السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قنوت میں اهدني پڑھنا مکروہ ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قنوت میں اهدني پڑھنا مکروہ نہیں۔بلکہ سنت نبویہ ﷺ سے اخبار اہل حدیث مورخہ 22 زی الحجہ 1342 ہجری صفحہ 13 میں مولانا ابو القاسم صاحب بنارسی کا قنوت میں امام کے لئے اهدني بلفظ مفرد پڑھنا مکروہ بلکہ ممنوع بتانا رسالت مآب ﷺ کےفعل کی توہین اورجرات عظیمہ ہے سنت نبوی ﷺ کو بنظر کراہیت دیکھنا ہے۔جناب شارع علیہ الصلواۃ و سلام نے خود بحالت امام جماعت قنوت میں اهدني بلفظ مفرد پڑھا۔جیسا کہ مولانا عبد لوہاب صاحب محدث دہلوی کافتویٰ ہدایۃ النبی میں مولانا عبد لجلیل صاحب سورتی کا تعلیم الدین میں لکھا ہوا ہے۔اب نبوی ﷺ فتویٰ ملاحظہ کیجئے۔
عن ابي هريره قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا رفع راسه من الركوع في صلواة الصبح في الركعة الثانية رفع يديه فيد عو بهذا الدعا ء اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما اعطيت وقني شر ما قضيت الخ (مستدرک حاکم۔کذافی التلخیص جلد 1 ص95)
یعنی رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز میں بحالت امام اهدني اور عافني اور تولني اور بارك لي اور وقني بلفظ مفرد و بغیر لفظ جمع کے پڑھتے تھے۔اس شرح صاف صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے امام نووی ؒ کا قول پیش کرنا دوسری جرائت عظیمہ ہے۔اس سے رسول للہﷺ کے فعل (قال اهدني)پر مکروہ و ممنوع کا دھبہ آتا ہے۔حالانکہ شان رسالت ﷺ خاص کر احکام الٰہی ان عیوب سے پاک صاف ہے جو کچھ آپ نے کیا پس اہل حدیث کےلئے وہی سنن الھدیٰ وسواء الطریق الی المطلوب و اُسوء حسنہ ہے۔بارشاد خدا تعالیٰ
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾
آپ کے عمل کے خلاف اھدنا بلفظ جمع پڑھنا خلاف سنت ہے۔پس ان اقوال الرجال سے نبوی تعامل زیادہ قابل قدر و لائق عمل ہے۔ورنہ اتباع سنت کا دعویٰ غلط فقط (العاجز احمد بن محمد۔مرحوم۔مفتی اہل حدیث دہلی فتاویٰ ستاریہ جلد نمبر 1 ص59)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب