السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تاریخ اہل حدیث کا ایک ورق
ہندوستان میں اہل حدیث کیونکر آئے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(از جناب مولانا عبد المجید صاحب ؒ ایڈیٹر اخبار اہل حدیث سوہدرہ)
یہ ایک حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ اہل حدیث کوئی نیا فرقہ نہیں ہے۔ ان کا وصفی نام اہل حدیث بتا ررہا ہے کہ ان کی نسبت نہ کسی امام کی طرف ہے۔نہ کسی ولی بزرگ کی طرف بلکہ ان کی نسبت حدیث نبوی کی طرف ہے۔یعنی یہ وہ گروہ ہے۔جو اقوال و رجال کو چھوڑکر ارشادات نبوی کا گرویدہ ہے اورقرآن کریم کے بعد حدیث نبوی ہی کو حجت اور سند مانتا ہے۔جس طرح دیگر اشخاص نے اپنا انتساب آئمہ کی طرف ضروری سمجھا۔اس گروہ نے قطعاً اسے پسند نہیں کیا۔ کہ اپنی نسبت نبی سے توڑ کرغیر کی جانب کریں۔حنفی محض اس لئے حنفی کہلاتا ہے۔کہ وہ اپنی نسبت ابو حنیفہ ؒ کی طرف منسوب کرتا ہے۔اور امام شافعی کی طرح مالکی حنبلی اپنے اپنے آئمہ کی طرف اسی طرح چشتی نقشبندی۔قادری سہروردی وغیرہ اپنے اپنے بزرگوں کی طرف منسوب ہو کر گروہ بن گئے ہیں۔مگراہل حدیث نہ گروہ بنا نہ فرقہ قرار پایا کیونکہ یہ تو اصل اسلام پر قائم رہا۔اور اس نے نبی سے رشتہ توڑکر غیر کی طرف جوڑنا اور دوسروں کی طرف منسوب ہونا کبھی پسند نہیں کیا۔
عوام جو انہیں وہابی کہتے ہیں۔اور امام محمد عبد لوہاب کی طرف منسوب کر تے ہیں۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے جو کم فہمی پر مبنی ہے۔اوراز سر تا پا غلط ہے۔کیونکہ اہل حدیث نے کبھی اپنی نسبت محمد بن عبد لوہاب کی طرف منسوب نہیں کی۔اور نہ اس کی تقلید کی۔بھلا جس جماعت نے آئمہ اربعہ کی تقلید نہ کی۔آئمہ حدیث امام بخای ۔مسلم۔ترمذی۔میں سے کی کی تقلیدنہ کی۔وہ امام محمدبن عبد لوہاب کی تقلید کیونکرقبول کر لیتی۔اور اگر بقول ان کے اہل حدیث نے محمد بن عبد الوہاب کی تقلید قبول کر لی ہوتی تو پھر وہ غیر مقلد کیوں مشہو ہوتے۔ ہمیں غیر مقلدکہنے والے بھی یہی تو ہیں۔جو ہمیں وہابی کہتے ہیں۔انھیں سوچنا چاہیے کہ غیرمقلد کیونکہ وہابی ہو سکتا ہے۔ او ر جو وہابی ہو جائے وہ غیر مقلد کیونکر ہو سکتاہے۔یہ بجائے خود جھوٹ ہے۔افتراء ہے بہتان ہے۔جو برادران احناف اہل حدیث پر جوڑ رہے ہیں۔ورنہ اہل حدیث اس سے بری ہیں۔ نہ وہ محمد بن عبدالوہاب کی تقلید کر کے اپنے آپ کووہابی کہلانا پسند کرتے ہیں۔اور نہ ہی وہ تقلید کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ کہ اسے جزو دین یا شعار اسلام قرار دے کر مقلد یا غیر مقلد نام رکھنا فرض واجب یا مستحب سمجھیں۔یا کم از کم اسے اوصافی نام کا درجہ دیں۔ پس جب حقیقت یہ ہے ۔تو پھر خود ان کو بھی اور غیروں کو بھی۔ اپنوں اوربیگانوں کواس پرغور کرنا چاہیے۔اورسوچنا چاہیے کہ وہ ایسی بات کیوں کہتے ہیں کہ جو محض جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔
اہل حدیث کے عقائد اتنے واضح ہیں۔ اور اتنی بار بیان ہو چکے ہیں۔کہ اب ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔اگر کوئی انصاف سے ان عقائد کو ہی دیکھ لے۔تو وہ خود با خود سمجھ سکتا ہے۔کہ اب ان کی نسبت کسی طرف کی جائے۔کیا اسلام کے مشہو ر و معروف فرقوں کی طر ح فرقہ ہے۔ جو ان عقائد کا حامل ہو۔؟یا جو ان عقائد کی موجودگی میں اپنی فرقہ وارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکتا ہو۔اگرکوئی ایسا فرقہ ہو تو اس کا نام لیجئے۔ اور انگلی رکھ کر کہے کہ اہل حدیث فلاں گروہ ۔پارٹی فرقہ یا جماعت میں شمار ہوسکتے ہیں۔سنیے اہل حدیث کے موٹے موٹے عقائد یہ ہیں۔
1۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔نہ حاجت روانہ مشکل کشا۔نہ کوئی رزق کھول سکتا ہے۔نہ بند کر سکتاہے۔ نہ بیما ر کر سکتا ہے۔ نہ شفاء دے سکتا ہے۔نہ مار سکتا ہے نہ پیدا کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے 99 اوصاف میں سے کوئی بھی اس کے کسی وصف میں شریک نہیں ہو سکتا ہے۔
2۔آپ ﷺ اللہ کےرسول اور مقبول بندے ہیں۔افضل البشر ہیں۔معصوم عن الخطاء ہیں۔واجب الاطاعت ہیں۔ان کی اطاعت کے سوا کسی امام اور بزرگ اورولی کی اطاعت ہم پرواجب نہیں ہے۔
3۔جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور آئمہ عظام۔ اولیائے ذوی الاحترام ہماری آنکھوں کے تارے۔اور سر کے تاج ہیں۔ہم جس جس میں یہ خوبی دیکھیں ان کی اقتداء کر سکتے ہیں۔مگر ان کی تقلید کو واجب نہیں گردان سکتے۔ کیونکہ امکان ہے ان سے خظاء ہوجائے۔ معصوم عن الخطاء صرف آپ ﷺ کی ذات ہے۔اوروہی ذات واجب الاطاعت ہے۔مگر ان بزرگوں میں سے کسی ایک کی بھی توہین کرنا ہمارے نزدیک گناہ میں داخل ہے۔
4۔دینی احکام اور مسائل میں محمدرسول اللہﷺ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے۔ہاں فیصلہ وہاں سے نہ ملے اور کسی صحابی یا کسی تابعی یا امام سے مل جائے۔ اسے قبول کر لینا ہمارے ایمان میں داخل ہے۔مگر کسی ایک کا ہو رہنا۔یا تقلید شخصی قبول کر لینا ہمارے ہاں جائز نہیں ہے۔
5۔جملہ رسومات قبیحہ اور جاہلیہ خواہ وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاشرت سے۔تجارت کے متعلق ہوں۔یا سیاست سے تمدن کے متعلق ہوں یا تہذہب سے۔مرنے جینے سے متعلق ہوں یا بیاہ شادی سے سب ترک کر دینی چاہییں۔اور سلسلہ میں بجز سنت نبویہ کے کسی چیز کو انگیز نہیں کرنا چا ہیے۔اور اس پر شدت سے پابندی کرنی چاہیے۔اور اس کو تبلیغ و تلقین جاری رکھنی چاہیے۔خواہ کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ پیش آئے۔تبلیغ ہی کے تحت جہاد باللسان جہادبالقلم۔ جہاد بالسیف۔بتدریج واجب قرار پاتے ہیں۔
یہ ہیں وہ جلی عقائد جن کی بنیاد پر ایک مسلمان سچا پکا مسلمان بن سکتا ہے۔یا یوں کہیے کہ تمام فرقوں سے نکل کر اہل حدیث جماعت میں شامل ہوسکتاہے۔
تاریخ ہند کا مطالعہ کرنے سے آپ پر یہ بخوبی روشن ہو جائے گا۔کہ شاہان مغلیہ کے دور سے مسلمانوں کی دینی اور مذہبی حالت بہت ہی بگڑ چکی تھی۔چنانچہ اکبر کے زمانے میں اتنی ناگفتہ بہ حالت ہوچکی تھی۔کہ اسے زکر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔یہی وہ دور تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی نے جہاد باللسان اور جہادبالقلم شروع کر کے جیل کی سختیاں جھیلیں۔ اور آنے والے مسلمانوں کے لئے ایک شاہراہ کھول دی۔پھر ان کے بعد شاہ ولی اللہ نے ان کی نیابت فرمائی۔قرآن کریم کا ترجمہ لکھا۔اور کفر کا فتویٰ لیا۔حجتہ اللہ لکھی۔ ۔ الانصاف الانتباہ۔بدورالبالغہ العقد الجید خیر کثیر اتنی کتابیں لکھیں۔اور ہر لائن میں مسلمانوں کو اتنی راہیں دیکھایئں۔ کہ اس سے پہلے کوئی نہ دیکھا سکا۔پھر ان کے بعد جہاد بالسیف کا وقت آیا۔تو انھیں کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنے ہی خانوادہ کے تربیت یافتہ سید احمد شہید ؒ کی اقتداء میں وہ کار ہائے نمایاں کیے۔کہ رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گے۔آج ہم انھیں بزرگوں کے کار ہائے نمایاں کے سلسلہ میں یہ مضمون قلمبند کر رہے ہیں۔جن کی تہہ میں ہماری پوری تاریخ کے بہت سے راز و اسرار مضمر ہیں۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید اہل حدیث تھے۔یا یونہی ان کو اہل حدیث سمجھ لیا گیا ہے۔مثل مشہور ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔اگر یہ صحیح ہے۔کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔تو ہر شخص اپنے عقائد و اعمال سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں شاہ شہید کی تصنیفات تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین الایضاح الحق الصریح منصب امامت صراط مستقیم دیکھ لیجئے کہ یہ کیاکہہ رہی ہیں۔اس کے بعد ان کے مواعظ حسنہ میں شرک و بدعاعت کی تردید کا پہلو اتنا نمایاں ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کی تقریر میں بھی اتنا نمایاں نہ ہوگا۔یہی کیفیت سید احمد شہید کی زندگی میں نظر آرہی ہے۔اور اسی حقیقت نے اغیار کو مجبور کر دیا۔کہ وہ انہیں اہل حدیث لکھیں۔اہل حدیث سمجھیں۔اور وہابی کہیں۔اس تحریک کانام وہابی تحریک رکھیں۔
چنانچہ سرکاری جریدہ ماہ نو مئی 1957ء کے نمبر خاص میں ''بعنوان'' مجدد الف ثانی سے سیداحمد شہید تک لکھا ہے۔
حضرت امام ربانی مجددالف ثانی کی تحریک دونوں برصغیر (پاک وہند) کے مسلمانوں کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔احیائے اسلام کی اس تحریک کا اثر نہ صرف سولہویں ۔سترویں۔اٹھارویں۔اورانیسویں صدی تک پڑا۔بلکہ اس کے بعد بھی اس کا اثر محسوس ہوتا رہے گا۔ایسی ایسی ہستیاں جیسے خواجہ باقی باللہ حضرت امام کے مرشد روحانی امام الہند شاہ ولی اللہ مولانا عبد العزیز شاہ عبد الحئی (شاہ عبد العزیز کے داماد)حضرت سید احمد بریلوی جو سلسلہ اہل حدیث کی بانی تھے۔شاہ اسماعیل شہید۔۔۔اور دوسری بہت سی ہستیاں حضرت امام ربانی کی تحریک سے بے حد متاثر ہویئں۔(صفہ10)
اس خظ کشیدہ عبارت میں سید احمد شہید نامہ نگار محمد علی عثمانی نے جو خود اہل حدیث نہیں ہیں۔سلسلہ اہل حدیث کا بانی قرار دیا ہے۔یعنی اپنی تاریخ معلومات کی بناء پر یہ بتایا ہے کہ ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتداءسید احمد شہید کی تحریک حریت اور تحریک جہاد سے شروع ہوئی اوراس کے بعد ہی عوام کھل کر اہل حدیث کہلانے لگے۔پھر آگے چل کر مذید ارشاد ہواہے۔
سید احمد بریلوی مجددی دبستان سے تعلق رکھتے تھے۔اور صوفیائے عظام میں بڑے اونچے درجہ کے مالک تھے۔سید موصوف کا اعتقاد تھا۔ کہ اُن کا تعلق براہ راست رسول اکرم ﷺ سے ہے۔اورانھیں حضور ﷺ سے ہی رہنمائی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک نیا طریقہ ''طریق نبوت''رائج کیا باقی تمام طریقے ان کے نزدیک ''طویق ولایت''قرار پائے۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ صوفی پہلے سختی سے سنت پر عمل کرے۔اور پھر فکر کی ر اہ اختیار کرے۔آپ نے عقیدہ ''ہمہ اوست اور وحدت الوجود'' کی سختی سے مخالفت کی اور الوہیت کی تعلیم دی۔ انہوں نے سماع او روجد کے مقابلہ پر جہاد کی فضیلت بیان کی خود نہایت سختی سے کتاب و سنت پر عمل کیا۔اور تمام بدعات کی بیخ کنی کی۔اس کے باعث انھوں نے مسلمانوں کے تنظیم کی اور سکھوں کی طاغوتی طاقت کے خلاف جو پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کو غلام بنائے ہوئے تھے۔ جہاد کیا او ر اسی کوشش میں آپ شہید ہوئے۔(ص12)
آپ خود ہی انصاف سے کہیے کہ کتاب وسنت پر سختی سے عمل کرنا اور بدعات کی تردید اور بیخ کنی کس جماعت کا خاصہ ہے اور تمام طریقہ ہائے ولایت سے ایک نئی راہ ولایت جو طریق نبوت سے ملتی جلتی ہو کون ایجاد کرتا ہے۔پس سید صاحب اہل حدیث تھے۔یقیناً اہل حدیث تھے۔اور انہوں نے ہی ہندوستان جیسے مشرک ملک میں اہل حدیث کی داغ بیل ڈالی تھی۔
ہم اس موقع پر سید احمد شہید ؒ کی روحانی قوت کا زکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔کیونکہ ہمارے نزدیک اہل حدیث کی اصل دولت یہی تھی۔جو ابتدا ء زمانہ کے ساتھ ساتھ آب بالکل نا پید اور گم ہوتی جارہی ہے۔اور آج کا اہل حدیث تو اس کا قائل ہی نظر آتاہے۔کہ یہ طاقت بھی کوئی طاقت ہے۔
سید صاحب کی زبان میں تاثیر تھی۔اور بلا کی تاثیر تھی۔آپ عالم تھے مگر بہت بڑ ے عالم نہیں تھے۔واعظ تھے مگر بہت بڑے واعظ نہیں تھے۔جملوں کی ترتیب الفاظ کی بندش کلام کی روانی کا قطعاً احساس نہ فرماتے۔ہاں جو بات ہوتی وہ دل سے نکلتی۔اور دلوں پر اثر کرتی تھی۔ہزار ہا ہندوآپ کے وعظ سے مسلمان ہوئے۔لاکھوں گمراہ راہ پر آگئے۔بگڑے ہوئے سلجھ گئے۔اور سلجھے ہوئے مقام امامت پر پہنچ گئے۔
حضرت مولانا عبد الحئی (داماد عبد العزیز محدث دہلوی) جو درسیات میں اپنے زمانہ کی صف اول میں شمار ہوتے تھے۔اور سرکاری طور پر مفتی مانے جا چکے تھے۔اور زہد دورع میں بھی کسی سے کم نہیں تھے۔جب سید صاحب سے ملے تو آپ سے نماز حضور قلب کے متعلق سوال کیا۔آپ نے فرمایا! مولانا باتوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔اور نہ ہی یہ چیز سمجھانے سے سمجھائی جا سکتی ہے۔اٹھیے اور میرےپیچھے دو رکعت نماز پڑھ لیجئے۔مولانا نے آپ کے ساتھ دو رکعت پڑھی۔ اور نماز کے بعد بیت کر لی۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے سید صاحب کی بیت مولانا عبد العزیز محدث دہلوی (اپنے خسر) کے ارشاد پر کی تھی اور پھر مولانا سید اسماعیل شہید کو مشورہ دیا تھا۔کہ وہ بھی بعیت کر لیں۔
چنانچہ دو چار دس بیس نہیں سینکڑوں اور ہزاروں علماء اور فضلاء جومرتبہ میں آپ سے بہت بڑے تھے۔روحانی فیوض حاصل کر کے آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے۔اسی کوکتہے ہیں۔ع
جب تذکیہ نفس ہو تو کیفیت بدل جاتی ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کیفیت بھی اس تذکیہ بدلتی رہی۔کتب احادیث میں ابو مخدورہ ثمامہ بن اثال ہندہ بنت ابو سفیان فضالہ بن عمیر و عمرو بن عاص سینکڑوں صحابہ کے حالات بسند صحیح موجود ہیں۔ کہ ان کی کیفیت حضورﷺ کی ایک ہی صحبت سے پلٹ گئی۔مگر افسوس ہے کہ آج ہم اس کے قائل نہیں رہے۔اور صیغہ قلوب سے بالکل نے نیاز ہوگئے ہیں۔بقول اکبر مرحوم ۔ع۔
امیر المومنین کا خطاب
جب ہزار ہا علماء فضلاء اور لکھنو کےعوام نے آپ کے ہاتھ پر بعیت کر لی۔اور آپ نے کفر کے خلاف علم جہاد بلند کر دیا۔تو آپ کو امیر المومنین کا خطاب دے دیا گیا۔او ر کیوں نہ دیا جاتا او ر کیوں آپ کو امیر نا مانا جاتا۔جب کہ امارت کی تمام خوبیاں آپ میں موجود تھیں۔آپ نے اپنے مبالعین کو صرف درس و تدریس ہی میں مشغول نہ رکھتے ۔بلکہ ان کو فن حرب کی تعلیم دیتے صرف مراتبہ اور مشاہدہ ہی نہ سکھاتے بلکہ جنگی پریڈ اور قواعد بھی کراتے تھے۔انھیں اصلاح عقائد و اعمال ہی کی تبلیغ ہی نہ کر تے رہتے بلکہ سپاہ گری کی دعوت بھی دیا کرتے ان میں خلوص اور للہیت پیدا کرتے ایثار و قربانی کا جزبہ پیداکرتے مصائب پر صبر کی تلقین کیا کرتے۔اُن میں باہمی محبت و انس ۔محبت مروت اخوت پیدا کرتے اور نہ صرف پیدا کرتے بلکہ کر کے دکھا دیتے اسی معنی میں علامہ اقبال مرحوم نے کہا ہے۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانہ کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آیئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی اور بھی تیرے لئے دشوار کرے
دے کے احساس زباں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمانوں کو سلاطین کا پرستار کرے۔
نظم و نسق
امیر المومنین حضرت سید احمد شہید ؒ نے سب سے پہلے ایک نظم و نسق استوار کیا ہم سالہا سال سے اب تک اپنی انجمن سازی نہیں کر سکے مگر حیرت ہے۔کہ سید شہید نے قلیل سی مدت میں پوری مملکت کا نظم و نسق کیونکر استوار کیا۔کہیں وفود جا رہے ہیں۔کہیں مبلغ پھر رہے ہیں۔کہیں رقوم جمع ہو رہی ہیں۔ کہیں عشر کی فراہمی کا انتظام ہے۔کہیں پریڈ ہو رہی ہے۔اور مجاہدین کوفنون حرب سکھائے جا رہے ہیں۔الغر ض ہر شعبے کا الگ نظم و نسق ہے۔ اور ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے باقاعدہ کوئی حکومت ہے جس کے تمام محکمے باقاعدگی سے اپنا پنا کام چلا رہے ہیں۔ڈاکٹر ولیم ہنٹر اپنی کتاب۔''انڈین مسلم''کے صفح 28 پر سید احمد شہید کے زکر میں لکھتا ہے۔
''جون 1830ء میں شکست کھانے کے باوجودامام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا۔اور اسی سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دارلسلطنت تھا فتح کر لیا تھا۔یہ زمانہ امام صاحب کی زندگی کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔انہوں نے اپنے خلیفہ اسلام ہونے کااعلان کر دیا۔اور اپنے نام کے سکے جاری کر دیئے۔جن پر یہ عبارت کندہ تھی۔
جن کی شمشیر کی چمک کافروں کے لئے پیغام اجل ہے۔
غور فر مایئے۔یہ انتظام جس کا انگریز جیسا دشمن بھی اعتراف کرے کوئی معمولی سا کام ہے۔
آپ نے شاہ بخارا کے پاس دعوت جہاد کی غرض سے ایک وفد بھیجا۔ایک وفد شاہ چترال کے پاس گیا۔ایک وفد حاکم فیض آباد۔اورف حاکم قندر سے ملا۔آپ نے بدفشاں ۔سوات۔نبیر کوئی ریاست نہ چھوڑی۔ جس کے امیروں کو خطوط اور دعوت نامے نہ بھیجے۔پھر اُن میں بیشتر نے آپ کی مدد بھی کی یا امانت کا وعدہ کیا اور آپ کی تحریک سے ہمدردی کا اظہارفرمایا۔عوام میں او ہندوستان کے گوشے گوشے میں تبلیغ جہاد کے لئے مبلغ اور واعظ مقرر کیے گئے۔جو سپاہی تیار کرتے اُن کے لئے سامان حرب او رنان و نفقہ فراہم کرتے۔اور یہ کام اس تنظیم اور خلوص سے ہوتا رہا۔کہ کہیں ایک پائی تک ضائع ہونے کا احتمال نہ تھا۔اس کے متعلق لارڈ ہنٹر کا بیان ہے کہ۔
''جہاں تک میرا تجربہ ہے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔کہ ایک وہابی مبلغ سب سے زیادہ روحانیت رکھنے والا او رسب سے کم خود غرض اور بے لوث ہوتا تھا۔
سید صاحب کی فوج میں بھرتی ہونے والے وہی لوگ تھے۔جومسجدوں میں رہتے لمبی لمبی نمازیں پڑھتے نیلے تہبند پہنے ہوتے کھد ر کے کپڑے استعمال کرتے فنون حرب سے نا آشنا اور جنگی کربتوں سے بے خبر تھے۔ہاں دل میں ایک جزبہ رکھتے تھے۔اور اسی جذبے کے تحت پریڈ کرتے۔تیر اندازی۔نیزہ بازی۔سیکھتے اور اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہی میدان جہاد میں کو د پڑتے تھے۔
1۔سید ابو محمد ایک مجاہد تھے۔جنھیں گھوڑا پھیرنے میں بہت کمال تھا۔وہ ایک میخ زمین پر گاڑ لیتے اور اس پر کوڑی رکھ دیتے گھوڑا تیز دوڑاتے ہوئے آتے۔اور میخ سے کوڑی اُڑا دیتے اورمیخ کو آنچ تک نہ آنے دیتے ۔اس فن میں انھوں نے وہ کمال حاصل کیا۔کہ کوئی ان کا سہیم نہ بن سکا۔
2۔ایک مجاہد تیر اندازی میں اس درجہ ماہرتھا۔کہ وہ دور پہاڑی پر ایک بکری کے داہنے سینگ کو نشانہ بنانا چاہتا تو کیا مجال کہ اس کے بایئں سینگ یا جسم کے کسی اور حصہ کوتیر لگنے پاتا۔
3۔مولوی احمد بیگ ناگ پوری قاسم خیل میں گولے تیار کیا کرتے۔سید صاحب نے کئی آدمی آپ کے ساتھ کر دیئے۔انھوں نے گولے ڈھانے کا کار خانہ بنایا۔جہاں ڈیڑھ سیر تین سیر اور پانچ پانچ سیر کے گولے تیار ہوا کرتےتھے۔
4۔مرزا عبد القدوس اعلیٰ درجے کے گھوڑا سوار تھے۔جب کوئی سکھ گھوڑا دوڑاتا ہوا اُن کی طرف آتا۔تو اس کے قریب آتے ہی اچھل کر دوسری طرف ہوجاتے اور قبل ازیں کے وہ مڑ کر آتا۔آپ اس کا سر قلم کر دیتے۔ہزاروں کافروں کو آپ نے جہنم رسید کیا۔
غرض یہ کہ ہر مجاہدین کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔عسکری نظام اور فوجی کاموں سے مہارت حاصل کرنے کے بعد فوج میں شامل ہوتا تھا۔اور پھر شامل ہوتے ہی اسلامی رنگ میں رنگاجاتا تھا۔اس میں کبر و استکبار کی بجائے فروتنی اور انکساری تیزی اور جلد بازی کی بجائے علم و بردباری پیدا ہو جاتی تھی۔اطاعت کاجزبہ تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتاتھا۔اور اسی پر ان کے نظام کی مظبوطی کا سارا انحصار تھا۔
جماعت مجاہدین میں اگرچہ غرباء کی کثرت تھی۔یعنی غریب لوگ لاکھوں کی تعداد میں شامل تھے۔مگرامُرا کی بھی کچھ کمی نہ تھی۔بڑے بڑے امیر ریئس جاگیر دار زمین دار۔اس جماعت میں شامل ہوکر اسلامی رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔اوراپنا آپ کھو چکے تھے۔یہ وہ کمال تھا جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بعد غالباً اسی جماعت میں پیداہوا۔اور سیدصاحب کے ہی خلوص اور یمن و برکت سے پیدا ہوا کہ ایسا سماں پھر کہیں دیکھنے میں نہ آیا۔
1۔شیخ غلام علی مہرو نڈہ (الہ آباد) کے باشندہ اور مہاراجہ بنارس کے عملدار تھے۔بہت بڑے ریئس اور متمول تھے۔ سید صاحب معہ جماعت کے لئے جو نکلے۔تو آپ نے سید صاحب کو ٹھرا لیا۔روزانہ ایک ہزار روپیہ کھانے میں خرچ کرتے اور سینکڑوں روپے کے تحائف پیش کرتے۔کئی دن کے بعد جب روانگی ہوئی ہر ساتھی کی جوج کی جو کئی سو تھے۔دو دو جوڑے کپڑٖے ایک ایک جوڑا جوتا اور کئی تحفے تحائف اور بیس ہزار روپے کے قریب نقد پیش کیا۔اور اس پرمعذرت خواہی کی کہ میں اپنے رفقاء کا حق ادا نہیں کر سکا۔شیخ صاحب پرسید صاحب کی صحبت کا اتنا اثر ہواکہ عیش و راحت کی زندگی ترک کر کے فقیرانہ اور درویشانہ زندگی بسر کرنے لگے۔اور دولت خدا کی راہ میں لٹانے پر اُتر آئے۔آخری دور میں تو سادگی کا یہ عالم تھا۔کہ موٹے کپڑے استعمال کرنے لگے۔چھوٹی سی چارپائی پر سوتے۔ جس پر کوئی بستر نہ ہوتا۔تاکہ پائوں نہ پھیلا سکیں۔جلد آنکھ کھل جائے اور رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزار سکیں۔
2۔شیخ عبد الطیف مرزا پور کے بڑے تاجر تھے۔سید صاحب کے ساتھ سفر حج میں شریک رہے۔راستہ میں سارے قافلہ کی پرتکلف دعوت کرتے رہے۔اور چار ہزار روپیہ بھی نذر پیش کیا۔
3۔منشی امین الدین احمد ایسٹ انڈیا کمپنی کے وکیل تھے۔مرکزی عدالت میں تمام مقدمے انہیں کی وساطت سے پیش ہواکرتے تھے۔دولت کی فراوانی کا یہ عالم تھا۔کہ ہر مہینے کے خاتمے پر تیس چالیس ہزار روپیہ کی تھیلیاں ہاتھی پر لدوا کر گھر لے جایا کرتے تھے۔مگر جب سیدصاحب کی جماعت سے منسلک ہوئے۔تو تمام دولت اللہ کی راہ میں وقف کر دی۔
4۔شیخ علی جان دنا پور کے ریئس تھے۔اپنی دولت جماعت مجاہدین کے لئے وقف کیے بیٹھے تھے۔ ہر ضرورت مند کو اسکی ضرورت کے مطابق پانچ سو روپیہ تک دینے کے لئے مستعد رہتے تھے۔اپنا ایک باغ آنے جانے والے مسافروں کے آرام کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ دوران جہاد میں صوبہ بہار کی تمام اعانتی رقوم آپ ہی کی وساطت سے جمع ہوکر مجاہدین تک پہنچا کرتی تھیں۔
5۔صدالدین صاحب دانا پوری کے ایک متمول بزرگ تھے۔اور دل کے اتنے سخی تھے۔کہ سوپچاس آدمی روزانہ آپ کے ہاں کھانا کھاتے اور قافلوں کے قافلے ادھر جاتے ہوئے آپ کے ہاں ٹھرا کرتے اور آپ ان کی مہمان نوازی سے دلی مسرت اور قلبی راحت محسوس فرماتے سید صاحب کے ہاں سے جب کوئی آجاتا تو اسے سینکڑوں روپے مستورات کی طرف س اور ہزاروں روپے اپنی طر فسے بطور نذر پیش کرتے۔
6۔شیخ محمد تقی صاحب یہ انگریزی فوج کے بہت بڑے ٹھیکیدار تھے۔انہوں نے اپنی جائدادکا ایک حصہ مجاہدین کے لئے وقف کر رکھا تھا۔جس کی قیمت اس زمانہ میں سوا لاکھ کے قریب تھی۔اسی جائیداد کا ایک حصہ انار کلی لاہور کی وہ عمارت بھی ہے۔جوسرائے محمد شفیع کے نام سے مشہور ہے۔اور اب ایک عالی شان ہوٹل کی صورت میں منتقل ہوچکی ہے۔شیخ محمد شفیع شیخ محمد تقی کے بڑے صاحبزادہ کے بڑے مخلص اور ارادتمند مرید تھے۔
7۔الہ داد خان نپی فتح پور سہوہ کے جاگیر دار تھے۔ان کی عمارات کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے۔کہ جس خاتون سے نکاح کیا اس کا مہر پانچ لاکھ پانچ اشرفی نقد ادا کیاتھا۔مگر جب سیدصاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئے بس تو پھر سچ مچ بک گئے۔دولت تو رہی ایک طرف سے جان دینے تک انکار نہ کیا۔اورشہادت کے مراتب پرفائز المرام ہوکر رہے۔
8۔نواب امیر الدولہ امیر الملک محمد امیر خاں۔بہادر شمشیر جنگ والئی ٹونک اور ان کے صاحبزادہ نواب وزیر الدولہ والے ٹونک کا تذکرہ اس ضمن میں بیان کرنا ان کی شان کے منافی نظر آتا ہے۔کہ ان دونوں باپ بیٹوں نے سب کچھ ہی مجاہدین کے لئے وقف کررکھا تھا۔اور ریاست ٹونک کو چار وانگ عالم مشہور کردیا تھا۔ کہ یہ ریاست مجاہدین اور وہابیوں کی اعانت میں سے سے پیش پیش رہتی ہے۔
الغرض سینکروں نہیں ہزاروں امراء پر سید صاحب کا جادو چل چکا تھا۔اور نہ وہ صرف اپنی دولت نچھاور کر چکے تھے۔ بلکہ غریبوں کے ساتھ مل کر غریبانہ زندگی بسر کرتے تھے۔اور اسلامی مساوات کا پورا فوٹو پیش کر رہے تھے۔ہر مجاہد کو کھانا یکساں ملتا لباس یکساں ہوتا۔بستر یکساں رہتا کام یکساں کرنا پڑتا۔نہ امیر غریب میں تمیز ہوتی۔نہ عالم جاہل میں امتیاز رکھا جاتا نماز میں سستی ہوتی تو یکساں سزا ملتی۔احکام میں تغافل کیش ہوتی۔تو یکساں تازیانے پڑتے کوئی تنازع جھگڑا ہو جاتا تو کسی قاضی کے ہاں یکساں پیش ہوتے اور یکساں فیصلے ہوتے۔کسی کے ہاں کسی کے متعلق کسی قسم کی کوئی رورعایت روانہ رکھی جاتی تھی۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب