سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) عقیقہ اگر سات روز میں کسی باعث سے نہ ہوسکا تو بعد اس کے ہوسکتا ہے؟

  • 3453
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1199

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ عقیقہ اگر سات روز میں کسی باعث سے نہ ہوسکا تو بعد اس کے ہوسکتا ہے یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جامع ترمذی میں ہے۔کہ اہل علم ساتویں روز عقیقہ کر نے کو مستحب جانتے ہیں۔اگرساتویں روز نہ ہوسکا تو چودہویں روز کرنا چاہیے۔اور اگر چودہیوں روز نہ ہوسکا تو اکیسویں روز کرنا چاہیے۔قاضی شوکانی نیل الاوطار میں ترمذی کے اس قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں۔

یعنی اس قول  پر حدیث دلالت کرتی ہے۔جس کو عبد اللہ بن بریرہ نے اپنے باپ سے اور انھوں نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے۔کہ آپ ﷺ نے فرمایا  کہ عقیقہ ذبح کیا جائے ساتویں روز اورچودویں روز اور اکیسویں روز مگر شوکانی نے اس کی سند لکھی ہے۔اور نہ اس کا صحیح اور ضعف ہونا ظاہر کیا ہے۔(سبل السلام ص208)

یعنی نووی نے کہا کہ ساتویں روز کے قبل بھی عقیقہ کرنا درست ہے۔اور اسی طرح بڑے ہونے کے بعد بھی عقیقہ کرنا درست ہے۔اس واسطے کے بیہقی نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے اپنا عقیقہ بعثت کے بعد کیا ہے۔لیکن بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے۔اور نووی نے کہا یہ حدیث باطل ہے۔الحاصل عقیقہ کا وقت جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔وہ ساتواں روز ہے۔پس ساتویں ہی روز عقیقہ کرنا متعین ہے۔ہاں بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مذکورہ اگر صحیح و لائق اعتبار تو چودہویں روز اور اکیسویں رو ز بھی عقیقہ کرنا حدیث سے ثابت ہوگا۔اور اکیسویں روز کے بعد یا بڑے ہونے کے بعد عقیقہ کرنا کسی حدیث معتبر سے ثابت نہیں۔اور علماء کی رائے اس بارے میں مختلف ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ اکیسویں روز کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں۔واللہ اعلم با لصواب

(کتبہ عبد الرحمٰن المبارک پوری ۔فتاویٰ نزیریہ جلد2 ص445۔446))

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 214

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ