سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) مال زکوٰۃ کس کودینا چاہیے ۔

  • 3465
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1233

سوال

(132) مال زکوٰۃ کس کودینا چاہیے ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں ایک مولوی صاحب ہیں، جو فرماتے ہیں کہ جب تک زکوٰۃ کا کل مال مجھے نہ دیا جائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اور جو میرے ہاتھ پر بیعت نہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا، کیا وہ اپنے ان دونوں دعوں میں یا کسی ایک میں سچے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(نمبر۱) از مولوی عبد الاحد صاحب اہل حدیث خان پوری شاگرد مولانا عبد الغزنوی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ:
وہ مولوی صاحب اپنے دونوں دعووں میں خطاء پر ہیں، ان کے یہ دونوں دعوے مردود ہیں، ان کو ایک پیسہ زکوٰۃ کا نہ دیا جائے اور جو کوئی ان کو مصارف زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ دے گا، اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، کیونکہ زکوٰۃ کے صحیح مصارف خود اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں، ان پر صرف کرنا چاہیے، یہ مولوی صاحب شاید خود غرض ہوں گے، نہ ان کے ہاتھ بیعت کرو، نہ ان کو زکوٰۃ مال دو۔ (فقط والسلام والحمد للہ رب العالمین) (کتبہ عبد الاحد خان پوری، عفا اللہ عنہٗ تلمیذ مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)

جواب:… (نمبر۲) از مولوی عبد الواحد صاحب شاگرد مولانا عبد اللہ غزنوی امام مسجد اہل حدیث لاہور پنجاب۔
  بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم ! بایں سطور دعویٰ کہ جس نے میرے ہاتھ پر بیعت نہ کی، وہ جاہلیت کی موت مرے گا، اور جس نے مجھ کو زکوٰۃ نہ دی… اس کی زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، یہ دعویٰ وہ کر سکتا ہے، جو آسمانی بنیات کی شہادت سے نبی و رسول ہو، یا رسول خود کسی کو کہہ جائے، جیسے ابو بکر رضی اللہ عنہ،عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کو کہا تھا، یا وہ خود پسند اور متکبر ہو۔
ہم کو لوگ پیر علماء کہتے ہیں، والد صاحب مولانا عبد اللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت سے آج تک لاہور امرتسر بلکہ پنجاب کے مرد و زن ہمارے ہاتھ پربیعت کرتے رہتے ہیں، مگر معاذ اللہ یہ بڑھ چڑھ کر دعویٰ تو ہم میں سے کسی نے نہیں کیا، اور نہ کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب (عبد الواحد غزنوی عفی عنہٗ از لاہور)
جواب:… (نمبر۳) از مولوی محمد ابراہیم صاحب اہل حدیث سیالکوٹ پنجاب۔
  باسمہٖ السلام علیکم! مدعی کے دونوں دعوے باطل ہیں۔ زکوٰۃ انفر ادا بھی جائز ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت سے بلا نکیر جاری ہے۔ (واللہ اعلم عبدہٗ ابراہیم سیالکوٹی)
جواب:… (نمبر۴) از حافظ عبد اللہ صاحب فاضل امر تسری روپڑی پنجاب۔
  بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔  نمبر ۱ زاد المعاد جلد دوم ص ۴۶ میں ہے:
((وقد علیه ﷺ وفد تجیب وھم من السکون ثلاثة عشر رجلا قد ساقوا معھم صدقات اموالھم التی فرض اللّٰہ علیھم فسر رسول اللّٰہ ﷺ بھم واکرم منزلھم وقالوا یا رسول اللّٰہ سقنا الیک حق اللّٰہ فی اموالنا فقال رسول اللّٰہ ﷺ ردوھا فاقسموھا علی فقراء کم قالوا یا رسول اللّٰہ ما قدمنا علیک الا بما فضل عن فقرائنا فقال ابو بکر رضی اللّٰہ عنه یا رسول اللّٰہ ما وفد من العرب بمثل ما وفد به بھذا الحی من تجیب فقال رسول اللّٰہ ﷺ ان الھدیٰ بید اللّٰہ عزوجل فمن اراد به خیر اشرح صدرہ للایمان انتھیٰ))
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ قوم تجیب کے قاصد رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو اپنے ساتھ صدقات بھی لیتے آئے، اس پر رسول اللہﷺ نے ان کی عزت کی، اور فرمایا کہ ان صدقات کو اپنے فقیروں میں تقسیم کر دو، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے فقیروں سے جو کچھ بچا ہے، وہ لائے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ دینے ولا خود بخود ہی اپنی زکوٰۃ اپنے ہاں کے فقیروں پر تقسیم کر سکتا ہے، امام کے ہاتھ میں دینا شرط نہیں، اور نہ اس کی اطلاع کی ضرورت ہے،اور نہ اجازت کی حاجت۔ صدقہ فطر زکوٰہ امام کے بغیر ادا ہو سکتی ہے، جو وجود امام کو شرط کہتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ (فقط: عبد اللہ امر تسری)
جواب:… (نمبر۵): از مولوی عبد الغفور صاحب غزنوی اہل حدیث شاگرد مولانا عبد اللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ امر تسر پنجاب
  بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم: زکوٰۃ کا مصرف خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کر دیا ہے:﴿اِنِّمَا ا لصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنَ الایة﴾ ان کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں ہے، ادائے زکوٰۃ کی جگہ صرف مصارف زکوٰۃ کافی ہے، مولوی صاحب کا یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ فقط: عبد الغفور امر تسری غزنوی
جواب:… (نمبر۶) از مولوی عبد الوہاب صاحب اہل حدیث ملتان پنجاب۔
  بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم! السلام علیکم، اقول باللّٰہ احول وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل۔
ہر دو دعویٰ مندرجہ سال کا موقوف الیہ مسئلہ امامت ہے، اگر مدعی کی امامت صحیح ہو تو اس کے دونوں دعوے صحیح ہوں گے، والا فلا، ظاہر ہے کہ مولوی صاحب میں شرائط امامت پائی نہیں جاتیں، پس یہ امام نہیں، اور نہ ہو سکتے ہیں، جب ایسا ہے تو اس کو زکوٰۃ کا متولی بنانا ضروری نہیں تاکہ بغیر اس کے زکوٰۃ ادا نہ ہو سکے۔   هذا ما عندی واللّٰہ اعلم (محمد عبد التواب تاب اللہ علیہ ملتان)
جواب:… (نمبر۷) از قاضی سلیمان صاحب اہل حدیث مجسٹریٹ درجہ اول ریاست پٹیالہ پنجاب۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ، السلام علیکم!
مفروضہ مولوی صاحب کے ہر دو دعویٰ جات بلا دلیل ہیں، اور اس لیے ناقابل اشاعت ہیں، (احقر محمد سلیمان عفنی عنہٗ)
جواب:… (نمبر۸) از مولوی عبد الرحمن صاحب مبارک پوری اہل حدیث اعظم گڑھ شاگرد رشید حضرت مولانا میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ، السلام علیکم!
میرے نزدیک مولوی صاحب مدعی امارت و امامت یہ دونوں دعویٰ ناقابل مقبول ہیں۔ واللہ اعلم۔ (الراقم عبد الرحمن مبارک پوری عفی اللہ عنہ)
جواب:… (نمبر۹) از مولوی عبد السلام صاحب اہل حدیث مبارک پور اعظم گڑھ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
مولوی صاحب کے یہ دونوں دعویٰ غلط ہیں، اور وہ دونوں دعووں میں ایک میں بھی سچے نہیں، یہ دونوں باتیں امام وقت کو حاصل ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب امام رفتہ نہیں، کیوںکہ امامت یا تو اہل حل و عقد کی بیعت سے حاصل ہوتی ہے، یا تسلط سے اور یہ دونوں باتیں مولوی صاحب میں نہیں ہیں۔ (فقط عبد السلام عفی عنہٗ)
جواب:… (نمبر ۱۰) از مولوی محمد یوسف صاحب محمد اہل حدیث، مدیر اہل الذکر فیض آباد
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، وعلیکم السلام!
جو مستحق امامت نہ ہو اور مصارف زکوٰۃ میں خرچ نہ کرتا ہو، ایسے دکانددار صاحب کو اگر زکوٰہ دیں گے تو ہر گز ادا نہ ہو گی، ورنہ ضرور ادا ہو گی، انشاء اللہ۔نہ ایسے صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہیے۔ (محمد یوسف عفی عنہٗ مدیر اہل الذکر فیض آباد تبرکاری بازار)
جواب:… (نمبر۱۱) از مولوی عبد القاسم صاحب اہل حدیث بن مولوی محمد سعید محدث بنارسی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، وعلیکم السلام!
چونکہ سلطان اسلام ہند میں نہیں ہے، لہٰذا زکوٰۃ دینے والا خود مناسب موقع دیکھ کر ان پر زکوٰۃ خرچ کرے، یہ صورت زکوٰۃ سری کی ہو گی، جس کا بیان قرآن و حدیث میں موجود ہے، فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے:
((کان السلف یعطون زکوٰتہم للسعادة وکان من اخفاہا افہم بعدم الاخراج واما الیوم نصار کلو احد یخرج زکوٰته بنفسه فصار اخفاوہا افضل))
واللہ اعلم، کتبہٗ محمد ابو القاسم البنارسی عفی اللہ عنہء
جواب:… (نمبر۱۲) از مولوی ابو طاہر صاحب اہل حدیث بہار ی سابق مدرس اول مدرسہ آرہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، وعلیکم السلام!
یہ صورت اس وقت ہندوستان میں موجود نہیں ہے، کیونکہ امیر المؤمنین کو صاحب سلطنت اور حدود قائم کرنے والا ہونا چاہیے، اس لیے صاحب زکوٰۃ خود جہاں موقع مناسب سمجھے، صرف کر سکتا ہے، کسی خاص شخص عام ازیں کہ مولوی ہو یا صوفی کے حوالہ نہیں کرنا چاہیے، اور جو شخص خود امارت و خلافت کا دعویٰ کرے، اور بیعت نہ کرنے والے کو کہے کہ جاہلیت کی موت مرے گا، اور مال زکوٰۃ مصارف زکوٰۃ میں خرچ نہ کرے، ہر گز ایسے شخص کی بیعت صحیح نہیں، اور نہ مال زکوٰۃ اس کو دینا چاہیے، کیونکہ ان کو بلا اجازت کسی سلطان امیر کے بیعت کی اجازت نہیں، تو زکوٰۃ بھی وصول کرنا قطعاً ناجائز و حرام ہے۔ (حررہٗ ابو طاہر البحاری عفاء اللہ عنہ)
جواب:… (نمبر۱۳) از مولوی ضیاء الدین صاحب امام مسجد اہل حدیث کلکتہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، وعلیکم السلام!
بشرط صحت سوال دونوں دعویٰ مولوی صاحب کے شریعت کے سرا سر خلاف ہیں، ایسا دعویٰ کسی عالم ربانی کا نہیں ہو سکتا، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں جب وفد آنے شروع ہوئے ان میں ایک وفد زکوٰۃ کا ملا لے کر آے کے پاس پہنچا، آپ نے فرمایا: اس مال کو وہاں ہی اپنی جگہ مساکین پر تقسیم کرنا تھا، انہوں نے کہا کہ بعد تقسیم جو بچا ہے، وہ لائے ہیں، اس پر آپ نے انہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ مال مجھے کیوں نہ دیا، یا میری بغیر اجازت کے کیوں تقسیم کر دیا، اور نہ یہ فرمایا کہ تمہاری زکوٰۃ قبول نہیں ہوئی، رسول اللہﷺ کے زمانہ میں جو آپ امام الآئمہ ہیں، مال زکوٰۃ لوگوں میں بغیر اجازت آپ کے اور بغیر آپ کے سپرد کرنے کے خود بخود تقسیم کر دیا، آپ نے اس پر کچھ نہ فرمایا، ایک قسم کی تقرری سنت ہو گئی۔ پھر دوسرے کسی مولوی یا عالم کو کیا منصب ہے، جو ایسا کرے پس زکوٰۃ خود تقسیم کرنا جائز ہے۔ (والسلام ضیاء الدین، کان اللہ لہٗ)
جواب:… (نمبر۱۴): از مولوی صدیق صاحب، اہل حدیث از شہر آگرہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ،  السلام علیکم!
سوال اول کا جواب زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے، البتہ یہ مسئلہ ہے، اگر بادشاہ اہل اسلام کو حکم کرے کہ مال زکوٰۃ بیت المال میں داخل کرو، تو بادشاہ اہل اسلام کا حکم ماننا چاہیے، زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے، حضرت ﷺ کے عہد میں بعض صحابہ اپنے مال کی زکوٰۃ خود بھی تقسیم کیا کرتے تھے، حضرت خفا نہیں ہوئے۔ فقط محمد صدیق بقلم خود
جواب:… (نمبر۱۵): از مولوی کبیر احمد خلف مولانا حمید اللہ صاحب مرحوم اہل حدیث سرادہ میرٹھ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
میرا یا کسی مولوی صاحب کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں امام وقت ہوں، اور مجھے امام مانو، حدیث کے بالکل خلاف ہے، نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ تم سرداری کی حرص کرو گے، اور میں حرص میں یا خواہش تمہاری قیامت میں ندامت کا باعث ہو گی۔ دوسری روایت ہے کہ دو شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم کو سردار بنائیے، فرمایا: اللہ کی قسم ہم سرداری کی حرص والے کو اور سرداری مانگنے والوں کو سردار نہیں بنائیں گے، اور نہ ایسے شخص کو زکوٰۃ کی وصولی پر عامل بنائیں گے، رواہ البخاری و مسلم۔ ایسے شخص کی ماتحتی میں نہیں رہنا چاہیے، اور ایسے سردار بغیر زکوٰۃ برابر ہو جاتی ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اللہ اور رسول نے یہ شرط نہیں لگائی کہ بغیر امام کے زکوٰۃ ادا نہ ہو۔ (فقط والسلام کبیر احمد عفی عنہٗ)
جواب:… (نمبر ۱۶) از مولانا خالد صاحب اہل حدیث بھوپال شہر۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
مولوی صاحب ہو یا پیر صاحب یا حافظ صاحب، زکوٰۃ مستحقین کا حق ہے، کل ملا کسی کو نہیں دیا جا سکتا ہے، جو شخص مستحق ہو گا، اسی کو زکوٰۃ دی جائے گی، یہی طریقہ لوگوں نے کھانے کمانے کا اختیار کر لیا ہے، یہ بیعت کوئی لازمی ہے نہ حکم ہو سکتا ہے، صرف شہادت توحید اور رسالت کی پابندی، صوم و صلوۃ ادائے حج و زکوٰۃ احتراز شرک و بدعت موجب نجات ہیں، نہ کسی مولوی یا پیر کی بیعت۔ فقط فقیر خالد بھوپال
جواب:… (نمبر۱۷): از مولوی عبد الجلیل صاحب ، امام جامع مسجد اہل حدیث سامرود سورج۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
صرف کسی مولوی کا ہونا اس امر کو مستلزم نہیں، کہ کل زکوٰۃ کا ہی حق دار ہو جائے، زکوٰۃ کی ادا کرنے کے لیے امام کی شرطیں ہیں، دیکھو ((صدقة المراة علی زوجہا وصدقة الرجل علی ابیه زکوٰة)) خود ہی مستحقین کو دے سکتے ہیں، امامت امر مشورہ ہے، جو بالاتفاق اہل حل و عقد کے امام بنایا جائے، اسی کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہے، وہ متوی زکوٰۃ بھی ہے، امام کے جو اوصاف و شرائط شرعاً ہیں، اکلیل الکرامہ میں بالوجہ الاتم میبن ہیں، بلا ان وجوہات کے دعویٰ کرنا لغو ہے، اس طرح تو ہر کس و ناکس دعویٰ کر سکتا ہے، انصار رضی اللہ عنہم نے وہ تو کیا تھا،  ((منا امیر ومنکم امیر)) مگر امیر مشورہ سے ہی بنایا گیا تھا، یا جو لائق امامت تھا، روضۃ الندیہ میں ہے:
((ووجوب الدفع الیہم عند طلبسہم لہا فلیس فیہا ما یدل علی ان رب المال اذا صرفہا فی صرفہا قبل ان یطالبه الامام تبلیمہا الا تجزیه ولا یجوزا نه ذلک هذا ما عندی واللّٰہ اعلم))
(الروضۃ الندیۃ جلد اول ص ۲۰۲)
جواب:… (نمبر ۱۸) : از مولوی محمد طاہر صاحب شاگرد مولانا محمد نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
اموال زکوٰۃ خلیفۃ المسلین کے ذریعے سے ادا ہوا کرتے تھے، عہد نبوت و عہد خلافت میں اور بیعت بھی امام المسلمین کے ہاتھ میں ہوتی تھی، اگر یہ مدعی مولوی صاحب موصوف بایں صفات یعنی نبوت و خلافت ہوں تو مستحق ہیں، اگر ایسا نہیں ہے، تو مطلقاً مستحق نہیں۔ (حررہٗ محمد طاہر عفی عنہٗ)
جواب:… (نمبر ۱۹): از مولوی محمد داؤد صاحب اہل حدیث بن مولانا عبد الجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ امر تسر۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
مدعی مذکورہ سوال کے ہر دو دعویٰ ناجائز ہیں، اور جہاں تک مجھے علم ہے، کہ وہاں کوئی شخص ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کے ارباب حل و عقد نے امارات کے لیے منتخب کیا ہو یا وہ خود اپنے غلبہ اور فوجی اقتدار سے امیر بن گیا ہو، اس لیے مدعی مذکورہ سوال کے دونوں دعوے نہ صرف غلط بلکہ مجنونانہ حرکت ہے۔ فقط ابو عمر محمد داؤد غزنوی امر تسری رحمۃ اللہ علیہ
جواب:… (نمبر ۲۰): از مولوی ثناء اللہ صاحب اہل حدیث امر تسر۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم!
آپ اس بارہ میں رسالہ مصارف زکوٰۃ جو نہایت مفید ہے، پتہ ذیل سے طلب کریں، مولوی عبد الحکیم صاحب نصیر آباد مدرسہ حقانی ضلع اجمیر ثناء اللہ امر تسر۔
یہ رسالہ مصارف زکوٰۃ باہتمام مولوی ثناء اللہ امر تسری صاحب ۳۴ھ میں بمقام امر تسر طبع ہوا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے، مال دار کو اپنے مال کے خرچ کرنے کا پورا اختیار ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ نے پیش گوئی فرمائی ہے:
((حتّٰی یکنز المال ویفیض حتی یخرج الرجل بالزکوٰة فلم یجد احدٗ یقبلہا)) (رواہ المسلم)
’’ایماندار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ تلاش کر کر دیں گے، تو بعض اوقات کثرت مال کی وجہ سے اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔‘‘
مسلم کی اس حدیث شریف سے صاف واضح ہو گیا، کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا حاکم وقت کے ہاتھ سے کوئی ضرورت کی بات نہیں، بلکہ صاحب زکوٰۃ کا اختیار ہے کہ مصارف زکوٰۃ میں خود خرچ کرے، اگر ایسا اختیار نہ ہوتا تو آپ کیوں فرماتے کہ میرے بعد مسلمان لوگ زکوٰۃ سے خرچ کرنے کو نکلیں گے، تو ان کو کوئی لینے والا نہیں ملے گا، اگر امام کے پاس ہی زکوٰۃ جمع کرنے کا حکم ہوتا تو امام یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب بیت المال میں پیشہ کی ضرورت نہیں ہے، بیت المال میں پیشہ کی ضرورت نہیں ہے، بیت المال میں اگر کروڑوں روپیہ جمع ہوتا ہے، تاہم والی بیت المال رد نہیں کر سکتا۔
پس معلوم ہوا کہ مال دار لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ زخیرات خود ادا کر دیں، اور جو لوگ دس بیس پچاس مال کر یہ بات بناتے ہیں کہ ہم نے فلاں مولوی صاحب کو امام مقرر کر لیا ہے، اس کو زکوٰۃ دینی چاہیے، یہ تمام دھوکہ اور جعل سازی لوگوں کے حق برباد کرنے کے واسطے کی جاتی ہے، ایسوں کی زکوٰۃ دینی جائز نہیں کیونکہ یہ فریب سے مسکینوں کے حق مارتے ہیں، اور پیٹ کو بھرتے ہیں، یا ایسی جگہ دیتے ہیں، جو کہ حق دار نہیں ہے یہ سراسر حدیث کے خلاف ہے، رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص قبیلہ تمیم داری سے آیا اور کہا:
((فقال یا رسول اللّٰہ ﷺ انی ذو مال کثیرو ذو اھل وولد وحاضرة فاخبر فی کیف انفق واکیف اضع فقال رسول اللّٰہ ﷺ تخرج الزکوٰة من مالک فانھا طھرة تطھرک وتصل اقرباء ک وتصرف حق السائل وبن السبیل)) (الحدیث رواہ احمد فی مسندہ)
’’یا رسول اللہ میں بہت مال دار ہوں، اولاد والا ہوں بانی اور بیٹیوں والا ہوں ، پس خبر دیں مجھ کو کہ کس طرح خرچ کروں، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نکالے تو زکوٰہ مال اپنے کی، اور دے تو قرابتداروں اور سائلوں اور ہمسایہ اور مسکینوں کو۔‘‘
اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ صاحب مال اپنے مال کی زکوٰۃ قرابتداروں وغیرہ میں خود خرچ کر سکتا ہے، مگر آج کل لوگوں نے یہ بات بنا رکھی ہے، کہ دس بیس مل کر ایک کو امام بنا لیتے ہیں، اور پھر لوگوں کو کہتے پھرتے ہیں، کہ زکوٰۃ کا مال امام کو دینا چاہیے، جو شخص امام کو زکوٰۃ نہ دے گا، اس کی زکوٰۃ قبول نہ ہو گی، بے چارے مسلمان بوجہ ڈر کے کہ کبھی قبول نہ ہو، مولوی صاحب کے کہنے پر اعتبار کر کے اپنے محتاج قرابت دار وغیرہ چھوڑ کر یہ زکوٰۃ امام صاحب کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ خوب زکوٰۃ کے مال سے مزے اڑاتے اور چین سے کھاتے پیتے ہیں، جیسا کہ پیر زادے لوٹ لوٹ کر لوگوں کا مال کھاتے ہیں، ویسے ہی یہ لوگ پیدا ہو گئے کہ امامت کے بہانے سے لوگوں کے مال جمع کر کے کھاتے ہیں، الغرض کہ ہر طرح حیلہ سازی نکال رکھی ہے۔
ہم بار ہا رلکھ چکے ہیں، کہ اس حکومت انگریزی میں نہ ایسا امام ہے، اورنہ اس کا خلیفہ ونائب ہے، کہ جس کو زکوٰۃ فرض ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ہر قسم کی خیرات زکوٰۃ صدقہ وغیرہ خود اپنے ہاتھ سے خرچ کرنا چاہیے، جیسا کہ اللہ رسول کا حکم ہے:
﴿وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ اِلٰی صِرَاِ الْمُسْتَقِیْمِ﴾
خلاصہ ان جوابات کا یہ ہوا کہ مولوی صاحب کے یہ دونوں دعوے درست نہیں، کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں یہ باب باندھا ہے،  ((باب الزکوٰة علی الاقارب باب الزکوٰة علی الزوج والایتمام فی الحجر)) یعنی مال زکوٰۃ اپنے قرابت داروں اور خاوند اور ان یتیموں پر خرچ کرنا جو اس کی پرورش میں ہیں جائز درست ہے۔ ابو مسعود کی عورت آپ سے خرچ کرنے کا محل دریافت کرتی ہے، کہ میں اپنے خاوند وغیرہ پر خرچ کر سکتی ہوں، آپ نے فرمایا تجھ کو دوہرا اجر ہے، بے شک خرچ کریہ نہیں، کہ بھتیجوں کو دے دے گا، البتہ ایسا ہوتا تو کچھ بات بنتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔
بخاری میں ہے:
((یعطی فی الحج وان اشتریٰ اباہ من الزکوٰة جائز))
’’یعنی حج ادا کرنا اور اپنے غلام، باپ کو مال زکوٰۃ سے خریدنا جائز ہے۔‘‘
بخاری شریف کی ان احادیث سے صاف معلوم ہوا، اور ثابت ہو گیا کہ صاحب مال اپنی زکوٰۃ خود بخود مستحقوں پر خرچ کر سکتا ہے، اور بس۔
ماخوذ از رسالہ مسئلہ ادائے زکوٰۃ-
مرتب: مولانا مولوی احمد بن محمد دہلی صدر بازار ۱۹ رمضان ۳۹ھ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 259۔268

محدث فتویٰ

تبصرے