السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
موجودہ زمانہ میں جو انکم ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، یہ انکم ٹیکس اگر کوئی شخص زکوٰۃ سے ادا کرے، تو جائز ہو گا، کیونکہ زمانہ رسالت میں یہ ٹیکس نہیں تھا ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ کے آٹھ مصارف قرآن شریف نے خود بتائے ہیں، اور﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنَ الایة﴾ چونکہ انکم ٹیکس کے مصارف وہ نہیں بلکہ بہت سے مصرف شرعاً ناجائز بھی ہیں، اس لیے زکوٰۃ اس میں محسوب نہ ہو گی۔ (۲۰ رمضان ۱۳۵۰ھج اہل حدیث)
تشریح:…زکوٰۃ آٹھ قسم کے آدمیوں پر تقسیم کرنے کا حکم ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے :
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَة مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ (التوبة:۶۰)
’’یعنی زکوٰۃ فقیروں کے لیے ہے، اور مسکینوں کے لیے ہے، اور ان لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عامل ہوں اورمؤلفۃ القلوب کے لیے ہے، اور گردن چھڑانے کے لیے اور قرض داروں کے لیے ہے، اور اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لیے ہے ، اور مسافر کے لیے ہے، الیٰ آخرہ‘‘
(حررہ عبد العزیز عفی عنہ) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۶۸)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب