سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) خواتین کی تعلیم اور ملازمت کا مسئلہ

  • 3548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2378

سوال

(70) خواتین کی تعلیم اور ملازمت کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خواتین کی تعلیم اور ملازمت کا مسئلہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام غزالی اور علامہ اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے۔کہ وہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کو ضروری نہیں سمجھتے  تھے یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے۔کہ وہ خدانخواستہ عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔وہ مخالف ہر گز نہ تھے۔وہ بس یہ چاہتے تھے۔کہ عورتیں صرف وہ تعلیم حاصل کریں۔جو ان کی فطرت ۔خلقت۔اور فرائض مخصوص کے مطابق زندگی میں ان کے اور خاندان  کے کام آئے۔اور صحیح یہ ہے کہ قدرت نے عورتوں کے لئے الگ دائرہ کار مقرر کیا جس کی تشریح کی یہاں ضرورت نہیں۔کیونکہ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے۔ کہ بے شمار کام ایسے ہیں جو مرد  نہیں کر سکتے۔اور  لاتعداد کام ایسے ہیں جو عورتوں کی طاقت سے باہر ہیں۔لہذا ہرگروہ کو ان کے کاموں  کی نسبت سے تعلیم دینی  چاہیئے۔یہ اعلیٰ اور  ادنیٰ تعلیم کا معاملہ نہیں۔بلکہ ہر کسی کو اس کے مزاج اور فطری تقاضوں کے مطابق مناسب تعلیم دینے کا مسئلہ ہے اور یہ خیالات صرف غزالی اوراقبال ہی کے نہیں۔خود سرسید  احمدخاں کے بھی ہیں۔جو مغربی انداز کے ہمارے یہاں اولین بڑے علم بردار تھے۔سر سید احمد خاں کی یہ  سرگزشت دیکھنی ہو و ان کا سفر نامہ پنجاب مرتبہ سید اقبال علی پڑھیے۔!

اور جہاں تک مخلوط کا تعلق ہے مذکورہ بالابزرگ اور دوسرے ہزاروں علماء و حکماء اسے خطرناک سمجھتے تھے۔کیونکہ اس کا ان معاشرتی و اخلاقی احکام سے تصادم ہے جو قرآن مجید میں  مذکورہ ہیں یا جن کا اوپر زکر آیا۔یہ امر عورتوں پر پابندی یا سختی کے ضمن میں نہیں آتا۔اس میں عورتوں کے لئے برکتیں۔اور حکمتیں ہیں۔ان میں سب سے بڑی حکمت عورتوں کامعاشرتی تحفظ ان کی عزت کی حفاظت اورخاندانی زندگی کا استحکام ہے۔

اور عورتوں کو ہر سطح تک تعلیم دی جاسکتی ہے۔بشرط مذکورہ بالا مصلحتوں اور حکمتوں کو گزند نہ پہنچے اور یہ سب عورتوں کے فائدے کی خاطر ہے ان پر زیادتی نہیں۔

مخلوط تعلیم اور یکساں نصاب پربحث کی ضرورت نہیں۔اس کا نفع نقصان سب کو معلوم ہے اگرتعلیم مخلوط نہ ہو تو عورتوں کو اختیار دیاجائے کہ وہ ہر شعبہ تعلیم میں جسے وہ اپنے لئے مفید سمجھتی ہیں۔داخلہ لے لیں یعنی ان سب شعبوں میں جو انہیں اپنے لئے  مفید نظر آیئں یا معاشرے کے لئے مفید ہوں۔لیکن مخلوط ملازمتوں کا مسئلہ جدا ہے۔مخلوط ملازمتوں کے سلسلے میں جو قباحتیں ہیں۔وہ سب کو معلوم ہیں۔ظاہر ہے کہ عورتیں اپنے لئے جن مضامین کو مفیدخیال کریں گی۔اس میں اکثر ایسے ہونگے۔ جو مردوں کےلئے بیگانہ اور نا مانوس  ہوں گے۔ ا س لئے اگر  عورتوں کی  تعلیم کا نظام یکسر علیحدہ ہوگا۔تب جاکر انہیں فائدہ ہوگا اس کا واحد علاج عورتوں کے لئے بالعموم الگ نصابات اور ایک الگ خواتین یونیورسٹی ہے مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں نصاب کا فلسفہ غیر قدرتی اور غیر معقول ہے یہ بات اور ہے کہ آجکل کی دنیا میں ااس غیر معقول فلسفے کو اپنایاجارہا ہے۔اگرچہ اس میں عورتوں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔لیکن رواج عام کا غلبہ زبردست شے ہے۔اس کے سامنے ہر کوئی دب جاتا ہے۔اس رواج کو تبدیل کرنے کےلئے ایک معاشرتی انقلاب کی ضرورت ہے۔مگر ایسا انقلاب کوئی آسان کام نہیں۔ سب سے پہلے فکری تبدیلیوں کی ضروررت ہے۔اور یہ تبدیلیاں مغربی معاشرتی فلسفوں پر  مستقل و منظم تنقید کرتے رہنے سے اور عملی تجربوں کے حوالے سے انکے خطرات سے آگاہ کرتے رہنے سےممکن ہونگی جب تک ہمارے یہاں مغربی معاشرتی فلسفہ غالب ہے ہماری سب  دلیلیں بے کا ر   اور بے اثر ہوں گی۔لہذابقول علامہ اقبال مٖغربی معاشرتی حکمت پر بھر پور حملہ(علمی ہتھیار سے)لازمی ہے۔

ملازمتوں میں عورتوں کی شرکت ایک اہم اور  نازک معاشرتی افکار کے زیر اثر نقطہ نظر کے دب جانے کا نتیجہ ہے اگر ہم اس معاملے میں اسلام کی معاشرتی حکمتوں سے ہدایت لیں تو ہمیں اس شرکت میں بے شمار قباحتیں نظر آیئں  گی   بلکہ  آج کل کے حالات میں ملازمت بڑی حد تک غیر اخلاقی اور نامناسب نظر آئیں گی کیونکہ اسلام کی معاشرتی حکمت میں عورتوں کا فرض بچوں کی پرورش اور خانہ دار ی ہے۔اور اس کے بدلے مردوں کا فرض عورتوں (بیویوں) کی معاشی کفالت ہے۔تاکہ وہ بے فکر ہو کر اپنے خاندان  کی خدمت کر سکیں۔یہ خدمت ایک بہت برا منصب ہے۔ اور جیسا کہ بعض روشن خیال حضرات باورکراتے ہیں۔یہ کوئی کمتر فریضہ نہیں۔بلکہ اصل تعمیر انسانیت اسی فریضے میں مضمر ہے۔اور اس کی انجام دہی مرد کا کام اور اگر ان اصطلاحوں میں سوچیں۔تو خادم  کاہے۔جو بنی نوع کی اس معمار کو اس کے اہم فریضے کی ادایئگی کے قابل بناتا ہے۔اس عمل یادو طرفہ عمل میں عورت کا درجہ بلند تر ہے۔شوہر کا درجہ دوسرے نمبر  پر آتا ہے۔مگر مغٖربی معاشرتی تصورات نے اس تقابل کو  منقلب  کر کے معاملہ زیر زبر کر دیا ہے۔یہ تو تھا اصولی عقیدہ ایک مسلمان کی حیثیت سے لیکن سوال آجکل کے حالات کا ہے۔اسلئے موجودہ حالات میں عورتوں کی ملازمت کے جواز یا عدم جواز پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلے اس سوال کا جواب چاہیے کہ عورتیں ملازمتوں کی شائق یا طلب گار کیوں ہیں۔؟مغربی ماحول میں تو ان کا شوق ملازمت اس لئے ہے کہ وہاں ایک خاندان اور گھر کا تصور  ایک فرسودہ عمل ہے۔عورتیں نہ صرف ہم مرتبہ ہونے کا دعویٰ کر کے گھریلو آذادی کی طلب گار ہیں۔بلکہ معاشی طو سے آزاد ہوکر ان تمام بندشوں سے بھی آذاد ہو جاناچاہتی ہیں۔جو خاندانی زندگی میں ان پرعائد ہوتی ہیں۔وہ خود کفیل ہوکر ہمہ رنگ آذاد شہری بننا چاہتی ہیں۔اس میں انھیں ہزارمشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ لیکن وہ آذادی کامل کے لئے ہر مشکل کو برداشت کرتی ہیں۔

لیکن اس میں انھیں ایک آسانی بھی ہے۔اور وہ یہ کہ مذکورہ معاشرہ اس مسئلے میں ان کا ہم خیال ہے۔اور ہر چند کے اس میں بے ا خلاقی کے سارے عیب پائے جاتے ہیں۔لیکن وہ معاشرہ ان اخلاقی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔لیکن ہمارے مسلم ملک میں ایک خاتون کی شکل یہ ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے کے نزدیک ملازمت غیر مردوں سے خلط ملط ہر حال میں ناپسندیدہ سمجھا جاتاہے۔

دوسرا سوال یہ  ہے کہ ایک مسلمان عورت ملازمت کی طرف کیوں راغب ہوتی ہے۔اس کے کئی اسبا ب ہیں جن میں سے بعض واقعی قابل توجہ ہیں۔اگرچہ  عمومی رویہ محض مغرب کی نقالی سے ابھرا ہے۔مغرب کی تقلید میں ہماری انتہا پسند خواتین کی آ ذادی کی قائل مردوں کی ہر قسم کی بالادستی کی مخالف اور  ان کے ہر قسم کیدست نگری سے گریزاں ہیں۔یہ مغربی تعلیم اور نقالی کا نتیجہ ہے۔اورتسلی کا پہلوصرف  یہ ہے کہ یہ ابھی سرمایہ دار اور دانشور طبقے تک محدود ہے۔اورمعاشرے میں ان طبقات کے خلاف یک گونہ تعصب بھی موجود ہے۔

باایں ہمہ عورتوں میں ملازمت کا میلان بڑھ رہا ہے۔اور اسکے کئی اسباب ہیں۔جن میں عورتیں حق بجانب معلوم ہوتی ہیں۔اور یہ اسباب قابل تجربہ ہیں۔

ایک بڑا سبب عورتوں کے اندرخوف کا یہ ہے کہ ناجانے مرد حضرات شادی کے بعد  کب بے وفائی پر اتر آیئں۔اوردوسری شادی کر کے  پہلی بیوی کو بے سہاراچھوڑ دیں۔اورسچ یہ  ہے کہ مردوں کا یہ رویہ اور عورتو ں  کا یہ خوف ہر دو مفروضے فرنگی تہذیب کے آوردہ ہیں۔تعداد ازواج پہلے بھی تھی۔مگر مردوں کی روش کفالت کے معاملے میں غیرزمہ دارانہ نہیں تھی۔سارا خاندان اس کے باوجود متوازن  چلتاتھا۔شادی ایک مقدس عہد نامہ تھا۔جس کا ہر حال پاس رکھا جاتا تھا۔اوراس کی پاسداری کرانے میں خاندانوں کا بڑا حصہ تھا۔پہلی بیویاں بے سہارا نہ رہتی تھیں۔ان کا خاندان میں بڑا حصہ تھا۔ پہلی بیویاں بے سہارا نہ رہتی تھیں۔ان کی خاندان پرورش کرتے تھے۔لیکن مغربی فکرمیں پلا ہوا مرد انفرادیت اورفردیت کا قائل ہے۔اور آذاد انتظام ضروری معلوم ہوتاہے۔یقیناً اس میں کچھ وہم اور کچھ مغربی پروپگنڈے  کا اثر بھی ہے۔ لیکن خوف حقیقی بھی ہے۔اوراس میں زمہ داری مردوں کی زیادہ ہے۔

جب تک یہ خوف اور وہم ہے۔اور اس مغربی رواج کو مقبول عام  حاصل ہے۔ جسے اب ہمارے ملک کے تعلیم یافقہ طبقے نے مستحکم کردیاہے۔عورتیں ضرورتاً یا بے ضرورتاً ملازمت کی طلب گار رہیں گی۔خصوصاً جب کے عورتوں میں اعلیٰ تعلیم کی شرح مردوں کے برابر بلکہ زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ورنہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی جدو جہد اور مقصد کوئی نہیں۔ان میں سے اکثر گھریلوزندگی کو بوجھ خیال کرتی ہیں۔اور جب سے شانہ بشانہ کاافسانہ چلاہے۔ملازمتوں کی ترغیب اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔اور تعجب یہ ہے کہ صدیوں سے رائج خانگی زندگی میں عورتوں کی اندرون خانہ خدمت اور  فرض کی بجاآاوری کو بے کاری کا نام دیا جارہا ہے۔حالانکہ موجودہ روش در حقیقت بے کاری کے برابر ہے۔کیونکہ اس سے گھر اور خاندان ویران ہو رہے ہیں۔ اگلے زمانے کی عورتیں خاندان(گھر)کی زندگی کا بڑا بوجھ اٹھاتی تھیں۔ اسے بیکار کہنا حماقت و جہالت سے کم نہیں ایک  خیال یہ بھی چل نکلا ہے کہ ملازمتوں کے زریعے گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ افسانہ ہے کیونکہ عورتوں کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔جوعام خاندانوں کے بس کی بات نہیں۔

ان سب باتوں کے باوجود عورتوں کی ملازمت کا رواج اب جڑ پکڑ چکاہے۔اور اسے وعظ و تلقین سے ہٹا یا نہیں جاسکتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کے لئے تعلیمی نصاب شروع ہی سے  اس طرح مرتب کیا جائے کے ان کے حسب حال ملازمتوں میں ان کے کام آئے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ  یہ معاملہ خود عورتوں کے اپنے سوچنے کا ہے۔اس میں مردوں کی مداخلت ناگوار اور ناپسندیدہ ہے۔معاشرہ اب صنعتی ہے۔زرعی ہے خاندانی نظام اب ختم ہو رہا ہے۔اور خاندانی کفالتیں  اب ختم ہو چکی ہیں۔لہذا نئے حالات میں عورتوں کو بھی اب اپنی تعلیم اور ا پنے نظام کفالت پر خود غور کرنے کا موقع دیناچاہیئے۔مجھے امید ہے کہ وہ فضا میں اسلام کی معاشرتی حکمتوں پر ٹھنڈے دل  سے غور کر سکیں گی۔اور ایسی تعلیم اور ایسی ملازمتوں کی خواہش مند ہوگی۔جو ان کے لئے مفید اور باوقار ہوں۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 140-144

محدث فتویٰ

تبصرے