السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علم تجوید و قراءات
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حرکات جمع ہے حرکت کی عربی زبان میں زیر زبر پیش تین ہی حرکات ہیں وہ بھی صرف معروف طریقہ پر حالانکہ فارسی اور اسی قبیل کی دوسری زبانوں میں تین حرکات مذکورہ سے زائد حرکات مجہولہ بھی ہوتی ہیں۔مگر عربی میں خاص معروف ہی حرکت ہوتی ہے۔تو پاکستان میں بہت سے حضرات جو قرآن کریم کی تعلیم میں مشغول ہیں۔چاہے وہ مفسر ہوں۔یا مترجم علاوہ قراء کرام کے سب ہی تقریباً حرکات کو مجہول ہی پڑھتے ہیں۔چونکہ متحدہ ہندوستان میں پہلے فارسی دانوں اور ترکوں کی پٹھانوں کی حکومت رہی۔اور بعد میں ایک عرصہ سے لشکری زبان یعنی اردو کا رواج عام ہوگیا۔جو کہ مختلف زبانوں کا مجموعہ تھی۔اس طرح ہندوستان متحدہ میں عربی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اور بعض ممالک عجم(جہاں اب عربی بولی جاتی ہے۔اور عرب کہلاتے ہیں۔)وہاں بھی عجم کے اختلاط کی وجہ سے حرکات کی ادائیگی میں مجہولیت پائی جاتی ہے۔اور اس طرح سے یہ مجہول ادائیگی کا طریقہ عام ہو کر نہ صرف عوام میں بلکہ خواص اور اچھے خاصے لکھے پڑھے لوگوں میں بھی پھیل گیا۔اور وہ غلطی اب جزو لاینفک ہو کر معروف ادائیگی کو بھی غلط سمجھا جانے لگا۔اور یہ غلطی جو دراصل صحیح طریقہ ادائیگی تھا۔مفقود ہوتا چلا گیا او ر ہوتا جا رہا ہے۔خصوصاً ان علاقوں میں جہاں علم کی قلت اور فقدان ہے۔وہاں نہ تو صرف ان حرکات ہی کو بلکہ''ی و''ساکن کو بھی بہت ہی عجیب طریقے سے ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ان مدارس عربیہ میں یہ غلطی بہت پائی جاتی ہے۔جہاں اکثر کتب صرف نحو منطق فلسفہ وغیرہ فارسی زبان میں پڑھائی جاتی ہے۔
حرکت زیر زبر پیش جنہیں عربی میں بالترتیب فتح یا نصب جریا کسرہ ۔ضمہ یا رفع کہا جاتا ہے۔ایک فتح ادھے الف کے برابر اور ایک کسرہ آدھی ی کے برابر اور ایک ضمہ آدھے واو کے برابر ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر دو زبر مساوی ہے۔ایک ''الف''دو زیر مساوی ایک''ی'' اور دو پیش مساوی ہے۔ایک واو کے۔
فتح کو جب کھینچا جائے تو الف بن جائے اسی طرح ضمہ اور کسرہ کھینچا جائے توواو اور ی بن جائے۔یعنی فتح کی ادائیگی میں انفتاح مم اور آواز میں بھی انفتاح رہے۔کسرہ ساتھ انخفاض فم اور صوت میں بھی اسی طرح ضمہ کے ساتھ انضمام فم اور صوت لازمی ہے الف کی ادائیگی میں آواز میں ذرا بھی انضمام یا انخفاج ہو جائے تو اس فتۃ میں کسرہ یا ضمہ کی مشابہت پائی جائے گی۔
جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض حضرات الف کو جب صرف مرقق کے ساتھ آجائے۔تو اس کی ترقیق میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ وہ الف مشابہ امالہ صغریٰ کے ہوجاتا ہے اور اس طرح امالہ صغریٰ اختلاس وغریہ اور الف مرقق کا فرق مشکل ہو جاتا ہے الف کی ترقیق میں انفتاح فم اور صوت ہو تو الف بالکل ٹھیک اورصحیح طریقہ پر اد ا ہوجائے گا۔اسی طرح الف مفخم کی ادائے کی میں ان حروف مفخم کو اورالف کو اتنا موٹا کیا جاتا ہے کہ جس سے حرف کی ادائیگی میں ولاو کی بو آجاتی ہے۔اور اکثر تو بے چارے ہونٹوں سے کام لیتے ہیں۔اور پھر صفت استعلاء اور اطباق کا خیال رکھا ہی نہیں جاتا ہے۔اور ہر حرف مفخم کو یکساں موٹا پڑھتے ہیں۔ق خ غ را وغیرہ کو بھی اتنا ہی پر کیاجاتاہے۔جتناطا خاص ض کو اس طرح حرف میں اپنی مقدار سے بڑھ کر موٹا پا آجاتا ہے۔جو حروف کی خوبصورتی کو بیگاڑ دیتی ہے۔یعنی ایف کی تفخیم میں ان حروف مفخم کی صفات کا خیال رکھ کر اد کیا جائے تو الف پراور خوبصورت ادا ہوگا۔کسرہ کی ادائیگی میں جب مجہول پڑھا جائے۔تو وہ سرے سے ہی غلط پڑھا گیا۔جب صحیح انخفاض نہ ہو معمولی سی الف اور فتحہ کی بو آنی شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے ی باوجود یہ کہ مجہورہ ہے مگر پھر بھی اس کی آواز میں ذرا پستی ہوتی جب کہ سکون میں ہو۔ضمہ کی ادائیگی میں ہونٹوں کو گول کرنا چاہیے۔اسی طرح اسے مجہول پڑھنا تو اصل کے خلاف ہے اکثر مشاہدے میں آیا کہ بعض واو مدہ کی ادائیگی میں ہونٹوں کو بعد میں گول کرتے نہیں اسی طرح درمیان میں عجیب سی آواز واو پیدا ہوتی ہے۔جو صرف سماع پر ہی اور ادا پر ہی موقوف ہے۔الفاظ میں نقشہ کھینچنا انتہائی مشکل ہے۔چونکہ یہ تمام علم تجوید سماع اور ادا پر موقوف ہے۔اسی لیے اس قسم کی ادائیگی تو استاذ مشاق کے پڑھنے اور اس کے بعد سماع پر موقوف ہے۔اس لئے اسی قسم کی ادائیگیوں کو بغیر کسی مشاق قاری مقری سے سنے سمجھ میں آنا بہت محال ہے۔
حروف مفخم کی تعداد کل دس ہے۔جن میں سے سات حروف کی تفخیم تو لازمی ہے۔اور تین حروف کی تفخیم عارضی ہے۔یعنی سات حروف خص ضغط قط میں مستقل تفخیم ہے جب کہ تین حروف الف لام را میں عارضی تفخیم ہے اس طرح تفخیم کی ادائیگی دو طریق پرہے۔
1۔حروف کی ذاتی تفخیم
2۔حروف کی حرکاتی تفخیم
ذاتی طور پر سب سے زیادہ موٹا لفظ اللہ کا لام پڑہا جائے گا۔جب کہ لام سے ما قبل حرف مفتوح یا مضموم ہوجیسے عند اللہ۔اور لعنۃ اللہ۔اور اگر مکسور ہو تو تو باریک پڑھا جائے گا۔جیسے بسم اللہ۔
لفظ اللہ کی لام کے سوا باقی تمام بروایت حفص میں باریک ہی پرھے جایئں گے باقی قواعد علم قرات کے ضمن میں لکھے جائیں گے۔
اس مذکورہ لام کے علاہ حروف میں سب سےزیادہ طا پُر پڑ ھی جائے گی۔اس کے بعد ظا ض ص چونکہ ان مذکورہ چار حروف میں تفخیم کی قوت صفت لازمہ متضادہ کے لہاظ سے زیادہ ہے اسی لئے یہ حروف ذاتی طور ربقیہ سے زیادہ پڑھے جایئں گے۔ان چارو ں حروف کے بعد سب سے زیادہ تفخیم ق کی ہے۔اور پھر غ اور خا کی سب سے کم تفخیم ذاتی طور ''را'' کی ہوگی الف تو جس حرف مفخم کے ساتھ آئے گا اسی طرح موٹا ہو گا۔اسی طرح حرکات کی وجہ سے حروف مفخم پانچ درجات پرموقوف ہے جس حرف کے ساتھ الف ہو وہ سب سے زیادہ موٹا ہوگا۔جیسے
۔قالو۔قالا۔ظالم۔اَفَطالَ یعنی اعلیٰ درجہ تفخیم اس کے بعد اس حرف کی تفخیم ہوگی۔جس پر زبر ہو۔جیسے ظلمو۔انطلقو۔وغیرہ اس کے بعد اس حرف کی تفخیم ہوگی۔جس پر ضمہ ہو۔قُلُوُ بُ ہُم مَرَضَ وغیرہ ان سے کم موٹا حرف جب پڑھا جائے گا۔جب کہ حرف کسرہ ہو۔جیسے مُتَلقِیٰن۔نَخیِل۔وغیرہ اورسب سے کم درجہ کی تفخیم جب ہوگی جب کہ یہ حرورف ساکن ہوں۔جیسے اَطغَیتُه۔اَظَلَم وغیرہ۔
ان تفخیم ددرجات کا جب خیال رکھا جاتا ہے۔تو حروف اتنی مقدار اوردرجات سےزائد مفخم ہو کر ماقبل ما بعد کومفخم کر دیتا ہے۔اوراسی حروف میں تفخیم بڑھ کر وہ واو کی آواز دینے لگ جاتاہے۔اور خوامخواہ ایک حرف کی زیادہ ہو جاتی ہے۔جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔یا پھر اسی طرح ترقیق میں مبالغہ سے کام لیاجائے۔تب توحروف ہی بگڑ جاتے ہیں۔اور ام لے پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔وہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
مندرجہ بالا کیفیات کا تعلق محض استاذ فن کے ادا پرموقوف ہے اب صفات عارضہ کا بیان شروع ہو جاتا ہے۔جو کہ صرف امام ابو حفص سلمان بن مغیرہ الاسدی کی روایت سے متعلق ہیں۔یہ صفات صرف آٹھ حروف میں پائی جاتی ہیں۔ جن کا مجموعہ او۔یر۔ملان۔ہے ان حروف کی صفت ادانہ ہو تو صرف کراہت ہوتی ہے۔مگر بہت سے حضرات آج کل ان صفات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کہ جہاں نون کا اخفا ادا نہ ہو۔ اور یا الف کا مدلین فوراً فتویٰ جڑ دیتے ہیں کہ غلظ پڑھ رہا ہے۔اوراگر صفات ملازمہ میں کسی صفت کی ادائے گی نہ ہو تو اس کا علم ہی نہیں ہے۔
تمام قرآن مجید میں ہمزہ چار قسم پر ہے۔
1۔ہمزہ محققہ
2۔ہمزمسہلہ
3۔ہمزہ مبدلہ
4۔ہمزہ منقولہ
1،ہمزہ محققہ وہ ہمزہ جو اپنے مخرج سےیعنی(اقصیٰ حلق) معہ صفات لازمہ کے ادا کیا اورصفت شدت کا غلبہ رہے اس کو ہمزہ محققہ کہتے ہیں۔
2۔ہمزہ مسہلہ۔وہ ہمزہ ہے جوالف اور ہمزہ کے درمیان والی آواز سے پڑھا جائے نہ ہی مکمل ہمزہ ہوا اور نہ مکمل لف ہو۔
3۔ہمزہ مبدلہ وہ ہمزہ جو بالکل الف سےبدل کرپڑہاجائے۔
4۔ہمزہ منقولہ ! وہ ہمزہ جسے نقل کر کے پڑھا جائے۔
تمام قرآن مجید میں جہاں بھی دو متحرک ہمزے قطعی ایک کلمہ میں جمع ہوں۔او ر کوئی سا بھی ہمزہ وصلی نہ ہو۔اور دونوں ہمزے خوب تحقیق سے پڑھے جاتے ہیں۔اوردونوں ہمزوں کو اپنے مخرج سے اور صفات کے ساتھ ادا کریں۔تو یہی ہمزہ محققہ ہوگا۔جیسے إِنَّكُمْ أَنتُمُ جہاں دو ہمزے جمع ہوں اور دونوں قطعی ہوں۔توتمام قرآن مجید میں ایک جگہ چوبیسویں پارے میں ایسی ہے کہ اس کلمے کے دوسرے ہمزے کو تسہیل سے پڑھتے ہیں۔ أَعْجَمِيٌّ
سورہ حم سجدہ رکوع 5 آیت 44 یعنی پہلے ہمزہ کو خوب تحقیق سے اور دوسراہمزہ بین بین پڑھا جائے گا۔اس کو مشاق استاد سے خوب سیکھنا چاہیے۔طلبہ کو پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ تمام ہمزوں میں اگر تحقیق نہ بھی رہی ہو۔ تو خوامخواہ اس دوسرے ہمزے کو تحقیق سے پڑھ دیتے ہیں۔اس طرح سے تسہیل تحقیق میں بدل جاتی ہے۔اس لئے خوب احتیاط بلا جھجک ادا کرنا چاہیے۔اس کلمہ مندرجہ بالا کےلئے قرآن مجید میں اور چھ جگہ بھی تسہیل ہے۔گو ان میں پہلا ہمزہ استفہام کا ہے۔دوسرا ہمزہ وصلی مفتوح ہے۔ ا لئے وصل کو حذف کرنے کےلئے قراء نے ان جگہوں پر ابدال کو اولیٰ لکھا ہے۔ الْآنَ
دو جگہ سورۃ یونس گیارہ سپارہ آیت 51۔91 میں تسہیل ہے۔اور تمام قرآن میں ایک کلمہ ایسا ہے۔جہاں مد لازم کلمہ مخفف ہے۔ آلذَّكَرَيْنِ
دو جگہ سورہ انعام آٹھواں پارہ آیت 144۔145 آللہ بھی دو جگہ ہے۔ایک سورۃ یونس سپارہ گیارواں آیت 59 دوسرا نمل سپارہ انیسواں آیت59 اگر ان کو تسہیل سے پڑھیں گے۔تو مد پیدا نہ ہوگی اور اگر ابدال سے پڑھیں گے تو مد لازم کلمی مشکل پیدا ہو جائے گی۔چونکہ آجکل مشہور ابدال کےساتھ پڑھنا ہو چکا ہے۔اس لئے ضروری ہے ان چھ ہمزوں کو بھی تسہیل سے پڑھا جائے کیونکہ قراء کرام نے لکھا ہے کہ ایک روایت یا طریقہ۔۔۔عند القراء ثابت اور مشہور ہوا اور عوام میں متروک ہوچکا ہوتو اس کو متروک مشہور قاعدہ کو پڑھنالازم ہے۔تاکہ وہ روایت یا طریق بھی زندہ ہو جائے ۔آجکل عموماً روایت امام حفص پڑھانے میں ان طرق کا خیال رکھا جاتا ہے۔جو علامہ شاطبی سے متعلق ہے۔اس میں علامہ جزری نے جوف اختلاف طریق کیا ہے۔وہ خصوصا ً فوت ہو چکا ہے۔اس لئے علامہ جزری یا علامہ شاطبی کے طرق کے اختلافات سے بھی تلامذہ کو واقف کرانا ضروری ہے۔جب دو ہمزے جمع ہوں پہلا ہمزہ استفہام کا ہو دوسرا ہمزہ وصلی مفتوح نہ ہو تو دوسرا ہمزہ گرا دیا جاتا ہے۔اور صرف ہمزہ استفہام کو پرھا جاتا ہے۔جیسے افْتَرَىٰ کو افْتَرَىٰ کو أَسْتَكْبَرْتَ کو أَسْتَكْبَرْتَ وغیرہ۔
جب دو ہمزے جمع ہوئے ہوں۔پہلا ہمزہ متحرک اوردوسرا ساکن ہو تو دوسرے ہمزے کو پہلے ہمزے کے کی حرکت کے مطابق حرف سے بدل دیا جاتا ہے۔جیسے امنو کی اٰمنو ای مان کو ایمان اؤْتُمِنَ کو اؤْتُمِنَ
جہاں دو ہمزے جمع ہوں۔ پلا ہمزہ وصلی ہو دوسرا ہمزہ ساکن ہو تو جب کسی کلمہ سے پرھیں گے تو پہلا ہمزہ وصلی تو درمیان کلام میں حذف ہو جائے گا۔ مگر دوسرا ہمزہ ساکن ما قبل کی حرکت سے نہ بدلا جائے گا۔ جیسے الذی اؤْتُمِنَ ۔
فِرْعَوْنُ ائْتُونِي. ۔ المالك ۔۔۔ ائْتُونِي
اب یہاں جب ہمزہ وصلی کو ثابت رکھیں گے تو ہمزہ ساکنہ تو با قبل کی حرکت کے مطابق بدل دیں گے۔یعنی الذی اؤْتُمِنَ کو جب سے الذی سے نہ ملایئں۔تو اؤْتُمِنَ کو اؤْتُمِنَ بلا ہمزہ پڑھیں گے۔ہمزہ کو واو سے بدل دیں گے۔
تمام قرآن مجید میں لام تعریف کا ہمزہ وصل کی صورت میں حذف کیا جاتا ہے۔اور اس ہمزہ کو درمیاں میں ثابت رکھنا درست نہیں۔مگر افسوس کا مقام ہے۔کہ ہمارے ہاں بہت سے قاری صاحبان اس ہمزے کو بھی نہیں گراتے درمیان کلام میں۔
لام تعریف کا ہمزہ ابتدائے کلام میں ہمیشہ مفتوح پڑھا جائے گا۔اسی طرح ہمزہ وصل جب فعل پر تو فعل کے تیسرے حرف کے حرکت کی موافقت میں پڑھیں گے۔مثلاً اضرب میں تیسرا حرف مسکور ہے۔ اجْتُثَّتْ میں تیسرا کلمہ مضموم ہے۔اور اس میں ہمزہ مکسوری ہوگا کیونکہ ان کا ضمہ عارضی ہے۔اصل میں ان پرکسرہ اور ''ی'' ہے ۔اس کا ہمزہ ہمیشہ مکسور ہوگا۔
مثلاً ابْنَ ۔۔ انتِقَامٍ ۔۔۔وٖغیرہ۔
نون جب مشدد ہو تو اس میں ٖغنہ ہوتاہے۔غنہ کے متعلق کافی بحث پچھلے شمارےمیں کر چکا ہوں۔اب نون ساکن اور تنوین کا بیان شروع ہوتا ہے۔تنوین 2 زبر دو 2 زیر اور دو 2 پیش کو کہتے ہیں۔جس کی آواز نون ساکن کی طرح ہوتی ہے۔یہ حرکت صرف عربی زبان میں مستعمل ہے۔ہاں البتہ اردو زبان میں صرف انہی جگہوں پر تنوین کا استعمال ہوتا ہے۔جہاں کلمات کو عربی سے اردو میں ڈھالا گیا ہے۔جیسے نسلاً بعد نسل وغیرہ ۔
جن حروف پر حرکت تنوین ہو اس حرف کو منون کتہے ہیں۔
|
تنوین |
|
نون ساکن |
1 |
اس کی کوئی خاص شکل نہیں ہے۔ |
1 |
نون ساکن کی مخصوص شکل ہے۔ |
2 |
یہ درمیان کلام میں نہیں آسکتا ہے۔بلکہ کلمہ کے آخر میں ہوتا ہے |
2 |
یہ درمیان اور اخیر میں آتا ہے۔ہاں البتہ ابتدائے کلام میں ناممکن ہے۔ |
3 |
یہ کلمہ ہر وقف کی حالت میں گر جاتا ہے۔یا پھر بدل دیا جاتا ہے۔ |
3 |
یہ وصل و وقف میں ثابت رہتاہے۔ |
1۔تمکن 2۔مقابلہ 3۔عوض 4۔مناسبت 5۔ترنم
تمکن ۔جو منصرف اسموں پر لفظاً یا تقدیر اً آتی ہے۔ هُدًى۔ وغیرہ
مقابلہ۔جو نون کے مقابلے پر آوے مثلاً مسلمات وغیرہ
عوض۔جو کسی کلمہ کے بدلے میں آوے۔ لَنَسْفَعًا
مناسبت۔جو کسی کی مناسبت میں ہوئے۔ جیسے سلسلاً کی تنوین
أَغْلَالًا ۔کی مناسبت سے ہے۔
ترنم۔وہ تنوین جو اشعار کے آخر میں ترنم کےلئے پڑھا جائے۔لقد اصاباً
تنوین اور نون ساکن کے چارحال ہیں۔
1۔اظہار۔2۔ادغام۔3۔اخفاء۔4۔اقلاب
قبل ازاں کہ نون ساکن یاتنوین کے حال پربحث ہو ان اقسام کی ذات سے باخبر کرتا ہوں کہ اظہار سے مراد کیاہے۔وغیرہ
حروف کو اپنے مخرج سے مع صفات کے ادا کرنا جس کی صورت واضح او بین رہے۔
ایک حرف ساکن یا متحرک کو دوسرے حرف میں اس طرح داخل کرنا کہاں پر تشدید پیدا ہو اجائے کہ دونوں حروف کی آواز ایک ہو جائے یا مدغم کی آواز کا کچھ حصہ باقی رہے یہ صرف ادغام ناقص میں ہوتا ہے۔
یہ حالت صرف تنوین اور نون ساکن کی ہے۔یعنی ان کی آواز کو ناک میں چھپایا جاتا ہے۔تو یوں تعریف ہے۔
الاخفاء حالة بين الاظهار والا دغام
وہ حالت ہے جو اظہار اور ادغام کی درمیانی حالت ہو۔
ایک حرف کی جگہ دوسرا پرھنا۔
جب حرف نون ساکن یا تنوین کے بعد حرف حلقی میں سے کوئی حرف آوے تو ہاں اظہار ہوگا جیسے غنہ۔
حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ۔ أَنْعَمْتَ ۔ أَجْرٌ ۔ غَيْرِ
یاد رہے اظہار ہونے کے باوجود بھی نون ساکن یا تنوین کی آواز ناک میں معمولی سی ضرور بالضرور جائے گی۔اگر اس آواز کوناک میں نہ لے جایا گیا۔تو یقیناً نون ساکن یا تنوین اور حرف حلقی کے درمیان سکتہ پیدا ہو جائے گا۔اس سکتے سے بچانے کےلئے غنہ آنی کی ضرورت ہوگی۔
اظہار کی وجہ یہ ہے نون اورحلقی حروف میں کافی فاصلہ ہے۔نون میں متوسط اور مذلقہ کی صفت او اسی طرح اس کی ادائیگی میں زبان کی نوک او ر کنارے کا تعلق جہاں سے حروف آسانی سے ادا ہو ہی جاتے ہیں۔جب کہ حلق سے ادائیگی بہت محال ہے۔تو اس لئے کہ کہیں ادغام نہ ہو جایئں۔ان پراظہار کیا جاتاہے۔جو کہ اصل ہے۔جب کہ ادغام اور اخفاء وٖغیرہ نقل کی چیز ہے۔
بعض نے الف کوحروف حلقی میں گنا ہے۔جیسا کہ امام فراء کا مذہب ہے۔اس طرح سیبویہ اور شاطبی نے حرف حلقی سات گنے ہیں۔الف چونکہ خود ساکن ہوتاہے۔ اس لئے اس کا بیان یہاں درست نہیں۔وہ تنوین یانون ساکن کے بعد آہی نہیں سکتا ہے۔
اور بعض حروف حلقی کی تعداد سات بتلاتے ہیں۔مگر۔غ۔خ۔جب کہ تنوین یا نوں ساکن کے بعد آویں تو وہاں بھی اخفاء کرتے ہیں۔اس کو امام یذید بن رومان نے اختیار کیا ہے۔انہوں نے لکھا ہے۔غ۔خ۔چونکہ ''ق'' کے مخرج کے قریب سے نکلے ہیں چونکہ آق سے پہلےکون پرغنا ہوتاہے۔اس لئے اس ''ن''ساکن''پر بھی ہوگا جو کہ غ۔خ۔کے قبل ہوگی۔مگر ہم جمہور کے مذہب کے مطابق ادائے رکھیں گے۔
نون ساکن یا تنوین کے بعدحروف ''یرملون''میں سے کوئی حرف آوے۔تو ادٖغام ہوتا ہے۔ہاں البتہ ان چھ حروف میں سےچار میں ادغٖام تام ہوگا۔اور باقی میں ادغام ناص ہوگا۔''ی''و''میں ادٖغام ناقص ہوگا۔بلکہ بالغنه ہوگا۔اسی طرح ۔ل۔م۔ن۔ر۔ میں ادغام تام ہوگا۔ہاں فرق اتنا ہے۔ل۔ر۔ میں ادغام ب بالغنه اور بلا غنہ دونوں جائز ہے جب کہ ن۔م۔میں ادغام ب بالغنه ہوگا۔اور ل۔ر۔میں بلا غنہ ہوگا۔آجکل یہی طریقہ رائج ہے۔
محققین نے لکھا ہے کہ ل۔ر۔سے ما قبل ن ساکن یا تنوین آئے اور وہ نون ساکن لکھی ہوئی ہو۔اوردوسرے حرف سے فصل میں ہو۔جیسے۔فان لم غیر مرسوم اور موصول کی مثال ایسی ہے جیسے فالم جو درحقیقت فان لم ہے مگر ن لکھا ہوا نہیں ہے۔تو اس میں ادٖغام بالغنه بھی جائز ہے۔جب کہ مفطوع مرسوم ہو۔''نون''ساکن مرسوم مفطوع سے بعد ل۔ط۔آوے تو غنہ ہوتا ہے۔اور ادغام ناقص ہوگا۔اس طریقے سے تمام حروف یرملون میں سے چار ہیں۔(و۔ی۔ل۔ر)ادغام ناقص ہوگا۔اور ن۔م میں ادغام تام ہوگا۔مثلاً
من يومن من وال من ربه من لدنه من نشاء من ماء
بعض نے اختلاف کیا ہے۔اور وہ کہتے ہیں کہ ن م میں بھی ادغام ناقص ہوتاہے۔چونکہ ن م کے قبل تنوین یا نون ساکن ہے۔مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ حروف یرملون میں سے ن م میں ادغام ہونا اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔کہ وہاں جب ادغام ہو۔وہ ادغام ناقص ہی ہو۔ بلکہ ن م میں تمام صفات یکساں نہیں۔دوسرے حروف کا اس کے مثل میں ادغام ہی نام ہوتا ہے۔اس لئے ن کا ادغام تو ''تام' ہوگا۔اور چونکہ م تمام صفات میں ا س کے ہم پلہ ہے۔اس لئے ا س میں بھی ادغام تام ہوگا۔
وہ ادغام ہوتا ہے کہ مدغم اس طرح مدغم فیہ میں داخل ہو جائے کہ مدغم کی کوئی آواز باقی نہ رہے۔بلکہ مدغم فیہ کی آواز واضح ہو۔اور اس پرتشدید پیدا ہو جائے۔من نصرين
جس میں مدغم کی آواز مکمل طور پر مدغم فیہ میں داخل نہ ہو جائے بلکہ کچھ اپنی آواز کا اثر باقی رہے۔جیسے ۔مَن یُومِنُ
تمام قرآن مجید میں اس یرملون کے قاعدے کے تحت چار الفاظ میں ادغام نہیں ہوتا ہے۔بوجہ ایں کہ اس ادغام کے لئے شرط ہے کہ حرف یرملون اور نون ساکن یا تنوین جدا جدا کلموں میں ہوں مگر یہاں ایک ہی کلمہ میں ہے۔ادغام کرنے سے مطلب یوں ہوتا ہے۔ک حرف میں خفت پیدا کی جائے تو الفاظ کی ہیت بالکل بگڑا جایئں گے۔اوردوسرے محققین اہل ادا نے اس میں اظہار کیا ہے۔وہ الفاظ یہ ہیں۔قنوان۔بنیان۔صنوان۔دنیا۔سورہ قیامہ میں اظہار ہونا بوجہ سکتہ کے ہے۔
سورۃ یٰسین والقرآن الحکیم اور ن والقلم میں بھی ہمارے ہاں اظہار سے پڑھنے کا طریقہ اب چونکہ۔۔۔یہ مشہور ہو چکاہے۔قریباً ادٖغام سے پڑھنے کا طریق معدوم ہوچکا ہے اس لئے ااساتذہ کرام فن کو چاہیے۔ادٖغام سے بھی پڑھایا کریں۔یہ ادغام اس طرح پرہوگا۔ کہ اگر ہم حروف مقطعات کو جداجدا کریں۔یٰسین۔نون۔اس طریقہ سے ن ساکن کے بعد و متحرک اآرہا ہے۔اور اس میں ادٖغام لازم ہے۔
تنوین یا نون ساکن کے بعد حروف اظہار یعنی حلقی حروف یرملون الف اوربا نہ آویں۔تو بقیہ پندرہ حروف آویں تو اخفاء ہوتا ہے۔وہ حروف یہ ہیں۔1ت2ث3ض4ؤ5ذ6ز7س8ش9ص10ض11ط12 ظ 13 ف14 ق 15ک۔یعنی ادائیگی میں نون ساکن یا تنوین کی آواز مکمل طور سے مخرج کی بجائے ناک سے ادا ہو۔
تنوین یا ساکن کے بعد حرف ''با''آوے تو اس تنوین یا نون ساکن''میم''سے بدل کر پڑھتے ہیں۔اس طرح ادائیگی پہلے دونوں ہونٹ مل جایئں۔پھر غنہ ہو اوران کے ہونٹ کھل جایئں۔او ہونٹ کو مظبوط نہ رکھنا چاہیے۔اس سے حروف صاف واضح ادا ہوگا۔اب مزید مثالیں لکھتا ہوں تاکہ ان چاروں حال کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔
عربی۔تنزیل سے کاپی کرنی ہے۔
نون ساکن یا تنوین اظہار کو مظہرہ نون ''ساکن یاتنوین ''اخفا کو مخفیٰ ۔نون ساکن یاتنوین ادغٖام کو مدغمہ اور نون ساکن یاتنوین اقلاب کو منقلبہ کہتے ہیں۔
میم جب مشدد ہوگی تو اس میں''ن''مشدد کی طرح غنہ ہوگا۔غنہ کی صحیح مقدار ایک الف ہے الف کی صحیح مقدار کا اندازہ محض اساتذہ فن جو مشاق ہوں ان کے پڑھنے پر موقوف ہے جس طرح استاذ فن پڑھے جس تلاوت کے درجہ میں پڑھے۔اسی طرح الف کی مقدار بھی کم زیادہ ہوگی۔جب ترتیل میں پڑھے گا تو الف کی مقدار علیحدہ ہے۔حدود میں اور تدویر میں اور ہوگی الف کی مقدار کو انگلیوں کے کھلنے اور بند ہونے سے سمجھنا مشکل ہے نا معلوم انگلی ترتیل میں کتنی تیزی سے کھلے جب حدر وتدویر میں آہستہ اس لئے بہتر صورت یہی ہے۔کہ الف کی مقدار کومشاق استاذ کے پڑھنے پرمحمول کرے اور جو مشاق ہوگا۔وہ یقیناً صحیح الف کی مقدار کا مکلف ہوگا۔اور اس ماہر کے پڑھنے اور مقدار جو ماہر ہی خوب سمجھیں گے باقی ر ہا۔میم ساکن کے تین حال ہیں۔
1۔ادغام۔2۔اخفاء۔3۔اظہار
جب میم ساکن ہو اس کےبعد بھی میم متحرک ہو تو اس ساکن میم کو اس متحرک میم میں ادغام کردیں گے۔اوراسی طرح سے دونوں میم مل کر ایک میم مشدد بن جایئگی اور اس پر غنہ ہوگا۔
میم ساکن ہو اس کے بعد ب متحرک ہو تو میم کو اخفاء سے پڑھیں گے۔مثلاً وما هم بخارجين
میم ساکن کے بعد م یا ب کے علاوہ جتنے بھی حروف آئیں۔سب حروف اظہار ہوں گے۔
ہاں البتہ بعض کتب میں دیکھا گیا ہے۔کہ وہ حروف شفوی میں اخفاء کرتے ہیں یعنی جب میم کے بعد حروف شفوی آئے تو اخفاء کرتے ہیں ۔یا صلہ کرتے یا گونہ حرکت دیتے ہیں۔اوراس طرح سے پڑھنا کسی معتبر سے ثابت نہیں ہے۔البتہ بعض چھوٹے رسائل میں ہے۔ہاں البتہ میم کے ساکن کے ''ب''آوے تو اخفاء نہ کرنا تو بعض ضعیف روایات سے ثابت ہے۔اسی طرح میم ساکن کے کوئی حرف متحرک آوے تو سبعہ قراء میں بعض قراء نے توصلہ سے میم کو پڑھا ہے۔مگر میم کے بعد واو فا آوے تو کسی نے اخفاء نہیں کیا ہے۔نہ ہی کسی نے گو نہ حرکت دی ہے۔اس لئے عوام میں ''بوف'' کا قاعدہ مشہور ہے وہ صرف غلط العوام ہے ورنہ محققین کے نزدیک سرسے ہی غلط ہے۔
رجب متحرک ہوگی تو مفتوح و مضموم حالت میں مفخم پڑھا جائے گا۔اور مکسور ہونے کی حالت میں را ترقیق سے پڑھی جائیگی اور را جو مشدد ہوگی۔وہ اپنی حرکت کے مطابق پڑھی جائے گی۔یعنی را پہلی دوسری کے تابع ہوگی۔جیسے ۔دری۔شراً وغیرہ پہلی مثال دونوں را باریک اور ووسری مثال میں رمفخم ہوگی۔ہاں البتہ را ساکن ہو تو اس کی مختلف حالتیں ہوں گی۔
1۔جب را ساکن ہو تو اس کے ما قبل کی حرکت کے مطابق پڑھیں گے یعنی را سے ما قبل مفتوح و مضموم ہو تو را پر اور مکسور ہو تو را باریک ہوگی۔ترتيلا ۔ اركضوا۔ تنذر
2۔جب را ساکن ہو اور اس کا ماقبل بھی ساکن ہو تو اس را کو بھی ما قبل کی حرکت کے مطابق پڑھیں گے۔جیسے ۔والعصر ۔خسر مگر یہ حالت وقف کی ہی صورت میں پیدا ہوا کرتی ہے۔مثلاً اور موخر کے ماقبل مضموم ہے ۔تو اب ان دونوں را کو پریعنی منہ بھر کر ادا کریں گے۔اسی جب را کا ماقبل ساکن اور اس کا ما قبل ساکن اس سے قبل حرف پر کسرہ ہوتو را کو باریک پڑھیں گے جیسے ۔
حِجرِیہاں وقف کی صورت میں را ساکن ما قبل ج ساکن اور حامکسور ہے ۔اسی طرح ''ح'' ی''کی حرکت کسرہ کے مطابق باریک پڑھی جائے گی۔بہت سی مساجد کے آئمہ کرام جب ان صورتوں کو پڑھتے ہیں تو اوقاف کی حالت میں را کی ذرا بھی بو آنے نہیں دیتے ہیں۔جس سے ایک پورا حرف کا حرف ہی غائب ہو جاتا ہے ۔یعنی والعصر کی بجائے والعصر ہو کر رہ جاتی ہے۔ جس سے یقینی طور پر لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں یا کوئی مہمل نے معنی کلمہ بن کر رہ جاتا ہے۔اور اس طرح جاننے والے کی نماز ہی جاتی رہتی ہے۔چونکہ ہمارے ہاں قرآن کی قراءت کے علم اور تجوید کو بعض محتاط حضرات ( جو کہ ضرورت سے زیادہ سنت کے حامل ہیں۔)وہ بدعت قرار دیتے ہیں۔اس طرح سے یہ بات عوام میں پھیل کر اب اس فریضہ کو ختم کرنے کے کوشاں ہیں ۔حالانکہ تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنے والا باوجود مکلف ہونے کے اسے نہ پڑھے تو حق تعالیٰ جل شانہ کی ناراضگی کے مستحق ہیں۔اس ذات بابرکات کی خفگی کسی بڑے سے بڑے نبیؑ کی برداشت سے باہر ہے۔کجا آجکل کا مسلمان مجھ سا بدعمل اور گناہگار اور جو حضرات منکر تجوید ہیں۔اور بدعت قرار دیتے ہیں وہ یقیناً قرآن مجید کی آیت ورتلنه تر تيلا کو سمجھے ہی نہیں ہیں۔اورایمان کی خیر منایئں۔اس لئے قرآن مجید کی تلاوت نہایت ہی احتیاط سے خوب حروف کو سنوار سنوار کر ہونی چاہیے۔
را کی صفت جہر اور تکرار کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔جس سے را کی آواز بہت صاف اور واضح ادا ہوگی۔
3۔جب را ساکن ہو ما قبل ساکن''ی''ہو تو وہ راہر حالت میں باریک پڑھی جایئگی یہ حالت بھی وقف کی صورت میں پیدا ہوگی۔مثلاً
لا خير قدير
4۔ساکن را سے ماقبل کسرہ عارضی یا ہمزہ وصلی ہو تو وہ را بھی پُر پڑ پڑھی جایئگی۔جیسے
اَنِ ارتَبتُم ۔اَمِ ار تَابُوا۔رَبِ الرِجِعُون۔اِرجِعِی۔ وغیرہ
5۔ساکن را کے بعد حرفمستعليهآوے تو۔۔۔استعلاء کی صفت کو اس حرف مستعليهمیں قائم رکھنے کے لئے اس را ساکن کو بھی پُر پڑ ھتے ہیں ۔مثلاً ،مِر صَادِ۔فِر قَۃ ُ مگر فِرقِ کی را میں خلف ہے۔بعض کی رائے میں پُر ہے۔بوجہ قاعدہ مذکورہ اور بعض کی رائے میں باریک ہے بوجہ ''ق'' کے کسرہ کےاب اس کی تفخیم خود ہی بہت کم ہے۔اس لئے وہ کس طرح دوسرے حرف کو مفخم کر سکے گا۔بہر حال جس سے جیسے بنے پڑھ لے کیونکہ را کی تفخیم و ترقیق کا تعلق محض صفت عارضہ سے ہے۔
اب ان جگہوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔جو قاعدہ نمبر 4 نمبر 5 کے تحت میں آرہے ہیں۔کسرہ عارضی ہمزہ وصلی والے راآت۔
إِنِ ارْتَبْتُمْ (دو بار پ 7 مائدہ ع)
ارْجِعِي (سورۃ فجر پ3 ۔)
اَرْجِعُ (پ19 نمل رکوع 3 ۔)
ارْجِعُوا (پ13 یوسف ع 1 ۔)
رَبِّ ارْجِعُونِ (پ18 مومنون )
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا(پ15 اسرائیل ع3)
حروف مستعلیہ والے
َإِرْصَادًا(پ11 توبہ ع13)
مِرْصَادًا(پ30)
لَبِالْمِرْصَادِ(پ30 سورہ فجر)
فِرْقَةٍ .(پ11 توبہ ع15)
فَِرِّقُِ(پ19 شعراء ع4)
قِرْطَاسٍ)پ7 انعام ع 1)
ان کے علاوہ قرآن مجید کے کئی کلمات کو رسم الخط کی مطابقت میں پُر پڑھے جاتے ہیں۔جو وہ درحقیقت باریک پڑھے جانے چاہیے۔مگر اوزان اور فواصل برابر کرنے کے لئے ان کےآخری''ی''کو گرادیا جاتا ہے۔اس طرح بحالت وقف انہیں پُر پڑھانے کا رواج قائم ہو چکا ہے۔حالانکہ اولیٰ و افضل طریقہ یہی ہے۔کہ انہیں بحالت وقف پُر نہ کیا جائے۔بلکہ ترقیق سےاپنی اصلی کیفیت کے مطابق ادا ہو وہ کلمے یہ ہیں۔
فَأَسْرِ (پ 12 سورہ ہود ع 6)
إِذَا يَسْرِ (پ3 الفجر )
6۔را ممالہ جو کہ تمام روایت سیدنا امام حفص میں ایک ہی جگہ ہے باریک پڑھی جائے گی۔ر ا مما لہ کہتے ہیں۔اس را کو جس پر امالہ کیا جائے۔(امالہ کی تعریف پہلے تحریر کر چکا ہوں۔)وہ بارہویں سپارہ سورۃ ہود ع4 بسم اللہ مجرھا میں را کے الف پر امالہ ہے اس وجہ سے اس را کو باریک پڑھیں گے۔امالہ کی ادائیگی نہایت ہی کوشش سے کرنی چاہیے۔بعض حضرات امالہ صغرٰی اور کبریٰ میں فرق نہیں کر سکتے ہیں۔
7۔ را مرامہ موقوفہ بالروم ۔وہ را جس پر وقف بالروم کیا جائے۔روم کہتے ہیں۔کسی بھی حرف متحرک کے حرکت کے چوتھائی حصہ کو پڑھنا جب کہ اس پر وقف کیا جارہا ہو۔روم اتنی ہلکی آوازہوتی ہے۔جسے صرف قریب والے ہی سن سکتے ہیں۔مگر بہرہ انسان نہ سن سکے گا۔( باقی تفصیل باب الوقف میں بیان ہوگی۔)ایسی را پر چونکہ سکون پیدا نہیں ہوا اس لئے اس کو اس کی حرکت کے مطابق ہی پڑھیں گے یاد رہے روم صرف کسرہ اورضمہ پر ہوگا۔فتح پر روم نہ ہوگا۔اس طرح جب تنوین مکسور اور مضموم پر وقف با لروم کریں گے۔تو ایک ہی حرکت پڑھیں گے۔تنوین کی آواز پر روم نہ ہوگا۔جیسے قدیر یا خبیر وقف بالروم کی حالت میں قدیر 4/1 یا خبیر 4/1
جب لفظ اللہ سے ما قبل حرف مفتوح یا مضموم ہو تو وہ لفظ اللہ کا لام مفخم پڑھا جائے گا۔جیسے من اللہ۔ھواللہ۔ليعبد االلہ۔واتقو اللہ۔جو مکسور ہو ماقبل اس لام کو اور تمام لاموں کو باریک ہی پڑھیں گے۔مثلا بسم اللہ۔اعوز با اللہ۔الذین۔الصلواۃ وغیرہ۔
اوی ساکن ما قبل ان جیسی حرکت ہو یعنی الف ساکن ما قبل مفتوح سی ساکن ما قبل مکسور و ساکن ما قبل مضموم ہو ان کو مد کر کے پُر پڑھیں گے۔اگر ان کو اشباع سے نہیں پڑھیں تو الف زبر۔وپیش۔بنکر رہ جائےگا۔اس لیے اوی ساکن کی طبیعت اور ذات میں بھی مد ثابت ہوئی۔اوی کی جو مقدار مد ہے۔اسے مد اصلی ۔ذاتی تملیک طبعی۔قصر کہتے ہیں۔اور یہ مقدار ہر وقت ان کی ذات میں قائم رہے گی۔ان کے علاوہ جو مقدار کھینچی جائے گی۔اسے مد فرعی کہتے ہیں۔وہ اصل ہی کی قسم ہے۔
مد فرعی تمام قرآن میں دو طرح پیدا ہوتے ہیں۔
1۔حرف مدہ کے بعد جب ہمزہ آئے۔
2۔حرف مدہ کے بعد سکون ہو۔
1۔الف۔جب حرف مدہ کے بعد ہمزہ اور وہ ہمزہ اسی کلمہ میں متصل ہو تو اس مد کو مد متصل یا واجب کہیں گے۔
(ب)۔جب حرف مدہ کے بعد ہمزہ دوسرے کلمہ میں ہو اسے مد منفصل کہیں گے۔
مد متصل:۔ مَاءً۔۔ سُوءَ ۔۔ سَيِّئَةٌ
مد منفصل:۔ اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ۔۔۔ الَّذِي أَطْعَمَهُم۔۔۔ أُمِرُوا إِلَّا
2۔الف۔جب حروف مدہ کے بعد سکون اصلی ہو اسے مد لازم کہیں گے۔
ب:۔ جب حروف مدہ کے بعد سکون عارضی ہو اسے مدعارض کہیں گے۔
تمام قرآن مجید میں مد لازم دو قسم پر ہیں۔
1۔مخفف 2۔مثقل
1۔مخفف وہ مدود ہیں یعنی حروف مدہ کے بعد ساکن حروف مجزوم ہو۔
2۔ مثقل ۔حرف مدہ کے بعد حرف مشدد ہو۔۔۔مخفف اور مثقل مدود ایک تو کلمات قرآن میں ہوں گے۔وہ لازم کلمی کہلایئں گے۔اسی طرح جو حروف مقطعات میں ہوں گے۔وہ مدلازم حرفی کہلایئں گے۔ جو مخفف ہوں گے وہ مد لازم۔۔۔مخفف اور جو مثقل ہوں وہ مد لازم مثقل ہوں گے۔
جب کسی کلمہ قرآنی پر وقف کیا جاوے جب کہ حرف موقوفہ سے قبل حرف مد ہو وقف کی صورت میں چونکہ وہاں عارضی طور پر سکون پیدا ہو جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مد پیدا ہوگی۔اس مد کو مد عارض وقفی کہیں گے۔جب حرف لین کے بعد سکون پیدا ہو تو وہاں مدلین پیدا ہوگا۔اگر سکون اصلی ہو تو مد لازم لین۔اگر سکون عارضی ہو تو مد عارضی لین تمام کلمات قرآنی میں کوئی بھی مد لین لازم نہیں ہے۔ہاں البتہ حروف مقطعات میں سے سورۃ مریم ۔سورۃ شوریٰ۔ کے ،۔كهيعص حم عسق عینوں میں
(عین کو کھول دیا جائے تو ی لین کے بعد ''ن'' کا سکون اصلی ہے اس میں مد لازم لین ہے۔)
اس کے علاوہ تمام قرآن میں کوئی مد لازم لین نہیں ہے۔کلمات قرآن میں صرف وقف کی حالت میں ہی مد عارض لین پیدا ہوتے ہیں۔
مدمتصل:۔مَاشَآءَ اللہُ۔۔۔لِتَنُوءَا۔۔۔ھَنِیآ
مد منفصل۔ وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ۔۔اَمِ ار تَا بُو آ۔۔۔اَم یَخَافُونَ
مد لازم کلمی مخفف:۔الئن۔۔۔یہ مد صرف اسی کلمہ میں جو سورۃ یونس پ11 میں دو جگہ پر ہے۔
مد لازم کلمی مثقل:۔اَتُحَا جُو نَنی
مد حرفی حروف مقطعات میں پیدا ہوتے ہیں۔کل تعداد حروف مقطعات کی چودہ ہے۔جن کا مجموعہ نقص عسلكم حيي طاهران میں پہلے آٹھ حروف یعنی نقص عسلكم تین حرفی ہیں۔یعنی ''نون'' کو جب اس کے طریق پررسم میں لایئں گے۔تو یوں ہوگا۔نون۔اس میں و ساکن محل مد ہوا۔اور ن کا سکون اصلی سبب مد ہو۔اس طرح قاف۔صادر وغیرہ سب میں ایک محل مد اور ایک سبب موجود ہے۔ان آٹھ حروف کے علاوہ باقی پانچ دو حرفی ہیں۔ان میں محل ہے تو سبب نہیں۔الف صرف تین حرفی ہے۔جو محل اور سبب سے خالی ہے۔اب اس طرح ہم جب ان حروف کو کھولتے ہیں۔تو ان میں حروف مدہ کے بعد جہاں سکون اصلی وہاں مخفف او ر جہاں حرف مشدد پیدا ہو جائے۔وہاں مد لازم حرفی مثقل ہوگا۔مثلاً الم۔کو لیجئے۔ الف لام میم لام میں الف محل م ساکن سبب ہے م ساکن کے بعد دوسری میم متحرک ہے۔اب میم ساکن میم متحرک میں ادغام ہوگا۔اور اس طرح سے متحرک پر تشدید پیدا ہوگئی۔تو لام کے الف کے بعد میم مشدد ہو گئی۔اس طرح لام کا مدد مد لازم کلمی مثقل ہوا۔اورمیم کا مد مد لازم کلمی مخفف ہوا۔بہت سوں کو ان مدوں میں مغالطہ رہ جاتا ہے۔ کہ وہ میم کو مشدد دیکھ کر میم کو مثقل کہہ دیتے ہیں۔اس مظالطے سے بچنا ضروری ہے۔
مد لازم حرفی مخفف:۔الر۔ ن ۔ص
مد لازم حرفی مثقل:۔الم۔ المر
مد لازم لین:۔عسق
مد عارض وقفی:۔ تُكَذِّبَانِ۔۔۔ الْمَصِيرُ۔۔۔ يَعْلَمُونَ
مد عارض لین:۔ الطَّوْلِ ۔۔۔ لَا ضَيْرَ
مندرجہ ذیل نقشہ سے اُمید ہے اچھی طرح سمجھ جایئں گے۔اکثر طلبہ کو میں نے اسی طرح سمجھا کر تجربہ کیا ہے۔کہ بہت جلد سمجھ جاتے ہیں۔
جن مدود کا پہلے زکر لکھ چکا ہوں۔ان کے علاوہ بعض قراء نے مندرجہ ذیل مد کی قسمیں بھی بتائی ہیں۔
1۔مد عوض۔2۔مد بدل۔3۔مدفرق۔4۔مد تعظیم یا توحید۔5۔مد نفی مبالغہ
1۔مد عوض:۔ جب کسی کلمہ کا آخری الف ہو اور اس پر مفتوح تنوین ہو تو اس تنوین کو الف سے بدل کر کھینچ کر پڑھا جاتا ہے۔ تو اسے مد عوض کہتے ہیں۔مثلاً ۔خبیرا۔قدیرا وغیرہ۔
2۔مد بدل:۔جہاں دو ہمزے جمع ہوں۔اور پہلا ہمزہ متحرک ثابت رکھ کر دوسرے ہمزہ ساکن کو پہلے ہمزہ کی حرکت کے مطابق حرف سے بدل کر پڑھتے ہیں۔ تو اس تبدیل حرف مد سے بدل کر پڑھنے کو مد بدل کہتے ہیں۔مثلا۔امَنو کو اٰمنو۔امَان کو اِیمَان
3۔جہاں دو ہمزے جمع ہوں۔پہلاہمزہ استفہام دوسرا ہمزہ خبر کا ہو تو اس ہمزہ کو الف سے بدل کر پڑھتے ہیں۔تواسے مدفرق کہتے ہیں۔(اور اسے ہمزہ کی تسہیل کے باب میں لکھا ہے۔)مثلا اَللہ کو آللہ وغیرہ۔
4۔مد تعظیم یا توحیدی:۔یہ مد صرف اللہ کی عظمت اور وحدانیت کو ثابت کرنے کی قراء نے غیر قرآن میں جائز لکھا ہے۔اور اس کی مقدار سات الف مقدار ہے جیسے اذان میں ۔اللہ اکبر۔اللہ اکبر۔لفظ اللہ پر۔
5۔مد نفی یا مبالغہ:۔یہ مد صرف شیخ القراء حضرت قاری حمزہ کوفی ؒ لا نفی جنس کی وضاحت کے لئے مد کرتے ہیں۔یہ ہوتا بھی لفظ لا پر ہے۔یہ طیبہ کے طریق پر ہے۔ نہ کہ شاطیبہ کے۔
کھینچنا۔اصطلاح قراء میں
اطالة الصوت بحرف من حروف المد
آواز کو حرف میں سے کسی حرف پرکھینچنا۔
تجربہ سے لکھا گیا ہے کہ اگر تمام مدود کے سمجھنے میں اگر مندرجہ ذیل نقشہ کو سمجھ لیا جائے۔تو بہت آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
مقدار مد
مد کی مقدار میں تین حالتیں ہیں۔1۔طول۔2توسط۔3قصر
1۔طول کی مقدار میں کم از کم تین الف اور زیادہ سے زیادہ پانچ الف ہے۔
2۔توسط۔کی مقدار طول کے مطابقت سے ہوگی۔یعنی طول اگر تین الف ہے تو سط دو الف طول چار الف کو توسط دو یا تین الف اگر طول پانچ الف ہے۔توتوسط تین یا چار الف ہوگی۔
3۔قصر کی مقدار ایک الف ہوگی۔اگر اس سے بڑھ گئی۔توتوسط یا طول اگر کم ہوگئی۔تو حرکت بن کر رہ جائے گی۔
مد متصل میں طول اولیٰ ہے یعنی تین سے پانچ الف تک مگر جب کسی مد متصل پر وقف کیا جائے تو وہاں چونکہ دوقسم کے مد پیدا ہوں گے۔ایک تو متصل دوسرا مد عارض وقفی پیدا ہوگا۔تو اس صورت میں اسے توسط سے پڑھیں گے۔اور توسط سے پڑھنا اولیٰ و افضل ہے۔
مد منفصل:۔میں بھی طول اولیٰ ہے۔مگر اس میں توسط اورقصر بھی جائز ہے۔اس لئے قرآن میں جہاں بھی مد منفصل آئے۔اگر اسے پڑھا ہے تو ہر جگہ پڑھے اگر حذف کیا ہے تو ہر جگہ حزف کرے۔کیونکہ اس کا حذف کرنا بھی جائز ہے۔
مدود لازم کلمی حرف مخفف و مثقل سب میں طول ہی جائز ہے۔
گو بعض قراء نے ان میں اختلاف کی کوشش کی ہے مگر جمہور قراء کی رائے پر ان میں طول ہی اولیٰ ہے۔مدلین لازم میں طول اولیٰ ہے جب کہ قصر و توسط بھی جائز ہیں۔
مد عارض وقفی میں طول توسط قصر تینوں جائز ہیں۔مگر طول اولیٰ ہے۔
مد لین عارض میں طول توسط قصر تینوں ہی جائز ہیں۔مگربرعکس مد عارض وقفی کے اس میں قصر اولیٰ ہے۔
جب بھی تلاوت شروع کی جائے تو مشاق قراء پر یہ لازم ہے کہ وہ مد کی مقدار شروع سےمتعین کریں۔اور پھر تمام تلاوت میں اسکا التزام کریں۔اور اس میں فرق نہ آنے دیں۔یعنی مگر ابتدا ء میں مد متصل کے طول کی مقدار تین الف رکھی ہے۔تو تمام تلاوت میں تین الف ہی سے پڑھے اور ایسے ہی مد منفصل کی طول کی مقدار تین الف ہے۔تو اسے بھی با خوبی نبہائے۔اور منفصل میں توسط یا قصر کیا ہو تو تمام جگہ اسی طرز و طریقہ کو جاری رکھے نہ کہ کسی جگہ زیادہ کسی جگہ کم کرے۔اس طرح سے اناڑی پن کا اظہار ہوگا۔اور تلاوت کی خوبی نمایاں نہ ہوگی۔بلکہ بھد اپن پیدا ہو جائے گا۔
اسی طرح جتنے بھی مد لازم ہیں۔ان کے طول کوبرابر لازم رکھے۔اور ان کے طول مد متصل کے طول کے مساوی رکھے۔تاکہ پڑھنے میں آسانی اور خوبصورتی رہے۔مد عارض وقفی اور مدلین لازم میں طول کا بھی اہتمام کرے۔اور مد عارض لین میں قصر کو خوب نمایاں کرے۔اس طرح وہ باریکیاں بھی واضح ہو جایئں گی۔جو غیر قاری نہیں جانتے۔اور اپنی لا علمی اور جہالت کا اعتراف کرنے کی بجائے۔خوامخواہ وہ اعتراض کی بوچھاڑ کرتے ہیں جس کا ایک نمونہ درج ذیل ہے۔
''فن تجوید نے قرآن کے الفاظ کی صحت میں بے حد مدددی ہے۔معلوم ہے کہ قرآن کو درست پڑھنا شرعا ضروری ہے۔اس لئے فن تجوید سے استغنا کی بھی کوئی صورت نہیں۔فن تجوید کا اصل مقصد الفاظ کے مخارج کی صحت اور صفات حروف اوران کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔لیکن مشکل یہ ہے گانا اور مخارج میں بلاوجہ تکلیف تجوید کا جز بن گیا ہے۔قاری کا تلفظ صحیح نہ ہو۔لیکن اس کے لئے اچھی یعنی باانداز ٖغنا او ر موسیقی ہو تو اسے زیادہ پسند کیا جاتاہے۔آجکل جس قدر غلطی غیر موجود قاری کرتا ہے۔اس قدر مجود قاری قرآن عزیز کو خراب کرتے ہیں۔عام قاری الفاظ کے مخارج اظہار۔اخفیٰ۔وقف اور ا بتداء میں غلطی کھاتے ہیں۔لیکن مجود قاری الفاظ کے زیر و بم اور اسے موسیقی کی تانوں میں لے جا کر قرآن کی بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں۔اس میں اعتدال کی ضرورت ہے۔قرآن مجید صحیح طور پر پڑھا جائے۔اس کے مخارج درست ہوں۔لیکن اسے قوالی اور راگ کا انداز نہیں بنانا چاہیے۔
وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
اقرء والقران بلا حرف العرب واصواتها واياكم ولحون اهل الكتب بين واهل الفسق فانه سيجئي بعدي قوم ير جعون القران تر جيع الغناء و الرهبانية والنوح لا يجا ور حنا جر هم و مفتونة قلوبهم وقلوب من يعجبهم شانهم اه طسن هب (جامع الصغیر مع فیض القدیر ص 25 ج2)
قرآن کو عرب کی آواز اور لہجے میں پڑھو۔اہل کتاب اور فساق کے لہجہ سے بچو۔عنقریب ایسے لوگ آیئں گے جو اسے موسیقی کی تانو ں میں پڑھیں گے۔نوحہ اور رہبانیت کا لہجہ پسند کریں گے۔قرآن ان کے حلق سے نہیں اُترے گا۔ ایسے قراء اور ان کو پسند کرنے والوں کے دل فتنوں کی نظر ہو چکے ہیں۔ (مقدمہ ترجمۃ القرآن از ترجمہ ثنائی مطبوعہ بمبئی صفحہ44)
الحمد للہ ۔اللہ کا کرم ہے کہ اب علمائے اہل حدیث نے بھی اس فن کی تعریف میں یہ چند الفاظ لکھ لیے ہیں۔مگر اس کی مثال ایسی ہے۔جیسے کسی شخص کو کہے تو بڑا نیک متقی پرہیز گارہے۔مگر ''ڈاکو '' ہے۔اب ایک لفظ ڈاکو اس کی تمام خوبیوں پرچھا گیا۔ اورسننے والے سب بدظن ہو گئے۔
''اقتباس آجکل جس قدر غلطی غیر مجود قاری کرتا ہے۔اسی قدر سے مجود قاری قرآن عزیز کو خراب کرتے ہیں۔
اول تو سمجھا جائے کہ جو قرآن عزیز کو پڑھنے میں خراب کرتے ہیں۔وہ قاری مجود بھی ہیں یا نہیں۔پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔
او ر وہ حضرات جو فنی باریکیوں سے ناواقف ہیں۔وہ اپنی کم علمی اور کم فہمی اور جہالت کی بناء پر ہر اس شخص کو قاری کہہ سکتے ہیں۔جو قرآن کو گائے مگر مجود قاری کو کبھی گاتے نہیں سن سکتے ہیں۔بلکہ قرآن مجید کو موسیقی کی تان میں باانداز غنا لے جانا اور لہجہ میں فرق کرنا بہت ہی ضروری ہے۔
لہجہ کی تعریف ہے انسان کی طبعی آواز جو ہر وقت نکل سکتی ہے۔اور مختلف انداز میں خصوصاً بعض لوگ جو نقالی کا مادہ رکھتے ہوں۔جب کہ موسیقی کے راگ اور غنا کے اوقات اور انداز مقرر ہیں۔اور یہ بھی باقاعدہ فنی حیثیت رکھتا ہے۔اور اس سیکھنے سکھانے میں بھی بہت سے آذادی پسند لوگ عمر عزیز کو ضائع کرتے ہیں۔او ر قاری کوئی بھی ہو بشرط وہ صحیح فن سے واقف ہو تو کبھی موسیقی اور لے کی پرواہ نہ کرے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک صاحب تحریر نے کسی مجود فنی قاری کا قرآن سنا ہی نہیں ہے۔اگر وہ سنتے تو ضرور بالضرور معترف ہوتے او ر اکثر اجلاس جو کہ لائل پور یا گوجرانوالہ وغیرہ میں ہوئے۔ ان میں میں نے بھی شرکت کی تو صرف انھیں قاریوں کو تلاوت کرتے سنا جو کہ تجوید کے ایک حرف سے بھی واقف نہیں۔ مگر گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں۔اور سامعین کرام میں علماء بھی ہیں۔کہ اس پر سر دھن رہے ہیں۔خصوصاً لائل پور کی ایک مسجد کے اامام صاحب در اصل وہ خوش آواز حافظ ہیں۔مگر یار لوگوں نے قاری کا دم چھلا لگاکر خوب مشہور کردیا ہے۔ اسی طرح ان جیسے غلط قرآن پڑھنے والے ہی مجود قاری کہلانے لگے۔حالانکہ خود نبی کریم ﷺ کی حدیث میں لہجہ سے قرآن پڑھنے کی تاکید ہے۔
زينواالقران با صواتكم (دارمی)
زنیت دو قرآن کو اپنی آوازوں سے۔
حسنو ا القران باصواتكم فان الصوت الحسى يزيد القران حسنا (دارمی ج 474)
ترجمہ۔قرآن مجید اپنی آوازوں سے حسین کرو۔ کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو بڑھاتی ہے۔
ان احادیث میں روزشنی میں قرآن کے اصل ماہر قراء نے لکھا ہے۔کہ تحسین صورت اور خوش آوازی ام زائدمستحسن ہے۔اگر قواعد تجوید کے خلاف نہ ہو۔ ورنہ مکروہ اگر لحن خفی لازم آئے۔اور لحن جلی لازم آئے۔تو حرام و ممنوع ہے۔ پڑھنا اور سننا دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ فوائد مکیہ ص5)
اب میں نہیں سمجھتا کہ بلا سوچے سمجھے اس قسم کے اقتباسات کیوں تحریر کیے جاتے ہیں۔جب کہ اس عظیم فن سے ان کی اپنی ذات شریف بھی واقف نہیں۔ع مگر ملا آں باشد کہ چپ نہ شود کی مثال کی صداقت کو واضح کرتاہے۔
صاحب تحریرقبل ازاں حضرت قاری عبد المالک ؒ کو جب حیات تھے۔سنتے یا اب ان کے تلامذہ ارشد بہت سے حیات ہیں ۔ان کو ہی سن لیتے تو کم از کم اس قسم کی گل افشانی سے اجتناب فرماتے۔
حضرت قاری عبدلمالک ؒ صاحب اس دور کے سب سے بڑے امام قراءت تسلیم کیے گئے ہیں۔اور تمام مغربی پاکستان اور متحدہ ہند میں آپ ہی کا فیض ہے یا آپ کے تلامذہ ہی کا فیض ہے۔آپ کی مکمل زندگی کے حالات کسی اور شمارے میں دیے جائیں گے۔
قبل اس کے کہ مدود کی وجوہات کے متعلق لکھوں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔کہ قرآن مجید میں وقف کی تین حالتیں ہیں۔
1۔وقف بالا سکان
2۔وقف بالروم
3۔وقف بالا شمام
1۔وقف بالا سکان ۔جس حرف پر وقف کرنا مقصود ہو اس کی حرکات کو بالکل ساکن کر دیا جائے جو ہمارے ہاں وقف کرنے کا طریقہ ہے۔
2۔وقف بالروم۔یہ وقف صرف ان ہی کلمات پر ہی کیاجا سکتاہے۔جن کے آخری حروف موقوفہ پر ضمہ یا کسرہ ہو فتح میں یہ وقف نہیں ہوتا ہے۔وہ اس طرح پر کہ کسرہ اور ضمہ دونوں کی چھوتھائی حرکت کو پڑھا جائے۔جسے صرف قریب کے اشخاص ہی سن سکیں۔قراء کے علاوہ دوسرے اشخاص یہ وقف نہیں کرسکتے ہیں۔
3۔وقف بالا شام۔یعنی کلمہ موقوف کے آخر کو ہونٹوں سے اشارہ کرنا یہ صرف ضمہ میں ہی ہوتا ہے۔کسرہ اورفتح نہیں ہو سکتا ہے۔چونکہ ضمہ آدھی واوہے۔اس لئے اسکی ادائیگی میں بھی ہونٹ گول ہو جاتے ہیں۔جس طرح واو کی ادائیگی میں ہوتے ہیں۔یہ بھی عوام کے لئے مشقت کے درجے میں ہے۔
جب حرف موقوف مفتوح ہو اور ما قبل حرف مد یا لین ہو مثلاً
تَعْلَمُونَ ۔ خَبِيرٌ وقف کی تین حالتیں ہوں گی۔طول مع الاسکان توسط مع الاسکان۔قصر مع الاسکان او تینوں وجہ جائز ہیں۔البتہ حروف مدہ پرطول مع الاسکان اورحروف لین پرقصر مع الاسکان اولیٰ ہے۔
اگر حرف موقوف مسکور ہے مثلاً الرَّحِيمِ تو عقلی وجہ چھ نکلتی ہیں۔طول مع الاسکان توسط مع الاسکان قصر مع الاسکان طول معالروم قصر مع الروم توسط مع الروم مگر ان میں طول مع الاسکان توسط مع الاسکان قصر مع الاسکان اور قصر مع الروم جائز نہیں۔باقی طول مع الروم او ر توسط مع الروم ناجائز ہیں۔کیونکہ مد کے اسباب میں حرف آخر کا ساکن ہونا شرط ہے مگر یہاں حرف آخر کی حرکت کا کچھ حصہ پڑھا جا رہا ہے۔اس لئے طول اورتوسط میں مدکا سوال ہی نہ ہوا۔تو جائز بھی ٖغلط۔ (جلد 12 ش 23۔24)
بقیہ وجوہات مد وقفی کو باب الاوقاف وال سکتہ میں بیان کروں گا۔(ان شاء اللہ تعالیٰ)
جب کسی اسم کو بار بار تحریر میں لانا مقصود ہو تو طوالت کے خوف سے اور باربار نام کے لکھنے سے عبارت کی دلچسپی اور کشش ختم ہو جاتی ہے۔اس اسم کی جگہ اسم ضمیر استعمال میں لاتے ہیں۔جوعربی میں ہائے ضمیر یا ہائے کنایہ کہلاتی ہے۔اور یہ ہائے ضمیر صرف صیغہ واحد غائب مزکر میں ہی استعمال کی جاتی ہے۔ضمیر کی ہا کہیں مکسور اور کہیں مضموم کہیں صلہ سے اور کہیں بغیر صلہ سے پڑھا جاتاہے۔قاعدہ یوں ہے۔جب ہا ضمیر سے ماقبل ی ساکنہ یا کسرہ ہو تو اس ہا کو مکسور پڑھتے ہیں۔مثلاً۔علیہ۔ربہ۔نوتہ۔وغیرہ مگر مندرجہ ذیل ''ہا''ضمیر مستثنیٰ ہیں۔عليه الله سورۃ فتح پ26 وَمَا أَنسَانِيهُ سورۃ کہف پ15 )ان میں باوجود یہ کہ ہاضمیر سے ما قبل ہی ساکن ہے مگر پھر بھی ہا ضمیر پڑھی جا رہی ہے۔جب ہا ضمیر سے ما قبل ''ی ساکن اور کسرہ''کے علاوہ کوئی حرکت یا سکون ہو تو ہا ضمیر مضموم پڑھی جائےگی۔مثلاً أَصَابَهُ۔غِطَآ ءَہ وغیرہ مگر مندرجہ ذیل ایک کلمہ اس قاعدے سے جدا ہے۔ وَيَتَّقْهِ
سورۃ نور پ18 قاعدہ کی رو سے ھا مضموم نہ ہوئی۔چونکہ ق در اصل مکسور ہے۔ اس کی اصلیت کی وجہ سے ہ کو مسکور پڑھا ہے۔سورۃ اعراف پ9 أَرْجِهْ سورۃ نمل پ19 فَأَلْقِهْ کو امام حفص نے ہ کوساکن پڑھا ہے۔جب ہاضمیر سےماقبل اور ما بعد حرف متحرک ہو تو ہا ضمیر اشباع سے پڑھی جائےگی۔جہاں مکسو ر ہو اسے ی کی مقدار کے برابر کھینچیں گے۔یعنی کسرہ کوکھڑی زیر اورضمہ کو اُلٹی پیش بنا کر پڑھیں گے۔مثلاً۔ مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا۔۔ مِنْ عَدُوِّهِ۔۔۔ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ۔۔۔ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ۔مگر اس قاعدے سے مندرجہ زیل کلمات مستثنٰی ہیں۔ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ۔پ23 زمر۔ ْ فِيهِ مُهَانًا پ19 سورۃ فرقان میں اشباع کیا ہے۔جب کہ عدم صلہ ہے۔ يَرْضَهُ لَكُمْ۔ کی اصل یرضاہ ہے۔یہاں الف کو حذف کر کے ض کو صرف مضموم پڑھا۔اور اس الف کے سکون کو اصل قراردے کر اس''ہ''کو بغیر صلہ کے پڑھا ہے۔
فِيهِ مُهَانًا میں دوسرے قراء مثل امام عبد اللہ ابن کثیر ؒ کے امام حفص ؒ نے بھی صلہ کیا ہے۔جو جمعاً بین اللغتین ہے۔ عليه الله۔ وَمَا أَنسَانِيهُ جو کہ ابتداء میں تحریر کرچکا ہوں۔ عليه الله میں ھا کی اصل کیا خیال رکھا گیا ہے۔چونکہ ضمیر واحد مزکر غائب جو کہ ھو اور تخفیف کے بعد یعنی واو کو حذف کے بعد ھ رہ گیا۔تو اسی کا لہاظ ہے۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس''ہ'' کے بعد لفظ اللہ آرہا ہے۔جس کا لام اسم الجلالۃ تفخیم کو چاہتا ہے۔تو کوشش یہی ہونی چاہیے۔جہاں بھی قاعدہ کی رو سے لام میں تفخیم کی صورت نکلے اسے ہی اختیار کرے۔تاکہ لفظ اللہ کی جلالت قائم رہے۔بسبب تفخیم باقی جنہوں نے لکھاہے۔علیہ کا اصل علٰیہُ ہے یہ غلط ہے۔کیونکہ علیٰ کا اسم اس بات کی دلالت کر رہا ہے۔ کہ اصل میں علیٰ میں آخری الف نہیں۔بلکہ''ی'' ہے۔اور اس ی کو الف سے بدلا گیا ہے۔اس لئے علیٰ خود اصلی ہے نہ کہ علَیٰ۔
البتہ عليه الله کی قراءت صرف امام حفص نے جائز رکھی ہے۔ورنہ باقی سب قراء عظام نے اسے عَلَیہِ اللہ پڑھا ہے۔بکسر الہا چونکہ عوا م اپنی کم علمی کی وجہ سے صحیح بات کوجانتے نہیں ہیں۔بس جس طرح ایک رو چل پڑی اسی طرف بہہ نکلے۔
سورۃ اعراف پ9 أَرْجِهْ سورۃ نمل پ19 فَأَلْقِهْ میں جمع لغتین ہے۔امام حفص نے معتمل کو اختیار کیا ہے۔اور جب کہ مہموز کے تارک ہیں۔جب کہ امام عبد اللہ بن کثیر اور ہشام بن عمار بن نصیر شامی نے مہموز کی لغت اختیار کی ہے یعنی أَرْجِهْ وغیرہ صیغہ امر کا ہے۔جس کی وجہ سے یائے ساکن مخذوف ہو گئی ہے۔اور ی کی جگہ پر ''ہ'' کردیا۔تو یہی صورت فَأَلْقِهْ میں ہو گئی ہے۔البتہ ابو عمرو بصری ؒ أَرْجِهْ اور ابن زکوان ؒ أَرْجِهْ وغیرہ نےپڑھا ہے۔
ہا ضمیر پر وقف بالاسکان میں سب کا اتفاق ہے البتہ وقف بالروم وا شمام میں اکثر مختلف الرائے ہیں۔بعض نے تو ہر حال میں وقف بالروم واشمام کو جائز رکھا ہے۔مگربعض نے سرے سے ہی ناجائز قرار دے دیا ہے۔اس طرح درمیانی راہ کو ہی اختیا ر کرناہے۔زیادہ صحیح ہوگا۔فرمان نبویﷺ
خير الامور اوسطها
کے تحت درمیانی راہ کا اختیار کیا ہے۔جب ہا ضمیر سے ما قبل واو اور ہی یا مدہ او ر اسی طرح کسرہ اور ضمہ نہ ہو۔تو اس جگہ پر وقف بالروم اور وقف بالا شمام ہوگا۔ جیسےوَاجتَبَاہ ہذہُ باقی جگہوں میں روم اور اشمام جائز نہ ہوگا۔تمام قرآن مجید میں تین قسم کے ھاَ ہیں۔
1۔ہائے ضمیر
2۔ہائے وقفی
3۔ہائے مطلق
1۔ہائے ضمیر کا بیان ہوچکا ہے۔
2۔ہائے وقفی۔وہ''ہا'' ہے جو لکھنے میں تو تائے مد ورہ یا مربوطہ کی شکل میں ہوتی ہے۔اور وقف کی صورت میں بدل جاتی ہے۔یہ بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے۔کہ یہ دراصل کیا ہے۔''ت''ہے یا''ہا''۔اس ہا کی تعداد قرآن مجید میں بہت کثرت سے مل سکتی ہے۔رَحْمَةٌ(النمل) جَامِدَةً(النمل) الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وغیرہ۔
3۔ہائےمطلق۔ایسی ہا جو وقف و وصل دونوں صورتوں میں ساکن رہے۔ایسی ہاکی کل تعداد تمام قرآن مجید میں 9 ہے۔
1۔ لَمْ يَتَسَنَّهْ (البقرۃ پ3)
2۔ هُمُ اقْتَدِهْ (الانعام پ7)
3۔ مَالِيَهْ
4۔ كِتَابِيَهْ دو بار
5۔ كِتَابِيَهْ
6۔ سُلْطَانِيَهْ
البتہ سات جگہ قرآن مجید میں ایسی نہیں کہ عربی سے ناواقف دھوکا کھا جاتے ہیں۔اور ان ہا کو بھی ضمیر کی سمجھتے حالانکہ وہ نفس کلمہ کی ہا ہوتی ہیں۔
1۔ مَا نَفْقَهُ۔ (سورۃ ھود پ12 ع8)
2۔ لَئِن لَّمْ يَنتَهِ
(سورۃ شعراء پ19 ع 6 ع1) (سورۃ مریم ع3 اور سورۃ علق پ30)
3۔ لَئِن لَّمْ يَنتَهِ (سورۃ شعراء پ19 ع 6 ع1) (سورۃ مریم ع3 اور سورۃ علق پ30)
4۔ فَوَاكِهُ (سورۃ مومنوں پ18 ع1 سورۃصفت ع2 پ23)
مَا نَفْقَهُ اور فواکہُ میں لام کلمہ کی ہا ہے۔اور يَنتَهِ میں عین کلمہ کی ھا میں اس ان پر صلہ نہ ہوگا۔یہ تمام ہا وقف کی صورت میں ساکن پر جائے گی۔اوران پر وقف بالاسکان روم اشمام تینوں جائز نہیں۔
بعض لوگ ھا مطلق کو وقف کی حالت میں الف سے بدلتے ہیں۔یہ بالکل غلط ہے۔کہیں اس کا ثبوت نہیں ہے۔البتہ مالیہ کی ھا میں ادغام بحالت وصل ہوگا۔مگر سکتہ کرنا افضل اور اولیٰ ہے۔
ادغام کے لغوی معنی ہیں ادخال الشی بالشی کسی بھی چیز کو کسی بھی چیز میں داخل کرنا۔روایت امام حفص ؒ کی رو سے کسی حرف ساکن کو اس کے ما بعد حرف متحرک میں اس طرح داخل کرنا کہ دوسرے حرف پر ایک تشدید پیدا ہو جائے۔البتہ دوسری بعض روایات یا قراءت مثل امام قاری ابو عمر و بصری ؒ جو کہ اس فن تجوید و قراءت کے تیسرے بڑے امام ہیں۔بطریق شاطبیہ وہ حرف متحرک متحرک ہیں۔بہت سی جگہوں پرادغام صغیر کہلاتی ہے۔یہ دوسری قسم (ابو عمر وبصری) والی۔ادغام کبیر کہلاتی ہے۔یہاں صرف روایت حفص کے متعلق ادغام کا زکر کروں گا۔
1۔ادغام مثلین
2۔ادغام متجانسین
3۔ادغام متقاربین
ادغام مثلین۔جب پہلا حرف مدغم اوردوسرا حرف مدغم فیہ ایک ہی جیسے ہوں۔تو ایک کودوسرے میں ادغام کر دیتے ہیں۔ اِنِِ ضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ إِذ ذَّهَبَ وغیرہ۔پہلا مدغم ب ساکن اور ذال ساکن کے بعد بھی ب اور ذال ہی آرہے ہیں۔ تواسے ادغام صغیر مثلین کہین گے۔
ادغام متجانسین ۔جب مدغم اور مدغم فیہ ہم مخرج ہوں اور صفات می مختلف ہوں تو اسے متجانسین کہتے ہیں۔مثلاً ت ۔کا ط میں وتا ت میں وغیرہ۔
وَقَالَت طَّائِفَةٌ۔۔۔ اُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَاوغیرہ۔
ادغام متقاربین۔جب مدغم او مدغم فیہ میں نہ ادغام مثلین کی صورت بنتی ہو۔اور نہ ہی متجانسین کی تو ادغام متقاربین ہوگا۔بعض حضرات نے جو تعریف لکھی ہے۔کہ جب قریب مخرج یا قریب صفات ہو تو قرب کا ادغام ہوتاہے۔تو یہ بات غلط ہے۔کیونکہ جب لام تعریف کا بعض حروف میں ادغام کرتے ہیں۔تو یہ شرط اور تعریف ٹوٹ جاتی ہے۔
مثال ادغام متقاربین أَلَمْ نَخْلُقكُّم ق کا ک میں ادغام ۔ الشَّمْسَ
جو کہ حقیقت میں الشمس ہے۔تو ل کا شین میں ادغام ہوا ہے۔
ادغام متقاربین اور متجانسین کی دو اقسام ہیں۔1۔تام۔2۔ناقص
ادغام تام۔مدغم کو مدغم فیہ میں اس طرح داخل کرنا کہ تشدید پیدا ہونے کے بعد مدغم کی زرا سی بھی آواز نہ آئے۔صرف مدغم ہی پڑھا جائے۔جیسے إِذ ظَّلَمُوا یہاں ذال بالکل ظا میں داخل ہوگیاہے۔اور پڑھنے میں صرف ظا کی آواز آئے گی۔ذال کی بو باقی نہ رہے گی۔
ادغام ناقص۔مدغم کو مدغم فیہ میں اس طرح داخل کرنا کہ مدغم کی کچھ آواز اور بو باقی رہے جیسے بَسَطتَ وغیرہ لیکن جب مدغم حرف مدہ ہواور مدغم فیہ بھی اس کا مثل ہو تو ادغام نہ ہوگا جیسے يُرْضُوهُ لِّيَقُولُوا
اس مین ادغام نہ کرنے کی وجہ یہ ے کہ حرف مدہ کی صفت لازمی مدیت نہ فوت ہو جائے اسی مسئلہ پر بھی تمام قراء کرام سبعہ عشرہ کا اتفاق ہے۔اسی طرح حروف حلقی میں غیر حروف حلقی یا اپنے مجانس مقارب میں ادغام نہ ہوگا۔ہاں البتہ مثل کا ادغام ہوگا۔مثلاً تسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ۔۔۔ يُوَجِّههُّ وغیرہ۔ مگر امام القراء ابو عمر و بصری ؒ نے حرف حلقی کا مماثل اور مجانس کا ادغام کیا ہے جیسے فَاصْفَحْ عَنْهُمْ۔۔۔ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ لیکن باقی قراء نے اس سے اجتناب کیا ہے۔کیونکہ ادغام کا مقصد ہی یہی ہے۔کہ حروف کے پڑھنے میں خفت پیدا کی جائے اگر حرف حلقی کا غیر حلقی میں ادغام کریں تو اول حروف حلقی کا مخرج بہت دور ہے۔دوسرے ان حروف میں خفت کرنے کی بجائے ثقالت بڑھ جاتی ہے۔اہل عرب نے بھی ان حروف میں ادغام نہیں کیا ہے۔ان کی عام بول چال میں اس سے پرہیز کیا جاتا ہے۔بعض کلمات قرآن میں ادغام صغیر کے لئے خلف ہے ان کا بیان۔
1۔ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ۔ (سورۃ اعراف پ9 ع22)
2۔۔ ارْكَب مَّعَنَا (سورۃ ھود پ12 ع4)
ان دونوں کلموں میں جنس اور قرب کا ادغام ہے چونکہ آجکل ہمارے ہاں کثرت سےف الفاظ میں یہ طریقہ پڑھنے پڑھانے کا رائج ہے۔
1۔میں بلا ادغام اور 2۔ کو بالا دغام
چونکہ ان کلمات کو بالا دغام او بلا ادغام دونوں طرح متواتر عند القراء مشہور اور ثابت ہیں۔کثرت رائے نے انھیں متروک بنا دیا ہے۔اس لئے لازم ہے۔طلبہ کو دونوں طریقوں سے روشناس کرایا جائے۔
َاحَطتُ۔۔۔ فَرَّطتُ اور أَلَمْ نَخْلُقكُّم میں ادغام تام کو اولیٰ لکھا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے کہ ت کا ط میں ادغام ناقص ہے۔اور ق کا کاف میں ادغام تام اولیٰ ہے۔
ق اور ک کا مخرج اقصیٰ لسان ہے جسے حرکت دینی بہت عسر ہے جب کہ ط اور ت کے مخرج میں نوک زبان کودخل ہے جسے حرکت دینی بہت آسان ہے۔اس لئے یہاں ''ط'' کے بعد''ت'' کا نکالنا بہت آسان ہے۔ جب کہ ''ق'' کے بعد ''ک'' کا نکالنا بہت مشکل ہے۔اگر زبردستی ادغام ناقص کو ہی کوشش کی جائے۔تو''ق''اپنی قوت سے ''ک'' کو ختم کر دے گا۔
(قاری عبد الرشید۔قاری عبید الرحمٰن فاروقی بی اے)
(الارشاد جدید کراچی۔جلد نمبر 12 ش 23۔24)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب