سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) گائے کے عقیقے کا کیا حکم ہے۔؟عقیقہ میں قربانی کے شرائط ہیں یا نہیں؟

  • 3450
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2019

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گائے کے عقیقے کا کیا حکم ہے۔؟عقیقہ میں قربانی کے شرائط ہیں یا نہیں؟عقیقہ واجب ہے یا سنت؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام کے گائے کا عقیقہ کرنا قرون ثلاثہ میں سے اصح الحدیث والا اثر کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں؟ما سوا طبرانی کی روایت کے جو نیل الاوطار میں ہے۔اور آپ ﷺ نے جو لفظ عقیقہ کو مکروہ جان کر اس کا نام نسیکہ رکھا ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے۔؟کیا جو شرائط قربانی میں ہیں۔اس میں بھی مشروط ہیں یا نہ یعنی عیب اور نقصان وغیرہ سے جانور کا بری ہونا اور دو دانت ہونا اور گائے کا سات سات کی طرف سے مشروع ہونا شرط ہونا شرط ہے یا نہیں۔اور امام  مالک اور رافعی وغیرہ کا مذہب کہاں تک صحیح ہے۔اور جمہور کے پاس کیادلیل ہے۔جو گائے کے عقیقہ کے بھی قائل ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔طبرانی اور ابو الشیخ کی روایت جو نیل الاوطار میں ہے۔اس کے سوا اور کوئی روایت یاد نہیں۔

2۔مشکواۃ میں ہے۔(مشکواۃ باب العقیقہ فصل 3 ص363)

ترجمہ۔رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال ہوا۔تو فرمایا کہ اللہ عقوق کو پسند نہیں کرتا گویا کہ آپﷺ نے عقیقہ کا نام مکروہ سمجھا اور  فرمایا کہ جس شخص کے ہاں اولاد ہو۔اور وہ نسیکہ

کرنا دوست رکھے۔تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کرے اور لڑکی کی طرف سےایک بکری۔منتقیٰ میں ہے۔(احمد۔ابو دائود۔(منتقیٰ کتاب العقیقہ)

رسول اللہﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال ہوا فرمایا میں عقوق کو دوست نہیں رکھتا گویا آپ نے عقیقہ نام مکروہ سمجھا۔لوگوں نے کہا یا رسول اللہﷺ ہمارا سوا ل اس شخص سے ہے۔جو کے ہاں اولاد ہو فرمایا جو دوست  رکھے۔کہ اپنی اولاد کا عقیقہ کرے تو وہ دو بکریاں ہم عمر لڑے کی طرف سے کرے۔اور ایک لڑکی کی طرف سے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نسیکہ

کہنے کی یہ وجہ نہیں کے اس کے احکام قربانی کے ہیں۔بلکہ اس کی وجہ یہ  ہے کہ عقیقہ چونکہ عقوق سے ہے۔جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔اور اسی سے عاق ہے۔اسی لیے عقیقہ کے نام کو مکروہ جانا اور اس کی بجائے نسیکہ نام  پسند کیا۔

پس اسے سے قربانی کے احکام سمجھنا غلطی ہے۔علاوہ اس کے قربانی میں تو ایک بکری گھر والو ں کی طرف سے کافی ہے۔اور عقیقہ میں ایک بکری ایک لڑکے کی طرف سے  کافی نہیں۔چنانچہ اس حدیث میں دو بکریاں بتلائی ہیں۔تو پھر اس سے قربانی والے احکام کس طرح سمجھے جا سکتے ہیں۔ہاں بعض اور روایتوں سے پتہ چلتا ہے۔ کہ عمر قربانی والی ہونی چاہیے۔

نوٹ۔

عقیقہ کے نام سے کراہت تنزہیی مراد ہے۔یعنی یہ نام بہتر نہیں۔اگر بالکل منع ہوتا تو رسول اللہﷺ خود اس کا استعمال نہ کرتے۔حالانکہ رسول اللہﷺ نے کیا ہے۔ملاحظہ ہو مشکواۃ وغیرہ۔

نوٹ۔

عقیقہ کے واجب اور غیر واجب ہونے میں اختلاف ہے۔حسن بصری ؒ تابعی اور ظاہریہ وجوب کے قائل ہیں۔اورجمہور کہتے ہیں کہ سنت ہے۔اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں نہ فرض ہے نہ سنت۔اور کہا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک نفل ہے۔اورامام ابو حنیفہ کے شاگرد  امام محمد کے نزدیک قربانی کے ساتھ منسوخ ہوگیا۔اور امام ابو حنیفہ سے بھی یہ روایت ہے۔کہ یہ جاہلیت کی رسم تھی اسلام نے اس مٹا دیا۔شاید امام ابو حنیفہ کو عقیقہ کی احادیث نہ پہنچی ہوں۔یہ تمام اقوال امام شوکانی نے نیل الاوطار جلد 4 ص 367 میں زکر کیے ہیں۔امام شوکانی کا میلان جمہور کے مذہب کی طرف مائل ہوتا ہے۔جمہور کی دلیل حدیث مذکور پیش کی ہے۔

اس حدیث میں من احب ( جو دوست رکھے۔)کا لفظ چاہتا ہے۔کہ عقیقہ ضروری نہ ہو مگر دلیل کمزور ہے۔کیونکہ دوسری احادیث سے ضروری ثابت ہوتا ہے۔کیونکہ بعض روایتوں میں صیغہ امر آیا ہے۔اہریقو عنہ دما(اس خون سے بہائو)آیا ہے۔جو وجوب کے لئے آیا ہے۔اور بعض میں رہینہ کا لفظ آیا ہے۔جس کے معنی ہیں کہ عقیقہ نہ ہو۔تو بچہ ماں باپ کی شفاعت نہیں کر سکتا۔یا عقیقہ ایسا لازمی ہے۔جیسے کوئی شے گرد ہوتی ہے۔اورقرض کی ادائیگی کے بغیر چھوٹ نہیں سکتی۔اور بعض نے اس کے معنی کیے ہیں۔کہ وہ گرد کی طرح بند ہے۔جب تک عقیقہ نہ کیا جائےنام نہ رکھا جائے۔نہ بال اتارے جایئں۔نام رکھنے بال اتارنے سے تو چارہ نہیں۔پس عقیقہ بھی ضروری ہوگیا۔

اور بعض روایتوں میں امرنا کالفظ آیا ہے۔یعنی رسول اللہﷺ نے ہمیں عقیقہ کا حکم دیا ہے۔اس سے بھی وجوب ثابت ہوتا ہے۔

امام شوکانیؒ نیل الاوطار جلد4 ص367 میں لکھتے ہیں۔اگرچہ یہ الفاظ اصل میں وجوب کے لئے ہیں۔مگر من احب کا لفظ قرینہ صارفہ ہے۔اس لفظ سے ثابت ہوتا  ہے کہ ان الفاظ سے وجوب مراد نہیں۔بلکہ امر استحبابی مرادہے۔لیکن امام شوکانی کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ امر کا صیغہ یا امر کا لفظ تو کبھی قرینہ کے ساتھ استحباب کے لئے آجاتا ہے۔لیکن رہینہ کے معنی استحباب کے لئے مشکل ہیں۔علاوہ اس کے من احب کا لفظ استحباب کے لئے تسلی بخش دلیل نہیں۔دیکھئے قرآن مجید میں ہے۔

کہہ دے اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر ی اتباع کرو۔

اس آیت میں وہی محبت کا لفظ ہے۔مگر باوجود اس کے آپ کی اتباع ضروری ہے۔ٹھیک اسی طرح حدیث مذکور کو وسمجھ لینا چاہیے۔اصل بات یہ کہ!

شرط ہوتی ہے۔ویسے ہی اجزا ء کا حکم ہوتا ہے۔اللہ کی محبت چونکہ ضروری ہے۔اس لئے آپ کی اتباع بھی ضروری ہے۔اس طرح عقیقہ چونکہ ضروری ہے۔جیسے کہ ابھی بیان ہوا ہے۔اس لئے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہم عمر1اور لڑکی کی طرف سے ایک ضروری ہے۔یعنی کم نہ کر ہاں اگر حدیث یوں ہوتی تو کہ جو عقیقہ کرنا دوست رکھے۔وہ عقیقہ کرے تو پھر یہ حدیث استحباب کی دلیل بن سکتی تھی اب نہیں۔

1۔ہم عمر سے مراد یہ ہے کہ دونو ں جانور مسنہ ہوں۔

علاوہ اس سے محبت کے لفظ سے خلوص مقصود ہے۔پس اس صورت میں مقصد یہ ہوگا۔جو اخلاص سے عقیقہ کرے وہ دو بکریاں ہم عمر لڑکے کی طرف کرے۔اور ایک  لڑکی کی طرف سے اور ظاہر ہے کہ اخلاص ضروری ہے۔پس عقیقہ خود ہی ضروری ہوگیا۔ (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر 13 ش 12)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 208-211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ