سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) اگر بچہ پیدائش کے بعد ساتویں دن سے پہلے ہی وفات پا گیا

  • 3447
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2603

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔اگر بچہ پیدائش کے بعد ساتویں دن سے پہلے ہی وفات پا گیا ہو اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو کیا اس کی وفات کے بعد عقیقہ ہو سکتاہے۔؟

2۔عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟

3۔اگر بچہ پیدائش کے چند ماہ بعد فوت ہوگیا ہو۔اور اس کا عقیقہ نہ کیاگیا ہو۔تو اب اس کی وفات کے بعد اس کے عقیقہ کا جانور ذبح کر دینا عقیقہ کا مکمل ثواب رکھتاہے۔؟

4۔مسمی بکر کا عقیقہ پیدائش کے بعد مسنون ایام میں نہیں کیا گیا۔کیا وہ شخص سن بلوغت کے بعد اپنے عقیقے کاجانور ذبح کرادے تو عقیقہ کے ثواب ملے گا۔؟

5۔مندرجہ بالا صورتیں بوجہ مفلسی بچوں کے والدین کو پیش آئی ہیں۔اس لئے والدین بچوں کی زندگی میں عقیقے کی سنت ادا نہیں کرسکے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 1۔شریعت مطہرہ میں عقیقہ کادن ساتواں مقرر کیا گیا ہے۔حضرت سمرہ کی روایت میں ہے۔

كل غلام مرتهن بعقيقة مذبح عنه يوم سابعه الحديث اخرجه الخمسة و صحصه الترمذي وغيره

اور نیل لاطار میں ہے۔

وفيه دليل علي ان وقت اعقيقه سابع الولادة وتسقط ان مات قبله  (ملحض ج5 ص113)

خلاصہ یہ کہ جب  بچہ پر ساتوں دن آیا ہی نہیں۔تو  ادائے حکم کا وقت نہ آیا پھر عقیقہ کیسا؟

2۔اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ عقیقہ ضروری ہے یا استحبابی۔حافظ ابن حزم اوران کے ساتھی وجوب و فرضیت کے قائل ہیں۔ (محلی ج7 ص525)

دوسری طرف ایک جماعت کثیرہ ہے۔کہ عقیقہ واجب نہیں ہے بلکہ سنت موکدہ ہے۔امام مالک۔امام احمد بن حنبلؒ۔اسی طرف ہیں۔وہ آپﷺ کے ۔عامر مذکورہ کا صارف عن الوجوب

پہلی روایت کا ماحصل آنحضرت ﷺ کا تاکیدی حکم ہے۔کہ عقیقہ کیاجائے دوسری روایت کا منشا یہ ہے کہ اگر کوئی چاہے تو  عقیقہ کرسکتا ہے۔

امام بخاری نے بھی عدم وجوب کا مسلک اپنایا ہے۔

فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے۔کہ ابراہیم بن الجاموسیٰ عبد للہ بن طلحہ۔ اورابراہیم بن النبیﷺ کے عقیقے میں منقول نہیں ہیں۔(مطبوعہ انصاری ج5 ص 277)

اگر چہ یہا ں کہا جا سکتا ہے۔کہ عدم کا زکر عدم حکم کو مستلزم نہیں۔

حافظ ابن حجر نے تحفۃ الودود باحکام المولود (ص 16۔18) میں دونوں فریق (قائلین وجوب و سنت) کے دلائل تفصیل سے زکر فرمائے ہیں۔ان کا اپنا رجحان آخر الزکر کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اور یہی راحج بھی ہے۔ہاں امام احمد کے مسلک میں یہ ہے کہ قرض اٹھا کر بھی اس فضیلت سے محروم نہیں رہنا چاہیے کیونکہ عقیقہ کو رواج دینا ایک سنت کا احیاء ہے۔(تحفۃ الودود ص17)

3۔کسی صحیح حدیث میں اس کا زکر نہیں ہے۔کہ عقیقہ کا دن گزرنے کے بعد بھی عقیقہ ضروری ہے۔بنا ء بریں علماء کرام کی رائے۔اس بارے میں مختلف ہوگئی۔

(الف)امام مالک کا فتویٰ یہ ہے کہ ساتویں دن کے بعد وقت ختم ہے۔اس کے بعد عقیقہ کا ثواب نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ 7۔14۔21 تک گنجائش ہے۔اس کے بعد وقت ختم

(المنتقی الباحی ص102 ج3)

اس دوسرے قول کی بنیاد ممکن ہے۔یہ حدیث ہو۔

عن عبد الله بن بريده عن ابيد عن النبي صلي الله عليه وسلم قال العقيقه تذبح بسع والا ربع عشرة ولا حدي وعشرون اخرجه البيهقي  (ص 303 ج9)

 لیکن اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم ایک ر اوی جوضعیف ہے۔اور اس حدیث کا دررومدا اسی  پر ہے۔(فتح الباری ج5 ص 281)

یہ ضرور ہے کہ اس پر اہل علم کاس عمل امام ترمذی نے نقل فرمایا ہے۔تحفۃ الودود(ـ19) میں ہے۔

وهو قول عائشة و عطاء و احمد و اسحاق

یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔عطا۔امام احمد۔اسحاق کا یہ مسلک ہے۔

(ب)امام ابن حزم کی رائے ہے۔کہ ساتویں دن اگر میسر نہ ہو سکے تو دوسرے کسی وقت میں جب ممکن ہو۔ اس لئے عہدہ براء ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فان الجبر يذبح في اليوم السابع ذبح بعد ذلك متي امكن قرضا (محلی 523 ج 7)

امام لیث فرماتے ہیں۔ساتویں پر  مہیانہ ہو سکا۔تو اس کے بعد ضروری نہیں۔تاہم اگر بعد میں عقیقہ کر دیا جائے تو ٹھیک ہے۔۔

فان لم يتها لهم العقيقة يوم سابعه فلا باس ان يعق عنه بعد ذلك و ليس بواجب ان يعق عنه بعد سبعة ايام(تحفۃ الودود ص19)

بلکہ امام محمد بن سیرین تو یہاں  تک فر ماتے ہیں۔اگر مجھے پتہ چلے کہ میرا عقیقہ نہیں ہوا تو میں خود اپنا عقیقہ کروں گا۔

لو اعلم اني لم يعق عني لعقيقة عن نفسي (فتح ج5 ص 281)

یہاں یہ عمل قابل زکر ہے۔کہ کسی واقعی عذر کے بغیر ساتویں دن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔یہ ایک تعبدی چیز ہے۔اور عبادت سمجھ کر  ہی اسے بجا لانا ضروری ہے۔یہ  تقریب نہیں ہے۔کے تقریب کے لوازم پورے کرنے کیلئے ساتواں دن ضائع کر دیا جائے۔اسی صورت میں خطرہ ہے۔کہ عقیقہ کی اصل غرض ا س شکر جس کا نتیجہ ثواب ہے۔)حاصل نہ ہو۔لیکن اگر کسی واقعی عذر افلاس وغیرہ) کی  وجہ سے ساتویں تاریخ رہ گئی ہے۔تو پھر ممکن حد تک جلدی کرنے کی صورت میں عقیقہ کا ثواب پانے کی قوی امید ہے۔دلیل اس آیات قرآنی کا عموم ہے۔)سورۃ تغابن) (سورۃ طلاق)

والله اعلم بما في نفوسكم

4۔جہاں تک ظاہر حدیث کا تعلق ہے۔اس سے یہی معلوم  ہوتا ہے۔کہ عقیقہ کی زمہ دار ی جیسی کچھ بھی ہے۔والد پر عائد ہوتی ہے۔

يجب علي الاب وهو منصوص عن احمد(تحفۃ الودود ص17)

5۔ایک قرض تو متعاد قسم کا ہوتاہے۔ادھر لیا ادھر دے دیا۔ایسا قرض تو اس قسم کے کارخیر سے مانع نہیں ہونا چاہیے۔حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں۔قرض لے ک احیاء سنت کرےگا۔تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت کرے گا۔اور زیادہ عنایت فرمائے گا۔

واني لا حب ان تحي هذه السنة ارجو ا ان يخلف الله عليه (تحفۃ الودود ص17)

لیکن خدا نہ کرے اگر قرض ایسا ہی ہو جس نے قمر تور رکھی ہو۔تو حق تعالیٰ سے در گزر کی توقع ہے۔ (البقرۃ)

گروی کا مطلب  شفاعت ہی ہو تو ایسا قوی عذر مانع شفاعت نہیں ہوگا۔ان شاء اللہ۔لیکن

كل غلام مرتهن بعقيقة

یہ مشہور مطلب بعض علماء نے بیان فرمایا ہے۔لیکن اس کے اور معنی بھی ہیں۔حافظ ابن قیم نے  تحفۃ الودود میں بڑی تفصیل سے اس پر بحث فرمائی ہے۔جو پڑھنے کے لائق ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ عقیقہ کا فائدہ بچے کی روحانی پایئدگی ہے۔عقیقہ نہ ہونے کی صورت میں شیطان اس کی روحانی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے درپے رہتا ہے۔مگر جب اس کی  طرف سے ایک جانور حق تعالیٰ کے نام پر ذبح کر دیا جاتا ہے۔تو اس کو اللہ تعالیٰ شیطان بند کھولنے کا سبب بنا دیتا ہے۔(اخبار الاعتصام جلد 6 ش 40 لاہور)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 204

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ