السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
در باب جوا ز اخذ زکوٰۃ و صدقات اہل بیت را اگر حدیثے دریں باب آمدہ باشد عنائت فرمائیندہ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح باد کہ در باب جواز اخذ زکوٰۃ اہل بیت کدامی حدیث صحیح یا ضعیف نیا مدہ بلکہ از احادیث صحیحہ واقوال محدثیں ممانعت معلوم مے شود آرے فقہاء حنفیہ در جواز اخذ زکوٰۃ اہل بیت رادریں زمان رداد اشتہا اندو گفتہ اند کہ دراں زمان کہ خمس کجا است اگر گیرند روا باش وایں قول صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ است ودیگر ائمہ ثلاثہ ھرام مے گویند چنانچہ از احادیث ثابت مے شود۔ واللہ اعلم بالصواب
(حررہ السید عبدالحفیظ عفی عنہ) (سید محمد نذیر حسین)
ھو الموفق:… فی الواقع کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں آئی ہے، جس سے اہل بیت کے لیے اخذ زکوٰۃ کا جواز ثابت ہو، بلکہ احادیث سے صاف صاف یہی ثابت ہے کہ اہل بیت پر زکوٰۃ حرام ہے، اور علامہ ابو طالب اور ابن قدامہ اور ابن رسلان نے اس حرمت پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، یعنی یہ کہا ہے کہ تمام علماء کے نزدیک بالاتفاق اہل بیت پر زکوٰۃ حرام ہے، سبل السلام میں ہے:
((وکذا ادعی الاجماع علیٰ حرمتہا علیٰ الٰه ابو طالب وابن قدامه))
اور نیل الاوطار میں ہے:
((وکذا حکی الاجماع ابن رسلان))
مگر ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ اس زمانہ میں بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا، اور ان کو لینا جائز ہے، اور اسی روایت کی بنا پر بعض متاخرین حنفیہ نے فتویٰ دیا ہے کہ بنی ہاشم کو زکوٰۃ لینا درست ہے، لیکن اب عصمۃ کی روایت احادیث صحیحہ کے صریح خلاف ہے، ایک نہیں بہت سی حدیثیں اس روایت کو رد کرتی ہیں، او رعند الحنفیہ بھی اس روایت پر فتویٰ نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت ظاہر المذہب اور ظاہر الروایات کے خلاف ہے، رسائل الارکان میں ہے:
((ولا یجوز صرف الزکوٰة الی بنی ہاشم لما مرو عن ابی هریرة قال اخذ الحسن بن علی تمرة من تمرة الصدقات فجعلھا فی فیه فقال رسول اللّٰہ ﷺ کخ کخ ارم بہا اما علمت انا لا تحل لنا الصدقة رواہٗ الشیخان وفی الباب احادیث کثیرة لا بعد ان یدعی تواتر معنا ہاد فی فتح القدیر رویٰ ابو عصمة عن ابی حنیفة انه یجوز فی هذا الزمان صرف الزکوٰة الی بنی ہاشم وان کان ممتنعاً فی ذالک الزمان الظہور شدة الحاجة فیہم لا یعطیہم احد صلة وقد افتہی بعض المتاخرین بہذہ الروایة وهذا کله خطاء وغلط لانه مخالف للنصوص القاطعة انتہیٰ))
اور بحر الرائق میں ہے:
((اطلق الحاکم فی بنی هاشم ولم یصرح بزمان ولا بشخص للاشارة الیٰ رد روایة ابی عصمة عن الامام انه یجوز الیٰ بنی ہاشم فی زمانه وللاشارة الیٰ رو الروایة بان الہاشمی یجوز له ان یدفع زکوٰة الیٰ مثلهہ لان ظاهر الروایة الطلاق المنع انتہیٰ))
الحاصل بنی ہاشم سے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے، کسی حدیث سے اس کا جواز ثابت نہیں، یہ مذہب امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور تمام ائمہ دین کا اور عند الحنفیہ بھی یہی مفتی بہ اور ظاہر المذہب اور ظاہر الروایت ہے، ہاں زکوٰۃ کے سوا نفل صدقات کی نسبت علماء کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کے نزدیک نفی صدقات بھی بنو ہاشم پر حرام ہیں، اور اکثر حنفیہ کے نزدیک جائز ہے، اور حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک بھی علی القول الصحیح جائز ہے، سبل السلام میں ہے:
((وقد ذهب طائفة الیٰ تحریم صدقة النفل ایضاً علی الاول واخرناہٗ فی حواشی ضوء النہار لعموم الاولة))
اور نیل الاوطار میں ہے:
((واما آل النبی ﷺ فقال اکثر الحنفیة وهو المصح عن الشافعیة والحنابلة انہا تجوز لہم صدقة التطوع دون الفرض قالوا الان الحرم علیھم انما هوا اوساخ الناس وذالک هو الزکوٰة المفروضة لا صدقة التطوع وقال فی البحرانه خصص صدقة التطوع القیاس علی الہبة والہدیة والوقف وقال ابو یوسف وابو العباس انہا تحریم علیہم کصدقة الفرض لان الدلیل لم یفصل انتہیٰ))
اور فتح الباری میں ہے:
((وثبت عن النبی ﷺ الصدقة او ساخ الناس کما رواہٗ مسلم ویؤخذ من ہذا جوازا التطوع دون الفرض انتہیٰ))
واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہٗ اتم۔ (کتبہٗ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہٗ) (فتاویٰ نذیریہ ص ۴۸۷ جلد نمبر۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب