سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) زکوٰۃ اور عشر سے مدرس کی تنخواہ دی جا سکتی ہے یا نہیں۔

  • 3547
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1106

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زکوٰۃ اور عشر سے مدرس کی تنخواہ دی جا سکتی ہے یا نہیں یا مدرسہ کے کسی خرچ میں مثلاً کتب خانہ یا مرمت میں لگا سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے، فی سبیل اللہ کی تفسیر میں بعض علماء عام کرتے ہیں، وہ ہر نیک کام میں زکوٰۃ خرچ کرنا جائز کہتے ہیں نیک کاموں میں مدرسین کی تنخواہ اور مدرسہ کی ضروریات بھی شامل ہیں۔ (۲۶ رجب ۱۳۶۲ھ)
شرفیہ:… میں کہتا ہوں کہ فی سبیل اللہ کی تفسیر میں بعض علماء نے کتنی وسعت کی ہے کہ کوئی شے بھی اس کے شمول سے باہر نہیں جا سکتی، تو پھر آٹھ مصارف کے بیان کی کیا ضرورت تھی، غور کیا جائے کہ رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین وغیرہ جمہور صحابہ کو شہر کی حفاظ، خندق وغیرہ مساجد، کنواں اور مردوں کے کفن و دفن پلوں وغیرہ کی ضرورت تھی، مگر مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی بھی آپ نے یا خلفاء راشدین نے زکوٰۃ کے مال میں سے ان امور پر صرف کیا ہو، اس سے ثابت ہو گیا کہ باوجود ضرورت مال زکوٰۃ کو ان پر صرف نہ کرنا، اور اس طرح سے ان امور کو سر انجام دینا، مال زکوٰہ کو ان پر صرف نہ کرنے کی بین دلیل ہے، اور لفظ فی سبیل اللہ کا عموم یا کلیہ نہ ہونے پر بھی صحیح مسلم وغیرہ کی مرفوع حدیث بھی ہے کہ عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ مال زکوٰۃ کی تحصیل پر ہم کو مقرر کر دیں تاکہ ہم بھی وصول کر کے کچھ معاوضہ لیں، تو رسول اللہﷺ نے ان کو فرمایا: مال زکوٰۃ ادساخ الناس ہے،  ((وانہا لا تحل لمحمد دلالال محمد ﷺ))
ثابت ہوا :کہ سادات بنی ہاشم کی ضرورت کو پورا کرنا فی سبیل اللہ میں داخل تھا، مگر پھر بھی ان پر جائز نہیں، اور مفت بھی نہیں محنت تھی، مگر پھر بھی ناجائز ثابت ہوا کہ ویسے ہی مساجد خانہ خدا پر بھی ادساخ الناس صرف کرنا جائز نہیں، کفن دفن پر بھی جائز نہیں کہ مال زکوٰۃ حق زندوں کا ہے، مردوں کا نہیں، ورنہ فقراء و مساکین وغیرہ مصارف مذکورہ فی القرآن زندوں اور مردوں دونوں کا حق مساوی ہو گا، تو مال زکوٰۃ زندوں کا حق مردوں ہی پر پورا نہ ہو گا، چہ جائیکہ قلعے مساجد وغیرہ ان کی تجدید ہی مشکل ہو گی، اذ لیس فلیس اور پلوں اور سڑکوں قلعوں، نہروں اور چشموں، مسافر خانوں، لنگر خانوں، شہروں کی فصیلوں، غرباء تجار جن کے پاس کاروبار چلنے کو روپیہ کم ہو، اور ان کو اور کاشتکاروں کو قرض دینا وغیرہ کہ یہ فی سبیل اللہ کے عموم میں داخل ہیں، ان پر صرف کیا جائے گا، تو اس صورت میں بھی زندوں، فقراء و مساکین وغیرہ مصارف کے لیے خاک بھی نہیں بچ سکتا اور  ((یذکر عن ابی اساس قال حملنا النبی ﷺ علی ابل الصدقة للحج انتہیٰ ما فی ترجمة البخاری)) اول تو یذکر ہے، دوم اس میں تصریح نہیں کہ وہ لوگ غنی تھے، اور صرف حج ہی باعث حمل تھا، بظاہر وہ زکوٰۃ کے مستحق معلوم ہوتے تھے، یہی جواب عبد اللہ بن عباس کے قول ((یعطی فی الحج)) کا ہے، اور  ((قال الحسن ان اشتری اباہ من الزکاة جازبه فی الرقاب)) کا ایک فرد ہے، اور اغنیاء کو مال زکوٰۃ لینے کے متعلق حدیث مرفوع میں آ چکا ہے:
 ((لغار فی سبیل اللّٰہ او لعامل علیھا او لغارم او لرجل اشتراء بہا بما له او لرجل کان له جار مسکین فصدق علی المسکین فابدی المسکین علی الغنی)) (رواہٗ مالک و ابو داؤد مشکوٰة ص ۱۶۱ جلد نمبر۱))
خلاصہ: یہ کہ فی سبیل اللہ کی تفسیر میں ایسی وسعت نہیں کہ دنیا کی تمام ضروریات کو شامل ہو، جیسے کہ بعض علماء نے حواشی مذکورہ میں کیا ہے، پس اس سے جہاد میں صرف کرنا مراد ہے، ہاں اگر کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح کی نص سے کسی شئی میں کسی کو علاوہ جہاد کے صرف کرنے میں ثابت ہو جائے تو فبہا ورنہ نہیں، اور دینی مدارس جہاں کتاب و سنت کی تعلیم باقاعدہ ہوتی ہو کتاب و سنت پر عمل بھی صحیح طور پر ہو، صورت و سیرت کتاب وسنت کے مطابق ہو وہاں دینی جائز ہے، اور صرف یہی نہیں کہ تعلیم انگریزی، ہندی تعلیم وغیرہ دنیوی علوم کی ہو، اور برائے نام کچھ عربی کا قلیل اقل شغل رکھ لیا ہو، نہ صورت نہ سیرت نہ نماز کی پابندی نہ اور فرائض کی نہ اخلاق حمیدہ نہ اساتذہ پابند شرع بلکہ بعض شرع کا مذاق اڑانے والے تو وہاں قطعاً جائز نہیں ، پس قسم اول ہی کو دینی جائز ہے، اور مدارس مذکورہ جن کو جائز ہے، ان میں طالب علم اصل ہیں، جو عموماً نادار مفلس ہوتے ہیں، یا جن کو والدین وغیہ علم دین حاسل نہیں کرنے دیتے اور وہ گھر سے نکل کر عموماً پردیس پڑھتے ہیں، وہ ابن السبیل بھی ہوتے ہیں، مسکین فقیر بھی پھر ان کے خوردونوش، لباس و قیام ، کتاب وغیرہ کا انتظام جس میں مدرسین جز اول میں پھر اگر وہ نادار ہوں، یعنی ہو صاحب جائداد نہیں کہ درس دے کر ان کو اپنی ضروریات کے لیے مدرسہ سے لینے کی ضرورت نہ ہو تو پھر ان کو بھی جائز نہیں ورنہ جائز ہے کہ اگر وہ اور کام کرتے ہو، تنخواہ سے اپنی ضروریات پوری کرتے، اب مدرسے سے کریں گے، مدرسہ کی تعمیر کتب کی خرید، جلد سازی بھی بلکہ اگر مدرسہ میں اور ملازم منشی وغیرہ کی ضرورت ہو، وہ بھی مدرسہ میں داخل ہے، جیسے بیت المال یا تحصیل زکوٰۃ میں قرون ثلاثہ میں تھا، ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ متولی اور ناظم مدرسہ پابند شرع خدا ترس ذی علم جو کتاب و سنت سے اچھی طرح واقف ہو، اور انتظام کا مادہ بھی۔ اور حتی الامکان وہ زکوٰۃ کے مال کو وہیں صرف کرے، جہاں جہاں کرنا چاہیے، اس لیے کہ مدارس میں اور طریق سے بھی چندہ وصول ہوتا ہے، اور مدوں میں حتی الامکان اور چندوں سے صرف کرے، ہاں چرم قربانی بھی مدارس مذکورہ دینیہ میں دی جا سکتی ہیں، اور جب ثابت ہو چکا کہ قرآن شریف میں  {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ الایة} میں لام لبیان المصرف ہے للتملکیک نہیں کما فی الفتح اور مصرف صرف آٹھ ہی ہیں، اور لفظ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد میں ہی صرف کونا مراد ہے، ورنہ اگر ایسا عام مراد ہوتا جیسے بعض علماء نے لکھا ہے کہ کوئی چیز کوئی مصرف اس سے باہر نہیں رہتا، دنیا کے مصارف اس میں آجاتے ہیں، تو پھر آٹھ کا بیان ہی معاذ اللہ فضول ہے:  ((وَاِذْا لَیْسَ فَلَیْسَ)) اگر یہ لفظ اول آیۃ میں ہوتا تو اس کے بعد کو اس کی تفسیر بنایا جاتا، اور اگر سب سے آخر ہوتا تو تعمیم بعد تخصیص سو یہ بھی نہیں، تو پھر سوا اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا، کہ یہ ایک مستقل چیز ہے جو اقسام کو جو اس کے ساتھ مذکور نہیں، ان کو شامل ہو، اس لیے کہ تقسیم اقسام میں تقابل اور ہر ایک دوسرے کا قسم ہوتا ہے، اور عموم مذکور میں شمول ہوتا ہے، لہٰذا تفسیر بعض علماء قطعاً باطل بے مصرف جہاد ہی مراد ہے۔
اور یہ جو کہا جاتا ہے، اگر زکوٰۃ میں اتنی وسعت نہ کی جائے تو اور مصارف کفن دفن ہوتی مساجد وچاہ وغیرہ کیسے نہیں تو جواب یہ ہے کہ کتاب و سنت میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال صرف کرنے کا ذکر یا ترغیب ہے، اس میں سے ان امور کو سر انجام دیا جا سکتا ہے بلک دیا جاتا تھا، زکوٰۃ کے مصارف کو تو خود اللہ تعالیٰ نے معین کر دیا ہے، اور جانتا بھی ہے، اور تھا کہ فلاں فلاں امور کی ضرورت ہو گی، پھر بھی آٹھ مصارف کو بیان کیا، عام نہ رکھا، ہاں اور طرح اور مصارف یا اور اشیاء کو بیان کر دیا، وہ یہ ہے:
﴿قال اللّٰہ تعالیٰ وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوة وَاَتُوْا الزَّکَوٰة وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ الایة﴾ (پ۱ ع ۳)
﴿وقال اللّٰہ تعالیٰ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرِ فَلِاَنْفُسِکُمْ الایة﴾ (پ ۳ ع۵)

دیکھئے زکوٰۃ کے بعد جس چیزکا بیان ہے، وہ ہر قسم کے خرچ کو شامل ہے، جو مشروع ہو۔
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ ان فی المال لحقاً سوی الزکوٰة ثم تلا لِیْسَ البِرَّ اَنْ تَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ الایة)) (رواہ الترمذی وابن ماجه والدارمی مشکوٰة صفحه ۱۶۹ جلد ۱)
((وعن سعد بن عبادۃ قال یا رسول اللّٰہ ان ام سعد ماتت فای الصدقة افل قال الماء فخفر بیراً فقال ھذہ لام سعد رواہ ابو داود والنسائی مشکوٰة ص ۱۶۹ جلد نمبر ۱))
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ اذا مات الانسان انقطع عنه عملُه الامن ثلاثة اِلَّا من صدقة جاریة او علم ینتفع به او ولد صالح یدعو له رواہ مسلم مشکوٰة)) (ص۳۲ جلد نمبر۱)

((وقال ایضا ان مما یلحق للمؤمن من عمله حسنة بعد موته علماً ونشرہ وولداً صالحاً ترکه او مصحفاً ورثه او مسجدا بناہ او بیتا لابن السبیل بناہ او نھرا اجراہ او صدقة اخرجھا من ماله فی صحته وحیوته یلحقه بعد موته رواہ ابن ماجة والبیہقی فی شعب الایمان)) (مشکوٰة ص ۳۶ جلد ۱)
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ من بشتری بئر رومة یضعل ولوہ مع وله المسلمین بخیر له منھا فی الجنة الحدیث رواہ الترمذی والنسائی والداقطنی مشکوٰة)) (ص ۵۶۱ جلد۱)
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ من بنیٰ اللّٰہ مسجداً نبی اللّٰہ له بیتاً فی الجنة)) (متفق علیه، مشکوٰة ص ۶۸ ج۱)

ان امور مذکرہ میں مدارس کی تعمیر بھی آ سکتی ہے، اور ہر قسم کے مصارف و ضروریات عامہ اور ہر جگہ وہرحال و موقعہ ناداری کا عذر غلط ہے، جب بعض زکوٰۃ دیتے ہیں تو ویسے بھی خرچ کے مستحق بلکہ بعض اوقات ان پر یہ ضروری ہو جاتے ہیں، اور کفن دفن تو اہل اسلام پر موتی ٰ کا حق ہے۔
((قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنه )) (رواہ مسلم)
((وقالا الضًا الَبَسُوْا مِنْ ثِیَابکم البیض فانھا من خیر ثیابکم وکفنوا فیھا موتاکم)) (رواہ الخمسة الاالنسائی وصححه الترمذی) (بلوغ المرام)
ابو سعید شرف الدین دہلوی
جواباً عرض ہے کہ فقیر کے نزدیک تعمیر مدرسہ، تنخواہ مدرسین، امداد طلبہ وفی سبیل اللہ کے عموم میں داخل ہے، اس لیے کہ لفظ مذکورہ عام ہے، بعض مفسرین بھی اس طرف گئے ہیں، چنانچہ تفسیر خازن میں ہے:
((قال بعضھم ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی الغزاة فقط ولھذا اجاز بعض الفقہاء صرف سھم سبیل اللّٰہ الی جمیع الوجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الجسور والحصون وعمارة المسجد وغیر ذالک لان قوله وفی سبیل اللّٰہ عام فی الکل فلا یختص دون غیرہ انتہیٰ)) (مطبوعه مصر ص۲۴۰ جلد نمبر۱)
بعض مفسرین (قفال مروزی) وغیرہ نے کہا ہے کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے، پس اس کو محض غازیوں پر منحصر کرنا جائز نہیں، اس لیے بعض فقہا نے حصہ سبیل اللہ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز رکھا ہے، جیسے مردوں کا کفن دفن اور پل اور قلعوں کا بنانا، مساجد کی تعمیر اور اس کے سوا جیسے مدرسہ کی تعمیر وغیرہ اس لیے کہ اللہ کے فرمان فی سبیل اللہ ہر ایک کو عام ہے، پس وہ غزوہ ہی کے ساتھ خاص نہ ہو گا۔
امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
((اعلم ان ظاهر اللفظ فی قوله وفی سبیل اللّٰہ لا یوجب الفقراء علی الغزاة فلھذا المعنی نقل القفال فی تفسیرہٖ عن بعض الفقہائِ انھم اجاز واصرف الصدقات الیٰ جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الحصون وعمارة المساجد لان قوله فی سبیل اللّٰہ عام فی الکل انتھیٰ)) (مفاتيح الغیب مصری ص ۶۸۱ جلد ۲)
یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کے قول وفی سبیل اللہ کا ظاہر لفظ موجب حصر بر مجاہدین ہے، اس معنی کے لحاظ سے امام قفال مروزی (محدث) نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز رکھا ہے، جیسے تکفین موتی اور قلعوں کا بنانا، اور مساجد کی تعمیر اس لیے کہ اللہ کا قول وفی سبیل اللہ ہر امور (خیر) کو عام ہے، ایسا ہی خاتمہ المفسرین نواب صدیق حسن صاحب مرحوم نے تفسیر فتح البیان میں فرمایا ہے:  حیث قال
((ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی نوع خاص ویدخل فیه وجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الجسورو الحصون وعمارة المساجد وغیر ذلک انتہیٰ)) (فتح البیان، مصری ص ۱۲۴ جلد ۴)
’’بے شک لفظ (سبیل اللہ) عام ہے، پس اس کو ایک خاص قسم (غزوہ) پر منحصر کرنا جائز نہیں اس میں نیکی کے تمام اقسام داخل ہیں، کفن ،موتی ٰ، پل اور قلعوں کا بنانا، مسجدوں کی تعمیر کرناا ور بھی اس کے سوا (جیسے تعمیر مدرسہ وغیرہ) انتہیٰ‘‘
ان عبارات سے ظاہر و باہر ہے کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے، جو ہر نیک کام کو شامل ہے، اس میں طلباء کی امداد و اعانت بھی شامل ہے، جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے:
((من انفق ماله فی طلبة العلم صدق انه انفق فی سبیل اللّٰہ ص ۵۱ مطبوہ ہاشمی))
جس نے اپنا مال طالب علموں پر صرف کیا، اس کی بابت یقینا کہا جائے گا کہ یہ خرچ ثمانیہ سے سبیل اللہ میں داخل ہے، اسی طور سے تعمیر عمارت مدرسہ بھی مال زکوٰۃ سے فی سبیل اللہ میں داخل ہے،  ((کام مر بیانہ)) فقیر کے نزدیک اسی طور سے تنخواہ علماء مدرسین بھی سبیل اللہ میں داخل ہیں۔
امام شوکانی وبل الغمام میں لکھتے ہیں:
((ومن جملته فی سبیل اللّٰہ الصرف فی العلماء فان لھم فی مال اللّٰہ نصیباً سواء کانوا اغنیاء او فقراء بل الصرف فی ھذہ الجھة من اھم الامور وقد کان علماء الصحابة یاخذون من جملة ھذہ الاموال التی کانت تفرق بین المسلمین علی ھذہ الصفة من الزکوٰة اہ ملخصاً)) (دلیل الطالب)
’’منجملہ سبیل اللہ کے علمائے کرام پر صرف کرنا بھی ہے، اس لیے کہ ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے، خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر، بلکہ اس راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے، علماء صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی ان مالوں سے لیتے تھے جو مسلمانوں پر مد زکوٰۃ سے تقسیم ہوتے تھے۔‘‘
نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اس عبارت شوکانی کا ترجمہ اپنی کتاب  ((عرف الجادی)) میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
سبیل اللّٰہ مختص بہ جہاد نیست منجملہ سبل خدا صرف زکوٰۃ در اہل علم است۔ ایشاں را نصیبے در مال خدا است توانگر باشد یا گدا۔ بلکہ صرف آن دریں جہت ازہم امور است الخ (ص۷۱)
خاکسار تفسیر فی سبیل اللہ میں انہیں اصحاب مذکورین کا ہمنوا ہے، اور اب تک اسی خیال پر قائم ہے، سائل موصوف کی اگر اس سے تشفی ہو جائے اور خدا کرے کہ ہو جائے تو فبہاء ورنہ ان کے نزدیک جو حق ہو آشکارہ فرمائیں۔ والسلام (عاجز محمد قاسم محمدی بنارسی ، ۲۲ نومبر ۱۸ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۴۹)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 279

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ