السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حقانیت مسلک اہل حدیث تاریخی حقائق کی روشنی میں
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ گرانقدر مقالہ جماعت اہل حدیث کے فاضل گرامی حضرت مولانا ابو القاسم بنارسی رحمۃ اللہ علیہ نے مارچ 1943ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس (موائمہ ہند)میں بطور صدارتی خطبہ پیش فرمایا تھا۔ اس کی علمی اہمیت کے باعث ''فتاویٰ علماء اہل حدیث'' میں شامل کیا گیا ہے۔ (علی محمد سعیدی)
حقانیت مسک اہل حدیث تاریخی حقائق کی روشنی میں
مولانا محمد ابو القاسم بنارسی رحمۃ اللہ علیہ
اللهم لك الحمد انت قيم السموات والارض ومن فيهن ولك الحمد انت نور السموات والارض ومن فيهن ولك الحمد انت ملك السموات والارض ومن فيهن ولك الحمد انت الحق ووعدك الحق وقولك حق ولقاء حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيو ن حق و محمد صلي الله عليه وسلم حق اللهم صلي علي محمد النبي الامي واذواجه امهات المومنين وذريته واهل بيته كما صليت علي ابراهيم وعلي ال ابراهيم انك حميد مجيد
خلت الديار فسدت غير مسود ومن الشقا تفردي بالسود
ايها السادة الكرام ! سلام عليكم طبتم!
میری عقل اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر ہے۔کہ صدارت کا قرعہ میرے ہی نام کیوں ڈالا گیا۔جب کہ میری صحت کی خرابی معلوم اور میری علمی بضاعت کی قلت ظاہر تھی۔کانفرنس کی صدارت کے لئے ایک ایسے بالغ نظر کی ضرورت تھی جو اپنے اندر ایک مدت کے فکرو تعامل اور تجربہ و مشاہدہ کے باعث اس خوفناک کشاکش حیات میں جماعت کی صحیح قیادت کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہو۔میں ان خوبیوں سے تہی دامن اور سلیقہ ء قیادت سے عاری ہوں۔اس لئے اس انتخاب پر مجھ سے شکریہ کی توقع بے سود ہوگی۔اگر یہ انتخاب محض جلسہ کے لئے ہوا ہے۔تو میرے ناتوں ہاتھوں میں اتنی قوت نہیں کہ ایسے بڑے مجمع کو قابو میں رکھ سکوں۔جب تک کہ مجمع خود ہی احکام صدارت کی تعمیل نہ کرے۔محض آپ کی معاونت ہی مجھے میرے فرض سے عہدہ برآ سکتی ہے۔
حضرات میں حیران ہوں کہ آپ کے سامنے کونسے حقائق پیش کروں۔اہل حدیث کانفرنس کے مقاصد پ مرحوم قاضی سلیمان ؒ صاحب اپنے خطبہ صدارت میں کتاب و سنت سے کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔کانفرنس کی تاریخ اور اس کے کارنامے مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ اپنے خطبہ ء صدارت (اجلاس بست 22 ،دوم آرہ)میں بیان فرما چکے ہیں۔جماعت اہل حدیث کے فرائض اور پھر ان سے کوتاہیاں مولوی عبد القادر صاحب مرحوم قصوری اپنے خطبہ صدارت میں پیش فرما چکے ہیں۔پس میرے لئے زیادہ مناسب یہ ہوگا۔کہ میں اہل حدیث کےمسلک پر نظر ڈالوں۔ جس کا حامل اور مظہر خود اس کا مبارک نام ہے۔
یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ ''اہل '' ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ ''حدیث'' ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔''قرآن و حدیث والے'' جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔
یہ لقب ہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملا ہے۔حدیث میں آیا ہے۔
عن اتس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كان يوم القيامة يجي اصحاب الحديث ومعهم المحابر فيقول الله لهم انتم اصحاب الحديث(الي) انطلقوا الي الجنة اخرجه الطبراني (القول البدیع للسخاوی ص189 من طرق متعدۃ)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا!قیامت کے دن اہل حدیث اس حال میں آئیں گے۔کہ دواتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا۔تم اہل حدیث ہو جنت میں داخل ہو جائو۔
باغ فردوس برآں قوم مباح ست کہ خوش
روش راستی از قول پیمبر گیرند
صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن اہل حدیث تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو ''اہل حدیث ''کہا ہے۔
(اصابہ ص204 ج4 تذکرۃ الحفاظ۔ص29 ج1۔و تاریخ بغداد ج9 ص 467)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو'' اہل حدیث ''کہا گیا۔ (تاریخ بغداد للخطیب ج3 ص 227 و ج9 ص154)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!
انكم خلوفنا و اهل الحديث بعد نا (کتاب شرف اصحاب الحدیث للخطیب ص21)
یعنی ہمارے بعد تم تابعی لوگ ''اہل حدیث ہو''معلوم ہواکہ صحابہ و تابعین سب اہل حدیث تھے۔)
4۔امام شعبیؒ نے (پانچ سو صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو دیکھا تھا۔ اور 48 صحابیوں سے حدیثیں پڑھیں تھیں۔)تمام صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو اہل حدیث کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج1 ص 73)
تابعین و تبع تابعین بھی اہل حدیث تھے۔
جیسا کہ ابھی نمبر 3 میں گزرا باقی اہل حدیث تابعین کی فہرست خطیب نے اپنی تاریخ بغدادصفحہ 245 ج12 و صفحہ 105 ج14 میں رقم کی ہے۔کچھ لوگوں کو اپنی کتاب ''شرف اصحاب الحدیث میں زکر کیا ہے۔جو دہلی میں طبع ہوچکی1 ہے۔امام شعبی تابعی کا اہل حدیث ہونا تاریخ بغداد صفحہ 227 ج3 و صفحہ 154 ج 9 میں مرقوم ہے۔تبع تابعین میں سفیان بن عینیہ کو حکماء اہل حدیث میں شمار کیا گیا ہے۔تاریخ بغدار صفحہ 179 ج9) نیز ان کا اہل حدیث ہونا امام ابو حنیفہ کے زکر میں بھی آئے گا۔سفیان ثوری تبع تابعی کا اہل حدیث ہونا تاریخ بغداد صفحہ 227 ج3 وصفحہ 154 ج موجود ہے۔نیز ان
1.۔اور چند سال ہوئے گوجرانوالہ سے حضرت مولانا محمد اسماعیل ؒ کے نفس علمی مقدمے کے ساتھ صرف عربی میں طبع ہوئی ہے۔(ع۔ح)
کا ارشاد ہے کہ اہل حدیث روئے زمین کے نگہان ہیں۔ (مفتاح الجنۃ للسیوطی صفحہ 49 و شرف اصحاب الحدیث 45)
کتاب اصول دین میں ہے۔اصول ابی حنیفہ فی الکلام کا صول اصحاب الحدیث ج1 صفحہ30)یعنی امام ابو حنیفہ کے اصول (عقائد وذم تقلید) میں اہل حدیث کے اصول جیسے ہیں۔(وہ خود فرماتے ہیں۔)
صحح الحديث هوا مذهبي (شامی مجتبائی صفحہ 46 ج 1)
یعنی میرا مذہب حدیث ہے۔سفیان بن عینیہ کہتے ہیں۔کہ مجھے پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے اہل حدیث بنایا ہے۔(یہ الفاظ مولوی فقیر محمد جہلم حنفی کی کتاب حدائق الحنفیہ صفحہ 134 طبع نو لکسورکے ہیں۔معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اہل حدیث تھے۔اور دوسرو ں کو اہل حدیث بناتے تھے۔آپ کے دور میں اہل ہر جگہ موجود تھے۔جیسا کہ غایۃ الاوطار میں ہے۔امام ابو حنیفہ ؒ جب بغداد آئے تو اہل حدیث نے سوال کیا کہ رطب کی بیع تمر سے جائز ہے یا نہیں۔؟ (ترجمہ در مختار مطبوعہ نولکشور صفحہ 130 ج3)
ابن معین نے آپ کو صاحب حدیث اور صاحب سنت کہا ہے۔ (تذکرہ ج1 ص 267)
يحب اصحاب الحديث ويميل اليهم (ص 255 ج14)
آپ اہل حدیث سے محبت رکھتے اورانھیں کی طرف مائل تھے۔آپ نے اہل حدیثوں کو اپنے دروازے پر مجتمع دیکھ کر فرمایا تھا۔
ما علي الارض خير منكم (کتاب الشرف للغیطب ص51)
کہ روئے زمین پر تم اہل حدیثوں سے بہتر اور کوئی نہیں ہے۔
آپ بھی اہل حدیث تھے۔امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح کے مقدمہ ص23 میں آپ کو آئمہ اہل حدیث میں شمار کیا ہے۔اور وہیب نے آپ کو امام اہل حدیث کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص188 ج1)
منہاج السنۃ میں ہے۔
اخذ مذهب اهل حديث واختار لنفسه (ص 143 ج4)
یعنی امام شافعی ؒ نے اپنے لیے اہل حدیث کا مذہب پسند کیا تھا۔ تہذیب نووی میں ہے کہ
نشر علم الحديث و اقام مذهب اهله (ص47 ج 1)
آپ نے علم حدیث کو پھیلایا اور مذہب اہل حدیث قائم کیا۔آپ لوگوں سے فرمایا کرتے!
عليكم باصحاب الحديث قانهم اكثر صوابا من غيرهم (توالی التاسیس مصری ص64)
یعنی تم لوگ اہل حدیثوں کے پاس جائو یہ لوگ دوسروں سے زیادہ صواب پر ہیں۔
آپ کو قتیبہ بن سعید نے اہل حدیث کہا ہے۔کتاب الشرف للخطیب ص74 اور منہاج السنۃ (ص 143 ج4) میں ہے۔
كان علي صاحب اهل لحديث
طائفة رجل من اهل الحديث (ص8 طبع دمشق)
دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ اہل حدیث کے مذہب پر تھے۔آپ نے قول اللہ
طائفة ليتفقهو في الدين
کی تفسیر میں فرمایا کہ ! یہ طائفہ اہل حدیث ہے۔ (کتاب الشرف ص61۔62)
ایک دفعہ آپ سے فرقہ ناجیہ کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا!
ان لم يكونو ا اصحاب الحديث فلا ادري (ایضاً صفحہ 24)
کہ یہ اہل حدیث ہیں۔اگر یہ فرقہ ناجیہ نہ ہو تو میں نہیں جانتا کہ اور کون فرقہ ہے۔؟اسی طرح حدیث نبوی
لا تذال طائفة من امتي منصورين
(میری امت میں ایک گروہ مظفر و منصور رہے گا۔)کی بابت فرمایا! کہ یہ گروہ اہل حدیثوں کا ہے۔اگر یہ لوگ مراد نہ ہوں تو پھر میں نہیں جانتا کہ او ر کون ہیں۔؟
(کتاب معرفۃ العلوم الحدیث للحاکم طبع مصر ص2۔وکتاب الشرف للخطیب ص26 وشرح صحیح مسلم ص142 ج1 و فتح الباری انصاری ص85 پ1 و ص 671 پ29)
لا يذال الله يغرس في هذا الدين غرسا
کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا!کہ یہ اہل حدیث ہیں۔ (مختصر طبقات الحنابلہ ص257)
اور فرمایا!
ليس قوم عندي خيرا من اهل الحديث (کتاب الشرف ص49)
کہ میرےنزدیک اہل حدیث سےبہتر کوئ قوم نہیں ہے۔''ایک بار فرمایا کہ انسان تو بس اہل حدیث ہی ہیں۔ (کتاب مذکورہ ص50 طبقات ص285)
ابدال کی بابت فرمایا!
ان لم يكن اصحاب الحديث هم الابدال فلا اعرف ابدالا (مفتاح الجنۃ ص48وکتاب الشرف ص52)
یعنی ابدال صرف اہل حدیث ہوتے ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو پھر کوئی ابدال نہ ہوگا۔ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی نے اہل حدیث کو بُرا کہا۔تو آپ نے اس بدگو کو تین مرتبہ (بے دین)زندیق فرمایا۔
(طبقات الحنابلہ ص17 و ص 204 وکتاب الشرف ص76و علوم الحدیث للحاکم ص4)
کیوںنہ ہو۔
اهل الحديث هموا اهل النبي ان لم
يصحبوا نفسه انفاسه صحبوا
بڑ ے پیر شیخ عبد لقادر جیلانی ؒ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں لکھاہے کہ''اہل بدعت کی علامت اہل حدیث کو بُرا کہنا ہے۔
ولا اسم لهم الا اسم واحد هم اصحاب الحديث (ص90 ج1 طبع مصر)
اور اس جماعت کا سوائے اہل حدیث ہونے کے دوسرا نام نہیں ہے۔آپ کی پیدائش پانچویں صدی کے آخر میں ہوئی ہے۔
پانچویں صدی ہجری کے سب سرحدوں کے مسلمان
اس پانچویں صدی میں تمام سرحدوں کے مسلمانوں کامذہب اہل حدیث کا پابند ہونا۔علامہ ابو منصور بغدادی کی کتاب اصول الدین ص317 ج1) سے واضح ہوتاہے۔
حيث قال و بيان هذا واضح في ثغور الروم والجزيرة وثغور الشام وثغور اذ ر بيجان و باب الابواب كلهم علي مذهب اهل الحديث من اهل السنة
یعنی روم شام و جزیرۃ اور آزر بائجان کی سرحدوں کے باشندے سب کے سب اہل حدیث ہیں۔کے مذہب پرہیں۔
پانچویں صدی سے پیشتر کا حال بھی سنیے۔غزنی کے دربار میں اہل حدیث عالم موجود تھے۔تاریخ فرشتہ میں سلطان محمودغزنوی ؒ کے وقائع ص390 میں مرقوم ہے کہ سلطان محمود نے ابو الطیب سہل بن محمد بن سلمان اہل حدیث میں سے تھا۔
برسم رسالت ملک ایلک خاں کے حضور میں بھیجا۔ (تاریخ فرشتہ اردو ص35 ج1)
اور 410 ہجری میں سلطان ممدوح خود بھی قفال مروزی محدث کے اثرصحبت سے اپنا حنفی مذہب چھوڑ چکا تھا۔دیکھو۔امام یافعی کی مراۃ الجنان جلد سوم کا صفحہ 25۔35)
اس زمانے میں ہندوستان میں بھی اہل حدیثوں کا وجود ملتا ہے۔مشہورعرب سیاح بشاری مقدسی جو 375 ہجری میں ہندوستان آیا تھا۔ اپنی کتاب احسن التفاسیر فی معرفۃ الاقالیم میں سندھ کے مشہور منصورہ کے حال میں لکھتاہے۔یہاں کے زمی بت پرست لوگ ہیں۔اور مسلمانو ں میں اکثر اہل حدیث ہیں۔یہاں مجھے قاضی ابو محمد منصوری سےملنے کا اتفاق ہوا۔جو مذہب دائود ظاہری کے پابند تھے۔ (تاریخ سندہ ج2 ص124)
اس بیان سے لوگوں کوبہت تعجب ہوگا۔کہ ہندوستان میں جماعت اہل حدیث مولانا اسماعیل شہید اورعلامہ محمد بن عبد الوہاب نجدی ؒ کی پیدائش سے بھی صد ہاسال پہلے سے موجود ہے کیونکہ مقدسی چوتھی صدی ہجری میں گزرا ہے۔)
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ جماعت اہل حدیث (متحدہ)ہندوستان میں کوئی نئی جماعت نہیں ہے۔بلکہ یہ جماعت اس وقت بھی موجود تھی۔جب کہ وباء تقلید نے پھیلنا شروع کیا تھا۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ میں تصریح کی ہے۔کہ تقلید کاشروع چوتھی صدی ہجری سے ہواہے۔ (ج1 ص 152)
اسی زمانے سے مذہبی کشاکش اور ملت کا بٹوارہ شروع ہوا۔اسلام تلوار سے نہیں پھیلاتھا۔لیکن تقلیدی مذاہب البتہ بذور شمشیر رائج کئے گئے۔
ان مذہبوں پر ملک میں بٹوارے کا حال کتاب الفوائد البیہیہ ص 10 میں یوں مرقوم ہے۔
امام احمد کا مذہب نواحی بغداد میں پھیلا اور امام مالک کا مذہب بلاد مغرب اور بعض بلاد حجاز و یمن اور اطراف خراسان اکثر بلاد وحجاز و یمن اوراطراف خراسان وتوران اور بعض بلادہند میں اشاعت پزیرہوا۔باقی تمام ملکوں میں حنفیت کو عروج ہوا۔اسی کتاب کی تعلیقات صفحہ 102 میں مرقوم ہے۔قفال کبیر شاشی المتوفی 365ہجری نے ماورائ النہر میں شافعیت پھیلائی۔یہ امر سخاوی نے بھی رسالہ الاعلان باتو بیخ ص99 میں تحریر کیاہے۔اور لکھا ہے کہ (دمشق اورشام) میں شافعیت ابو زرعہ محمد بن عثمان دمشقی کے زریعے سے پہنچی اورعبدان مروزی کی سعی سے مرد میں اور ابو عوانہ اسفرائینی کی کوشش سے اسفرائین میں شافعیت نے قدم جمائے ۔ (کتاب مذکور طبع دمشق ص99)
مذاہب مذکورہ کے بزور ریاست پھیلائے جانے کے چند حوالے سن لیجئے۔مقریزی و ابن خلکان کا دونوں متفقہ طور سے لکھتے ہیں۔
مذهبان انتشر افي مبد ء امر هما با لريا سة والسلطان مذهب ابي حنيفة من اقصي المشرق الي اقصي افريقة و مذهب مالك في بلاد اندلس
وفیات الاعیان صفحہ 216 ج2) شروع میں دو مذہب بزورسلطنت پھیلے۔حنفی مذہب مشرق سے افریقہ تک۔اور مالکی مذہب اسپین میں مصر میں جب صلاح الدین ایوبی شافعی کے ہاتھ میں عہدہ قضاء کی باگ ڈور دے دی۔اس وقت سے مصر میں شافعیت کو کچھ فروغ ہوا۔ (افتراق الامم طبع جوائب ص233)
اوپر کتاب''اصول الدین'' کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔کہ (خلافت عثمانی کا مفتوحہ افریقہ اوراس کی) سرحدوں کے مسلمان اہل حدیث مذہب پرقائم تھے۔پھر کیا ہوا۔؟سنیے!علامہ مقریزی لکھتے ہیں۔
وكانت افريقية الغلب عليها السنن والاثار الي ان قام عبد الله الفاسي بمذهب الحنفي ثم غلب اسد بن الفرات قاضي افريقية بمذهب الحنفي
کتاب الخط ص323 ج2)یعنی ''افریقہ والوں پراتباع سنت و اثر کا ولولہ غالب رہا۔یہاں تک کہ عبد اللہ فاسی وہاں حنفی مذہب لے کر پہنچا اور قاضی اسد حاکم افریقہ نے سارے ملک پر حنفی مذہب کو غالب کردیا۔
فلما تولي عليها المغربن با ديس س407 حمل اهلهاواهل ما ولا ها من بلاد المغرب علي المذهب المالكي
مغربن بادیس والی افریقہ نے پانچویں صدی کے شروع میں سارے ملک افریقہ کو مالکی مذہب کے قبول کرنے پر مجبور کردیا۔
ایک صدی بعد غیر ت الٰہی کو حرکت ہوئی۔اور بلاد مغرب(افریقہ) میں موحدین(اہل حدیث) کی حکومت قائم ہو گئی۔
یوسف بن عبد لمومن پھر اس کے بعد اس کے بیٹے یعقوب بن یوسف نے بادشاہت کی ان دونوں نے مذہب اہل حدیث کی پوری حمایت اورنصرت کی۔
ذہبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں۔کہ ابو بکر بن جدانہ نے کہا میں امیر المومنین یوسف سے ملنے گیا تو دیکھا کہ ان کے سامنے قرآن مجید اور سنن ابو داود اورتلوار رکھی ہوئی ہے۔خلیفہ نے ان تینوں چیزوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔کہ سوائے ان تین(قرآن۔حدیث۔تلوار) کے سوا باقی سب بے سود ہے۔اسی کتاب میں خلیفہ یعقوب کے حال میں مرقوم ہے۔کہ اس بادشاہ کے زمانے میں افریقہ سے فقہ کا علم اٹھ گیا۔خلیفہ نے کتب فقہ میں اشغال سے منع کر دیا تھا۔اور حکم دیا تھا کے لوگ صحاح ستہ۔ اور کتب سنن و مسانید پڑھیں پڑھایئں۔خلیفہ خود بھی حدیث پڑھاتا اور حدیث یاد کرنے والوں کو انعام دیتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے علماء پکے کٹر اہل حدیث او ر تقلید کے دشمن ہو گئےتھے۔جیسے امام ابن حزم علامہ قرطبی محی الدین ابن عربی وغیرہ ابن خلکان نے اس خلیفہ کے حال میں لکھا ہے۔
امر برفض الفقه ولا يفتون الا بالكتاب والسنة ولا يقلدون احد من الامة الخ (ص 328 ج2)
یعنی اس نے حکم دیا تھا کہ فقہ چھوڑدو۔قرآن و حدیث سے فتویٰ دو اور کسی امام کی تقلید نہ کرو۔اس کے بعد وہاں سے مذہبی جھگڑے یکسر ختم ہو گئے۔
افریقہ سے بھاگے ہوئے متعصب مولویوں نے مشرق میں پنا ہ لی۔اور حجاز اور عراق نیز دیگر مقامات میں تقلیدی مذہب نے انتہائی تشدد اور عصبیت سے حکم جاری کیا اور یہ قانون بنا دیا کہ مذاہب اربعہ کی تقلید واجب ہے۔اور ان سے خروج حرام
(مقریزی ص344 ج2)
اور یہ کہ آئمہ اربعہ کے مذاہب علی سبیل الدوران حق ہیں۔یعنی حق انہیں چاروں میں دائر ہے۔اس زمانہ میں عمل بالحدیث حسب پیشگوئی مخبر صادق علیہ السلام(جو مشکواۃ میں بحوالہ ترمذی مذکور ہے۔ص451) انگارے پر ہاتھ ڈالنے سے بھی زیادہ مشکل ہوگیا تھا۔
ساتویں صدی میں شاہ ظاہر بیرس نے چاروں مذہبوں کے قاضی اور مدرسے الگ الگ بنا دیئے۔ (مقریزی ج2 ص 344)
اور نویں صدی کے اوائل میں شاہ ناصر فرج بن برقوق چوکسی نے خانہ کعبہ کے حرم مسجد میں مصلے بھی چار علیحدہ علیحدہ بنا دیئے۔ (البدر الطالع ج2 ص 26)
چار مذہبوں میں حق وائر ماننے کے باوجود ایک مذہب کے الزام پربھی زور دیا جاتا تھا۔اگر ایک مذہب کا مقلد اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں چلا جاتا تو وہ سزا کا مستحق ہوتا تھا۔سراجیہ میں ہے۔
ارتحل الي مذهب الشافعي يعذر (در مختار نو لکشوری ص260 وشامی مجتبائی ص190 ج3)
پس حنفی کےلئے جب شافعی ہونا منع تھا۔تو اہل حدیث ہونا کب برداشت ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی مقلد پر حق ظاہر ہوجاتا او روہ اہل حدیث کے طریقہ پرعمل کرنے لگتا تو اسے دھمکایا جاتا توبہ کرائی جاتی ورنہ قید کر دیاجاتا۔كما يسجي کیونکہ اس نے تقلید سے رجوع کیا جو مقلدوں کے یہاں بالاتفاق حرام تھا۔
لا يرجع عما قلد فيه اتفاقا (تحریر الابن لہام الحنفی)
مصائب اہل حدیث یعنی حضرات مقلدین کا اہل حدیث سے سلوک
فتاوی تاتار خانیہ ص184 و فتاویٰ حمادیہ قلمی ورق ص123 و جواہر الفتاویٰ قلمی ورق ص 243 میں مرقوم ہے کہ ایک شخص حنفی مذہب چھوڑ کر نماز میں قراءت فاتحہ خلف الامام اوررفع یدین کرنے لگا۔وہاں کے ایک بڑے حنفی عالم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے جا کر حاکم شہر سے اس کی رپورٹ کی کوتوال نے اس شخص کو بلا کر دریافت کیا۔پھر جلاد سےکہا کہ اسے سربازار کوڑے لگائے۔کچھ لوگوں کو اس ٖغریب عامل بالحدیث پر رحم آگیا انہوں نے دوڑ دھوپ کی آخر اس سے توبہ کرائی گئی اور آئندہ کے لئے اس سے عہدوپیمان لے لیا گیا۔تو اسے رہائی نصیب ہوئی۔ (انتصار الحق ص 250)
آپ کا اہل حدیث ہونا اوپر بیان ہوچکاہے۔ ان پر مالکی مذہب کے ایک مقلد ابن ابی سمع مصری نے شب کی تاریکی میں لوہے کی ایک سلاخ سے حملہ کر کے سر توڑ دیا۔جس کے باعث آپ کا انتقال ہوگیا۔ (توالی التاسیس ص86)
آپ کو ایک متعصب حنفی ابو حفص کبیر نے پہلے تو بخاری میں فتویٰ دینے سے رکوادیا۔پھر شہر بدر کرادیا۔ (الجواہر المفتیہ ج1 ص 67)
آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے پہلے شافعی محمد صفی الدین پیش ہوا۔ (ورد کامنہ ص15 ج4)
جب یہ ہار گیا تو اس کا شاگرد ابن ملکانی شافعی مد مقابل بنا۔ (ایضاً ج1 ص 145)
آخر میں آپ کو قید کرنے کا مشورہ ہوا۔تو سزائے قید کا حکم دینے والا مالکی مذہب کا قاضی تھا۔ (ایضاً ج1 ص 147)
آپ کو صرف اس قصور پر کہ آپ نے ''امام ابن تیمیہؒ'' کی طرف سے صفی الدین شافعی مذکور سے مباحثہ کیا تھا۔اور امام بخاری ؒ کی کتاب خلق افعال العباد سے استفادہ کیا تھا۔شافعی مذہب کے قاضی نے قید کی سزا دے دی۔ (ورد کامنہ ص146 ج1 والبدر الطالع ص 353 ج2)
جو کھلے اہل حدیث تھے۔چھٹی صدی کے فقہا ء نے ان کا خون مباح کر دیا تھا۔پھر بعض صاحب اثر حضرات کی سعی سےان کے قتل کا حکم مسنوخ ہوا۔لیکن دمشق سے نکال دیئے گئے۔آخر مصر میں گمنامی کی حالت میں زندگی پوری کی۔ (تذکرۃ الحفاظ ص166 ج1)
صاحب سبل السلام بجرم انکار تقلید و رفع الیدین فی الصلواۃ وغیرہ قید خانے میں ڈال دیئے گئے۔یہ واقعہ بارہویں صدی ہجری کا ہے۔ (البدر الطالع ص134 جلد2)
آپ نے ایک مسئلہ کے ثبوت میں ایک حدیث نبوی پیش کی تھی۔اس پر قاضی رکن الدین حنفی نے ان کی شکایت بادشاہ غیاث الدین سے کی اور ان کے سخت درپے آزار ہوا۔ (تاریخ فرشتہ اُردو ص610 جلد2)
کا وعظ جامع مسجد دہلی سے بند کرنے والے مولانا فضل حق حنفی خیر آبادی تھے۔جو پریزیڈنٹ دہلی کے سرشتہ وار تھے۔ (سوانح احمدی ص144 و حیواۃ طیبہ ص69 ،70)
یہ مختصر سا نمونہ تھا۔ارباب تقلید کے سلوک کا اصحاب حدیث سے۔
یہ پایاں آمد ایں دفتر حکایت ہمپناں باقی
اب ان مقلدوں کے باہمی مناقشوں اور مجادلوں کا حال سنیے۔اور غور فرمایئے کہ جب یہ حضرات اپنے ہی تقلیدی بھایئوں کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔تو ''غیر مقلد''بے چارے کس شمار و قطار میں ہیں۔
ابن خلکان نے لکھا ہے کہ فقیہ شافعی عبدالکریم قشیری 448 ہجری میں بٖغداد میں آئے۔ اور اشاعت مذہب شروع کی تو حنابلہ سے ان کا مقابلہ ہوگیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد میں شوافع اور حنابلہ میں بڑا کشت وخون ہوا دونوں گروہوں سےایک جماعت قتل ہوئی۔آخر نظام الملک نے جھگڑا ختم کروایا۔ (ص300 ج1)
اورنیشا پور میں احناف اورشوافع کے درمیان فساد عظیم ہوا۔فریقین قتل ہوئے۔اور ان کے مدارس جلائے گئے۔ (مراۃ الجنان ص307 ج)
اور النہر کے حنفی اور شافعی لڑنے جھگڑنے کی قوت باقی رکھنے کے لئے ماہ رمضان کے روزے چھوڑا دیا کرتے تھے۔ (میزان شعرانی طبع مصر ص43 ج1)
ایک نے دوسے پر جھوٹی تہمتیں جو دھری ہیں۔ان کا نمونہ بھی ملاحظہ ہو۔
امام مالکؒ
پر یہ افتراءکیا گیا کہ متعہ جائز ہے۔دیکھو ہدایہ جلد دوم کتاب النکاح ابن الہام نے فتح القدیر میں اس کا غلط ہونا ثابت کیاہے۔ (ص 36 جلد 2 طبع نو لکشور)
ان پر یہ الزام دہرا یا گیا کہ انہوں نے شطرنج کھیلنا جائز کر دیاہے۔(ہدایہ جلد چہارم کتاب الکراہیہ) حالانکہ امام شافعی ؒ نے اباحت شطرنج کا قول امام ابو یوسف ؒ سے نقل کیا ہے۔دیکھو عینی شرح (ہدایہ ص280 جلد 14 ) کیسے مزے کی بات ہے کہ قول ابو یوسف کا گلے لگا دیا جائے امام شافعی کے ۔
پر تہمت لگائی کہ وہ کہتے ہیں۔
اذا انزل يخلوا منه العرش
یعنی نزول باری سے عرش خالی ہوجاتا ہے۔حالانکہ امام ممدوح نے جو خط مسدو بن مسر ہد کولکھا تھا۔ اس میں صاف تصریح کی ہے کہ
انه سبحانه اذا نذل فلا يخلو منه العرش (ہدیۃ البہیہ ص11)
دیکھیے ! یارو نے نفی کا اثبات کر دیا۔
پر یہ تہمت لگائی گئی کہ آپ کرامات اولیاء کے منکر ہیں۔شافعی نے اس کا بہتان ہونا ثابت کر دیا ہے۔ (صفحہ 290 جلد11)
امام بخاری ؒ
پر ابو حفص کبیرنے یہ بہتان لگاکر انھیں بخارا سے نکلوایا تھا۔ کہ آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ گائے بکری کا دودھ اگر کوئی لڑکا اورلڑکی پی لے تو ان میں یہ رضاعت ثابت ہو جائےگی۔ (اجواہر المضیہ)
حالانکہ امام بخاری نے ایساکوئی فتویٰ دیا ہی نہیں تھا۔یہ ان پر تہمت ہے۔دیکھو! ( الفوائد البہیہ ص13)
ان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا!
ان الله ينزل الي السماء الدنيا كنز ولي هذا ونزل درجة (رحلۃ ابن بطوطہ طبع مصر ص55 ج1)
یعنی اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف اس طرح اُترتا ہے۔جیسے میں منبر کے زینے سے اُترتا ہوں۔اور وہ ایک زینہ نیچے اُتر آئے۔حالانکہ انہوں نے اپنے لامیہ میں صاف طور پر فرمایاہے۔
و الي السماء بغير كيف ينزل (جلاء العینین مصری صفحہ 36)
یعنی نزول بیان نہیں کی جاسکتی۔پس دیکھو سیاح ابن بطوطہ نے امام پر کیسا غلط اور جھوٹاالزام1 لگادیا ہے۔
1۔ابن بطوطہ کے اس الزام پر مدلل او ر بھر پورتنقید حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور ص893 ۔798 لائق مطالعہ ہے۔(ع۔ح)
جہاں دیدہ بسیار گوید دروغ
اسی طرح دیگر آئمہ علماء پر جھوٹے بہتان لگائے گئے ہیں۔دیکھو رسالہ رفع الملام مولفہ مولانا محمد یونس صاحب قرشی دہلوی۔
جماعت موحدین اہل حدیث پر بھی بہت سے جھوٹے الزام و بہتان لگائے گئے ہیں۔دیکھو جامع الشواہد۔انتظام المساجد او اباطیل وہابیہ وغیرہ۔سنن مجتبی نسائی کے ایک محشی 2 نے ایک حاشیہ میں لکھا ہے۔
ثم ليعلم ان الذين يدينون دين عبد الوهاب النجدي ويسلكون مسلكه ف لاصول الفروع و يدعون في بلا دينا باسم الوهابين وغير المقلدين ويزعمون ان تقليد احد الائمة الاربعة شرك وان من خالفهم هم
2۔.یہ محشی مولوی وصی احمد تھے۔(طبع نظامی کانپور)
المشركون يسبتيحون قتلنا اهل السنة وسبي نسائنا (الي)هم فرقة من الخوارج (نسائی طبع مجتبائی ص360 جلد 1)
یعنی جو لوگ ہمارے ہند میں وہابی غیر مقلد کہے جاتے ہیں۔اورعبد الوہاب کا دین اختیار کر کے اس کے مسلک پر اصول و فروع میں چلتے
ہیں۔آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کو شرک اورمقلدوں کومشرک کہتےہیں۔ہمارے مردوں کا قتل اور ہماری عورتوں کو قید کرنا مباح جانتے ہیں ۔یہ لوگ خارجیوں کے فرقہ سے ہیں۔
4 ان تہمتوں کے جواب میں سوائے۔لعنة الله علي الكازبين المفترين کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔یہ لوگ اہل حدیث کے مسلک سے یا تو کسر جائل اور ناواقف تجاہل عارفانہ کرتے ہیں۔
اہل حدیث کا مسلک
جماعت اہل حدیث کا مسلک ان شعروں سے بخوبی واضح ہوجاتاہے۔
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم واشتن پس حدیث مصطفیٰ برجاں مسلم واشتن
4۔ان الزامات کا ناقدانہ جائزہ خوب لیا گیا ہے جو قابل مراجعت و مطالعہ ہے۔(ع۔ح)
(طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور)
وہ چہ خوش باشد نہ ابر رحمت قول رسول گل زمین فکرت و دل سبز وخرم داشتن
ازروایت فیض یاب ودل بہ حسن اعتقاد ور حرم کعبہ اسلام محرم داشتن
گاہ ازتز کا 'مسلم' جاں نمو دن مست فیض گاہ ور شوق ''بخاری''دل متیم داشتن
تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت ارشاد فرمایا تھا۔
من يعش منكم بعدي فسيري اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين الخ (مشکواۃ ص22)
آپﷺ نے اس حدیث میں خبر دی ہے۔کہ میرے بعد امت میں اختلاف کی کثرت ہوگی۔اس وقت میری سنت اور خلفاء راشدین کی روش اختیار کرنا۔
صحابہ کا اختلاف اعتقادی امور میں تو ہو نہیں سکتا تھا۔وہ لوگ آپ ﷺ کی صحبت اور تعلیم کے باعث راسخ الاعتقاد تھے۔لا محالہ یہ اختلاف فروعی ہوگا۔اس لئے آپ نے حدیث مذکورہ میں اپنی سنیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔پھر خلفاء راشدین کی روش کی طرف۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اختلاف کے وقت ان بزرگان خلفاء راشدین کی روش کیا ہوا کرتی تھی۔
1۔سب سے پہلا اختلاف اس امر میں ہوا کہ آپﷺ کو موت لاحق ہوئی ہے یا نہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!
والله ما مات رسول الله (بخاری ص 517 جلد 1)
اللہ کی قسم آپ مرے نہیں ہیں۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیات
وغیرہ پیش کیں تو سب کو آپ کی موت کا یقین آگیا۔(حوالہ مذکور)
دوسرااختلاف انتخاب خلیفہ کے وقت ہوا انصار نے کہا!
منا اميرومنكم امير (ايضا)
یعنی ہمارا خلیفہ ہم میں سے ہوگا۔اور مہاجروں کا ان میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث
فلما سمعوا حديث الا ئمة من قريش رجعوا من ذالك اذ عنو ا (فتح الباری انصاری ص365 پ14)
یعنی جیسے ہی سب لوگوں نے حدیث مذکور سنی اپنے ارادوں سے باز آگئے۔اور گردنیں جُھکا دیں۔
پھر اختلاف ہوا کہ آپ کو دفن کہاں کیاجائے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے۔فرماتے تھے۔
ما يقبض نبي الا دفن حيث يقبض (ترمذی۔و ابن ماجه)
کہ پیغمبروں کی جہاں وفات ہوتی ہے۔اس جگہ وہ دفن کیے جاتے ہیں۔آخر حجرہ نبویہ میں قبر کھودی جانے لگی۔
4۔پھر اختلاف ہوا کہ قبر بغلی ہو یا صندوقی؟(ابن ماجہ) اتنے میں بغلی کھود نے والے پہلے پہنچ گئے۔اور بغلی قبر تیار ہوئی اس طرح حدیث نبوی اللحد لنا(ابو دائود۔وغیرہ) پر حکمت الہٰیہ سے عمل کرنے کی توفیق سب کو نصیب ہوئی۔
5۔استحکام خلافت کے بعد وارثوں نے اپنے اپنے مطالبات شروع کردیا۔ازواج مطہرات رضوان اللہ عنہما اجمعین نے اپنے حصے کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجنے کا ارادہ کیا۔ (بخاری ومسلم)
حضرت فاطمہ رضی للہ تعالیٰ عنہا اور عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا اپنا حصہ طلب کیا۔(بخاری پ27) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کے سامنے حدیث نبوی ۔لانورث ما تركنا صدقة پیش فرمادی۔اس پر سب لوگ خاموش ہوگئے۔حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی للہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے پہلے اظہار رنج کیا تھا۔بعد میں وہ بھی راضی ہوگئیں۔ (بیہقی ص 301 ج6)
6۔خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانعین ذکواۃ سے قتال کرنے کا جب عزم مصمم کر لیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مانع ہوئے۔اور حدیث نبوی
امرت ان اقاتل الناس حتي يشهدو ا (بخاری پ2)
پیش کی کہ یہ لوگ کلمہ شہادت تو پڑھتے ہیں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسری حدیث سے جس میں بحق الاسلام وارد ہوا ہے۔استدلال کر کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخاموش کر دیا۔کہ ذکواۃ حق الاسلام ہے ۔ (فتح الباری)
فرماتے ہیں۔
فلم يلتفت ابو بكر الي مشورة عمر اذا كان عنده حكم رسول الله صلي الله عليه وسلم (صحیح بخاری صفحہ 109 ج2)
یعنی ''چونکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حدیث نبوی موجود تھی۔انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استدلال مسترد کردیا۔یہ تھیں پہلے خلیفہ راشد کی سنتیں اب خلیفہ دوم کی روش ملاحظ ہو۔
7۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آخری وقت میں کہا جارہا تھا۔کہ کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دیا ہوتا۔توجو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو مقرر کردیا تھا تو جواب دیتے ہیں۔
ان لا استخلف فان لنبي صلي الله عليه وسلم لم يستخلف وان الستخلف فان ابا بكر قد استخلف (صحیح مسلم ص120 جلد2)
یعنی''اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو اس میں سنت نبویہ کا عامل ہوں گا۔اور اگرخلیفہ مقرر کردوں تو اس میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت پرعمل ہوگاچونکہ سنت نبوی پر عمل کرنا ہی افضل ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی خاص شخص کوخلیفہ مقرر نہیں کیا چنانچہ ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
فعلمت انه لم نكن ليعدل رسول الله صلي الله عليه وسلم احد وانه غير فستخلف
(حوالہ مذکور)یعنی''میں سمجھ گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کے برابر کسی کی نہیں ٹھرایئں گے۔او ر وہ کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔معلوم ہوا کہ خلیفہ راشدین کی سنت کو سنت نبویہ کے خلاف سمجھتے تو اس خلیفہ کی سنت کو چھوڑ دیتے۔اورسنت نبویہ کو لازم پکڑتے تھے۔آیئے۔ایک اورواقعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی سن لیجئے۔کہ یہ بھی خلفاء راشدین سے ہیں۔
8۔ولید بن عقبہ نے کوفہ میں نبید پی تو نشہ آگیا۔قے کی پکڑے گئے۔خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقدمہ کی تحقیقات کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ولید کے سر پر حد شرعی لگائیں۔عبد اللہ ابن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوڑے مارنے شروع کیے۔اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شمار کرنے شروع کیے۔جب چالیس کوڑے لگ چکے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بس
قال امسك جلد النبي صلي الله عليه وسلم و ابو بكر اربعين وعمرثمانين وكل سنة وهذا احب الي (صحیح مسلم ص72 ج2)
یعنی''اب رک جائو۔عہد نبوی خلافت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک حد چالیس درے ہی رہی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی مقرر کی مجھے عہد نبوی کی مروج حد زیادہ پسند ہے ۔دیکھیے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو سنت فرما کر سنت نبوی ﷺ کو سنت فاروقی پر مقدم کیا۔حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ سے ہی ااسی کوڑے مقرر فرمائےتھے۔(موطا ملاحظہ ہو) نیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد نے بھی چالیس پر سکوت فرما کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔
مذکورہ سےصاف ثابت ہے۔ کہ آپ ﷺ کے قول و فعل کو تمام اقوال وافعال پر مقدم کرنا ہی خلفاء راشدین ۔کا طریقہ تھا۔ جماعت اہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے۔
اذا جاء نهر الله بطل نهر معقل
خلفاء راشدین نے جو کام سیاست یاکسی وقتی ضرورت کے باعث کیا یا کرایا تھا وہ ہمارے ۔۔۔دیکھو! عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شامیوں کو جب تمتع بالحج کا فتویٰ دیا تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ کے ابا جان تو منع کرتے تھے۔تو عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!
امر ابي يتبع ام امر النبي صلي الله عليه وسلم (ترمذی)
یعنی''میرے ابا کی اتباع واجب ہے یا آپﷺ کی؟ معلوم ہوا کہ ہر پیش آنے والے امرمیں آپ ﷺ کی سنتوں کومد نظر رکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
ہوتے ہوئے مصطفیٰﷺ کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین ہر پیش آنے والے امر میں حدیث نبوی تلاش کرتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جدہ نے آکر اپنا حصہ دریافت کیا۔آپ کو اس موقع پرکوئی حدیث نبوی نہ یادآئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دریافت کیا۔دو صحابیوں (مغیر بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد بن مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے حدیث سنائی کہ آپ ﷺ نے جدہ کو چھٹا حصہ دلوایا تھا۔ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی حدیث کے مطابق فیصلہ فرمایا! (موطا۔وسنن اربعہ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔کہ مقتول شوہر کے دیت سے اس کی بیوی کو حصہ ملنا چاہیے کہ نہیں؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتویٰ نفی کا دیا۔ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تو منیٰ میں آپ سے ملاقات کی اور کہا کہ میرے پاس آپ ﷺ کا نوشتہ موجود ہے۔کہ آ پ ﷺ نے اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضبابی کی بیوی کواشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مارے جانے کے بعد اس کی دیت سےحصہ دینے کا حکم دیا ہے۔یہ سن کرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فتوے سے رجوع فرمایا۔اورحدیث کے موافق فتویٰ دیا۔ (موطاء و سنن اربعہ)
حضرت عثان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے تو وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔آخر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حدیث نبوی کی تلاش ہوئی۔ تو ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن بنت مالک نے اپنا واقعہ سنایا کہ میراشوہر مارا گیا تھا۔تو میں نے آپ ﷺ سے پوچھاکہ میں عدت کہاں گزاروں۔؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کے گھر پر۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا (موطاوسنن اربعہ)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مرتد لوگ لائےگئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کوزندہ جلانے کا حکم دے دیا۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا یہ حدیث پیش کی۔
قال النبي صلي الله عليه وسلم من بدل دينه فاقتلوه
یعنی''ارشاد نبویہ ﷺ ہے۔کہ مرتدین کو تلوار سے قتل کرناچاہیے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن کر فرمایا۔صدق ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ترمذی)
یعنی''ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درست کہا۔ اس طرح کے بہت سے واقعات خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمین کے کتب حدیث میں موجودہیں۔جماعت اہل حدیث کا طریق عمل بھی وہی ہے۔جوخلفاء راشدین اور سلف صالحین کاتھا۔۔ہم حدیث نبوی ﷺ کے مقابلے میں کسی قول کونہیں مانتے۔لیکن ان بزرگوں کی بزرگی اوروقار کے قائل ہیں۔او رکہتے ہیں۔
آں امامان ِ کہ کر دند اجتہاد
رحمتِ حق برروان ِ آں جملہ باد
شریعت کا مقرر کرنا اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔اس شریعت کو بندوں تک پہنچانے والے معصوم پیغمبر ؑ ہوتے ہیں۔غیرنبی چونکہ معصوم نہیں ہوتا۔ ا س لئے اس کے قیاسی مسائل کی نسبت یقینی طورپرصحت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔جب تک کہ اس پر پیغمبر ؑ کی موافقت کی مہر نہ لگ جائے۔کیونکہ اعمال کا حساب اور اس پرثواب و عذاب کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔اس نے اپنی محبت اور جنت کو محض اتباع پیغمبر ؑ پر موقوف رکھا ہے۔
خلاف پیمبر کے رہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
میں نے اس امر کو بہت بسط سے اپنے اس خطبہ صدارت میں بیان کر دیا ہے۔جسے میں نے فروری سن 1935عیسوی میں جمعیت تبلیغ اہل حدیث کلکتہ تیسرے سالانہ جلسہ میں پڑھا تھا اور وہ طبع ہو کر شائع بھی ہوگیا تھا۔
اہل حدیث کو منکر اجماع کہا جاتاہے۔اور انصاف نہیں کیاجاتا۔اجماع خواہ بسیط ہو یا مرکب اہل اجماع کےلئے اتحادزمانہ ضروری ہے۔اس لئے کہ وہ عبارت ہے اختلاف سے پس اختلاف کرنے والوں کے زمانہ کامتحد ہونا لازم ہے۔ورنہ قیامت تک اجماع کا انعقاد ہونہیں سکتا۔
اسلئے تو امام احمد 1 نے کہہ دیا ہے۔
من ادعي الاجماع فقد كذب (محلی ابن حزم ص246 ج3 وشرح مسلم الثبوت ص394)
یعنی جو شخص کسی امر میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔ابن عربی صرف صحابہ کے اجماع کو معتبر مانتے ہیں۔جیسا ک فتوحات میں لکھاہے۔
والاجماع اجماع صحابه بعد النبي صلي الله عليه وسلم لا غير (ص 182 ج2)
معلوم نہیں کہ قائلین کا امام احمد اور شیخ ابن عربی کی بابت کیا خیال ہے۔؟
اہل حدیث کو منکر قیاس بھی کہا جاتا ہے۔حالانکہ اہل حدیث اجتہاد و قیاس صحیح کے بھی منکرنہیں ہیں۔
1۔جماعت اہل حدیث صحیح اجماع کو مانتی ہے۔اور اس کو حجت گرانتی ہے۔امام احمد کا یہ فرمان اجماع کے غلط داعی کے بارے میں تھا۔جواُس دور کے بدعتی فرقے نصوص صریحہ کی مخالفت میں کرتے اور ان کاسہارالیتےتھے۔تفصیل کا یہ موقع نہیں۔حافظ ابن القیم اوران کے شیخ امام ابن تیمیہ ؒ کی تالیفات میں بعض جگہ یہ وضاحت ملتی ہے۔(محمدعطاء اللہ حنیف)
بقول امام اوزاعی كلنا يري
(کتاب الرد علی اعداد اہل الحدیث لابن قتیبہ طبع ص63)
اہل حدیث کہتے ہیں۔کہ احادیث نبویہ کو مقیس علیہا بنانا چاہیے۔اسی سے استنباط مسائل کرنا چاہیے۔لیکن افسوس ہے کہ یہ اصل یکسر چھوڑ دی گئی۔اور کسی خاص متقدم ہستی کے تراشیدہ اصل کو مقیس علیہ بنالیا گیا۔جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے حجۃ البالغہ میں صراحت کی ہے۔ (ص 160 ج 1)
اور اس کا نام حمل النظیر علی النظیر اور تفریح برتفریح مقرر کیا گیا۔اسی اصل پر مسائل کی تخریجات ہونے لگیں۔جس کا نتیجہ تعین مذہب کی صورت میں ظاہر ہوا۔اس امر کی وضاحت کے لئے چند مثالیں عرض کرتاہوں۔
1۔ایک شخص نے ایک عورت کو با عقد اجارہ مع شرط الزنا رکھا۔اس کے بعد عورت نے اپنی اجرت لے لی۔گویا اجارہ فاسد ہے۔اور اجرت کا سبب بھی فعل حرام ہے۔لیکن چونکہ قاعدہ بن چکاہے۔اجر المثل طیب یعنی اجر مثل کا طیب ہوتاہے۔اس لئے عورت کووہ اجرت امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک حلال ہے۔ہاں اگربغیر عقد اجارہ کے لیا ہے توحرام ہے۔ (شامی ص28 ج5 طبع ہند)
اور پھر مستاخرہ سے زنا کرنے میں حد بھی نہیں ہے۔(کنزو تنویر)حالانکہ حدیث صحیح مسلم میں ہر قسم کے مہر بغی کے لئے لفظ خبیث وارد ہوا ہے۔اور حدیث بخاری میں مہر بغی سےصاف نہی موجود ہے۔اور دین محمدی میں کوئی زی عقل زانی حد سے مستثنیٰ نہیں کیاگیا ہے۔
2۔ایک اصل او ر قاعدہ یہ بنایاگیا ہے۔کہ قوی کی بناء ضعیف پر نہیں ہوسکتی۔پس اگر کسی مسافر امام نے نماز میں قصر نہیں کی۔بلکہ پوری نماز پڑھ دی۔ تو مقیم مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی۔اسلئے کہ مسافر امام پھیلی دو رکعتوں میں متنفل تھا۔چونکہ فرض قوی ہوتا ہے۔نفل سے لہذافرض پڑھنے والے مقتدی اپنی نماز دہرایئں۔حالانکہ صحیحین کی حدیث میں وارد ہے۔ کہ حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے فرض عشاء پڑھ کر جاتے اور اپنے محلہ کی مسجد میں لوگوں کودوبارہ وہی نماز امام بن کر پڑھاتے تھے۔ظاہر ہے کہ اس وقت حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ متنفل ہوتےتھے۔لیکن مقتدیوں کے اپنی نماز کے دہرانے کا حکم دربار رسالت ﷺ سے نہیں ملا۔
3۔ایک قاعدہ یہ بنایا گیا ہے کہ کامل کے ساتھ ناقص کا الحاق جائز نہیں۔یعنی جو چیز کامل واجب ہو گئی۔وہ ناقص سے ادا نہ ہوگی۔پس کسی نے اگر صبح کی نماز ایسے وقت پڑھی کے ایک رکعت کے بعد آفتاب نکل آیا۔ اب وہ اگر دوسری رکعت پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی۔ حالانکہ صحیحین کی حدیث میں صاف وارد ہے۔
من ادرك ركعة من الفجر قبل ان تطلع اشمس فقد ادرك
جس نے سورج نکلنے سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پڑھ لی۔اس کی دوسری رکعت بھی صحیح ہے۔نماز اس کی ہوگئی۔
اہل حدیث نے ان ہی اصول مستخرجہ کا انکار کیا ہے۔قرآن وحدیث سے استخراج مسائل کا انکار نہیں کیاہے۔
رہا یہ الزام کے اہل حدیث کے بعض مسائل آئمہ اربعہ کے متفقہ مذہب کے خلاف ہیں۔محض تعصب کا نتیجہ ہے۔کیا متاخرین احناف نے مسئلہ تحليفشہود میں آئمہ اربعہ کے متفقہ مذہب کے خلاف قاضی ابن ابی لیلیٰ کے مذہب پر فتویٰ نہیں دیا ہے۔؟دیکھو ابن نجیم کی کتاب اشباہ و نظائر ص160 طبع ہند پس جبکہ حق دائر تھا۔آئمہ اربعہ میں ہوں کو قسم دین چاروں اماموں کے نزدیک نا جائز۔ابن ابی لیلیٰ کا مذہب کیوں اختیارکیا گیا۔حالانکہ ان قاضی صاحب کی چشمک امام ابو حنیفہ کے ساتھ مشہو رہے۔انہیں ہی کی سعی سے حضرت امام ابو حنیفہ کوحکومت نے فتویٰ دینے سے روک دیاتھا۔کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
و ہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اہل حدیث کی جانب سے جب متقدمین کی کتابوں سے وجود اہل حدیث پیش کیا جاتا ہے۔تو کہا جاتا ہے کہ تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں ۔جو حدیثیں روایت کرتے تھے۔اہل حدیث کوئی مذہب نہ تھا۔آج تو ان کو اہل حدیث کہا جاتا ہے۔جو آمین بالجہر۔رفع الیدین۔اور قراءۃ خلف الامام کے قائل اور عامل ہوتے ہیں۔اور کسی امام کی تقلید نہیں کرتے کوخواہ وہ عامی کیوں نہ ہوں۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ میں نے امام شافعی اور امام احمدکے بیان میں اوپر جو عبارتیں آپ کو سنائی ہیں۔ان میں صاف ''مذہب اہل حدیث''کا لفظ موجود ہے۔سرحدوں کے مسلمانوں کا''مذہب اہل حدیث'' رکھنا کتاب اصول دین سے اوپر نقل کیا جاچکا ہے۔قاضی عیاض مالکی نے امام احمد کے قول ان لم يكونو ا اهل الحديث فلا ادري من هم کی شرح میں لکتے ہیں۔
اراو احمد اهل السنة والجما عة ومن يعتقد مذهب اهل الحديث (شرح صحیح مسلم ص143ج2)
قاضی عیاض پانچویں صدی میں پیدا ہوئے تھے۔اس وقت بھی مذہب اہل حدیث موجود تھا۔حافظ نووی شافعی جو ساتویں صدی ہجری میں گزرے ہیں۔اپنی شرح صحیح مسلم میں متعدد جگہ پانچ مذہبوں کا زکر بالمقابل کرتے ہیں۔کہ ہمارے شافعی مذہب میں یوں ہے۔اورمالکی میں یوں۔مذہب حنیفہ یہ ہے۔اور حنبلی یہ پھر سب سے الگ اہل حدیث کا مذہب لکھتے ہیں۔کہ ان کے یہاں یوں ہے۔دیکھو۔جلد اول کا ص 173 اور جلد دوم کا ص 32 وغیرہ۔اور ہاں اسے بھی سن لیجئے۔ کہ ہمیشہ سے اہل حدیث اسی شخص کو کہاگیا ہے جو کسی امام کی تقلید نہیں کرتا اور قراءۃ فاتحہ خلف الامام و آمین بالجہر و رفع الیدین سنت نبوی سمجھ کر بالالتزام کرتا ہے۔ایک لطیفہ سنیے۔شامی میں ہے۔
ان رجلا من اصحاب ابي حنبفة مخطب الي رجل من اصحاب الحديث ابنة في عهد ابي الجوز جاني فابي الا ان يترك مذهب فيقرا ء خلف الامام ويرفع يديه عند الاسخطاط ونحوذالك فا جا به فزوجه (ص 190 ج1 طبع سجتبائی)
ابو بکر جو زجانی شاگرد ہیں۔موسیٰ کےجو شاگرد ہیں۔ امام محمد کے ان کے زمانہ کا واقعہ ہے۔کہ ایک حنفی نے ایک اہل حدیث کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہا تو اہل حدیث نے یہ شرط کی کہ تم اپنا مذہب چھوڑ قراءۃ فاتحہ خلف الامام اور رفع الیدین عند الرکوع کرناشروع کر دو تو میں اپنی لڑکی تمہاری زوجیب میں دے دوں گا۔اس حنفی نے مان لیا تو اس کا نکاح ہوگیا۔دیکھا اہل حدیث کا وجود او ر ان کی پہچان اس وقت بھی یہی تھی۔
امام محمد کے شاگرد ابو حفص کبیر کا واقعہ فتاویٰ حمادیہ جواہر الفتاویٰ اور تاتارخانیہ سے اوپر آپ کو سنایا جا چکا ہے۔کہ ایک حنفی نے اپنا مذہب چھوڑ کر اہل حدیث کا طریقہ اختیار کیا۔اور قراءۃ خلف الامام اوررفع الیدین کرنے لگا تو اسکی کیسی گت بنی۔؟حتیٰ کے اسے توبہ کرنی پڑی۔یہ واقعات تیسری ہجری کے ہیں۔
بارہویں صدی کا واقعہ صاحب سبل السلام کا اوپر آپ سن چکے ہیں کہ ان کی موت کاسبب ان کی غیر مقلدیت اور نماز میں رفع الیدین عند الرکوع ہوئی تھی۔اسی زمانہ میں شیخ محمد فاخر زائر الہ آبادی شاگرد شیخ ؐمحمد حیات سندھی مدنی مرحوم دہلی کی جامع مسجد میں آمین بالجہر کرنے کے باعث گرفتار کرلیےجاتے ہیں۔آخرشاہ ولی اللہ مرحوم کی سفارش سے ان کی مخلص ہوتی ہے۔ (تراجم علماء اہل حدیث ہند ص 22 وص 329)
ٹھیک اسی زمانہ میں مرزا جان جاں (یہ نام عالم گیر بادشاہ نے رکھا تھا۔)نمازمیں سینہ پر ہاتھ باندھے ہوئے امام کے پیچھے قراءۃ خلف الامام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ (اتقصار ص 113 والیجد العلوم ص900)
یہی ظاہر عمل اہل حدیث کی شناخت کا ذریعہ ہے۔اس کے عامل سے کوئی صدی اور کوئی جگہ خالی نہیں رہی۔گو ایسے لوگ قلیل ماہم کے مصداق رہے ۔حتیٰ کہ مولانا محمد اسماعیل شہید۔پیدا ہوئے۔اورکتاب تنویر العینین فی اثبان رفع الیدین لکھ کر ایک جماعت کو عامل بالحدیث بنادیا۔
وہ بجلی کی کڑ کا تھا یا صوت ہادی
زمین ہند کی جس نے ساری ہلادی
مسند ولی اللہ پر جب کہ شیخ الکل حضرت مولنا سید نزیر حسین صاحب ؒ جلوہ افروز ہوئے۔اسی ذمانہ میں تنویر العینین کا جواب کیس حنفی نے تنویر العینین کے نام سے شائع کیا۔ہمارے شیخ نے اس کا جواب معیار الحق کے نام سے دیا۔اپنے عمل وعظ و دروس سے سواداعظم اہل حدیث بنادیا۔آج اس ملک میں حدیث نبوی کی جو کچھ بھی غافلہ اور اہل حدیث کثرت نظر آتی ہے۔کہ ذات با برکات کے فیوض کا نتیجہ ہے۔میری تعلیم کی انتہا اور ابتداء آپ سے ہوئی ہیں۔آپ نے وفات سے چھ مہینہ پیشتر زی الحجہ 1319ہجری میں ہند حدیث مرحمت فرمائی تھی۔
حضرت میاں صاحب ممدوح آخری کڑی تھے۔اصل کی ابتدائی کڑیاں یہ ہیں۔عہد 16 ہجری عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہوالی بحرین اعمالا نے اپنے ایک بھائی مغیرہ کوسند ھ کے شہر دیبل پر حملے کرنے کےلئے روانہ کیا۔اوردوسرے بھائی حکم کو گجران کے شہر بھر وج پر۔چنانچہ یہ دونوں مقامات اسلام کے زیرنگین آگئے تھے۔ (بلازری ص 438)
در حقیقت اعلیٰ زمانہ سے ہندوستان میں اشاعت حدیث نبوی کی پڑ گئی تھی۔ہجری 93۔94 میں جب محمد بن قاسم نے ہندو پرحملہ کیااوربہت سے شہر فتح کیے تھے۔پنجاب میں موسیٰ بن یقوب ثقفی کودرس حدیث پر متعین کیاتھا۔جیسا کہ حج نامہ اور فتوح البلدان سے معلوم ہوتاہے۔اس سے پہلے حباب بن تصالہ تابعی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہصحابی سے ہندوستان جانے کی اجازت طلب کی تھی۔لیکن انھوں نے بنا بر خدمت والدین انھیں اجازت نہیں دی تھی۔)میزان الاعتدال)
ان کے بعد مشہور مع اسرائیل بن موسیٰ بصری ؒ جو امام حسن بصریؒ تابعی کے شاگر د ہیں۔اورصحیح بخاری میں ان سے روایت کیا ہے۔ہندوستان میں حدیث کا درس دیا کرتے تھے۔اس لئے ان کونزیل الہند کہا جاتا ہے۔ (تقریب التہذیب)
دوسرے تبع تابعی ربیع بن صبیح بصری ہیں جو خلیفہ مہدی عباسی کے زمانہ میں بارہا وہ غزوہ ہند میں تشریف لائے تھے۔اورفتح اربد میں شریک تھے۔سن 100 ہجری میں سند ھ میں مدفون ہوئےہیں۔انہوں نے حدیث کی کتا معیوب لکھی تھی۔
(تقریب تہذہب و میزان و تاریخ الخلفاء البجد العلوم وٖغیرہ)
اسی طرح ابو محمد بن السندی اورابو معشر بن عبد الرحمٰن متوفی 170 ھ یہ سب لوگ سندھ میں کتب حدیث کا درس دیا کرتےتھے۔ دیکھو کتب اسماءمتاخرین میں شیخ محمد عابد سندھی اور شیخ محمد حیات گزرےہیں۔ شیخ حسن بن محمد صفانی جس کی حدیث کی مشارق الانوار مشہور ہے۔لاہور میں 1577 ء میں پیدا ہوئے تھے۔(ابجد العلوم) اسی طرح شیخ علی اور شیخ علی متقی جونپوری اصلاً و برھان پوری مولانا صاحب کنز الاعمال (حدیث کی مشہور کتاب ہے۔)شیخ محمد طا ہر گجراتی صاحب مجمع البخارہ فی لغۃ الحدیث و تذکرہ الموضوعات وغیرہ شیخ وجیہ الدین گجراتی شارح نخبہ اور شیخ احمد ( مجدد الف ثانی)اوران کے شیخ عبد الرحمٰن بند فرقد اور مجدد صاحب کے بیٹے خازن الرحمت شیخ محمد سعید محشی مشکواۃ اور شیخ سلام اللہ شارح موطا اور اور ان کے آباء نیز نیز قاضی بشیر الدین قنوجی شارح موطا۔اورشاہ ولی اللہ دہلوی۔اورشاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کے تلامذہ خصوصا شاہ محمد اسحاق دہلوی استاد میاں صاحب۔و نواب صدیق حسن قنوجی ۔یہ سب لوگ اپنے اپنے زمانہ میں اشاعت حدیث میں شب و روز مصروف رہا کرتے تھے۔ غرض 57 ء سے پہلے تک 222 کتب حدیث خاص ہند کے علماء نے محدثین نے تالیف کیں جن کی تفصیل مع اسماء کتب و مولفین مولوی امام خان نوشہری کی ایک مستقل کتاب میں آپ حضرات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔اسی طرح حضرت میاں صاحب ممدوح اور آپ کے ہزار ہا تلامذہ کی مساعی سے اطراف و جوانب ہند میں عمل بالحدیث کا غلغلہ بلند ہوگیا۔
یہ گراں قدر مقالہ جماعت اہل حدیث کے فاضل گرامی حضرت مولانا ابو القاسم بنارسی رحمۃ اللہ علیہ نے مارچ 1943 میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس(موائمہ ہند) میں بطور صدارتی خطبہ پیش فرمایاتھا۔اس کی علمی اہمیت کے باعث فتاویٰ علماء اہل حدیث میں شامل کیاگیا ہے۔ (بعد شکریہ اخبار الاعتصام لاہور ۔سعیدی)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب