السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحریک وہابیت
مصنف
مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسریؒ(مولوی فاضل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آج ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ کل اسلامی دنیا میں وہابی تحریک پر گفتگو ہو رہی ہے۔ہر فریق اپنے خیال کی تایئد اور مخالف کی تردید کر رہا ہے۔جس سےخلیج مخالف وسیع بلکہ وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔جو اسلامی اغراض کےلئے مہلک اور غیر اسلامی تحریک کے لئے مفید ہے۔اس لئے میں آج اس تحریک کے متعلق ایسی طرز سے چند سطور پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔جس سے ان شاء اللہ مخالفت بند نہ ہوگی تو کم ضرور ہو جائے گی۔
واقعات کو ٹھنڈے دل سے دیکھنے اور اُن پرغور کرنے سے بسا اوقات مخالفت پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو دیر پا نہیں ہوتی ہے۔آج جو اختلاف رونما ہو رہا ہے۔یہ سب کچھ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی شخصیت اور اُن کی تحریک پر مبنی ہے۔شیخ موصوف کی شخصیت میں جو اختلاف ہے وہی اس اختلاف کی بناء ہے۔ا س لئے ہم اس اختلاف کا زکر کرتے ہیں۔پھر اُس میں فیصلے کی صورت بتاکراصل مسئلہ کی مشکلات کا حل بتادیں گے۔
شیخ موصوف کے حق میں جو اختلاف ہے ۔وہ درج زیل ہے۔
علماء اہلسنت کے دو گروہ سامنے ہیں۔ایک علماء حدیث دوم علماء فقہ یعنی حنفیہ کرام گروہ حنفیہ دو بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ایک وہ گروہ جن کواصطلاحاً دیو بندی کہا جاتا ہے۔دوسرے کو بریلوی ان میں جو اختلاف مسائل ہے۔ اُس کے زکر کی یہاں جگہ نہیں۔ہاں ظاہری علامت ممیزہ ان میں یہ ہے کہ دیوبندی گروہ علم فقہ اور اُص کے لوازم کے علاوہ علم حدیث و تفسیر میں تو غل رکھتا ہے۔اسی لئے انھوں نے حنفی مذہب کو جو رسوم ملکی سے آلودہ ہو رہا تھا۔رسوم بدعیہ شرکیہ سے نتھار کر حنفی مذہب کی شکل میں دکھانے کی کوشش کی ۔یعنی دیوبندی چونکہ حنفی مقلد ہیں۔اس لئے وہ مذہب حنفی وہی پیش کرتے ہیں۔جو مذہب فقہ حنفیہ میں ملتا ہے۔نہ وہ جس میں رسوم ملکی اور آبائی داخل کی گئی ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے حق میں علماء حدیث تو بالاتفاق حسن ظن رکھتے ہیں۔اور اُن کو موحد متبع سنت جانتے ہیں۔حنفیہ کرام میں سے دبو بندی بھی شیخ ممدوح کے مداح ہیں۔چنانچہ اس گروہ کے سرکردہ حضرت سید الطائفہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ فرماتے ہیں۔محمد بن عبد الوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ان کے عقائد عمدہ تھے۔اور مذہب ان کا حنبلی تھا۔البتہ اُن کے مزاج میں شدت تھی۔مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں۔
(فتاویٰ رشیدیہ حصہ اول ص8)
اس کے مقابلے میں بریلوی گروہ البتہ بدگما ن ہی نہیں بلکہ سخت سے سخت ترین شیخ موصوف کے حق میں بد گو ہیں۔
کہ علمائے سنت میں سے ڈیڑھ گروہ شیخ مذکور کے حق میں حسن ظن ہے۔اور نصف گروہ بدظن بلکہ بد گو جس کو دوسرے لفظوں میں یہ سمجھنا چاہیے۔کہ امت مسلمہ میں سے علمائے سنت میں سے اکثر علماء شیخ موصوف کو ممدوح جانتے ہیں۔اور نصف گروہ ان کو مذموم کہتے ہیں۔باقی ناظرین کی رائے پر ہم چھوڑتے ہیں۔
اس اندرونی شہادت کے بعد ہم ایک غیر جانبدارر شہادتگ پیش کرتے ہیں جس کوکسی قسم کا کسی فریق سے خاص تعلق نہیں اور وہ دونوں گروہوں سے بالکل جانب دادر ہے اس لئے اس کی شہادت خاص وزن رکھتی ہے۔
امریکہ میں ایک بڑے ماہر سیاسیات اور مورخ آج بھی زندہ ہیں۔انھوں نے اسلام کی تاریخ کو بڑی محنت سے مطالعہ کیا اور اسلام کی ترقی اور تنزلی کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام(LAM) ہے۔یعنی جدید دنیا اسلام اس کتاب کا ترجمہ محمد جمیل الدین صاحب۔ڈپٹی کلکٹر بدعنوانی کے کیا ہے۔1فاضل مصنف نے اس کتاب میں بہت سے مفید معلومات جمع کیے ہیں۔چونکہ اس کتاب کا نام ہی بتا رہاہے۔کہ جدید اسلامی تحریک پرلکھی گئی ہے۔جواسلامی دنیا میں کام کر رہی ہے کہیں مراکش میں تو کہیں ترکی میں کہیں مصر
1۔مصریوں نے عربی کر کے چھاپ دیا ہے۔جو ہندوستان میں آچکا ہے۔
میں اور کہیں افغانستان اور ہندوستان وغیرہ اس لئے مصنف کا فرض تھا۔کہ وہ اس جدید اسلامی تحریک کی ابتداء بتاتا کہ کس سے شخص سے اور کہاں سے شروع ہوئی۔چنانچہ اس بارے میں فاضل مصنف کے الفاظ یہ ہیں۔
''اٹھارویں صدی تک اسلامی دنیا اپنے ضعف کی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔صحیح قوت کے کہیں بھی آثار نہیں پائے جاتے تھے۔ہر جگہ جمود و تنزل نمایاں تھے۔آداب و اخلاق قابل نفرت تھے۔عربی تہذیب کے آخری آثار مفقود ہو کر ایک قلیل تعدار وحشیانہ عشرت میں اور عوام وحشیانہ زلت میں زندگی بسر کرتے تھے۔تعلیم مردہ ہوگئی۔اور چند درسگاہیں۔جو ہولناک ذوال میں باقی تھیں۔وہ افلاس و غفلت کی وجہ سے دم توڑ رہی تھیں ۔سلطنتیں مطلق العنان تھیں اور ان میں بد نظمی و خون ریزی کا دور تھا۔جگہ جگہ کوئی بڑا خود مختار جیسے سلطان ترقی یا ہند کے شاہان مغلیہ کچھ شاہی شان قائم کیے ہوئے تھے۔اگرچہ صوبہ جات کے امراءاپنے آقائوں کی طرح آذاد سلطنتیں جو ظلم استحصال پر مبنی تھیں۔قائم کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں تھے۔اسی طرح امراء متواتر سرکش مقامی رئیسوں اور قطاع الطریق کی جماعتوں کے خلاف جو ملک کو آزار پہنچاتے تھے۔برسر پیکار تھے۔اس منحوس طرز حکومت میں رعایا لوٹ مار وہ ظلم و پامالی سے نالاں تھی۔دیہاتی اور شہریوں میں محنت کے محرکات مفقود ہو گئے تھے۔لہذا تجارت و زراعت دونوں اس قدر کم ہو گئیں تھیں۔ کہ محض سد رمق کے حصول ک لئے کی جاتی تھیں ۔مذہب بھی دیگر امو ر کی طرح پستی میں تھا۔تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی توحید کو ڈھک لیا تھا۔مسجدیں ویران و سنسان پڑی تھیں۔عوام جہال ان سے بھاگتے تھے۔اور تعویذ گنڈے اور مالا میں پھنس کر گندے فقراء اور دیوانے درویشوں سے اعتقاد رکھتے تھے۔ اور بزرگوں ک مزاروں پر زیارت کو جاتے تھے۔اور ان کی بار گاہ ایذدی کے شفیع اور ولی کے طور پر کی جاتی تھی۔کیونکہ ان جہال کا خیال تھا۔کہ خدا ایسا برتر ہے کہ وہ اس کی اطاعات بلا واسطہ نہیں ادا کر سکتے ہیں۔قرآن مجید کی اخلاقی تعلیم کو نہ صرف پس پشت ڈال رکھاتھا۔بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی۔افیون و شراب خوری عام ہو رہی تھی زنا کاری کا زور تھا۔اور زلیل ترین اعمال قبیحہ کھلم کھلا بے حیائی کے ساتھ کئے جاتے تھے۔یہاں تک کے مقامات مقدسہ یعنی مکہ اور مدینہ افعال قبیحہ کے قعر مذلت بن گئے تھے۔اور حج جس کو رسول اللہ ﷺ نے فرائض میں تعلیم کیا تھا۔بدعات کی وجہ سے حقیر ہو گیا تھا۔اسلام کی جان نکل چکی تھی۔اور محض بے روح رسمیات اورمتبزل توہمات کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔اگر محمد رسول اللہ ﷺ پھر دنیا میں آتے تو وہ اپنے پیرو ان کے ارتداد اور بت پرستی پربیزاری کا اظہار فرماتے اس جہالت ک زمانہ میں وسیع عربی ریگستان یعنی محد اسلام سے مومنین کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والی صدا پیدا ہوئی اس مخلص مصلح یعنی محمد عبد الوہاب نے ایسا نور ہدایت روشن کیا جو اسلامی دنیا کے ہر گوشہ میں پھیل گیا۔اور اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کر کے قرون اولیٰ کے جوش کو تازہ کر دیا۔مسلمانوں کی اہم نشاۃ(نئی پیدائش)کا یہیں سے آغاز ہو گیا۔ اس دیرینہ تر اور برتر عہد کی فضاء میں عبد الوہاب کی صدا پیدا ہوئی ابتداء ہی سے ان کو مطالعہ کتب اور مذہب کا شوق تھا۔اور بہت جلد ان کے علم اور تقدس کی شہرت ہو گئی۔عنفوان شباب میں ہی وہ حج بیت اللہ گئے۔انہوں نے مدینہ میں ہی تحصیل علم کرنے کے بعد ایران تک کا سفر کیا۔اور بالاخر نجد واپس آئے۔واپسی پر مشاہدات کے لہاظ سے ان کے دل میں غیظ و غضب پیدا ہوا اور انھوں نے بے لوث اصلاح کی تبلیغ کا ارادہ کر لیا۔سالہا سال تک وہ اطراف عرب میں گھومتے رہے۔اور بالآخر انہوں نے قبیلہ سعود کے شیخ محمد کو جو نجد میں سب سے بڑے سردار تھے۔اپنا ہم خیال بنا لیا اسی سے عبد الوہاب کو اخلاقی اقتدار اور مالی تقویت حاصل ہوگئی۔اور انہوں نے اس زرین موقع سے پورافائدہ اٹھایا بتدریج صحرائی عربوں میں رسول خدا ﷺ کے زمانہ کی طرح سیاسی اور مذہبی اتحاد قائم ہوگیا۔در حقیقت عبد الوہاب پہلے خلفاء حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سچے پیرو تھے۔1787ء میں جب وہ فوت ہوئے تو سعود ان کے قابل جانشین ہوئے۔جدید وہابی سلطنت قریب قریب مکہ کی خلافت کانمونہ تھی اگرچہ سعود کی فوجی طاقت زیادہ تھی۔لیکن انھوں نے اپن آپ کو رائے عامہ کا پابند سمجھا اور اپنی رعایا کی جائز آذادی میں کبھی مداخلت نہ کی طرز حکومت اگرچہ سخت لیکن عادلانہ اور اچھا تھا۔وہابی قضاۃ لائق اور ایماندار تھے۔ امن عامہ ایسے کامل طور سے قائم کیاگیا تھا۔ کہ رہزنی کا سد باب ہو گیاتھا۔تعلیم سرگرمی سے پھیلائی جاتی تھی۔ہر نخلستان میں مدرسے تھے۔اور بدوی قبائل میں معلم بھیجے جاتے تھے۔تحریکات اخوان دس سال ہوئے وسط عربستان یعنی نجد میں مجہول طریقے سے شروع ہوئی۔یہ براہ راست وہابیت کی شاخ ہے۔جس سے یہ کسی اصول میں مختلف نہیں۔تحریک اخوان کی ترقی ایسی سرعت سے ہوئی کہ آج کل وہ نجد پر حاوی ہے اور اس کا سرگروہ صحرائے عرب کا سب سے زبردست شیخ بن سعود ہے۔جو اس سعود کی اولاد میں سے ہے۔جو سو سال ہوئے وہابی تحریک کا سر گروہ تھا۔ اخوان کا مذہبی جوش غیر معمول بتایا جاتا ہے۔اور اس کا مکمل نظام عمل وہی قدیم وہابی خواب یعنی کل دنیا کے مسلمانوں کو خالص مذہب اسلام میں لانا ہے۔
یہ غیر جانبدار شہادت کس قابل ہے۔اس کا اندازہ اس مصنف کی شخصیت سے ہوسکتا ہے۔نہ یہ شعیہ ہے نہ سنی نہ حنفی ہے نہ وہابی بلکہ ایک دور دراز ملک کا ماہر سیاست اور مورخ ہے۔جس نے اپنی عمر کا بہت سا حصہ اسلامی تاریخ پر صرف کیا ہے۔
گزشتہ ایام میں انگریزی گورنمنٹ کی طرف سے بغرض تحقیق اساب بٖغاوت ایک کمیشن مقرر ہوئی تھی۔جس کا نام تھا رولٹ کمیٹی اس کمیٹی کی رپورٹ کتاب کی شکل میں شائع ہوئی تھی۔جس کا نام ہے۔''رولٹ کمیٹی کی تحقیقات ''اس رپورٹ میں شیخ محمد عبدالوہاب اور وہابیوں کی بابت بھی چند الفاظ لکھے ہیں ۔جو یہ ہیں۔
''وہابی سنی مسلمانوں کا ایک ترقی یافتہ فرقہ ہے۔یہ لوگ عبد الوباب کے قائم شدہ اصول کے پیرو ہیں۔عبد الوہاب اٹھارویں صدی میں ایک عرب مصلح تھا۔ (اُردو صفحہ 248)
مسٹر بلٹ انگریز سیاست دان ہے۔جو بعض سیاسی اغراض کےلئے سن1888عیسوی میں نجد گیا۔وہاں کے چشم دید حالات موصوف لکھتا ہے۔
''میں نے دنیا کے اکثر شہروں کی سیر کی ہے۔مگر جو چیز باوجود تلاش و جستجوئے بسیار کے مجھے مشرق و مٖغرب کے ان تمام بلاد میں حاص نہ ہوئی وہ نجد کے گلی کوچوں میں خود بہ خود مل گئی۔اس کے تین بڑے عنوان ہیں۔جن کا زکر ہم یورپ کےرہنے والے نہایت فخرو مباہات سے کیا کرتے ہیں۔مگر وہ محض الفاظ ہی ہوتے ہیں۔جو کبھی شرمندہ معنی نہیں ہوتے۔ لیکن بلاد نجد میں میں نے ان کو حقائق ثابت پایا۔
''فرانس کے تمام درو دیوار پر جلی حروف میں تم ان الفاظ کو لکھا پائو گے مگر یہاں نجد میں عملاً ہر شخص ان سے بہرہ اندوز سعادت ہوتاہے۔یہی وہ سرزمین ہے جہاں نہ محصول اور لگان نے لوگوں کو تباہ برباد کر رکھا ہے۔ نہ جبری فوجی خدمت ہے۔،لوگ ہر قسم کے جبر و کراہ سے پورے طور پر آذاد ہیں۔رائے عامہ اس جگہ قانون ہے۔ اس جگہ اگر کوئی دستور العمل ہے۔تو صرف یہ کہ ہر شخص ذمہ دار اور مسئول ہے۔اس لئے وہ اپنی عزت و خود داری کو اپنے پر قول و فعل میں پیش نظر رکھتا ہے۔
''یورپ میں تخیل پسند ارباب سیاست نے اس قسم کی حکومت کا نقشہ دینی کتابوں میں کھینچا ہے۔مگر نجد کے صحرا میں ہم نے اس کو حقیق کا لباس پہنے ہوئے دیکھا۔یہاں کے رہنے والے مفلس ہیں۔مگر قناعت پسند جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ یہ جواب دیتے ۔اللہ کا شکر ہے۔کہ ہم دوسروں کی طرح حرص اور جوع اور منی میں مبتلا نہیں۔ہمارے اطمینان کےلئے کافی ہے۔کے اس جگہ ہماری اپنی حکومت ہے۔ (صفحہ 58۔59 سپکرٹ ہسٹری آف دی انگلش او کو پیشن اوف ایجپٹ)
ان زبردست غیر مسلم ٖغیر جانبدار شہادتوں کے بعد کسی شہادت کی ضرورت نہ تھی۔تاہم مذہبی طبقے کے لئے جیسی ایک شہادت مولانا گنگوہی مرحوم کی پہلے درج ہو چکی ہے۔دوسری شہادت خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی جاتی ہے۔آپ نے ٹریکٹ شائع کای جس کانام ہے نادان وہابی اُس میں وہابیوں کے متعلق بہت سی باتیں مخالف بھی لکھی ہیں۔قطع نظر بیرونی ثبوت کے خود اندرونی ثبوت ہے۔کہ آپ وہابی نہیں۔چنانچہ آپ نے اپنی وہابیوں کے متعلق بہت لفظوں میں یوں کر دی ہے ۔
''مجھے صفائی سے لکھ دینا چاہیے کہ میں وہابی تحریک اور نجدی عقائد کا پورا مخالف ہوں۔میں وہابی نہیں ہوں۔نہ وہابیوں کی مذکورہ شاخوں سے کسی قسم کا تعلق رکھتا ہوں۔بلکہ میں اپنے بزرگوں کے تمام عقائد اور اصول مسلمات کو دل و جان سے مانتا ہوں۔اور میں قبور اور مزارات کا پختہ بننا ضروری سمجتا ہوں۔ (صفحہ 918)
ایسا مذہبی اسلامی طبقے کا ذمہ دار اور مخالف گواہ بھی تحریک وہابیت کی نسبت یوں گویاہے۔
''نجدیوں کے عقائد ہندوستانیوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔کیونکہ یہاں بھی بہت سے وہابی موجود ہیں۔اور دن بدن بڑھتے جاتے ہیں۔اگر تعصب نہ کیا جائے اور محققانہ نظر سے دیکھا جائے تو وہابی تحریک اصول کے لہاظ سے کوئی بُری تحریک نہیں ہے۔بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے اندر ایک نئی زندگی اور نیا جوش پیدا کرنے والی چیز ہے۔کیونکہ وہابی ان تمام باتوں سے احتیاط کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں میں تمادی ایام کے سبب بعض اقوام کے ذاتی رسم و ر واج اور بعض ملکوں کے خاص حالات کی آمیزش سے پیدا ہو گئے ہیں۔وہ اپنے ہر دینی اور دنیاوی کام میں قرآن و حدیث اور سند لینا چاہتے ہیں۔او ر وہ نماز روزے اور تمام فرائض اسلام کی اس طرح پابندی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جس طرح رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین پابندی کرتے تھے۔وہابیوں کے اندر غیر مسلم اقوام کے خلاف ایک انقلابی لہر پائی جاتی ہے۔یہاں تک کے آج کل کے زمانے میں اکثر یورپین مورخوں نے لکھا ہے کہ تجدید اسلام کی جس قدر تحریکیں دنیا میں نمو دار ہوتی ہیں۔ان سب کی جڑ بنیاد وہابیت ہوتی ہے۔اور میں نے جب ان یورپین لوگوں کی کتابوں کے ترجمے پڑھے اور دلائل اور وجوہات اور قرآن پر ٖغور کیا تو مجھ کو بھی یورپین مورخوں کے اس دعوے میں صداق نظر آئی۔ (رسالہ نادان وہابی ص3)
ان اسلامی اور غیر اسلامی پانچ شہادتوں سے جو امر ثابت ہوتا ہے۔وہ آپ پر مخفی نہیں۔ہماری خیال میں ان شہادتوں کی بنا پر وہابی کہہ سکتے ہیں۔
لے اُڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے
گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے
ان شہادات کے بعد شیخ محمد عبد الوہاب نجدی اور تحریک وہابیت کے متعلق فیصلہ ناظرین کی رائے پر ہم چھوڑتے ہیں۔
چند روز کا زکر ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں (سابق شریف) حسین اور اُس کے بیٹوں کی حکومت تھی۔جس سے نا صرف حجاز اور عرب ہی نالاں تھے۔بلکہ دنیائے اسلام ساری اُن سے بیزار تھی۔مذہبی حیثیت سے قطع نظر انتظامی اور عدلی حیثیت سے بھی سب روتے تھے۔آخر اسلامی دنیا کی آہ بکا کام آئی اور مالک الملک نے نجدیوں کو حرم شریف کی جاروب کشی سپرد کی۔یہ نجدی کون ہیں۔؟اُسی شیخ محمد عبد الوہاب کے اتباع چنانچہ قادیاں کا اخبار الفضل باوجود مخالف ہونے کے ایک نظم میں یوں اعتراف کرتا ہے۔
بدعتوں کا زور تھا مکہ میں آخر نجد سے
یاد گار دو دہ عبد الوہاب آہی گیا۔
(25 اگست سن 25 عیسوی)
اس نجدی گروہ نے داخل مکہ ہوتے ہی جو کام سب سے پہلے کیا وہ قبروں پر سے قبے (گنبد)اتارنا تھا۔جس جس مشہور قبر پر کوئی قبہ بنا تھا۔اُس کو خلاف سنت ہونے کی وجہ سے انہوں نے گرا کر محض قبر کو چھوڑ دیا اور جو مصنوعی مزارات بنے تھے۔اُن کو بھی بے نام نشاں کر دیا۔بس یہ ہے بناء اختلاف اس سے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے میں ایک ہیجان پیدا ہوا۔وہڑا دہڑا اخباروں اشتہاروں اور رسالوں میں مضامین تردیدی تایئدی نکلنے شروع ہوئے۔یہ اختلاف اپنی حد سے بڑھ کر مخالفت اور شقاق تک بلکہ معادات (عداوت) تک پہنچ گیا۔جس پرمسلمانوں کے حال پر رونا آتا ہے۔اور بے ساختہ یہ منہ سے نکلتا ہے۔
فليبك1 علي الاسلام من كان باكيا
1۔پس جوشخص رونا چاہے اسلام پر روئے۔
مخالفان نجدیہ نے خدا جانے کس حوصلے سے جلسوں میں ایسی تجویز بھی پاس کی جو بحیثیت مسلمان ہونے کے ان کو زیبا نہ تھی۔مثلاً انگریزی حکومت سے درخواست کی گئی کہ مداخلت کر کے نجدیوں کو مکہ معظمہ سے نکال دے۔جس پر یہ شعر بالکل چسپاں ہوتا ہے۔
ہم نہ پہنچیں اپنے مطلب کو نہ پہونچیں پر خدا
یہ نہ سنو ائے کہ مطلب غیر کا پور ا ہوا۔
اس لئے جس طرح ہم نے شیخ محمد نجدی کی شخصیت کے متعلق شہادات معتبرہ کے بعد فیصلہ ناظرین کی رائے پر چھوڑا ہے۔اسی طرح مسئلہ ہدم قبجات کی بابت بھی شہادات شرعیہ سامنے رکھ کر فیصلہ ناظرین با تمکین کے سپرد کریں گے۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب