السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن حکیم میں مذکور ہے کہ موصوفہ آٹھ آدمیوں کو مال زکوٰۃ دیویں، اب سوال یہ ہے کہ موصوفہ لوگوں کا موھد ہونا شرط ہے یا نہیں، اور کیا ہم اپنے مشرک اور بدعتی رشتہ داروں اور غریبوں کو مال زکوٰہ سے کچھ دے سکتے ہیں یا نہیں، اور دور رہتے ہوں تو منی آرڈر کر سکتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقات، خیرات صفت ربوبیت کے تحت ہیں جس کا اثر ((عَامِلَیْنَ)) پر پہنچتا ہے، اس لیے اس میں ایمان کی شرط نہیں، جیسی ((رَبُّ الْعَالِمِیْنَ)) میں نہیں۔ ((وَمَنْ کَفَرْنَا مَّتِعُه قَلِیْلًا)) (اہل حدیث ۲۷ مارچ ۱۹۳۱ئ)
شرفیہ:… معاذ بن جبل کو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:
((فَاَخْبِزْ ھُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَة تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وتُرَدُّ عَلی فُقَرَائِ ھِمْ)) (الحدیث رواہ شیخان قال الحافظ فی الفتح الزکوٰة لا تدفع الی الکافر الخ کما مر انتھیٰ)
ہاں نفلی صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی) (فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر۱ ص۴۷۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب