السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زکوٰۃ کا مال کفار و مشرکین کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی واضح ہو کہ یہاں آج کل بہت بڑی قحط سالی ہو رہی ہے، اور نرخ غلہ کا بہت گراں ہو گیا ہے، مخلوق نہایت درجہ پریشان حال ہے، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو قحط سالی ہوئی تھی، تو بیت المال میں سے کفار کو کچھ دیا گیا تھا یا کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰ کا مال کفار و مشرکین کو دینا جائز نہیں ہے، حدیث معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہے:
((فَاَخْبِرُھُمْ اَنَّ اللّٰہَ قد افترض علیہم صدقة تؤخذ من اغنیا انہم وتر وعلی فقراء ہم الحدیث رواہ الشیخان))
اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
((ان الزکوٰة لا تدفع الی الکافر لعود الضمیر فی فقراء هم الی المسلمین الخ))
ہاں صدقہ تطوع کفار و مشرکین کو دینا جائز ہے۔ ہدایہ میں ہے:
((ولا یجوزان یدفع الزکوٰة الی ذمی لقوله علیه السلام لمعاذ رضی اللّٰہ عنه ففر من اغنیائہم درد بافی فقرائہم وید فو الیه ما سویٰ ذلک من الصدقته وقال الشافعی لا یدفع وهو روایة عن ابی یوسف رحمة اللّّٰہ علیه اعتبارأ بالزکوٰة والی قوله علیه السلام تصدقوا علی اهل الادیان کلہا ولو لا حدیث معاذ لقلنا بالجواز فی الزکوٰة انتہیٰ))
حافظ ابن حجر درایۃ تخریج ہدایۃ میں لکھتے ہیں:
((حدیث۔ تصدقوا علیٰ اهل الادیان کلہا ابن ابی شیبہ من روایة سعید بن جبیر رفعه لا تصدقوا الاعلیٰ اهل دینکم فنزلت ، لیس علیک ہداهم فقال تصدقوا علی اهل الادیان ومن طریق محمد بن حنفیة نحوہٗ ولا بن زنجویه فی الاموال عن سعید بن المسیب ان النبی ﷺ تصدق علی اهل بیت من الیہود وهذہٖ مراسیل یشد بعضاً انتہیٰ واللّٰہ اعلم))
(حررہٗ محمد عبد الحق ملتانی عفی عنہٗ) (فتاویٰ نذیریہ ص ۴۹۵۔ ۴۹۶۔ جلد نمبر۱) (سید نذیر حسین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب