سنن نسائی کی روایتوں کے حوالہ سےفصل دوم کی پہلی دلیل لے تیسرے پیراگراف میں بیان ہوچکا ہے۔
ساتوں حضرت عثان ہیں۔آٹھویں حضرت علی ہیں۔اورنویں حضرت سالم رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ان لوگوں نے بھی عہد نبوی میں مثل دیگر صحابہ کرام کے قرآن مجید لکھا اورجمع کیا تھا۔جیسا کہ ازالۃ الخلفاء میں ہے۔
اخرج عمر وعن محمدبن كعب القرظي قال كان ممن جمع القران علي عهد النبي وهو حي عثمان بن عفان وعلي بن ابي طالب وعبد الله بن مسعود من المهجرين وسالممولي ابي حذيفة (ج2 ص272)
یعنی عہد نبوی میں مہاجرین صحابہ میں سے قرآن جمع کرنے والے حضرت عثمان ۔حضرت علی۔ابن مسعود۔اور سالم رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن جمع کرنا ابھی اوپر صحیح بخاری کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد نبوی میں قرآن کا جمع کرنا طبقات ابن سعد میں بھی مذکور ہے۔نیز مفتاح الدعادۃ میں ہے۔
عثمان بن عفان احد من جمع القران علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم (ج1 ص350)
یعنی عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عہد نبوی میں قرآن جمع کیا تھا۔اسی طرح صواعق محرقہ مصری ص69 اور تاریخ خلفاء مصری ص63 میں بھی مرقوم ہے بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پڑھنے کے لئے قرآن کو خود اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔چنانچہ باغیوں نے آپ کی شہادت کے وقت جب آپ کے ہاتھ پر تلوار ماری ہے تو آپ نے اپنا وہ ہاتھ اٹھا کرفرمایا۔
والله انها لاول يد خطت المصحف
(فضائل قرآن ابن کثیر ص 49۔50)
یعنی یہ وہ ہاتھ ہے۔جس نے پہلے قرآن کو لکھا تھا۔حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اُس وقت حضرت عثمان اپنے سامنے جس قرآن کو رکھ کر تلاوت فرمارہے تھے۔وہ الذي كتبه بيده وہ تھا۔جو انہیں کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔اس قرآن کی زیارت ابن کثیر نے(جو آٹھویں صدی ہجری میں گزرے ہیں۔)اپنی زندگی میں شہر دمشق کی جامع مسجد میں کی تھی۔
(فضائل قرآن مصری ص49)
حضرت علی کا قرآن جمع کرنا علاوہ ازالۃ الخلفاء کے فتح الباری میں بھی منقول ہے۔صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
قال ما كتبنا عن النبي صلي الله عليه وسلم الا القران
(بخاری احمدی ج1 ص451)
یعنی قرآن کوہم نے آپﷺ سے سن ک لکھا ہے۔صواعق محرقہ میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بابت مرقوم ہے۔
احد من جمع القران وعرض علي النبي صلي الله عليه وسلم
(مصری ص 74)
یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن جمع کر کے آپ ﷺ پر پیش کیا۔اسی طرح سیوطی نے بھی تاریخ الخلفاء میں لکھاہے۔دیکھو(ص64) مطبوع مصر۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی منقول ہے۔کہ ہ ہ چھوٹی تختی میں قرآن کا لکھنا نا پسند فرماتے تھے۔چنانچہ منتخب کنز العمال میں ہے۔
عن علي انه كان يكره ان يكتب المصحف في الشي الصغير
(ج1 ص400)
یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ برا جانتے تھے۔اس امر کو کہ قرآن کسی چھوٹی سی چیز پر لکھا جائے اور یہ غالباً اس لئے کہ قرآن مجید ایک چھوٹی سی کتاب معلوم ہوگی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کنز العمال میں منقول ہے۔
قرآن مجید کو بعہد نبوی کتابی شکل میں جمع کرنے والوں میں سےنو صحابیوں کازکر ہوچکا ہے۔دسویں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور گیارہویں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارھویں حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کرنا اس فصل کے شروع میں مذکور ہوچکا ہے۔حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تہذہب التہذیب میں مرقوم ہے۔
هو احد من جمع القران في زمن النبي صلي الله عليه وسلم
(ج5 ص 112)
یعنی عہد نبوی میں قرآن جمع کرنے والوں میں سے ایک عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔حضرت ابو د رداء کی بابت مفتاح السعادۃ میں ہے۔
احد الذين جمعوا القران علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم بلا خلاف
(ج1 ص254)
یعنی عہدنبوی میں قرآن جمع کرنے والوں میں سے بالاتفاق ایک ابو درداء بھی ہیں۔انہیں ابو درداء سے ایک شخص نے کہا کہ میرے بیٹے نے بھی ایک قرآن لکھ کر جمع کیاہے۔تو آپ ﷺ نے اسے دعا مغفرت دی۔
(کتاب الزبد الامام احمد)
تیرہویں صحابی حضرت ناجیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ طفاوی ہیں۔طبرانی میں ہے۔
كان ناجية يكتب المصاحف (اصابہ و استعاب )
یعنی حضرت ناجیہ قرآن مجید لکھا کرتے تھے۔
چودہویں صحابی مشہور شاعر عرب حضرت لبید بن ربیعہ عامری ہیں۔جن کا قصیدہ مشہور کتاب سبعہ معلقہ (باعشرہ معلقہ ) میں موجود ہے ان کا حال سنئے۔
انه لما اسلم كان يكتب القران وترك الشعر (جمرۃ العرب ص30)
عہد نبوی میں لبید نے جب سے اسلام قبول کیا تھا وہ قرآن ہی لکھا کرتے تھے۔
پندرہویں صحابی حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔تہذیب التہذیب میں ہے۔
هوا حد من جمع القران وكتب بيده ومصحف بمصر الي الان بخطه
(ج2 ص 243)
یعنی عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عہد نبوی میں قرآن مجید کوجمع کیا اوراپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔اور ان کا لکھا ہوا قرآن مجید مصر میں اب تک (حافظ ابن حجر کے زمانے تک) موجود ہے۔حافظ ذہبی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔بلکہ فاضل ابن یونس نے اس قرآن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں ہے۔
قال ابن يوسف مصحفه بخطه وهو الان موجود (ج1 ص26)
یعنی ابن یونس نے کہا کہ عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لکھا ہواقرآن اب تک موجود ہے۔
سولہویں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المومنین ہیں۔کنز العمال میں ہے۔
عن نافع ان حفصة دفعت مصحفا الي مولي لها يكتب (ج1 ص236)
نافع کہتے ہیں۔کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے غلام کو قرآن (جو ان کے پاس عہد صدیقی کا تھا۔)نقل کرنے کو دیا۔
اٹھارویں حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔صحیح مسلم میں ہے۔
عن ابي يونس مولي عائشة انه قال امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا
(ج1 ص 227)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام ابو یونس کہتے ہیں۔کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا۔کہ اُن کے لئے ایک قرآن مجید لکھوں اسی قرآن کوسامنے رکھ کر اُن کادوسرا غلام ذکوان نماز کی امامت کرتا تھا۔اور نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھتا تھا۔جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔
كانت عائشة يوءمها عبد ها ذكوان من المصحف (بخاری و احمد ج1 96)
یعنی حضرت عائشہ کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امام بن کر نماز پڑھاتا۔
وعن هشام بن عروة قال قرات في مصحف عائشة
(کنز العمال ج1 ص 237)
ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ عروہ کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قرآن مجید میں تلاوت کی ہے۔اس قرآن کودیکھنے کے لئے ایک شخص ملک عراق سے سفر کر کے مدینہ آیا تھا۔تاکہ اس کی نقل کرے۔جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔
قال عراقي لعائشة يا ام المومنين اريني مصحفك (ج2 ص747)
عراقی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اے اماں جان مجھے اپنا قرآن مجید دیجئے۔میں اس کی نقل کروں گا۔عراقی پر ہی کیا موقوف ہے ملک شام سے بھی لوگ بغرض نقل قرآن مدینہ آیا کرتے تھے۔
انطلق ركب من اهل الشام الي المدينة يكتبون مصحفا لهم
(منتخب کنز العمال ج1 ص401)
یعنی ملک شام سے ایک پورا قافلہ مدینہ آیا تھا۔ تاکہ اپنے لئے قرآن لکھیں غرض اٹھارہ ہو گئے۔
انیسویں خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔جنہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن مجید لکھوایا ۔فتح الباری میں ہے۔
قال ذيد بن ثابت امرني فكتبت (پ20 ص423)
صحیح بخاری میں ہے۔
فكانت المصحف عند ابي بكر حتي توفاه الله ثم عند عمر حيواته ثم عند حفصة بنت عمر (مشکواۃ ص185)
یعنی زید کہتے ہیں کہ مجھے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن لکھنے کا حکم دیا۔پس میں نے دیکھا یہ نسخہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے مرنے تک رہا۔پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آخر تک رہا۔پھر اُن کی بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا۔اس نسخے کوحضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منگوا کر اُس کی متعدد نقلیں کرائی تھیں جیسا کہ خاتمہ میں بیان ہوگا ۔ان شاء اللہ
بیسویں خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنہوں نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنے لئے ایک علیحدہ نسخہ لکھوایا تھا جیسا کہ فتح الباری میں ہے۔
فلما هلك وكان عمر كتبت ذلك (حوالہ مذکورہ)
یعنی جب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو پھر میں نے اُن کے لئے قرآن لکھا معارف ابن قتیبہ میں ہے۔یعنی زید نے خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بھی لکھا تھا۔اسی کو کنز العمال میں یوں لکھا ہے۔
لما جمع عمر بن الخطاب المصحف (ج1 ص281)
اسی نسخہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے مکان میں داخل ہوتے قرآن مجید کھول کر پڑھنے لگتے نیز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔چنانچہ منتخب کنز العما ل میں ہے۔
ان عمر وجد مع مصحفا قد كتبه كان اذا اراي مصحفا سرة
(ج1 ص398)
یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لکھا ہوا قرآن مجید دیکھا اور آپ جب ایسا قرآن دیکھتے تو خوش ہوجاتے خلیفہ وقت کی خوشی اور قرآن دیکھ کر پڑھنے کی ترغیب والی حدیثوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کے نسخے بکثرت لکھے جانے لگے اور عام طور سے بازاروں میں فروخت ہونےلگے تھے۔چنانچہ بعض عاشقین قرآن کو یہ بات بُری معلوم ہونے لگی تھی۔جیسا کہ طبقات ابن سعد میں ہے۔حنظلہ کہتے ہیں۔کہ میں طائوس کے ساتھ بازار گیا تو دیکھا کہ لوگ قرآنوں کی بیع و شراء کر رہے ہیں۔اس پر طاوس نے انا للہ پڑھی آخر طاوس کے استاد ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےپوچھا گیا۔
سئل ابن عباس عن بيع المصاحف قال لاباس
(منتخب کنز ج1 ص402)
یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔کہ بیع قرآن کی بابت آپ کا فتویٰ کیا ہے۔تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکتاب قرآن کی اجرت کی بابت پوچھا گیا۔
انه سئل عن اجرة كتابة امصحف فقال لا باس (مشکواۃ ص234)
فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے تو پھر قرآن مجید کے نسخو ں کی اتنی کثرت مختلف ممالک میں ہوگئی۔کہ ان کاصحیح شمار غیر ممکن ہوگیا۔علامہ ابن حزم کتاب الفصل میں لکھتے ہیں۔
مات عمر ومائة الفمصحف من مضر الي العراقوالشامواليمن فما بين ذلك (ملل ونحل ص80 ج2)
یعنی مصر سے لے کر عراق وشام و یمن تک اور ان ممالک کے درمیان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت قرآن کے ایک لاکھ نسخے موجود تھے۔
الغرض عہد نبوی میں قرآن مجید کے لکھنے اورجمع کرنے والوں کی صحیح تعداد تو اللہ ہی جانتا ہے۔علامہ عینی نے شرح بخاری میں کیا خوب لکھا ہے۔عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ قرآن جمع کرنے والے لوگوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا بیس نام تو ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔باقی لوگوں کے نام اللہ ہی جانتا ہے۔
روایت مرقومہ بالا میں الفاظ جمع القران يا جمع القران کے جو آئے ہیں۔ا ن پر شبہ وارد کیا گیا ہے۔کہ اس سے مراد جمع صدر یعنی حفظ ہے۔نہ جمع کتابی اس کا دفعیہ یوں ہے کہ قرآن کے حافظ تو تقریباً سب صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین تھے۔دیکھو ستر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین جو بیئر معونہ میں شہید ہوئے تھے۔وہ سب حافظ قرآن تھے اسی طرح جنگ یمامہ میں جوستر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین شہید ہوئے وہ بھی سب حافظ تھے۔ا ن کے علاوہ جو صحابی عہد نبوی میں زندہ موجود تھے۔ان میں سے تیس صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے نام شروع بخاری (فتح الباری و عمدۃ القاری) میں موجود ہیں۔اور جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے زبان وحی ترجمان سے یہ بشارت سنی ہوئی تھی۔کہ
ان الله لا يعذب قلبا وعلي القران (منتخب کنز ج1 ص 362)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس دل میں قرآن محفوظ ہوگا۔اس کو عذاب نہیں ہوگا۔اور آپﷺ نے فرمایا تھا۔
لو جعل القران في اهاب ثم القي في النار ما احترق (مشکواۃ ص178)
یعنی جس مسلمان کی کھال میں قرآن ہوگا۔اس کوجہنم کی آگ نہیں جلائے گی۔تو بھلا یہ شبہ کس طرح ہوسکتا ہے۔کہ کوئی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حافظ قرآن نہ ہوگا۔حالانکہ عرب کا حافظ مشہور عالم ہے۔لہذا روایات مرقومہ بالا میں جمع سے مراد کتابی ہے بلکہ بعض روایات میں تو کتابت کی تصریح موجود ہے ۔فتح الباری انصاری پارہ 20 ص 442 یعنی روایات بالا میں جمع سے مراد لکھنا ہے اس سے دیگر اصحاب کے زبانی یاد کرنے کی نفی نہیں ہوتی لیکن یہ لوگ زبانی بھی یاد رکھتے تھے۔اور لکھ کر بھی جمع کیا۔
1۔جمع عثمانی کی حقیقت
اوپر یہ لکھا جا چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت ایک لاکھ نسخہ قرآن مجید کے اطراف وجوانب مدینہ میں شائع ہوچکے تھے۔تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جامع قرآن کیونکر کہا جا سکتا ہے۔اگر اس وجہ سے کہ انہوں نے عہد نبوی میں اپنے لئے قرآں مجید کا نسخہ لکھا اور جمع کیا تھا جیسا کہ مفتاح السعادۃ اور ازالۃ الخلفائ کے حوالہ سے وپرنقل ہوچکا ہے تو اس امر میں ان کی مزیت کیا ہے۔ بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اسی طور سے لکھا اور جمع کیا تھا کہ طرز تحریر یعنی رسم خط سب کے جدا تھے۔اس وجہ سے قراءتیں مختلف ہوجاتی تھیں۔اس اختلاف کودور کرنے کے لئےحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ا پنی خلافت میں ایک رسم خط اور ایک قراءۃ پرسب کو جمع کردیا۔جیساکہ حافظ ابن کثیر نے کتاب فضائل قرآن میں لکھا ہے۔
هو جمع الناس علي قراءة واحدة لئلا يختلفون في القران
(مطبوع مصر صفحہ32و70)
یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ایک قراءۃ پرجمع کر دیاتھا۔تاکہ لوگ قرآن پڑھنے میں اختلاف نہ کریں اس لے وہ جامع الناس الی ہذا القرآن تو بے شک ہیں جامع قرآن نہیں ہیں۔جیسا کہ حارث محاسبی نے کہا۔کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کے جمع کرنے والے ہیں۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جو صحیح بخاری میں ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند کا تبوں کو بلوا کر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا کہ حضرت ابو بکر والاقرآن بھیج دو اکہ اس کی متعدد نقلیں کرائی جایئں۔چنانچہ حضرت زیداوردیگر کاتبوں نے کئی نسخے لکھے جب نقلیں ہوچکیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اطراف و جوانب میں بھجوا دیا۔
اس روایت سے آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن صدیقی کی نقل کاحکم دیا تھا۔نہ جمع کا یعنی صحیفہ عثمانی نقل تھا۔صحیفہ ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل تھا۔آپ ﷺ کے قرآن ما بین الدفتین کی ۔جس کوآپ ﷺ چھوڑ گئے تھے۔اورقرآن نبوی کی ترتیب میں من جانب اللہ تھی۔جوکہ آپ کوبرزبان یاد تھا۔اورجس کی آپ سات منزلیں فرمایا کرتےتھے۔جیسا کہ پیشتر مفصل لکھا جا چکا ہے ۔لہذا نتیجہ صاف ثاہر ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بعینہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پرنازل فرمایا اوراُسی ترتیب پر ہے جس ترتیب پر آپ ﷺ نے خودتلاوت فرمائی۔ اورصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو یاد کرایا اورلکھوادیا۔
مسئلہ جمع قرآن کے محقق ہوجانے کے بعد ضمناً مسئلہ اعراب قرآں کی بابت بھی ایک ضروری ہے۔اعراب لگانے والوں نے آیا اپنی رائے سے قرآن کی آیتوں پر زیر زبر پیش لگایا ہے یا کسی سوسائٹی کے مشورہ سے یاضرورت زمانہ سے مجبورہوکر یا کسی شرعی حکم کےماتحت جن لوگوں کوحقیقت کاعلم نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ زمانہ کی ضرورت نے اعراب لگانے پر مجبور کیا اوراسے وہ بدعت حسنہ کہےت ہی۔لیکن ابو یعلیٰ و بیہقی کی ایک حدیث فیصلہ کر دیتی ہے کہ آیتوں پراعراب حکم نبوی ﷺ کے تحت لگایا گیا ہے۔خواہ کسی زمانے میں لگا لہذا جو امرحدیث سے ثابت ہو اس پربدعت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔کیونکہ آپ ﷺ خوداس کا حکم دے گئے تھے چنانچہ ملاحظہ ہو۔
عن ابي هريرة قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اعربو االقران
(رواہ البہقی۔وابو یعلیٰ مشکواۃ ص180۔فضائل ابن کثیر ص201 تاریخ بغداد ج8 ص77)
یہ حکم اپنے عموم پر جس طرح شامل ہے۔تبین معانی و اظہار حروف والفاظ عند تلاوت کو اسی طرح عند الکتابۃ حروف والفاظ پر زبر زیرپیش جزم مدتشدید لگانے کو بھی پس جن لوگوں نےآیات پر اعرا ب قرآنی لگایا ہے۔اسی شرعی حکم کے ماتحت لگایا ہے لہذا یہ فعل بدعت حسنہ کا ثبوت یانظیر نہیں بن سکتا۔مرقاۃ شرح مشکواہ میں ہے۔
اي ايها العلماء بينوا ما في القران من بدائع الاعراب
(ج 2 ص 602)
یعنی اے جاننے والو!قرآن مجید کے اعرا ب کو بیان کرو۔زبان سے یا قلم سے دونوں مراد ہوسکتاہے۔
والحمد لله اولا واخر تم البابالاول في جمع القران ويتلوه الباب الثاني في جمع الاحاديث الرسول النبي صلي الله عليه وسلم
پہلا ثبوت رسول اللہﷺ کے قول و فعل سے
خاص
1۔مکہ مکرمہ میں قبیلہ خزاعہ سے ایک شخص ن قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا ۔آپ ﷺ کوخبر ملی تو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی عزت وحرمت نیز اس میں قتل و قتال کی ممانعت سے متعلق ایک خطبہ دیا۔حاضرین میں سے ایک یمنی شخص ابوشاہ نے عرض کی کہ مجھے یہ باتیں لکھوا دیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا!
اكتبو ا الابي شاه (بخاری احمدی ج1 ص 32مسلم ج1 ص 439)
یعنی میری یہ حدیث ابو شاہ کولکھ دو۔
2۔آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک صحیفہ رسالہ لکھوایا جیساکہ صحیح بخاری میں ہے۔
عن علي قال ما كتبنا عن النبي صلي الله عليه وسلم الاالقران وما في هذه الصحيفة (ج1 ص 451)
اس صحیفہ میں مدینے کا حرم ہونا۔مسائل جراحات۔اونٹوں کی عمریں احکام زمیاں ۔کسی دوسرے کو باپ یامولیٰ بنانے کی ممانعت زبح لغیر اللہ کی حرمت ۔علامات۔ارضیہ کی چوری پرلعنت والدین کو برا کہنے پر لعنت بدعتی کو ٹھکانا دینے پر لعنت وغیرہ مختلف مسائل مرقوم تھے۔
(صحیح مسلم۔ج1 ص 442۔ج1 ص495 ۔ج2 ص161)
3۔آپ ﷺ نے رافع بن خدیج کو اپنی تمام حدیثوں کے لکھنے کا حکم دیا تھا۔طبرانی کبیر میں ہے۔
عن رافع قال قلت يا رسول الله صلي الله عليه وسلم انا نسمع منكاشياء فنكتبها قال اكتبواولا حرج
(منتخب کنز العمال ج4 ص 58 ۔مجمع الزوائد ج1 ص 60)
یعنی یا رسول اللہﷺ ہم لوگ آپ سے سنی ہوئی حدیث کو لکھ لیا کریں۔فرمایا لکھ لو کوئی حرج نہیں ہے۔اس میں حکم کتابت بصیغہ جمع فر مایا ہے۔جو سب صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو شامل ہے۔جامع ترمذی میں آیا ہے کہ ایک مرد انصاری کو آپ ﷺ نےفرمایا تھا۔
استعن بيمينك واو ما بيده الخط (ص 382)
یعنی میری حدیثیں لکھ لیاکرو۔
4۔آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو عاص کو بھی اپنی تمام حدیثوں کے لکھنے کا حکم دیا تھا۔
استاذن في الكتاب عنه فاذن له (مسند احمد ج2 ص 403 )
چنانچہ آپﷺ کا یہ ازن دینا بصیغہ امر بھی مروی ہے۔
اكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه الاحق
(ابو دائود مصری۔ج2 ص 81 ومسند احمد مصری ص162۔192۔ج2 ومسنددارمی ص67)
یعنی میرے منہ سے حق نکلتا ہے۔پس اسے لکھ لیا کرو۔
5۔آپﷺ نے اپنا غلام حضرت عداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے ہاتھ فروخت کیا تو ایک نوشتہ لکھوا کر مرحمت فرمایا تھا۔چنانچہ عداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔
كتب لي بسم الله الرحمان الرحيم هذا ما الشتري العداء خالد من محمد
(استعیاب مع االصابہ ج3 ص 162۔صحیح بخاری احمدی ج1 ص 279)
حضرت عداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ تابعین میں اس تحریر کو سب لوگوں کودکھلاتے اورپڑھ پڑھ کے سنایا کرتے تھے۔ (ترمذی ص 196 و استعاب ج3 ص162)
یہ تحریر محدثین کے پاس ہمیشہ محفوظ رہی۔ (استعیاب ج3 ص 161)
6۔آپ ﷺ نے ثمامہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحریر بھیجی کہ اپنے ملک (نجد)سے مکہ والوں کے لئے غلہ بھیجنابند نہ کرے۔
كتب النبي صلي الله عليه وسلم الي ثماثه بن اثال يخلي بين اهل مكه وبين الحمل اليهم
(فتح الباری انصاری ص74 پ17 وسیرہ ابن ہشام ج3 ص92 ومبسوط سرخسی ابواب السیر)
7۔آپﷺ نے مسلمانوں کی بعض سیاسی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر ان کے ناموں کو لکھے کا حکم دیا تھا۔
قال يا رسول الله اني كتبت في غذوة كذا (بخاری حوالہ مذکورہ)
یعنی تمام مسلمانوں کے نام لکھو۔ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرا نام فلان لرائی کے لئے لکھا گیا ہے۔
8۔آپﷺ نے حدیبیہ میں شرائط صلح لکھوا کرسہیل بن عمرو کو دی تھیں۔یہ صلح نامہ تمام کتب حدیث و سیر میں منقول ہے صحیحین مین وارد ہوا۔
كتب هذا ما قاضي عليه محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم
(بخاری احمدی ج1 ص 52 و مسلم ص104 ج2)
اسکی ایک نقل قریش نے لی ایک آپ ﷺ نے اپنے پاس رکھی۔
(ابن سعد مغاذی ص71)
9۔آپ ﷺ نے یہود مدینہ سے جو صلح کی اُسے لکھوایا
كتب النبي كتابا وادعو فيه يهود (سیرۃ ابن ہشام ج1 ص178)
ایک اور بھی صحیفہ امن لکھوا کر یہود کو دیا گیاتھا۔سنن ابی دائود میں ہے۔
كتب النبي بينه وبينهم وبين المسلمين عامة صحيفة (مصری ص25 ج2)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غلامی سے آذاد کرانے کے لئے ان کے یہودی مالک کو آپ نے تحریر بھیجی تھی۔یہود خیبر کو ایک مقتول صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دیت ادا کرنے کے لئے تحریر بھیجی ۔
كتب النبي صلي الله عليه وسلم اما ان يدوا صاحبكم واما ان يوذ نوا بحرب (بخاری احمدی۔ص1061۔1067)مسلم ج2 ص 56)
یعنی مقتول کی دیت ادا کر و ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائو۔
10۔آ پ ﷺ نے سرداران عرب و شاہان عجم کو دعوت اسلام کی تحریریں بھیجی تھیں۔جوکتب حدیث و سیر میں بہ تفصیل مرقوم ہیں۔صحیح مسلم میں ہے۔
كتب النبي صلي الله عليه وسلم الي كسري وقيصر والنحاشي والي كل جبار يدعوهم الي الله (صفحہ 99 ج2)
یعنی آپ ﷺ نے خسرو پرویز قیصر روم شاہ حبش۔اور ہر صاحب جبروت والی ملک کے پاس اپنی تحریریں بھیجیں۔ہندوستان کے راجہ سری بانک کے پاس حذیفہ واسامہ وٖغیرہ دس صحابیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین کی معرفت دعوت اسلام کی تحریریں بھیجیں۔
فا اجاب اسلم وقبل كتاب ا لنبي صلي الله عليه وسلم
(میزان للذہبی ج1 ص71)
اسحاق بن ابراہیم طوسی اُس راجہ نے دعوت قبول کی اوراسلام لایا۔اور آپ ﷺ کی تحریر کو بوسہ دیا۔اسی طرح منذروالی کو تحریر بھیجی ۔واقدی کہتاہے کہ میں نے یہ تحریردیکھی ہے۔ (زادالمعاد ج2 ص57)
آپ ﷺ نے ان کی تحریروں کی نقلیں زادالمعاد لا بن قیم خاتمہ نصب الرایہ للربلی اور اعلام السائلین اور فی مکاتب سید المرسلین مطبوعہ مصر میں مفصل موجود ہیں۔
12۔آپ ﷺ نے اپنی وفات سے ایک ماہ پیشتر قبیلہ جہنی والوں کو یہ حدیث لکھوا کر بھجوائی جیسا کہ ابن حکیم کہتے ہیں۔
قال عبد لله بن حكيم اتا نا كتاب النبي صلي الله عليه وسلم ان لا تنتفعوا من الميتة
(مشکواۃ ص45۔ابودائعود۔ترمذی۔نسائی۔ابن ماجہ۔مسند احمد۔دارقطنی۔ابن حبان وغیرہ)
12۔آپ ﷺ نے مرض الموت میں احکام ضروریہ لکھوانے کوقلم دوات کاغذ طلب فرمایا تھا۔
قال ائتو ني اكتب لكم كتا با
(بخاری احمدی۔ج1 ص449۔ج2 ص238۔مسلم۔ج2 ص42)
13۔آپ ﷺ نے ملک یمن کے شہر جرش والوں کو مسئلہ نبیذ لکھوا کر بھجوایا تھا
كتب الي اهل جرش ينها هم عن خليط التمر والزبيب
(مسلم ج2 ص164)
یعنی کشمکش اور خرما کو ملاکر مت بھگو۔یہی حکم مجر والوں کو لکھوا کر بھیجا تھا۔
14۔آپ ﷺ نے مسلم بن حارث تمیمی کو کچھ وصیتیں لکھوا کر مہر کر کے مرحمت فرمائی تھیں۔
قال له النبي صلي الله عليه وسلم اما اني ساكتب لك بالوصاة بعدي قال ففعل لختم عليه فدفعه الي (ابو دائود مصری ج2 ص 211)
15۔آپ ﷺ نے حضرت معاذ کے پاس یمن میں تعزیت نامہ لکھوا کر روانہ فرمایا تھا۔
قال محمود بن لبيد ما ت ابن لمعاذ فكتب اليه النبي صلي الله عليه وسلم يعذبه عليه الحديث
(مستدرک حاکم ج3 ص273۔وتاریخ خطیب ج2 ص 89وطبرانی ابن مردویہ)
یعنی مدینہ میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لڑکا فوت ہوگیا۔اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں تھے۔ تو آپ ﷺ نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تسلی کی تحریریں بھیجی تھی۔
16۔آپ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یمن میں حسب زیل احکام لکھوا کر بھجوائے تھے۔
كتب الي معاذ باليمن ان يا خذ من كل حالم وحالمة دينارا
(کتاب الخراج لیحیٰ مطبوع مصرص 72 وتاریخ بغدار ج8 ص 435)
وكتب فيما سقت السماء لعشروما سقي بالغرب فنصفه
(الخراج ص115۔116)
وكتب معاذ الي النبي صلي الله عليه وسلم يساله عن الحضر اوات
(ترمذی۔ج1 ص 116۔ودارقطنی۔ ج1 ص 45)
یعنی ہر غیر مسلم بالغ و مرد سےف ایک ایک دینار جزیہ لیں۔بارش سے جو غلہ پیدا ہو اس میں سے دسواں حصہ لیں۔ڈول سے جو کھیت سینچا جائےاس سے بیسواں حصہ لیں۔صرف چار چیزوں میں زکواۃ لیں۔گہیوں ۔جو ۔خرما۔اور کشمش میں۔سبزی اور ترکاری میں ذکواۃ نہ لیں۔یہ مبارک تحریر نبوی ﷺ موسیٰ بن طلحہ تابعی کے پاس یاد گار کے طور پرمحفوظ تھی۔ (دارقطنی ص201)
17۔آپ ﷺ نے یمن والوں کو ایک اور حکم بھی تحریر کر ا کے روانہ فرمایا تھا۔جو یہ ہے۔
عن ابي هريرة قال كتب النبي صلي الله عليه وسلم الي اهل اليمن ان يوخذ من العسل العشرة رواه عبد الرزاق
(فتح الباری انصاری ص51 پ 6 ونصب الرایہ للزیلعی ج1 ص410)
یعنی شہد (جو یمن میں بکثرت پیدا ہوتی ہے۔)کی بھی ذکواۃ سے دسواں حصہ ادا کریں۔
18۔آپ ﷺ نے ہر قبیلہ والوں کو دیت کے مسائل لکھوا کر بھجوائے تھے۔
كتب النبي صلي الله عليه وسلم علي كل بطن عقوله ثم كتب انه لا يحل لمسلم ان يتو لي يتولي رجل مسلم بغير اذنه وانه لعن في صحيفة من فعل ذالك (صحیح مسلم ج1 ص495)
یعنی آپ ﷺ نے ہر اہل قبیلہ کو خون بہا کی تفصیل لکھوائی اور یہ بھی لکھوایا کہ کسی مسلمان کوجائز نہیں کے کسی مسلمان کے آذاد کردہ غلام کا متولی بغیر اجازت معتق کے بن جائے اور جوایسا کرے گا وہ ملعون ہے۔
19۔آپ ﷺ نے ضحاک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا تھا۔کہ اشیم ضبابی کی دیت سے اسکی بیوی کوورثہ دے۔
قال الضحاك بن سفيان كتب الي النبي صلي الله عليه وسلم ان اورث امرءة اشيم الضبابي من دية زوجها
(مشکواۃ صفحہ 256۔ترمذی۔307۔ابو دائود مصری ج3 ص25)
یعنی بیوی مقتول شوہر کے خون بہا سے حصہ پائے گی۔
20۔ آپ ﷺ نے بنو زہیر بن اقیش کو بشرط اسلام ایک امن نامہ چرمی قطعہ ر تحریر فرمادیا تھا۔
دخل رجل معه قطعةادم قال لي هذه رسول الله صلي الله عليه وسلم
(نسائی ص639 ابو دائود مصری ج2 ص25744)
اسی طرح عمیر زی مران اورعک زی خیوان کو بھی امان نامے لکھوا دیئے تھے۔
21۔آپ ﷺ نے ارض خیبر کو 36 حصوں میں تقسیم فرما کر نصف یعنی 18 حصے اسلامی ضرورتوں کے لئے اپنے پاس رکھے۔اور بقیہ نصف (18 حصے) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں تقسیم کر دیئے۔ایک حصے میں سو صحابی رضوان اللہ عنہم اجمعین اور ہر بیوی (ام المومنین) کو ایک ایک سو وسق (پیمانہ)اناج و خرما مرحمت فرمایا یہ سارا تقسیم نامہ تحریری صورت میں تھا۔جیسا کہ محدث یحیٰ بن آدم قریشی اپنی کتاب الخزاج میں روایت لائے ہیں۔
فكتب فيها النبي صلي الله عليه وسلم للناس)))كتبه لكل امراءة منهن ثما نون وسقاتمها وعشرون حبا
(مصری ص38 یعنی صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے تحریر کر دیا تھا۔اور اپنی بیبیوں کے لئے بھی)
22۔آپ ﷺ نے علاوہ زمین مذکور کے ددسرے مقاموں کی زمینیں بھی صحابہ کرام کو مرحمت فرمایئں۔اور ان کو پٹہ دلکھ دیا تھا۔دیکھو صحیح بخاری احمدی باب کتابۃ الاصنایع ج1 ص220)
دعا النبي صلي الله عليه وسلم الانصار ليكتب لهم بالبحرين الخ
(بخاری احمدی ج1 ص448)
یعنی انصار کو علاقہ بحرین کی زمینیں لکھوایئں۔حرث بخدی کے لئے ارض دہنا لکھنے کا حکم دیا۔ (ابو دائود مصری ج2 ص33)
بلال بن حارث مزنی کو مدینہ سے قریب ساحلی مقام''قبل کی پست و بلند زمین اور جبل قدس کے دامن کی زمین لکھ دی تھی۔
23۔آپ ﷺ نے وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب وہ اپنے وطن حضرموت کو واپس جانے لگے تھے تین نوشتے مختلف مسائل (نماز ۔زکواۃ۔ربوا۔بیع ۔نکاح شغار ۔حقوق یتامیٰ حرمت اشیاء مسکرہ وغیرہ کے )لکھوا کر مرحمت فرمائے تھے۔جیسا کہ حضرت وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں۔
امر لي رسو ل الله صلي الله عليه وسلم بكتب ثلاثة
طبرانی صغیر ص242)
یعنی میرے لئے تین نوشتے آپ ﷺ نے تحریر کروائے تھے۔
24۔آپ ﷺ نے اپنی حدیثوں کے لکھنے والوں کو مغفرت کی بشارت دی ہے۔
قال من كتب عني اربعين حديثا رجاء ان يغفر الله له غفر له
(منتخب کنز العمال ج4 ص 57 برحاشیہ مسند احمد)
یعنی جو شخص میری چالیس حدیثیں با امید مغفرت لکھے گا اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔سبحان اللہ
25۔آپ ﷺ نے حدیثوں کو سندوں کے ساتھ لکھنے کا حکم دیا ہے۔
عن الحسين قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كتبتم الحديث فاكتبوه باسناده الخ )بغیۃ الوعاۃ للسیوطی مطبوعہ مصر ص454)
آپﷺ نےفرمایا!تم حدیثیں لکھو تو ان کی سندوں (راویوں کے ناموں) کے ساتھ لکھنا (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیز انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ہی کہا ہے۔
احادیث فعلیہ
1۔آپ ﷺ نے اواخر عمر میں تمام ماتحت حاکموں کے پاس بھیجنے کے لئے اپنی تمام وہ حدیثیں جن میں ذکواۃ کے مسائل مذکور تھے۔تحریری صورت میں ایک جگہ جمع کر ادی تھیں۔جس کا نام کتاب الصدق تھا۔(یہ کتاب حدیث کی پہلی کتاب ہے۔جو بحکم نبی ﷺ لکھی گئی۔سنن ابی دائود اور بیہقی وغیرہ میں ہے۔
عن ابن عمر قال كتب النبي صلي الله عليه وسلم كتاب الصدقة فلم يخرج الي عماله حتي قبض فعمل به ابوبكر حتي قبض ثم عمل به عمر حتي قبض وهي عند ال عمر قال الذهري اقرانيها سالم فوعيتها وهي التي انتسخ عمر بن عبد العزيز
(ابو دائود مصری ج1ص156 سنن بیہقی ص88 ج4 )
یعنی آپ ﷺ نے کتاب الصدقہ لکھوائی اور پھر آپ ﷺ کا انتقال ہوگیا۔اور کتاب عاملوں کے پاس نہ جاسکی آپ ﷺ کے بعد اس کا نفاذ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا۔صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کتاب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں (محفوظ) رہی۔چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب امام زہری کا پڑھنے کے لئے دی۔جسے ذہری نے حفظ کر لیا۔نیز اس کی نقل خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں سے لے کر کرائی تھی۔انتہیٰ
2۔آپﷺ نے اپنے آخر عہد میں حدیثوں کی ایک ضخیم کتاب جس میں تلاوت قرآن مجید۔نماز۔زکواۃ۔طلاق۔عتاق۔قصاص۔دیت وغیرہ نیز فرائض و سنن اور کبیرہ گناہوں کی تفصیل تحریر کر اکے عمرو بن حزم صحابی کی معرفت یمن والوں کے پاس بھجوائی تھی۔جیسا کہ سنن مجتبیٰ میں ہے۔
ان النبي صلي الله عليه وسلم كتب الي اهل اليمن كتابا فيه الفرائض والسنن و الديات وبعث به مع عمربن حزم
(نسائی ص728۔مراسیل ابی دائود۔ص28 سنن داررقطنی ص745 مسند دارمی ص210 موطا امام مالک ص332۔مسند شافعی ص198 کتاب ام للشافعی ج6 ص66 سنن بہقی ج4 ص89 تفسیر ابن کثیر ج3 صفحہ 64 مستدرک حاکم ج1 ص 295)
جامعیت مسائل کے لہاظ سے اس کتاب کوحدیث کی پہلی کتاب کہنا چاہیے ۔جوآپﷺ نے خود لکھوائی۔اور جب کہ اس کتاب میں اتنے کثیر مسئلوں کی حدیثیں لکھی اورجمع کی گئیں تھیں تو سمجھنا چاہیے کہ یہ کتاب کافی ضخیم ہوگی۔علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں۔
هو كتاب عظيم فيه انواع كثير من الفقه في الذكوة والديات والاحكام وذكر الكبائر والطلاق والعتاق واحكام الصلوة ومس المصحف وغير ذلك قال الامام احمد لا شك ان النبي صلي الله عليه وسلم كتبه
(زادالمعاد طبع کا نپور ص30 ج1)
یعنی یہ کتاب جس کی بابت امام احمدؒ نے فرمایا ہے۔کہ بلاشک یہ کتاب آپﷺ کی ہی لکھوائی ہوئی ہے۔ایک بڑی کتاب ہے۔اس میں سے بہت سے مسائل شرعیہ لکھے ہوئے تھے۔جیسے ذکواۃ دیات کبائر۔احکام۔طلاق۔عتاق۔نماز۔قرآن چھونے اور بہت سے مسئلے اس میں مرقوم تھے۔اللہ اکبر اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت چاہیے۔؟
احادیث قولیہ
1۔آ پ ﷺ نے علم حدیث کو تحریر میں لانے کا حکم عام مرحمت فرمایا ہے۔
عن عبدالله بن عمر وقال قال النبي صلي الله عليه وسلم قيدوا العلم قلت وما تقيده ؟قال كتابة
(مستدرک حاکم۔ج1 ص106۔تاریخ بغداد ، للخطیب ص46 ج1 جامع بیان العلم ج1 ص 73)
آپ نے فرمایا!علم حدیث کو قید میں لائو۔صحابی نے پوچھا کہ قید سے کیا مراد ہے۔فرمایا قید تحریر میں لانا اسی طرح کا حکم موقوفاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروری ہے۔
2۔آنحضرت ﷺ نے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کوعام طورسے حدیثیں لکھنے کا حکم مرحمت فرمایا تھا۔جیسا کہ اوپرنمبر 3 میں م ذخور ہوا وہ حکم یہ ہے۔
اكنبو اولاحرج
(مجمع الزوائد ص60 ومنتخب کنز ص58 ج4)
یعنی حدیثیں لکھو۔اب کوئی حرج نہیں رہا (پہلے منع تھا جومنسوخ ہوگیاچنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس پر جیسا عمل کیا اس کے نمونے ملاحظہ ہوں۔
دوسرا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے (بعض حدیثوں کا لکھنا)
1۔مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک بار ایک حدیث لکھ کر بھیجی۔
(بخاری احمدی۔ص200 ج1۔وص937 ومسلم ج1 ص 218)
پھر دوسری بار دوسر ی حدیث لکھ کر روانہ کی
(بخاری ص958۔ص979ج2۔مسلم ج6ص76)
2۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مردان کو حدیث شغار لکھ کر بھیجی تھی۔
(ابو دائود مصری ص81 ج2 مسند احمد ص182 ج5)
3۔نیز زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث سن کر اُسے لکھ لینے کا حکم دیا تھا۔
(ابو دائود مصری ص81 ج2 مسنداحمد ص182 ج5)
3۔فاطمہ بنت قیس صحابیہ رضی اللہ عنہا نے ابو سلمہ کو حدیث لکھوائی تھی۔
قال كتبت ابي وكتبت له الي عبيد الله الخ (ٍٍصحیح مسلم ص484 ج1)
4۔ابو بکرہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے عبید الرحمٰن سے دوسرے بیٹے عبید اللہ کے پاس حدیث لکھوا کر بھیجی تھی۔
قال كتبت ابي وكتبت له الي عبيد الله الخ (صحیح مسلم77ج2)
5۔عبد اللہ بن ابی اوفیٰ اصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بن عبید اللہ کی طرف حدیث تحریر کر کے روانہ کی تھی۔ (بخاری ج1 ص 425۔و ج2 ص 1075)
6۔ابو سعید خدری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشہد والی حدیث تحریر کرنے کے مقر ہیں۔
(ابو دائود مع عون المعبود ج3 ص 357)
7۔جابر بن سمر ہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عامر بن سعد کو حدیث خلفاء قریش تحریر کر کے بھیجی تھی۔ (مسلم ج1 ص 119)
حدیث زکر حوض کوثر لکھ کر دوسری بار روانہ کی ۔ (مسلم 2 ص 252)
غالباً انھیں جابر کی بابت حافظ ابن عبد البر نے جامع بیان العلم میں تحریر کیا ہے۔
قال الربيع رايت جابر ا يكتب في الاواح (ج1 ص72)
یعنی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تختیوں میں حدیثیں لکھتے تھے۔
8۔رافع بن خدیج صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنھوں نے حدیث لکھنے کی اجازت آپﷺ سے حاصل کی تھی۔(دیکھو ثبوت اول کا نمبر 3) اُن کے حدیث لکھنے کا ثبوت ملاحظہ ہو۔وہ مروان سے کہتے ہیں۔
ذالك(الحديث مكتوب)عندنا في اديم خولاني ان شئت اقراتكه
(صحیح مسلم صفحہ 440 ج1۔مسند احمد ج4 ص141)
یعنی مدینہ کے حرم ہونے کی حدیث میرے پاس خولانی چرم کے فرد پر لکھی ہوئی ہے۔اگر چاہو تو اسے لا کر تمیں سنادوں۔
9۔حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سن کر لکھا کرتے تھے۔ (ابن سعد ج2 ص123)
پھر دوسروں کو بھی حدیث لکھدیا کرتے تھے۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ مدعیٰ علیہ پرقسم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن ملکہ کو بھیجی۔صحیح مسلم میں ہے کہ نجدہ حروری کو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث لکھی۔
كان النبي يغذوا بالنساء (مسلم ج2 ص116)
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لکھوائی ہوئی حدیثوں کی کتاب اہل طائف کے پاس موجود تھی۔
10۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عہد نبوی میں ایک روایت آپﷺ سے سن کر لکھی پھر لکھ کر آپﷺ کو سنائی۔
قال سمعتها من النبي صلي الله عليه وسلم فكتبتها وعرضتها عليه
(مستدرک حاکم ج3 ص 574)
اپنے ایک بیٹے کو بھی حدیث لکھنے کا حکم دیا۔اور کہا اے بیٹے! اس حدیث کو لکھ لو اُس نے لکھ لیا۔پھر اپنے دونوں بیٹوں کو عام طور سے تمام حدیثوں کو تحریر میں لانے کا حکم دیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت بیٹے دیئے ۔تو اپنے سب بیٹوں کو حدیثیں لکھنے کا حکم دیا۔
انس انه كان يقول لبنيه قيدوا العلم بالكتب
(دارمی۔مستدرک حاکم۔جامع العلم ج1 ص 73)
یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے تمام بیٹوں سے فرماتے کہ علم حدیث کوقید تحریر میں لائو۔ابان کا انس سےحدیث لکھنا دارمی ص68 میں منقول ہے۔
صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا تمام حدیثوں کا لکھنا
1۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام حدیثیں لکھنے کا حکم (ملنا) ثبوت اول کے نمبر 4 میں بیان ہوچکا ہے اب ان کا عمل سنئے۔
ان عبد الله بن عمر وكان يكتب الخ
(بخاری احمدی ج1 ص 22۔ترمذی۔ص547)
حضرت عبد اللہ ساری حدیثیں لکھا کرتے تھے۔اور آپﷺ کے پاس بیٹھ کرلکھا کرتے تھے۔(دارمی) ان تمام احادیث کے مجموعہ کا نام انہوں نےصحیفہ ء صادقہ رکھا تھا۔چنانچہ فرمایا کرتے ۔
ما يرغبني في الحيواة الا الصادقة وهي صحبيفة كتبتها من النبي صلي الله عليه وسلم (داارمی۔ابن سعد۔جامع البیان العلم ج1 ص 72)
یعنی یہ حدیث کتاب میں آپ ﷺ سے سن کرلکھی ہے۔اس لئے میری تمنا ہے کہ میں ابھی کچھ دنوں اور زندہ رہوں تاکہ اس سے فائدہ اٹھائوں وہ اس صحیفہ کو مختلف لوگوں کو دکھلایا کرتے تھے۔چنانچہ ترمذی میں ہے۔
القي عبد الله الي ابي راشد صحيفة فقال هذا ما كتب لي رسول الله قال فنظرت فيها (ص508)
یعنی حضرت عبد اللہ نے اپنے صحیفہ کو ابو راشد کودیکھاتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے آپﷺ نے لکھوایا ہے۔یہ کتاب ان کے پوتے عمر بن شعیب کے پاس موجود تھی۔جسے دیکھ کر وہ حدیث بیان کر تے تھے۔اسی وجہ سے ان پر ضعف کا حکم لگا۔
(ترمذی ص116۔74)
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی حدیث کی یہ پہلی کتاب ہے۔
2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس احادیث نبویہ بہت سی کتابوں میں لکھی ہوئی موجو د تھیں۔چنانچہ حسن بن عمرو کہتے ہیں۔
ارانا كتبا كثيرة من حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقال هذا هو مكتوب عندي
(فتح الباری انصاری پارہ اول ص105 وجامع بیان العلم الابن عبد البر ج1ص 74)
ہم کو ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی بہت سی کتابیں دیکھائیں۔جو ان کے پاس تھیں۔ان سے تابعی لوگ حدیثیں نقل کیا کرتے تھے۔
3۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حدیثوں کو ایک کتاب میں لکھ رکھا تھا۔جسے ان کے بیٹۓ عبد الرحمٰن لوگوں کو دیکھایا کرتے تھے۔چنانچہ معن کہتے ہیں۔
اخرج الي عبد الرحمان بن عبد الله ابن مسعود كتابا وحلف لي انه حط ابيه بيده (جامع بیان العلم ج1 ص 72)
کہ عبد الرحمٰن نے مجھے ایک حدیث کی کتاب دیکھائی۔پھر قسم کھائی کہ میرے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔
خلفاء راشدین کا عمل
4۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کتاب میں پانچ سو حدیثیں لکھ رکھی تھیں۔جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
قالت عائشة جمع ابي حديث عن النبي صلي الله عليه وسلم فكانت خمس مائة حديث (منتخب کنز العمال ج4 ص 58)
کہ میرے ابا نے آنحضرت ﷺ کی حدیثیں لکھنی شروع کیں۔تو ان کا شمار پانچ سو تک پہنچا(آگے واقعہ تحریق صحیح نہیں۔)
5۔خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبہ بن فرقد کے پاس مقام آزر بائی جان حدیث
نهي النبي صلي الله عليه وسلم عن التحرير الخ
لکھ کر بھیجی تھی۔ (صحیح مسلم ج2 ص191)
اور تمام صحابہ کو حکم دے رکھا تھا۔
قيدزا العلم با الكتب
(دارمی ص68 مستدرک حاکم ج1 ص106 جامع بیان العلم ج1 ص 72۔)
یعنی علم حدیث کو قید تحریر میں لائو۔یہی قول ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ دارمی سے بھی منقول ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بھی تمام حدیثوں کو لکھ کر جمع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔بلکہ لکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔جیسا کہ حافظ عبد البر لکھتے ہیں۔
ان عمر بن خطاب ارادا ان يكتب هذه الاحاديث اوكتبها
(جامع بیان العلم ج1 ص64)
6۔خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک صحیفہ میں حدیثیں لکھنا ثبوت اول کے نمبر 2 میں بیان ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ ایک کتاب''قضایا''لکھی تھی۔جس میں احکام قضاء کی حدیثیں جمع کیں تھیں۔ (مقدسۃ مسلم ج1 ص 10)
اور اپنے محرروں کو حکم دے رکھا تھا کہ
اذا كتبتم الحديث فاكتبوه باسناده (منتخب کنز العمال ج4 ص 57)
جب تم احادیث نبویہ لکھنے لگو تو ان کی سندوں کو بھی ساتھ لکھو۔جن سے تم نے حدیث سنی ہے۔(ایسا ہی حکم آپ ﷺ کا بھی ثبوت اول کے آخری نمبر 25 میں نقل ہو چکا ہے۔
ولعل فيما نقلناه كفاية لمن له فهم ودراية
تیسرا ثبوت تابعین رحمہم اللہ کے عمل سے (بعض حدیثوں کا لکھنا)
1۔نافع تابعی حضرت ابن عم کے سامنے بیٹھ کر ان سے حدیثیں سنتے جاتے اور لکھتے جاتے تھے۔
يكتب بين يديه (دارمی ص69)
پھر دوسروں کے پاس حدیث لکھ کر بھیجتے تھے۔چنانچہ ابن عون کو نافع نے حدیث غزوہ بن مصطلق لکھ کر بھیجی تھی
(بخاری احمدی۔ج1 ص 345۔ومسلم ج6 ص81)
2۔عمر بن عبد اللہ بن ارقم تابعی نے عبد اللہ بن عتبہ کو حدیث عدت حاملہ یعنی قصہ صبیہ صحابیہ رضی اللہ عنہا مع جواب نبویﷺ کے لکھ کر بھیجا تھا۔
(مسلم ج1 ص 486)
3۔عبد اللہ بن محمد تابعی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سن سن کر لکھ لیا کرتے تھے۔جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں۔
قال عبد الله كنا نا تبي جابرا فنسا له عن سنن النبي صلي الله عليه وسلم فنكتبها
(شرح معانی الاثار للطحاوی ج2 ص 384)
4۔وہب بن منبہ تابعی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تمام حدیثوں کا مجموعہ لکھ کر تیار کیا ہوا تھا۔جو اسماعیل بن عبد الکریم کے پاس تھا۔
(تہذیب التہذیب جلد اول ص216)
5۔سلمان بن قیس لشکری تابعی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں کا دوسرا مجموعہ لکھ کر بنایا تھا۔ جس سے امام شعبی ؒ تابعی وغیرہ نے حدیثیں نقل کی ہیں۔
(تہذیب التہذیب جلد 6ص211)
6۔سلمان بن سمر ہ تابعی نے ا پنے والد سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے حدیثوں کا یک بڑا نسخہ لکھا ہوا روایت کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب ج4 ص 198)
7۔عروہ تابعی نے غزوات کی حدیثیں لکھ ک جمع کی تھیں۔جیسا کہ کشف الظنون میں ہے۔
اول من صنف فيها عروة بن الزبير (ج3 ص470)
اور خلیفہ عبد الملک اموی کو عروہ نے اس کتاب کی ایک نقل روانہ کی تھی۔افسوس کے ان کی یہ کتاب جنگ حرہ (مدینہ) میں جل گئی۔
(جامع البیان العلم ج1ص75)
8۔طاوس تابعی نے دیت (خونبہا) کی حدیثیں لکھ کر جمع کی تھیں۔جیسا کہ بہقی میں ہے۔
عن طاوس ان عنده كتابا من العقول نزل به الوحي وما فرض النبي صلي الله عليه وسلم (مفتاح الجنۃ للسیوطی طبع مصر ص10)
یعنی طاوس کے پاس ان دیتوں کی کتاب تھی۔جو وحی سے نازل شدہ او ر آپ ﷺ کی مقرر کردہ تھیں۔
9۔زہری تابعی نے خلیفہ ہشام اموی کی فرمائش پر اس کے ولی عہد کے لئے ایک کتاب میں چار سو حدیثیں لکھ دی تھیں۔جیسا کہ ذہبی لکھتے ہیں۔
ان هشام بن عبد الملك سال الذهري ان يملي علي بعض ولده شيا فاملي عليه اربع مائة حديث (تذکرۃ الحفاظ ج1 ص97)
10۔ابو بردہ تابعی نے اپنے باپ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے بہت سی حدیثیں سن کر لکھ ڈالیں تھیں۔جیسا کہ ابن عبد البر لکھتے ہیں۔
عن ابي بردة قال كتبت عن ابي كتابا كثيرا (جامع بیان العلم ج1 ص 65)
یعنی میں نے اپنے والد سے بہت کچھ لکھاتھا۔
11۔سعید بن جبیر تابعی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سن کر لکھا کرتے تھے۔
كنت اسمع من ابن عمر وابن عباس الحديث بالليل فاكتبه
(دارمی ص68)
یعنی رات کوحدیث سن کر لکھتے
12۔عنترہ تابعی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سن کر ان کی اجازت سے تحریر کی۔
عن عنترة ابن عبد الرحمان الكوفي قال حدثني ابن عباس بحديث فقلت اكتبه عنك وفرخص (دارمی ص69 جامع بیان العلم ج1 ص73)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو تحریر حدیث کی رخصت دی۔
13۔بہت سے تابعین حضرت براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے پاس حدیثیں لکھا کرتے تھے۔
قال عبد الله رايتهم يكتبون عند البراء با طراف القصب
(دارمی ص69 جامع البیان العلم 1 ص73)
یعنی تابعین بانس کے قلموں سے براء کے پاس حدیث لکھتے تھے۔
14۔بشیر بن نہیک تابع حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے جوحدیثیں سنتے لکھ لیا کرتے تھے۔
عن بشير بن نهيك قال كنت اكتب ما اسمع من ابي هريرة
(دارمی۔ص68۔جامع البیان العلم ج1 ص72)
جیسا کہ دوسری فصل میں مفصل گزر چکا ہے۔
15۔ہمام بن منبہ تابعی نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 140 حدیثیں سنیں تھیں۔ان حدیثوں کا مجموعہ صحیفہ ہمام''کے نام سے لکھ کر تیار کیا تھا۔
(تہذیب التہذیب ج1 ص 316)
تابعین کا تمام حدیثوں کو لکھ کر جمع کرنا
1۔امام زہری کی عادت تھی جو کچھ سنتے تھے سب لکھ لیتے تھے۔چنانچہ انہوں نے تمام سنن نبویہ وآثار صحابہ # لکھ کر جمع کرلی تھیں۔جیسا کہ صالح بن کیسان کہتے ہیں۔
قال لي ا لزهري تعال نكتب السنن فكتبنا ما جاء عن النبي صلي الله عليه وسلم وعن الصحابة فانه سنة فكتب
(منتخب کنز العمال ج4 ص61۔جامع بیان العلم ج1 ص76)
یعنی آئو ہم تم مل کر تمام احادیث نبویہ وآثارصحابہ کرام # کو لکھ ڈالیں کہ ایسا کرنا سنت ہے۔پس زہری نے سب لکھ ڈالا(یہ واقعہ نمبر5 سے الگ ہے۔)
2۔خلیفہ عمر بن عبد العزیز تابعی نے اپنی حکومت کے زمانے میں جمع وکتابت احادیث پر خاص توجہ کی۔خود بھی آپﷺ کی لکھوائی ہوئی کتاب الصدقہ عبد اللہ بن عمر ٭ کے بیٹوں سے نقل کرائی (جیسا کہ اوپر )احادیث فعلیہ''کے ذیل میں بیان ہوچکاہے۔اور تمام شہروں کے علماء حدیث کو نیز خاص خاص اصحاب حدیث کو جمع و کتابت احادیث کا حکم بھیجا۔چنانچہ تمام شہروں کی بابت حوالہ ملاحظہ ہو۔
فتح الباری میں ہے۔
كتب عمر بن عبد العزيز الي لافاق انظروا حديث النبي صلي الله عليه وسلم فاجمعوه (پہلا پارہ ص69)
یعنی خلیفہ مذکور نے تمام مقاموں میں تحریری حکم جمع احادیث کا بھی بھیجاتھا۔
3۔خاص نام زد کر کے جن علماء کو دیا۔ان میں سے ایک سعد بن ابراہیم ہیں ۔وہ خود کہتے ہیں۔
قال سعد امرنا عمر بن عبد العزيز بجمع السنن فكتبنا هاد فترا دفترا
(جامع البیان العلم ج1 ص 76)
کہ ہم نے خلیفہ مذکور کے حکم سے حدیثوں کے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے تھے۔
4۔اُن علماء میں سے دوسرے بزرگ ابو بکر بن حزم ہیں۔امام بخاری فرماتے ہیں۔
كتب عمر بن عبد العزيز الي ابي بكر بن حزم انظر ما كان من حديث فاكتبه (بخاری احمدی ج1 ص 20)
یعنی خلیفہ مذکور نے ابن حزم کو احادیث نبویہ لکھنے کا حکم دیا۔چنانچہ انھوں نے بھی حدیثیں لکھیں۔
5۔ان محدثوں میں تیسری ہستی امام زہری کی ہے۔ابن حجر لکھتے ہیں۔
دون الحديث ابن شهاب الزهري بامر عمر بن عبد العزيز ثم كثر التدوين والتصنيف
(فتح الباری انصاری۔پ1 ص 106)
یعنی امام زہری نے بھی خلیفہ ء مذکور کے حکم سے (علاوہ ذاتی طور سے احادیث جمع کرنے کے جس کا زکر اوپر نمبر اول میں ہوا ہے دوبارہ کتابوں میں حدیثیں مدون اور جمع کیں(ابن حجر کہتے ہیں۔)پھر اس کے بعد تو کثرت سے حدیث کی کتابیں مدون ہوئیں۔اور تصنیف کی گئیں۔ان کتابوں کا مفصل حال۔کتاب کشف ظنون جلد دوم نمبر 37 میں زیر عنوان السنن الموجودۃ قبل الصحیحین مرقوم ہے۔ان میں سے مسند ابی دائود طیالسی مسند شافعی موطا مالک طبع ہوکر شائع بھی ہوچکی ہے۔او سنن سعید بن منصور مسند ابو عوانہ مصنف و مسند ابن شیبہ وغیرہ قلمی ہیں۔جو مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔جب یہ ظاہر ہوچکا کہ امام زہری کے بعد تدوین احادیث کا سلسلہ بکثرت جاری ہوگیا تھا۔تو ہم کو اس امر کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔کہ تابعین کے بعد والے قرون کی تالیفات کی فہرست لکھیں۔مختصر طور سے یوں سمجھ لینا چاہیے۔کہ محدثین کرام نے احادیث کی کتابت اور تدوین کے تین دور قائم کیے ہیں۔پہلا دور 100 ہجری تک قائم رہا۔دوسرا دور 150 ہجری تک اور تیسرا دور تیسری صدی تک قائم رہا۔پہلے دور کا تمام سرمایہ دوسرے دور کی کتابوں میں ہے۔اوردوسرے دور کی کتابوں کا تمام مواد تیسرے دور کی کتابوں میں کھچا دیا گیا۔ان دونوں دور کی کتابوں کا سرمایہ آج ہزار ہا اوراق میں ہمارے پاس موجود ہے۔الحمد للہ
درخانہ اگر کس است حرفے بس است
فصول مذکورہ بالا کے پڑھ لینے کے بعد ناظرین باتمکین کو بخوبی واضح ہوگیا ہوگا کہ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ حدیثوں کی تدوین ددسری صدی ہجری میں ہوئی۔ان کا یہ زعم کس قدر غلط باطل اور حقیقت سے بعید ہے۔نیز جن ک نزدیک کتابت و تدوین احادیث''بدعۃ حسنہ''کی ایک عمدہ مثال ہے۔ان کی نظر کس قددر کوتاہ اور ان کی تحقیق کتنی خلاف واقع ہے۔کیونکہ حقیقت اصلیہ تو یہ ہے کہ کتابت و جمع احادیث آ پﷺ کے حکم او فعل نیز صحابہ # کے عمل سے ہوئی ہے۔پہلی اور دوسری فصل کو پھر پڑھیے اور ٖغور سے دیکھیے۔
رہا یہ عمل کے آپ ﷺ نے اپنی حدیثوں کو لکھنے سے منع فرمایا دیا تھا۔ جیسا ک صحیح مسلم میں ہے۔
قال النبي صلي الله عليه وسلم لا تكتبوا اني ومن كتب عني غير ا لقران فليمحه (ج2 ص414)
یعنی میری حدیث نہ لکھو جس نے لکھی ہو وہ مٹا دے۔سو واضح ہو کہ یہ حکم صرف زمانہ نزول قرآن تک مختص تھا۔اس لیے کہ اس وقت قرآن لکھا جا رہا تھا۔اس کے ساتھ حدیثوں کے مل جانے کا خدشہ تھا۔جب قرآن کتابی صورت میں جمع ہوچکا۔تو آپﷺ نے حدیثیں لکھنے کی اجازت دے دی۔بلکہ خود بھی لکھوائیں۔اس طرح پہلی ممانعت کو خود ہی اٹھا دیا۔جیسا کہ اس باب کی فصل اول میں مفصل بیان ہوچکا ہے۔محدثین عظام کی تحقیق بھی یہی ہے ۔چنانچہ ملاحظہ ہو۔فتح الباری شرح بخاری میں ہے۔
النهي مقدم والاذن نا سخ له (پ1 ص106)
منہاج شرح مسلم میں ہے۔
انهي منسوخ (ج2 ص 415)
رسالہ ناسخ منسوخ لا بن الجوزی ہے۔
نهي في اول الامر ثم اجازالكتابة (طبع مصر ص13)
ابن قتیبہ اپنی کتاب تاویل مختلف الحدیث میں لکھتے ہیں۔
نهي في اول الامر ان يكتب ثم راي ان تكتب وتقيد (ص 365 طبع مصر)
ان سب عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے کی ممانعت کا حکم پہلے ہوا تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔اور حدیث لکھنے کی اجازت ہوگی۔
امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ منع کی روایت مرفوع ہی نہیں ہے۔بلکہ موقوف ہے۔یعنی آپ ﷺ کا فرمان نہیں ہے۔بلکہ راوی صحابی کا قول ہے۔جو اجازت کی حدیث مرفوع سے مدفوع ہے۔
فتح الباری میں ہے۔
الصواب وقفه علي ابي سعيد قاله البخاري وغيره (پ1 ص106)
یعنی روایت مسلم مذکورہ کا راوی ابو سعید پر موقوف ہونا ہی صواب اور درست ہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے حدیثوں کے لکھنے کے ثبوت میں قرآن مجید کی ایک آیت سے دلیل پکڑی ہے۔طحاوی لکھتے ہیں۔
قال ابو حنيفة لما امرالله بكتابة الدين خوف الريب في قوله تعالي ولا تساموا ان تكتبوه صغيرا اوكبيرا الي اجله ذلكم اقسط عند الله واقوم للشهادة وادني ان لا ترتابوا مكان العلم الذي حفظه اصعب من حفظ الدين احري ان يباح كتابته خوف الريب فيه والشك
(شرح معانی الاثار ج2 ص384)
یعنی جب کہ اللہ تعالیٰ نے شک و شبہ سے بچنے کےلئے قرض کے لکھ لینے کا حکم اس آیت میں دیا ہے۔ارشاد ہے قرض تھوڑا ہویا زیادہ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔اسے مدت سمیت لکھو۔یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے۔اور شہادت کو ٹھیک رکھنے والا ہے۔تم شک و شبہ میں نہ پڑو گے۔تو علم حدیث کا یاد رکھنا قر ض کے یاد رکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔لہذا حدیث میں شک و شبہ سے بچنے کےلئے اس کے لکھنے کی اجازت و اباحت زیادہ ضروری ہے۔سبحان اللہ کیا خوب استدلال ہے۔
علامہ ابو الملح نے ایک اور ہی آیت سے دلیل پکڑی ہے فرماتے ہیں۔
يعيبون علينا الكتاب وقد قال الله علمها عند ربي في كتاب
(دارمی ص68 و جامع بیان العلم ص73 ج1)
یعنی لوگ ہم محدثین پر حدیثوں کے لکھنے کے باعث عیب لگاتے ہیں۔اور اعتراض کرتے ہیں۔حالانک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔کہ''قرون کا علم اللہ کے پاس لکھا ہوا ہے۔''پس اللہ تعالیٰ جس کی شان یہ ہے۔
لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ﴿٥٢﴾
جو اُسی آیت کے بعد مذکور ہے۔کہ وہ نہ غلطی کرے۔نہ بھولے پھر بھی وہ لکھتا ہے۔تو ہم جوغلطی کرتے ہیں اور بھولتے ہیں۔
لان الانسان مركب النسيان
یعنی آدم سواری ہے بھول کی بھول چوک انسان پر سوار رہتی ہے۔تو ہم احادیث کو کیوں نہ لکھ لیا کریں۔یہ استدلال بھی خوب ہے۔
وليكن هذا اخر ما اردت ايراده في هذه الرسالة النافعة والحمد لله في الاولي والاخرة ختم الله لي بالحسني واذاقني حلاوة رضوانه الاسني
يلوح الخط في القرطاس دهرا
وكا تبه رميم في التراب
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب