سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فون پر بغیر ولی اور بغیر گواہوں کے نکا ح کرنے کا حکم

  • 3535
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1277

سوال

میں سولہ،سترہ سال کی عمر میں فون پر ایک لڑکے سے بات کرتی تھی۔ ہم نے مذاق میں بغیر کسی گواہ اور ولی کے میسج پر قبول ہے بول دیا، اس نکاح کا علم صرف مجھے اور اس کو تھا،ہم نے کوئی میاں بیوی والے تعلقات بھی نہیں رکھے۔ اس کے بعد میرا اس سے رابطہ ختم ہو گیا۔اب میں اٹھارہ سال کی ہوں، میرے گھر والے چاہتے ہیں کہ میری شادی ہو جائے، لیکن نکاح پر نکاح نہیں ہوتا، میں کیا کروں؟ کیا میرا نکاح ہوگیا؟ کیا میں اس سے میسج پر طلاق لوں؟اگر طلاق ہوگئی تو کیا میری عدت ہوگی؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی ساری زندگی شریعت کے احکامات کے مطابق گزارے، بعض نوجوان اس دھوکے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ابھی تو جوانی ہے اس کو اپنی مرضی اور خواہشات  کے مطابق گزار لیتے ہیں، عبادت کرنے کے لیے بڑی زندگی باقی ہے، بڑھاپے میں عبادت کر لیں گے ۔ یہ شیطان کا دھوکہ اور فریب ہے۔
کیا آپ غیب جانتے ہیں کہ آپ کی عمر 50، 60 سال یا اس سے زیادہ ہوگی؟
 کیا موت نوجوانوں کو نہیں آتی؟
 کس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑھاپے میں عبادت کر لیں گے؟
 کیا آپ جانتے ہیں کہ بڑھاپے میں آپ کو توبہ کی توفیق مل جائے گی؟
 کتنے ہی ایسے بوڑھے ہیں جو بستر مرگ پر ہیں لیکن نماز کی توفیق نہیں ہے؟
کتنے ہی ایسے ادھیڑ عمر افراد ہیں جو پارک یا چوک وغیرہ میں تاش کھیل کر اپنی زندگی کی سانسیں ختم کر رہے ہیں؟
اللہ تعالی ہمیں اپنی زندگی قرآن وسنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
آپ کا غیر محرم لڑکے سے بات کرنا گناہ ہے۔ اسلام  نے کسی مرد یا عورت کو اجازت نہیں دی کہ وہ غیر محرم مرد یا عورت سے گپ شپ لگائے۔ اگر کوئی ضروری کام ہو تو ضرورت کی حد تک بات کی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِن (الأحزاب: 53)
اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو توان سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اس لیے آپ پر لازم ہے کہ آپ اس گناہ سے رب کے حضور توبہ کریں، اپنے کیے پر نادم ہوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارداہ کریں۔
شرعی حکم کے مطابق نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نِكَاحَ إلا بِوَليّ (سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح)
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی  موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيّ وَشَاهِدَيْ عَدْل (صحیح الجامع: 7557)
ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی کی اجازت اور دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ 
آپ نے جو فون کال پر قبول ہے کہا ہے اس میں ولی کی اجازت بھی نہیں ہے، گواہ بھی موجود نہیں ہیں اور نہ ہی اس نکاح کا اعلان کیا گیا ہے اس لیے آپ دونوں کا نکاح ہوا ہی نہیں ہے، جب نکاح نہیں ہوا تو طلاق یا عدت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ طلاق اس عورت کو ہوتی ہے جو کسی کے نکاح میں ہو آپ کسی کے نکاح میں نہیں ہیں۔


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ