سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداء و انتہاء

  • 3475
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4102

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداء و انتہاء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداء و انتہاء

(مولانا محمد اشرف صاحب سند و بلوکی ضلع لاہور)

عربوں کے تجارتی تعلقات قدیم الایام سے چونکہ ہندوستان کے ساحلی علاقوں سے براہ راست چلے آرہے تھے۔اس لئے اسلام جب کہ حجاز میں ضوء افگن ہوا۔تو اس کی مقدس و نورانی شعاعوں سے ہندوستان کے ساحلی علاقے پہلی صدی ہجری بلکہ عہد خلافت راشدہ ہی سے متعارف ہوچکے تھے۔بناء بریں گجرات و سندھ کے مسلمان عرصہ بعید تک خاص حجازی مذہب یا مسلک اہل حدیث ہی کے حامل و علمبردار رہے۔

چانچہ گجراتی مسلمانوں کی خالص اتباع سنت کی نشان دہی کےلئے حضرت علامہ محمد طاہر کی مصنفہ مجمع  البحار منہ بولتی زندہ شہادت ہے۔ مزید برآن بمبئی میں شوافع کا تاریخی وجود اور مالاہار کی موپلا قوم کا شوافع وموالک مذاہب کی تقلید پر انحصار اس حقیقت کی یاد گار ہے کہ جب عرب تقلیدی اثر سے متاثر ہوکر شوافع و موالک پرمشتمل ہو گئے۔تو اسی نتیجہ میں یہ لوگ بھی ان سے متاثر ان ہی مذہب پر عامل ہوگئے۔

سندھ

میں چونکہ ایک عرصہ تک خالص عربی حکومت قائم رہی لہذا سندھی مسلمان قرامطہ کے برسر اقتدار آنے سے پیشتر حجازی مذہب یا مسلک اہل حدیث ہی کے علمبردار رہے۔چنانچہ علامہ بشاری مقدسی جو کہ س 375 میں بغرض سیاحت سندھ میں وارد ہوئے تو انہوں نے اپنی مولفہ کتاب ''احسن التفاسیر؛؛میں سندھی لوگوں کی مذہبی کیفیت کا نقشہ یوں بیان   کیا ہے۔جب ہم سندھ کے مشہور شہر ''منصورہ''میں وارد ہوئے۔تو ہندوں کی بت پرستی اور مسلمانوں کو مسلک اہل حدیث پراور  قاضی شہر علامہ ابو محمد منصوری کو امام داود ظاہری کے طرز کا اہل حدیث پایا۔

قطع نظر

مذکورہ تاریخی شہادت کے ''سندھی محدثین''کا وجود  گرامی جنھوں نے سندھ سے گزر کر مدینہ منورہ مسجد نبوی میں نبی ﷺ کی پائنتی میں بیٹھ کر پوری دنیا کوخالص اتباع کتاب و سنت کی دعوت کے فرائض انجام دئے۔سونےپہ سہاگہ کا مصداق ہے۔

نجدی دعوت توحید و سنت اور مملکت عربیہ سعودیہ کا وجود

جو عصر حاضر میں پوری  دنیا کو عملاً اسلامی آئین اور خالص توحید کی دعوت دے رہا ہے۔یہ حضرت علامہ محمد حیات سندھی محدث ؒ ہی کی زندہ یادگار ہے۔اس لئے کہ امام توحید حضرت شیخ محمد بن عبد لوہاب نے علامہ سندھی ہی سے فیض تلمذ اور سبق حاصل کرنے کے بعد جب انتہائی جانفشانی سے خالص توحید کا علم نجد میں بلند کیا۔اور اہل بدعت کی مسلسل و سرتوڑ انتہائی خطرناک مخالفتوں اور سازشوں کا شکار ہوئے۔اور ہجرت در ہجرت کرتے ہوئے۔آل سعود کے مرکزی دارالامارات درعیہ میں پہنچ گئے تو آل سعود کےبلند بخت امیر محمد بن سعود ؒ نے آپ کی دعوت توحید پر اس درجہ صدق دل سے لبیک کہا۔کہ جان و مال کی پوری قربانی سے دعوت توحید کو کامیاب بنانے کی غرض سے شیخ ؒ کے  ہاتھ پر بیعت کی۔اور اس انتہائی مسرت او خوشی میں حضرت شیخ نے امیر موصوف کو آخرت میں نجات و کامیابی اوردنیا میں تاج و تخت کی بشارت دی۔پس اس بشارت پر محمد بن سعود نے حضرت شیخ محمد سے وہی اقرار وعدہ لیا۔جو کہ انصار نے بیعت کرتے وقت نبی کریم ﷺ سے لیا تھا۔کہ زندگی اور موت ہرحال ہمارے ساتھ ہوگی۔چنانچہ امام توحید نے بھی پورے جزبہ سے امیر کے ساتھ یہ وعدہ کر لیا جس کا نتیجہ ہے کہ آل سعود  او ر آل شیخ آج بھی اس معاہدے کی زندہ و مجسم صورت میں دنیا کے سامنے موجود ہیں کہ تاج و تخت آل سعود کے قبضے میں ہے۔توافتاء و قضاء کے عہدہ جلیلہ پر آل شیخ فائز ہیں۔کیا مجال کے آل سعود بغیر فتویٰ آل شیخ کے کوئی قدم اٹھا سکیں۔

شمالی ہند کا اسلام

چونکہ خراسانی سلاطین کے ہمراہ فاتحانہ شان سے وارد ہوا۔اور خراسان کے وربست و کشاء پر عہد ہارون  رشید سے حنفی فقہا ہی مسلط چلے آرہے تھے۔لہذا شمالی ہند کے مسلمان خراسانی مذہب (فقہ حنفی)ہی کہ تابع چلے آئے۔بلکہ ہندوانہ ملکی وقومی رسومات کے اختلاط سے مسلمان فقہ حنفی کی روایات سے سے بھی بہت دور ہٹ گئے۔یعنی حنفی و  ہندوانہ رسم و عقیدہ سے مخلوط ایک نیا مذہب شمالی ہند میں جاری ہوگیا۔اتمام حجت کےلئے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف اوقات میں مشاہیر اہل حدیث مثل امام فخر الدین رازی وغیرہ بھی ہندوستان میں تشریف فرما ہوئے۔اورمشاہیر صوفیاء کرام مثل حضرت علی ہجویری لاہوری جو جہلاء میں حضرت داتا گنج بخش کہلاتے ہیں۔اور خواجہ معین الدین اجمیری جنھیں عوام خواجہ غریب نواز ہند سےیاد کررہے ہیں۔نے خالص کتاب وسنت کی آواز بلند کرنے کی انتہائی کوشش فرمائی۔مگرکتاب وسنت کے مستقل درس و تدریس کے فقدان کی وجہ سے ان کی کوشش و سعی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔اورہندوں کی دیکھا دیکھی ان کی خانقاہوں کے مجاورین نے عوام کو قبر پرستی پر مائل کرتے ہوئے۔اپنی گزار ن اور عیاشیوں کا مستقل زریعہ بنا لیا۔

حضرت مجدد الف ثانی نے مذکورہ بدعات کے خلاف پوری جانفشانی سے زبانی و قلمی جہاد کیا لیکن وہ بھی چونکہ باقاعدہ طور پر قرآن و سنت کے درس و تدریس  کی صورت میں نہ تھا۔اس کا انجام بھی وہی ہوا کہ عوام حضرت مجدد کے ہی بھکاری و پجاری بن کررہ گئے۔علماء میں شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی نے اپنے حنفی فقہی طور پر کتاب و سنت کے فروغ دینے کی قابل قدر سعی فرمائی۔جسے آج تک کتاب وسنت کا داعی طبقہ  پورے احترام  سے دیکھ  رہا ہے۔مگرشیخ موصوف کی کوشش و سعی بھی ان کے زمانہ تک محدود رہی اور بعد میں اس کو کچھ زیادہ فروغ نہ ہوسکا۔

سلاطین

میں فاتح ہند سلطان محمود غزنوی کاشغف کتاب وسنت مشہو ر ہے۔اور ان کے اراکین حکومت میں مشاہیر اہل حدیث بھی دیکھائی دیتے ہیں۔بلکہ آخری عمر میں ان کا حنفی مذہب سے رجو ع بھی تاریخی حیثیت سے ثابت ہے چنانچہ علامہ و میری نے حاشیہ حیواۃ الحیوان میں علامہ قفال مروزی کے فیصل کن مناظرہ کی صورت میں تفصیل سے زکر کیا ہے۔مگرغازی مرحوم اپنی ملکی مصروفیتوں کی مشغولیت کے سبب ہندوستان میں خالص اتباع کتاب کی تحریک کو کامیاب بنانے کےلئے کوئی مستقل ادارہ یا شعبہ قائم نہ کرسکے۔

سلطان محمد تغلق

 کا شغف کتاب و سنت ضرب المثل ہے۔اور عملاً کتاب و سنت کو وہ ہندوستان میں جاری و ساری کرنے کے خواہش مند بھی تھے۔لیکن اہل بدعت کی متفقہ سازشوں نہ صرف ان کی تحریک کو فیل کیا بلکہ جس بری طرح سے سلطان مرحوم بمعہ اہل و عیال شہید کیا اس کی اندوہگین مثالیں کمیاب ہیں۔

غازی اورنگ زیب عالمگیر

نے اسلام کی نشر و اشاعت  کے لئے انتہائی فراخ دلی سے اپنے خزانے کا دروازہ کھول دیا۔مگر ہندوستان میں چونکہ فقہ حنفی ہی اصل اسلام کا مظہر سمجھی جارہی تھی۔اس لیے اس عہد کے علماء احناف نے متاخرین فقہا ء حنفیہ کے اقوال و فتاویٰ کوعالم گیری کی صورت میں مرتب کر دیا۔

خلاصہ و ماحصل

کہ یہ شمالی ہند میں تحریک اہل حدیث کا اجراء مستقل طور پر فروع ہی نہ پاسکا۔

خاندان شاہ ولی اللہ

﴿وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾

الایۃ کے تحت چونکہ ہندوستان میں بھی اتمام حجت کےلئے خالص اسلام یا مسلک اہل حدیث کا اجراء ضروری تھا بنا بریں۔اللہ تعالیٰ نے مسلک اہل مدینہ یا مسلک اہل حدیث کے سب سے بڑے داعی اور کتاب وسنت کے مجسم نمونہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہکی اولاد کو ہندوستان میں بھجوادیا۔اگر چہ مدتوں عجم کی بود و باش اور فقہ حنفی کے زیر اثر زندگی بسر کرتے ہوئے۔ یہ لوگ اپنے مورث اعلیٰ کی روایات کو ایک حد  تک کھوچکے تھے۔تاہم فاروقی خون اور عمر   کا جزبہ اتباع کتاب وسنت ان کے قلوب و ازہان میں اس درجہ موجود تھا۔ک کتاب وسنت کی نصوص ناطقہ کی مخالفت سے بُرا فروختہ و بیزار ہوکر علیحدگی اختیار کرنے پر کار بند ہو جاتے تھے۔چنانچہ فتاویٰ عالم گیری کی تدوین میں مشاہیر اہل علم کی فہرست میں حضرت مولانا شاہ عبد لرحیم ولد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کا اسم گرامی ممتاز شان سے نظر آتا ہے۔لیکن جب کہ شاہ عبد الرحیم صاحب نے تدوین عالم گیری کومدنی فقہ سےمختلف پایا تو چندے بعد اس کے مرتب کنندگان کی مجلس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

یہی وہ حقیقت ہے۔

جسے شاہ صاحب ولی اللہ ؒ نے اپنی قلم حقیقت آشکار سے یوں اعلان کیاہے۔

''مخفی نماند کہ حضرت والد ماجد و راکثر امور موافق مذہب حنفی عمل می کروندا لا بعض چیز ہاکہ بحسب حدیث یا وجدان با مذہب دیگر ترجیح می یافتند''  (انفاس العارفین ص70)

یہ حقیقت ہے کہ میرے والد بزرگوار اکثر امور میں فقہ حنفی کے عالم تھے۔مگرجب کہ آپ کومعلوم ہو جاتا کہ فقہ حنفی اس امر میں حدیث کے مخالف ہے۔یا دوسرے مذاہب سے  کوئی ایک اس سے صحیح ہے تو فقہ حنفی کے برخلاف حدیث یا دوسرے مذہب کو قبول و معمول فرماتے۔

حضرت شاہ ولی اللہ

چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ کو ہندوستان میں خالص اتباع کتاب وسنت کی دعوت و تبلیغ اور نشرواشاعت کےلئے منتخب و نامزد فر مارکھا تھا۔ اس لئے ان کی تعلیم و  تربیت کا انتظام یوں فرمایا کہ مدینہ منورہ میں بیٹھا کر آثار نبوت اور فاروقی خاندان کی روایات کے عملی مشاہدات سےنوازا اور پھر واپس ہندوستان بھجوا کر مسلک اہل حدیث کوفروغ دینے پر کاربند کر دیا۔چنانچہ شمس الہند حضرت شاہ عبد العزیز بطور اظہار شکر اس انعام خاص کا تذکرہ یوں فرمایا کرتے۔

''علم حدیث پدرمن از مدنیہ آور وچارو دہ ماہ حرمین بودہ مسند کرو''  (ملفوظات ص93)

یہ شرف میرے بزرگوار کو ہی حاصل ہے۔کہ وہ چودہ ماہ مدینہ میں رہ کر علم حدیث کی متاع لازوال سے مالا مال ہوکر ہندوستان میں اس کی نشرو اشاعت کا موجب ہوئے۔

تحریک ولی اللہ

چونکہ اتمام حجت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب وسنت کی مجسم و آئینہ دار تھی ۔چونکہ اتمام حجت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب و سنت کی مجسم و آئنہ دار تھی ا سلئے ہندوستان کی سیاست اور مذہب میں ایک اچھوتے انقلاب کی صورت میں نمودار ہوئی۔اور اور اس انتہاء کو پہنچی کے ایک  طرف تو کتاب وسنت کا چشمہ شیریں اس جوش و خروش سے موجزن ہے۔کہ ہندوستان سے گزر کر عالم اسلام کوسیراب کر رہا ہے۔اور اندرون ہند جوصدیوں سے فقہی جمود طار ی تھا۔اس کے پروے اس درجہ چاک ہوچکے ہیں۔کہ جس مسلک کے علم برداروں نے فتاویٰ عالم گیری کو اصل اسلام کی صورت میں مرتب کیا تھا۔اسی مسلک کے حامل علم بردار اپنی درسگاہوں میں کتب احادیث کو پڑھنے پڑھانے پر اس درجہ مجبور ہیں کہ جب تک بخاری کی سند حاصل نہ ہو اگرچہ رسمی ہی سہی دستارفضیلت سے محرومی ہی سمجھی جاتی ہے۔

دوسری طرف

 جزبہ جہاد کا جوش و خروش ولی للہ تحریک نے مسلمانان ہند کے دلوں میں اس درجہ پختہ کر دیا۔ کہ بالا کو وغیرہ میں بدر واحد کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔اور پورے ہندوستان میں اسلامی آیئن کانفاز خلافت  راشدہ کے نہج پر جاری و ساری کرنے کا عزم بالجزم کیا جاچکا ہے۔

پاکستان

کاوجود درحقیقت شاہ ولی اللہ تحریک کا نتیجہ و یاد گار ہے۔1

1 كلمة حق اريد بها الباطل۔

یعنی اسلام کے نام پر اپنے لئے کرسیوں کی حفاظت۔ایڈیٹر

صحبت امروزہ

کا موضوع سخن در حقیقت شاہ ولی اللہ سیاسی تحریک ہی ہے۔

مغلیہ خاندان

کی سلطنت کے زوال پر مرہٹوں نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کا  تہیہ کر رکھا تھا۔اور ان کی تحریک کا اصل منشاء ہندوستان  سے مسلمانوں کا سیاسی ومذہبی طور پر خاتمہ تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ اس  منشاء سے آگاہ ہوکر انتہائی کرب و بے چینی میں مبتلا  ہوجاتے ہیں۔چنانچہ آپ کا وہ سیاسی خواب جس کی مجسم تعبیریں مختلف صورتون میں مجسم شکل و صورت  میں نمودار ہوتا آرہا ہے۔محتاج تعارف نہیں۔

احمد شاہ ابدالی

کا ہندوستان پرحملہ آور ہونا شاہ صاحب ؒ کی دعوت و ترغیب کا نتیجہ ہے جس کے اثر میں ہندوئوں کے عزم وارادے خاک میں مل جاتے ہیں۔

انگریزوں اورسکھوں کابرسر اقتدار آنا

مغل سلاطین اپنی کم ہمتی اور عیاشیوں میں مبتلا ہوکر جب کہ بیکار محض ہوچکے تو ایک طرف تو  ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنا تسلط جمانا شروع کیا۔اوردوسری طرف وہ سکھ حکومت جو مسلمان کے انعام کی صورت سے مستقل سلطنت کی شکل میں نمودار ہوئی۔اس نے اپنی جنگی طاقت کے بل بوتہ پر ہندوستان کو  اپنے تسلط میں لینے کا تہیہ کر لیا۔حضرت شاہ صاحب اگرچہ ان حالات کے نمودار ہونے سے پیشتر جنت الفردوس کو تشریف لے جا چکے تھے۔مگران کے لخت جگر اور جانشین اور خلیفہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ اپنے والد ماجد کی خلافت کے فرائض سر انجام دینے میں پوری تند ہی سے مصروف تھے۔یعنی کتاب وسنت کے درس و تدریس کے ساتھ ہی سیاسی تحریک کو بھی پورے انہماک سے چلا رہے تھے۔

تحریک جہاد کی ابتداء

انگریز جب کہ سیاسی عیاریوں اور دولت کے بل بوتے پر  ہندوستان پر قبضہ جما رہا تھا۔تو حضرت شاہ عبد العزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا کہ

1۔یا تو ہندوستان سےہجرت کر کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں سکونت اختیار کرنی  چاہیے۔

2۔یا پھر اپنی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنا چاہیے۔

دشمن اسلام

سرولیم ولسن ہنٹر نے اپنی مصنفہ  تاریخ انڈین مسلمان میں شاہ صاحب کے فتویٰ کا متن اوراس کے متعلق اپنی رائے جس انداز سے درج کی ہے۔وہ مترجم کےاردو الفاظ میں پڑھیے شاہ عبد العزیز نے ان تمام حالات کو تحریر فرمادیا ہے۔جن میں (ہر مسلمان پر)ہجرت کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔فقہ کی دوسری کتابوں میں بھی یہ سب  باتیں درج ہیں۔ (ہمارے ہندوستان مسلمان ص202)

ہندوستان کے تمام وہابی اور دین دار مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک کو دارالحرب قرار دیتی ہے۔ (ص202)

اس سے پہلے ص196 پر لکھا ہے۔کہ وہ فتویٰ جو اس وقت کے سب سے بڑے عالم نے دیا ہے۔ درج زیل ہے۔

''مزید صراحت سے لکھتا ہے۔وقتاً فوقتاً شائع ہونےوالے فتووں سے دو فتوے یعنی شمس الہند شاہ عبد العزیز او ر دوسرا ان کے داماد مولوی عبد الحئی صاحب کا سب سے اہم ہیں۔

جب ہم نے نظامی حکومت کو بتدریج اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ تو اس وقت دیندار مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا کہ ہمارے ساتھ ان (انگریزوں کے)تعلقات کیا ہونے چاہییں۔لہذاانھوں نے ہندوستان کے سب سے زیادہ مستند علماء سے رجو ع کیا او اوپر کے دونوں مشہور و معروف علماء نے ان کے جواب میں جوفتوے صادر فرمائے وہ حرف بہ حرف درج زیل ہیں۔

1۔شاہ عبد العزیز تحریر فرماتے ہیں۔کہ جب کافر کسی اسلامی ملک پر قابض ہو جایئں۔اور اس ملک او ر ملحقہ اضلاع کے مسلمانوں کے لئے یہ ناممکن ہو کہ وہ ان کواس سے باہر نکال سکیں یا ان کوباہر نکالنے کے لئے کوئی امید باقی نہ رہے۔اور کافروں کی طاقت میں یہاں تک اضافہ ہوجائے۔کہ وہ کافر اپنی مرضی سے اسلامی خواتین کوجائز اور ناجائز قرار دیں۔ اور  کوئی انسان اتنا طاقتور نہ ہو جو کہ کافروں کی مرضی کے بغیر ملک کی مال گزاری پرقبضہ کر سکے۔اور مسلمان باشندے اسی امن و امان سے زندگی بسر کر سکیں۔جیسا کہ وہ  پہلے(اسلامی آئین کے تحت ) کرتے تھے۔تو اس ملک کا سیاسی  اعتبار سے دارالحرب ہونا مکمل کھل کر نمایاں ہوگیا۔

2۔مولوی عبد الحق صاحب صاف حکم لگاتے ہیں۔کہ عیسایئوں کی پوری سلطنت کلکتہ سے لے کر دہلی اور ہندوستان خاص سے ملحقہ ممالک یعنی شمال مغربی سرحدی صوبے تک سب کی سب دارالحرب ہے ۔کیونکہ کفر اور شرک ہر جگہ رواج پا چکا ہے۔اور ہمارے شرعی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔جس ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جایئں۔وہ دارالحرب ہے۔

یہاں ان تمام شرائط کا بیان کرنا جو فتویٰ میں درج ہیں۔باعث طوالت ہوگا۔جن کے ماتحت جملہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ کلکتہ او ر ا س کے ملحقات دارالحرب ہیں۔

ان فتووں سے کی نتائج یوں مرتب ہوئے کہ وہابیوں نے جن کا جوش ان کے  علم کی نسبت بہت زیادہ ہے۔اس اصو ل سے کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس ملک کے انگریز حاکموں کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔ (ص 205)

اس سے پہلے بھی ہنٹر صاحب ص188 پر لکھ آئے ہیں۔وہابی اپنی رائے کی ابتداء اس اعلان سے کرتے ہیں کہ ہندوستان دارلحرب ہوچکا ہے۔لہذا اس کے انگریز حاکموں  کے خلاف جہاد کرنا فرض ہوگیا ہے۔

صفحہ 190 پر ہنٹر صاحب لکھتے ہیں۔موجودہ حالات میں بغاوت او ر بھی ضروری ہوجاتی ہے۔کیونکہ اگر ہندوستان ابھی تک دارالسلام ہے۔تو انگریزوں نے  طرح طرح سے اسلامی قوانین میں دخل اندازی کی ہے۔انہوں نے قاضیوں کو برطرف اور  اسلامی دستور العمل کومنسوخ کردیا ہے۔اندرین حالات مسلمانوں کے لئے بغاوت کرنا فرض ہے۔

ایک غلطی کا ازالہ

بعض الناس کا خیال ہے کہ مجاہدین کامقصد سکھوں سے جہاد تھا لیکن ہنٹر سے زمہ دار دشمن اسلام کی مصرح تحریر سے ظاہر ہے کہ ہندوستان میں تحریک جہاد کا آغاز و ابتداء حضرت شاہ عبد العزیز کے فتویٰ سے ہوا۔اور خاص کر انگریز کے ہی خلاف ہوا۔مجاہدین نے  جہاد کا آغاز کیونکہ سرحد سے شروع کیا جس میں سکھ حکومت راستے کا روڑہ تھی۔لہذا اس روڑے کو راستے سے ہٹا کر دور پھینکنے کی غرض سے ابتداء سکھوں سے ضروری ٹھہری۔

بعض الناس

اس وہم میں مبتلا ہیں کہ تحریک جہاد کا آغاز شاہ عبد العزیز کافتویٰ ولی اللہی تحریک نہیں۔بلکہ حضرت سید احمد ؒ نے از خود تحریک جہاد کی ابتداء فرمائی ہے۔ہنٹر کی مذکورہ تحریرسے اس غلطی کا بھی پوری طرح سے ازالہ ہو جاتا ہے۔کہ  تحریک جہاد کی اصل بنیاد شاہ عبد العزیز اور مولانا عبد الحئی کا فتویٰ ہے۔ان حضرات کے معتقدین چونکہ شمالی ہندو سندھ او ر بنگال تک پھیلے ہوئے تھے۔لہذا  ان کے فتوے نے پورے ہندوستان میں ہلچل بپا کر دی۔اور لوگ جہاد کی قیادت کے منتظر تھے۔

سید احمد شہیدؒ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیادت کے سامان یوں ظاہر ہوئے۔کہ حضرت سید احمد ؒاکتساب فیض  کی غرض سے حضرت شاہ عبد العزیز کی خدمت میں پہنچ گئے۔حضرت شاہ صاحب نے ان کی خاندانی وجاہت او ر ہونہاری اور ذات جوہر کے تحت ان کو اپنے بھائی حضرت مولانا شاہ عبد القادر کی خدمت میں بھجوا کر تاکید کردی کہ''حتیٰ الامکان ان کی خدمات میں کوتاہی  نہ کریں۔ چنانچہ سید صاحب سے میزان کا  فیہ اور مشکواۃ وغیرہ ابتدائی درسی کتب پڑھیں۔چونکہ انجام یہ ہوا کہ اطراف ہند سے جو ق در جوق لوگ سید صاحن کی بیعت کا شرف حاصل کرنے کی غرض سے آنے شروع  ہوئے۔اور ملک بھر  میں سید صاحب سےبیعت کے شوق کی لہر دوڑگئی۔بنابریں دو ردراز علاقوں سے محضر نامے موصول ہونے شروع ہوئےکہ سب کا پہنچنا مشکل ہے۔لہذا سید صاحب کو تکلیف فرماکرہمیں زیارت و شرف بیعت سے سرفراز فرمانا چاہیے۔پس ان تمام محضر ناموں سید صاحب نےشہید کے زریعے شمس الہند کی خدمت میں عرض کرتے ہوئے دریافت کیا کہ آپ کا کیا  حکم اور مشورہ ہے۔شاہ صاحب نے جو کہ تحریک جہاد کی ابتداء و آغاز کے انتہائی بے تابی سے منتظر تھے۔یہ کیفیت دیکھ کر سید صاحب کو بلوا کربطورتبرک اپنا خاص لباس عنایت فرماتے ہوئے حکم دیا۔بارک اللہ فیک

 ضرور تشریف لے جایئے۔ اورساتھ ہی شاہ صاحب نے بعض جگہ اپنے عقیدتمندوں کوزبانی پیغام بھجوائے او ر بعض جگہ تحریر ی خطوط کہ سید صاحب ہمارے  خاص آدمی ہیں ان کی تواضح اور  خدمت میں کوہتائی نہ ہو۔شہید ؒ او ر مولانا عبد لحئی کی بعیت کی شہرت شاہ صاحب کی خلعت اور  پیغامات و خطوط نے ولی اللہ عقیدت مندوں کے حلقے میں سید صاحب سےحصول بعیت کاشرف حاصل کرنے میں جو شوق و جزبہ پیدا کیا۔وہ قلم اور زبان کے بیان سے باہر ہے۔پورے دس سالہ چونکہ تنظیم جماعت می صرف ہوچکے تھے۔اس لئے سید صاحب کو وطن واپسی کا خیال ہوا۔اور آپ جائے مسکن کی طرف روانہ ہوئے۔ابھی آپ ر استے میں ہی تھے کہ آپ کو آپ کے بڑے بھائی حضرت سیداسحاق صاحب کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی۔اس  صدمہ جا نگاہ سے آپ کی   طبیعت نڈھا ل ہوگئی۔کیونکہ سید اسحاق صاحب بلند  پایہ عالم تھے۔اورآپ کی عدم موجودگی میں افراد خاندان کی خدمت گزاری کے فرائض بھی انہیں سےمتعلق تھے۔بالاآخر آپ 29 شعبان سن 1234ہجری بریلی تشریف فرما ہوئے۔کیونکہ آپ کی دعوت جہاد کاچرچا عام ہوچکا تھا۔اس لئے جگہ باجگہ عقیدت مندوں نے فنون حرب کی مشق شروع کردی۔اورسید صاحب کسی مرکزی مقام کی تلاش اورغور فکر میں مصروف تھے۔ کہ ہجرت کا اعلان کر کے پوری جماعت کو مجتمع کرکے جہاد کا آغاز کردیا جائے۔

اہل بدعت نے حج کے منسوخ ہونے کافتویٰ دے دیا۔

ہندوستان کے اسلام اور فقہی طرز کے علماء و فقہا کی عملی اور اعتقادہ زندگی کا افسوس ناک مظہر اس سے زیادہ او ر کیاہوسکتا ہے۔کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے جب کہ اہل ہند کو کتاب اللہ کی تعلیم سے آگاہ  و آشنا کرنے کےلئے فتح الرحمٰن نا م سے قرآن مجید  کا فارسی زبان میں ترجمہ کر دیا۔تو فقہاء ہند نے آپ کے کفر اور الہاد کا فتویٰ دیتے ہوئے واجب القتل ٹھرایا۔اور حضرت شمس الہند کی صحبت شہید اور مولانا عبد الحئی کی رفاقت سے جزبہ جہاد سے  سرشار ہوچکے تھے۔لہذا دہلی سے رخصت ہوکر بریلی پہنچے اور چندے قیام کے بعد اس کے غیور حکمران نواب امیر خان دا لئے ٹونک کی فوج میں فن سپاہ گری کے حصول کےلئے ملازم ہوگئے۔اورسات برس مختلف جنگوں میں حصہ لینے کے بعد فوجی ملازمت کو ترک کر دیا۔اور شمس الہند کو ترک ملازمت کی اطلاع عرض کر دی۔اورچند ایک روز کے بعد حضرت شمس الہند کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بطور ہدیہ پچیس روپے نقد آپ کی خدمت میں عرض کیے۔ اور شمس الہند نے آپ کے قیام کا اہتمام پھر اسی مسجد میں فرمایا۔جو مسجد اکبر آبادی قرار دیا۔جہاں سے پہلے آپ شاہ عبد القادر صاحب سے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔اسی دوران میں حضرت شمس الہند نے خواب دیکھی۔کہ نبی کریمﷺ جامع مسجد دہلی میں تشریف فرما ہیں۔اور ان گنت لوگ آپ کی ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے برق رفتاری سےآرہے ہیں۔آپ کو سب سے اول مصافحہ دوست بوسی کی سعادت حاصل ہوئی۔اور  حضور ﷺ نےایک عصا دیتے ہوئے حکم دیا کہ مسجد کے دروازے پربیٹھ جایئے۔اور ملاقاتیوں کا زکر ہم سے کرتے رہو۔پس جس کو ہم اجازت دیں  اسے ہی ملاقات کے لئے مسجد  میں داخل ہونے کی اجازت دیجیے۔اس خواب کی تعبیر یہ ہوئی کہ تحریک جہاد کا آغاز آپ کےمشورہ سے کسی آپ کے  عقیدت مندسے ہوگا۔جب اس خواب کی تعبیر کا حضرت شمس الہند نے زکر کیا تو شہید اور مولانا عبد الحئی پر بھی یہ حقیقت منکشف ہوگئی۔بنا بریں باہم دونوں بھایئوں میں مشورہ اور  مولانا عبد الحئی نے اولاً شرف  بیعت حاصل کیا۔اورجو اسرار و رموز آپ پر منکشف ہوئے۔وہ من و عن حضرت شہید سے عرض کیا۔پس حضرت شہید نے بھی بیعت کاشرف حاصل کر لیا۔جب کہ عوام و خاص سے شاہ ولی اللہ خاندان کے ان  ہونہاروں کی بیعت کا زکر سنا جن کی نسبت حضرت شمس الہند کی زبانی وہ بارہا یہ الفاظ سن چکے تھے۔

الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ

سب تعریف کا مستحق وہی معبود حقیقی ہے۔جس نے بڑھاپے کے عالم  میں مجھے اسماعیل او اسحاق ایسے زی علم عطا فرمائے۔

او ر یہ بھی فرمایا کرتے کہ عبدالحئی تفسیر قرآن میں میرا مجسم و زندہ نمونہ ہے۔اور فقہ حدیث میں سید اسحاق او ر شہید ؒ کےمتعلق سوال ہوا۔تو فرمایا کہ اسماعیل کا علم محدود نہیں۔وہ میرے عہد شباب کے علوم کے اتم مظہر ہیں۔فقہا ء کے عقیدت مندوں نے قتل کی ساش کر کے آپ پر بھی حملہ کردیا۔مگر اللہ تعالیٰ کو چونکہ ہندوستان میں خالص اتباع  قرآن وسنت کی تحریک کا دوامی طو رپر جاری کرنا منظور تھا۔اس لئے اہل بدعت کی تمام مخالفت ناکام ہو کر رہ گئیں۔اور اللہ تعالیٰ نے آثار نبوت اور فاروقی خاندان کی علمی و عملی زندگی سے آشنا کرنے کی غرض سے شاہ صاحب کو حج پر آمادہ کردیا۔اور فراغت حج کے بعد آپ جوار نبوت میں مقیم ہوئے۔اورچودہ ماہ کی مسلسل اقامت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر تعلیم و تربیت پرمکمل کردیا۔اور بعد جب سید صاحب نے جہاد  کی تیاری  شروع کی تو اہل بدعت یا فقہاء ہند نے سقوط حج کا فتویٰ دے دیا۔اور دلائل یہ دیئے کہ سمندر میں کشتیوں کا سفر چونکہ موجب خطرہ جان اور توضیح اوقات ہے اس لئے حج فرض نہیں۔یہ فتویٰ جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے شہید اسماعیل اور مولانا عبد لحئی کے سامنے پیش کیا اس پران بزرگوں نے زبردست دلائل سے مفتیوں کی اسلام سے بے خبری او ر لاعلمی ثابت کرتے ہویے۔فریضہ حج کو مستطیع مسلمانوں کے لئے تکمیل ایمان و اسلام قرار دیا۔پھر سید صاحب نے یہ فتویٰ معہ دلائل شہید و مولانا عبد الحئی شمس الہند کی خدمت میں بھجوا کر آخری فیصلہ طلب کیا۔شمس الہند نے جواباً لکھ دیا۔کہ شاہ اسماعیل اور مولانا عبد الحئی کا علمی  پایہ مجھ سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ان حضرات نے جو لکھا ہے۔وہ حق و صواب ہے۔جن مفتیوں نے آج منسوخ ہونے کا فتویٰ دیا۔آئندہ یہ روزہ نماز کو بھی منسوخ کرنے پرتیار ہو جایئں گے۔اور ذکواۃ کی تو ان حضرات کے نزدیک سرے سے ہی رخصت ہے یہ ضرور ہے۔بعض دفعہ جہاز غرق ہوجاتاہے۔مگر اکثر سلامتی و خیر و عافیت سے جاتے اور واپس ہوتے ہیں۔لہذا اتفاقی  واقعہ سے منسوخی حج کا استدلال سراسر باطل و  غلط ہے۔

سید صاحب کا ارادہ حج

اللہ رب العزت کو چونکہ سید صاحب کی آخری تکمیل آثار نبوت سے منظور تھی۔اس لئے سید صاحب کا ارادہ جہاد کو ملتوی کر کے حج کا پختہ ارادہ ہوگیا۔پس آپ نے کھلا اعلان کردیا کہ جن اصحاب کو ہماری رفاقت منظور ہو  وہ سفر حج کےلئے تیار ہو  جایئں۔ جو زاد راہ کا اہتمام کر سکتے ہوں خود کرلیں۔اور جن دوستوں کے پاس نہ ہو۔ان کے جمیع اخراجات کا انتظام ہم خود کر دیں گے۔جگہ جگہ اس  مضمون کے خطوط بھجوا دیئے۔جس کے نتیجے میں کم و بیش چار سو افراد پر مشتمل حجاج کا قافلہ تیار ہوا۔جو کہ شوال کی آخری تاریخ 1236ہجری پی کے دن رائے بریلی سے باارادہ حج روانہ ہوا۔ومنعم ما قال۔

نہ برگ وبار کی پروانہ انتظار رفیق      یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کاطریق

اگر خدا پر بھروسہ ہے۔ہو یگانہ رواں  خدا سے بڑھ کر نہیں برگ وساز کی توفیق

غرض یہ کہ یہ قافلہ کشتیوں پر سوار روانہ ہوا۔اور عقیدت مندوں نے اپنی اپنی بساط کے موافق ضروریات سفر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور کلکتہ پہنچ کر دس جہاز کرائے پرلے لیے گئے جن کا کرایہ فی کس بمعہ سامان بیس روپے طے ہوا۔ہر جہازی قافلہ کےلئے ایک ایک زی علم و متقی اصحاب کو امیر مقرر کر دیاگیا۔اور ہرطرح کی ہدایات فرما دیں۔غرض یہ کہ دس جہازوں نے لنگر اٹھایا۔اور سب سے آخر سید صاحب کا جہاز روانہ ہوا۔خدا کے فضل و کرم سے جہاز سکون اطمینان سے چلتے ہوئے جب عدن کی بندرگاہ سے آگے مخانامی بندرگاہ میں پہنچے توقافلہ وہاں اترا اور ابھی حج میں چونکہ کچھ وقفہ تھا۔اس لئے ایک ماہ یہاں شہر میں قیام کیا۔دوران قیام  سید صاحب کو حضرت علامہ شوکانی کی کتاب ''موضوعات''کا علم ہوا تو آپ نے مولانا عبد الحئی صاحب کو اس کے حصول پرمامور کیا۔مگر باوجود تلاش کثیر شہر مخا میں نہ مل سکی بالاآخر قاضی شہر نے عرض کیا آپ ایک خط لکھ دیجئے۔ہم آپ کی واپسی تک صفا سے ایک نسخہ نقل کروا کر منگوا لیں گے۔اور آپ کے علاوہ کر دیا جائے گا۔لہذا اسی طرح قاضی صاحب کی  موضوعات ہندوستان میں پہنچ گئی۔واللہ الحمد۔

قیام مخا کے بعد قافلہ جدہ پہنچ گیا۔اور جدہ سے روانہ ہوکر یہ مقدس قافلہ جبکہ مقام ''حدیبیہ''میں پہنچا تو آثار نبوت سے سرفرازی کے لئے پورا قافلہ کافی دیر تک دعا میں مشغول رہا۔ اور پھر وہاں سے رخصت ہوکر بالاآخر مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔اور آپ بمعہ قافلہ اسی راستہ سے داخل شہر ہوئے۔جس راستے سے حضور داخل ہوئے تھے۔ پھر باب اسلام سے حرم شریف میں داخل ہوکر طواف کیا۔اور مقام ابراہیم پر دوگانہ طواف ادا کرنے کے بعد  سعی فرماتے ہوئے احرام کھول دیا۔پھر معمول نبوی کے مطابق احرام باندھ کر ان تمام آثار پر پوری توجہ اور خشوع سے دعا فرماتے ہوئے۔حج سے فارغ ہوئے۔اور مدینہ منورہ کو روانگی شروع ہوئی۔اور منزلیں طے کرتے ہوئے بالاآخر منزل مقصود پر پہنچے پورا ایک ماہ طیبہ میں قیام رہا۔

یہ وہ زمانہ تھا۔

جب کہ ارباب حکومت نجدیوں کا داخلہ حرمین میں بند کئے ہوئے جس شخص پر وہابیت کا ادنیٰ شبہ بھی ہوجاتا وہ گرفتار کر کے تختہ مشق بنایا جاتا۔سید صاحب کے قافلے کے ایک جو شیلے موحد مولوی عبد الحق صاحب تھے بعض بدعات پر انھوں نے کچھ روک ٹوک کی پس پھر کیا تھا۔وہابیت کے جرم میں دھر لئےگئے۔چنانچہ مولانا عبد الحئی نے ضمانت پررہا کروایا۔اورتاریخی پیشی پر صفائی پیش کی کہ ہم تو ہندوستانی ہیں۔نجدیوں سے تو ہمیں قطعاً راہ رسم بھی نہیں لہذا عدالت نے مولوی صاحب کو بری کردیا۔اورایک پورا ماہ قیام اور  جمیع آثار نبوت پر دعایئں کرنے کےبعد 9 ربیع الاول سن1238 ہجری کو واپس لوٹے۔رات ذوالحلیفہ میں گزاری۔اور  عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کو روانہ ہوئے۔اور عمرے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹے اور 20 زوالحجہ 1238 ہجری بمبئی اترے۔

عقیدت مندوں کا جھرمٹ

بمبئی میں تشریف فرما ہونے کی خبر بجلی کی رو کی طرح پھیل گئی۔ملاقاتیوں اور بیعت کنندگان کا ہجوم اس درجہ تھا۔کہ بیعت و مصافحہ محال تھے۔اس لئے آپ نے ایک لمبا  کپڑا پھیلادیا۔اور فرمایا جس جگہ سے کپڑے کا کوئی حصہ کسی کومیسر نہ ہو پکڑے۔پس یہی ہماراہا تھ ہے۔اس پر بیعت ہوجائےگی۔غرض یہ کہ حج سے واپسی پر مریدوں اورعقیدت مندوں کی تعداد میں دن بدن ترقی اوراضافہ ہوتا گیا۔اور آپ ہمہ تن جہاد کی تیاری اور  فراہمی سامان میں مصروف ہوگئے۔ اوردعوت جہاد کو عام کرنے کی غرض سے باقاعدہ دور دراز شہروں اور قصبوں میں داعی بھجوائے۔اور داعیوں کے سرخیل و انچارج شہید ؒ اور مولنا عبد الحئی مقرر ہوئے۔چنانچہ ان دونوں بزرگوں نے اپنی علمی قابلیت اورسحر بیانی سے ہندوستان کے کونے کونے میں مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پروانوں کی طرح واریافتہ ہوکر لوگ شمع جہاد پر قربان ہونے کےلئے پہنچنے شروع ہوئے۔

حرمین الشریفین سے واپسی کے بعد ایک برس دس ماہ کی مدت میں معرکہ بدر واحد کی یاد کو ہندوستان میں تازہ کرنے والے قدوسیوں کی جماعت تیار ہوگئی۔

جہاد کی ابتداء کہاں سے ہو؟

مجاہدین جبکہ نعرہ جہاد کی صدا پر شوق شہادت میں مضطرب و بے قرار ہو رہے تھے ۔تو اب فیصلہ طلب یہ امرتھا کہ جہاد کہاں سے شروع کیا جائے  کافی غور وفکر کے بعد متفقہ فیصلہ یہ ہواکہ صوبہ سرحد میں مرکز قائم کرکے وہاں سے جہاد کی ابتداء کی جائے۔لہذا مجاہدین کو جمع کرکے سرحد کی طرف 7 جمادی الثانی 1241 ہجری مارچ کا حکم دیا گیا۔اس وقت غازیوں کی تعداد پانچ سو  سے اوپر چھ سو سے کم بتائی جاتی ہے۔اور زاد راہ کےلئے صرف پانچ ہزار روپیہ نقد موجود تھا۔پس رائے بریلی سے ہوکر گوالیار کے راستے سے منزل منزل طے کرتے ہوئے ٹونک پہنچ گئے۔اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر اجمیر کے  راستہ سے سندھ پہنچے اور حیدر آباد ہوتے ہوئے شکار پور اور کوئٹہ کے راستہ سے  درہ بولان سے  گزرتے ہوئے قندھار تشریف لے گئے۔بطور قصہ یاداستان کے یہ سن لینا تو معمولی بات ہے۔مگر ان کٹھن راستوں کو پیدل چل کرعبور کرنا سوائے مجاہدین کے کسی دوسرے سخت جان سے سخت جان کے لئے ناممکن نہیں۔تو  انتہائی کٹھن اور دشوار ضرور ہے۔اور  پھر باشوق جہاد و شہادت ان کٹھن راستوں کو راحت جان سمجھ کر عبور کرنا یہ انہیں اہل اللہ کا کام ہے۔عامۃ الناس اور اہل دنیا تو اس سفر کو سراسر مجنونا نہ حرکت قرار دیں گے۔

قصہ مختصر یہ کہ مجاہدین نے چار سدے میں قیام کیا۔سکھ حکومت کو چونکہ مجاہدین کے جزبہ جہاد سے اطلاع مل چکی تھی۔ بنا بریں حکومت نے جاسوسی کا خاطر خواہ اہتمام کیا۔چنانچہ مجاہدین نے ایک مشتبہ آدمی کو گرفتار کر کے سید صاحب کے سامنے پیش کردیا۔جب کہ سید صاحب نے اس سے حقیقت واقعہ بیان کرنے کو کہا تو شیر خاں نے اصل واقعہ بیان کردیا کہ فی الواقعہ سکھوں نے جاسوسی پر ہی مجھے مامور کیا ہے۔اور بدھ سنگھ آپ کے مقابلہ کےلئے خیر آباد میں جرار لشکر لے کر پہنچ چکا ہے۔پس یہ کیفیت معلوم کر کے سید صاحب نے شیر خاں کی جان بخشی فرماتے ہوئے۔ فرمایا کہ ہمارا یہ پیغام غیر مبہم الفاظ میں بدھ سنگھ کو پہنچانا تمہارے زمہ فرض ہے کہ جس طرح تو رنجیت سنگھ کا فرماں بردار اور اطاعت گزار ہے۔ویسے ہی ہم بھی اپنے حقیقی مالک کے فرمانبردار اور اس کے حکموں کے پابند و عامل ہیں۔

کرشمہ قدرت

یہی شیر سنگھ جو سکھوں کی طرف سے جاسوسی پرمامور تھا۔سید صاحب کے اخلاق کی تلوار سے گھائل ہو کر بصد خوشی بیعت جہاد کرتا ہوا شریک مجاہدین ہوگیا۔اور عرض کیا کہ ان شاء اللہ بدھ سنگھ کو آپ کا پیغام لفظ با لفظ پہنچاتا ہوا۔ اس کے لشکر وٖغیرہ کی پوری کیفیت واپسی پر عرض کروں گا۔ٖغرض یہ کہ سکھو ں کی جاسوسی کے بجائے اب یہ سید صاحب کا خاص جاسوس ہوگیا۔

ایک غلطی کا ازالہ

جیسا کہ پیچھے زکر ہوچکاکہ سید صاحب کے جہاد کا اصل مقصود و مدعا ء انگریز کو ہندوستان سے نکال کر خلافت راشدہ کے نہج  پر اسلامی آیئن کی مظہر حکومت کرنا تھا۔مگر ہندوستان میں رہتے ہوئے انگریز سے جنگ ناممکن تھا۔اس لئے سرحد کو اپنا مرکز قراردیا۔اب چونکہ سید صاحب کے مرکز اور انگریزوں کے درمیان سکھ حکومت حائل تھی۔اس لئے راستہ صاف کرنے کی غرض سے سکھ حکومت کے روڑہ کو راستہ سے اٹھا پھینکنا ضروری تھا۔ اس لئے جہاد کی ابتداء سکھوں سے شروع ہوئی۔چونکہ سکھوں کی سلطنت کے خاتمہ پر پورے ہندوستان پر انگریزی حکومت مسلط ہو چکی تھی اس لئے عیار انگریز نے تزکرہ نویسوں سے یہ لکھوا دیا کہ مجاہدین محض سکھوں کی ظالم حکومت ہی سے جہاد کے خواہش مند تھے۔اور انگریزی سلطنت جس میں مسلمانوں کے جان و مال محفوظ ہیں۔کوئی تعرض نہیں چاہتے تھے۔یہ محض انگریز کی سیاسی عیاری اور مکاری ہے جس کا شکار بعض مخلص مسلمان بھی ہوگئے۔اور بعض احباب نے یہ بھی سمجھا ہے۔کہ سید صاحب کا مقصود و مدعا تو انگریز ہی کو خارج کرنا تھا۔مگر انگریز نے عیاری سے سید صاحب کی تحریک کا رخ سکھوں کی طرف پلٹ دیا۔یہ اور اس قسم کے دوسرے سب توہمات غلط و باطل ہیں۔سید صاحب نے راستے کے روڑہ کی حیثیت سے سکھوں کے ساتھ جہاد شروع کیا۔اور چھوٹی چھوٹی لڑایئوں سے قطع چار ایسے مستقل جنگوں سے چھکے چھڑوائے کہ جن میں سکھوں کی فوج کی تعداد لاکھوں پرمشتمل باقاعدہ تربیت یافتہ اور جدید جنگی سامان سے مسلح تھی۔چونکہ سکھ فوج میں تجربہ کار  انگریز افسر موجود تھے۔انہوں نے عیاری اور فریب سے سرحدی مسلمانوں کو مال و ولت اور حکومت وغیرہ کا چکمہ لالچ دے دلا کر مسلمانوں کو سید صاحب سے علیحدہ کرنے اور خود سید صاحب کوزہر دلوانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔جبکہ سید صاحب کے عزم واستقلال میں ایک بال برابر بھی فرق نہ پایا۔تو مال و زر  کا لالچ دے کر منافقین کا ایک ایساگروہ بھی تیار کر لیا۔جو بروقت منافقت سے مجاہدین کو  شہید کروانے اور سکھوں کوکامیاب کرنے کے فرائض سر انجام دے۔چنانچہ اس گروہ کی منافقت سے سید صاحب اورشہید اور ان کے اکثر خاص رفقاء مقام بالا کوٹ میں شہادت سے سرفراز ہوتے ہوئےشہدا کے زمرے میں شامل ہو گئے۔

کیا سید صاحب اور ان کے رفقاء ناکام ہے۔

ظاہر بین سمجھتے ہیں کہ سید صاحب اپنے مقصد میں ناکام وفیل رہے۔ لیکن جب سید صاحبؒ کے مقصد کو با نظر غائر دیکھا جائے تو عیاں ہوجاتا ہے۔کہ آپ کو فتح و شکست سے کوئی سروکار نہ تھا۔آپ کا مقصد واحد اللہ  تعالیٰ کی رضا اور مسلمانوں میں جذبہ جہاد کا احیاء تھا۔جس سے مسلمان غافل ہوچکے تھے۔بطور مثال و نمونہ سید صاحب اور ان کے رفقاء کا جذبہ طلب رضاء الہیٰ ملاحظہ فرمایئے۔

''سید احمدشہید''مصنف غلام رسول مہر 437 میں ہے۔جوغاذی فوت ہوئے ان کے کفن کےلئے کپڑا میسر نہ تھا۔شیخ ولی محمد یا تو انھیں کی چادریں اوڑٖھا دیتے یا جاجم کے ٹکڑے کاٹ کر ان سے کام نکالتے۔آٹا پیسنے کےلئے چکی خرید رکھی تھیں۔حکم یہ تھا کہ جو بھائی چاہے۔قیمتاً پسوائے۔اور جسے پسند ہو خود پیس لے۔ایک روز سید صاحب پھرتے پھراتے اپنی اس جماعت کی طرف نکل گئے۔جس کے نائب سالار شیخ ولی محمدتھے۔ آپ نے دیکھا کہ مولوی الٰہی بخش رام پوری اپنے ہاتھ سے چکی میں آٹا پیس رہے ہیں۔سید صاحب بے تکلف ان کے سامنے بیٹھ گئے۔اور ہاتھ پکڑ کر آٹا پسوانے لگے۔حتیٰ کہ ایک سیر پیس دیا۔جو جگہ نماز کے لیے مخصوص تھی۔وہ محض ایک احاطہ تھا۔چھت تھی نہ فرش نماز پڑھتے وقت غاذیوں کو کنکر چبھتے تھے۔اس لئے ایک دن فرمایاکہ درانتیاں لے کر چلو اور جنگل  سے گھاس کاٹ کرلایئں۔خود بھی درانتی لی اورساتھیوں کے ہمراہ گھاس کاٹ کرلائے۔حضرت صاحب کی تعلیم کے مطابق کسی کو کسی بھی کام سے عار نہ تھا۔سب اپنے ہاتھ سے کپڑے دھوتے اور کھانا پکاتے۔جنگل سے لکڑیاں اٹھا کرلاتے چکی پیستے۔بیماروں اور معذوروں کی قے اورنجاست اپنے ہاتھ سےاٹھا کر باہر پھینکتے جو لوگ بعد میں آئے انھوں نے پہلوں سے سبق حاصل کیا۔لشکر بھر کی زبان فحش و دشنام سےبالکل محفوظ تھی۔ (صفحات 438۔439)

دوسری جگہ لکھا ہے کہ قلت غذا کا یہ حال تھا کہ بعض دفعہ فی کس ایک ایک مٹھی جو ار ملتی جسے بعض حضرات تو بھون کرچبا لیتے اور  بعض پیس کر ستو بنا کر پی لیتے۔بیماروں کو یہی جوار اُبال کر مثل جوارش پلائی جاتی۔اوربطور دوا جو مکسچر دیا جاتا۔وہ کٹھ بکل بوٹی جوزمین پرپھلی ہوتی ہے اکھاڑ کر پہلوا کر جوش دلا کر اسمیں قدرے نمک کااضافہ کرکے پلایا جاتا۔

گلہ شکوہ نہ تھا۔

ان انہتائی کٹھن اور مشکل حالات میں بھی کبھی کسی مجاہد کی زبان  سے بے صبری کا اظہارنہ ہوا۔اورنہ ہی کبھی یہ سننے میں آیا کہ میں غلطی سے غاذیوں میں آگیا ہوں۔غرض یہ کہ دکھ سکھ جنگ و اطمینان ہر حال طالب ر ضاء الٰہی روز خوش وخرم نظرآتا تھا۔

سکھ حکومت

رہی سکھ حکومت کی فتح تو اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔کہ مجاہدین کی تلوار نے ان کی جڑیں کھوکھلی کر کے خانہ عنکبوت بنا دیا۔اورانگریز نے ایک ہی حملے میں اسکو بری طرح سے نیست و نابود کردیا۔کہ دنیا میں قیامت تک اس کا نام لیوا ہی پیدانہ ہوگا۔بلکہ والئی حکومت کی اولاد سکھ قوم سے متفرد بیزار عیسائیت کی آغوش انگلستان میں وقت گزار رہی ہے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 95-112

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ