سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) حقیقی بہن بھائی غریب ہوں، تو وہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں یا نہیں-

  • 3466
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2083

سوال

(133) حقیقی بہن بھائی غریب ہوں، تو وہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں یا نہیں-

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 حقیقی بہن بھائی غریب ہوں، تو وہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں یا نہیں؟ نیز والدین اپنی اولاد یا اولاد اپنے والدین کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 حقیقی بہن بھائی غریب ہوں تو ان کو زکوٰۃ لگ سکتی ہے، بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب باندھا ہے کہ محتاج ہونے کی صورت میں بیٹے کو بھی زکوٰۃ لگ سکتی ہے، اور اس کے متعلق حدیث لائے ہیں، جس میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے کسی مسکین کو دینے کے لیے مسجد نبوی میں صدقہ رکھا اتفاقاً اس کے بیٹے نے آ کر اٹھا لیا، باپ کو پتہ لگا تو کہا میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا، معاملہ نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے باپ کو فرمایا: تیرا صدقہ قبول ہے، پس اولاد جب تک والدین کی پرورش میں ہو والدین کی زکوٰۃ اولاد کے لیے جائز نہیں، اور اگر وہ جوان ہو کر الگ کمائیں کھائیں، فقیر غریب ہوں والدین کی زکوٰۃ ان کو لگ سکتی ہے، رہے والدین تو اگر تنگ دست ہوں تو انسان کے اہل میں داخل ہیں، اوران کا نان نفقہ اس کے ذمہ ہے، اس لیے اولاد کی زکوٰۃ ان کو نہیں لگ سکتی، چنانچہ غار والی تین شخصوں کی حدیث سے واضح ہے، مشکوٰۃ الباب ابر والصلۃ
تنبیہ:… عام طور پر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے رشتے داروں سے جو تعاون اور سلوک ہو وہ زکوٰۃ کی مد سے کیا جائے، حتی کہ رسمی طور پر آپس میں جو لین دین ہوتا ہے، وہ بھی مد زکوٰۃ سے ادا کیا جاتا ہے، حالانکہ حدیث میں ہے:
((اِنَّ فی المال لَحَقًا سواء الزکوة))
’’یعنی مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔‘‘
زکوٰۃ دینے والے لوگ تھوڑتے ہوتے ہیں، اور دینی ادارے عموماً زکوٰۃ سے چلتے ہیں، عام غرباء کی امداد کا ذریعہ بھی یہی ہے، اگر زکوٰۃ دینے والے لوگ اپنے رشتے داروں کی ضروریات بھی مد زکوٰۃ سے ہی پوری کریں، اور غرباء کی امداد دینی خدمات کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، اس لیے زکوٰۃ دینے والوں کو مذکورہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کی ضروریات مد زکوٰۃ کے علاوہ پوری کرنی چاہئیں۔
نیز یاد رہے کہ حدیث میں ہے:
((لا یاکُلْ طعامک الا تقی))
’’یعنی تیرا طعام پرہیز گار کے سوا کوئی نہ کھائے۔‘‘
یہ شرط ہر اس شخص کے لیے ہے جس کو زکوٰۃ وغیرہ دی جائے، غریب اگر نیک نہ ہو، تو وہ زکوٰۃ کا حق دار نہیں، خواہ رشتہ دار ہو یا کوئی غیر۔ (فقط عبد اللہ امرتسری روپڑی) (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۲ شمارہ ۲۳)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 268-269

محدث فتویٰ

تبصرے