سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) مال زکوٰۃ کا امیر اپنے اہل وعیال کے لیے لے سکتا یا نہیں ۔

  • 3486
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1015

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 متعدد مواضع کے لوگوں نے اپنے اصلاحی امور کے بندوبست کے لیے ایک متدین عالم کو پسند کر کے امیر (پیر) مان کر اس کے ہاتھ پر بطور خاطر بیعت کی، وہ پیر حتی الامکان اپنے مریدوں کی زکوٰۃ فطر وغیرہ کے مال سے کچھ حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے لے سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

… زکوٰۃ آٹھ آدمیوں پر تقسیم کرنے کا حکم ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْن وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا الایة﴾
یعنی زکوٰۃ فقیروں، مسکینوں اور ان لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عامل ہوں، وغیرہ، پیر صاحب ، اگر حاجت مند ہیں، تو ((عَامِلِیْنَ)) کے زمرہ میں داخل ہو کر کچھ حصہ اہل وعیال کے لیے لے سکتے ہیں۔ اللہ اعلم۔ (اہل حدیث ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۳ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۷۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 273

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ