سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) عقیقہ کرنا واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب؟

  • 3446
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 3510

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ عقیقہ کرنا واجب  ہے یا سنت ہے یا مستحب اور کیا کیا اسکے احکام ہیں۔بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقیقہ جمہور کے نزدیک سنت ہے۔واجب نہیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستحب ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک واجب ہے۔مگر قول جمہور اصح اصوب ہے کیونکہ حضرت ﷺ سے عقیقہ ثابت ہے۔اور اس کا ترک ثابت نہیں ہے۔اور وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔تو سنت ہوا اس لئے کہ حضرتﷺ سے جو چیز ثابت ہے بغیر ترک کے وہ سنت ہے۔جب تک کوئی دلیل وجوب کی نہیں۔اور یہ جو لفظ حدیث میں امر آیا ہے۔کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرو۔

عن سلمان بن عامر الضبي قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلممع الغلام عقيقة فاهر يقو اعنه واميطو عنه الاذي رواه جماعة الا مسلما كذا في المنتقي انتهي

یہ امر وجوب پر عقیقہ پر دلیل لی جائے کیونکہ دوسری حدیث میں ( جوآگے آتی ہے۔)کہ جو شخص عقیقہ کرنا چاہے کرے۔اس اختیار دینے سے صراحۃ معلوم ہوتا ہے۔کہ عقیقہ واجب نہیں تو ضرور ہوا کہ حدیث سابق امر کو وجوب کیلئے نہ لیں ۔تاکہ دونوں حدیثوں میں مطابقت ہوجائے۔اور امام ابو حنیفہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔اس بات پر کہ عقیقہ مستحب ہے۔سنت نہیں۔مگر یہ استدلال صحیح نہیں۔کیونکہ اختیار کسی فعل میں شارع کی طرف سے مخالف اس کی سنت  کے نہیں ہے۔اس لئے کہ سنت میں  ہی اختیار حاصل ہوتا ہے۔بلکہ وہ مستحب ہے۔جس کو حضور ﷺ نے کبھی کیا ہو اور  کبھی چھوڑ دیا ہو۔

مافی نیل الاوطار اور کے پیدا ہونے کے ساتویں دن یا چودہویں دن یا اکیسویں دن عقیقہ کرنا بہتر ہے۔

عن سمرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كل غلام رهينة بعقيقة تذبح عند يوم سابعه ويسمي فيه ويجيق راسه

اور اگر اکیسویں دن نہ کرے۔اس سبب  سے کہ اس کو مقدور نہیں یا اور کسی دوسرے سبب سے تو جب مقدور ہو  کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اوربعد بلوغ کے باپ  وغیرہ سے طلب کرنے کا حق نہیں خود آپ اپنی طرف سے کرے۔کیونکہ حضرتﷺ نے بعد بعثت کے اپنا عقیقہ کیا ہے۔

العقيقة سنة موكده ووقتها من الولادة الي البلوغ ويسقط الطلب عن الاب والاحسن ان يعق عن نفسه بعد نبوت لما رواه البيهقي

اور لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی  کی طرف سے ایک بکرا کرنا چاہیے۔

اور جمیع احکام اس کے مثل احکام جانور قربانی کے ہیں۔کیونکہ حدیث سے کچھ فرق دونوں میں ثابت نہیں ہوتا۔مگر جن جن عیوب سے جانور قبانی کا مبرا یعنی پاک ہونا ضروعی ہے جس کی تفصیل گز ری ان سے جانور عقیقہ کا مبرا  ہونا ضروری نہیں کیونکہ کسی حدیث1سے ثابت نہیں ہوتا۔

الثاني هل يشرط فيها ما يشرط في الاضحية و فيه وجهان للشافي فقد استد لال با طلاق الشائين علي عدم الاشتراطك وهو الحق لكن لا لهذا اطلاق بل بعدم ودود

 1۔جب گزشتہ احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔کہ عقیقہ کو بھی رسول اللہ ﷺ نے قربانی فرمایا ہے۔تو احکام عقیقہ الگ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

 ما يدل ههنا علي تلك الشروط و العيوب المذكورة في الا ضحية وهي احكام شرعية لا تثبت بدون دليل انتهي

اور اس کےکھانے کا بھی حکم گوشت قربانی کا حکم ہے۔یعنی کرنے والا کھا وے اور دوسرں کو کھلادے ی جو مشہورکہ مان باپ عقیقہ کا

گوشت نہ کھاویں بالکل بے اصل ہے اور اسی طرح سے عقیقہ میں سے دائی کودینا جیسا کہ مروج  سے ضروری2 نہیں ہے۔لیکن وہ اگر محتاج ہو تو بذمرہ محتاجان وہ بھی مستحق ہے۔چنانچہ اس بارہ میں شاہ عبد العزیز صاحب کا فتویٰ ایسا ہی ہوچکا ہے۔اور لڑکے کا سر منڈا دے اور اس کے بالو ں کے برابر چاندی تول کر کے خیرات کرے۔اور اسی دن نام رکھے۔ یہ بھی سنت ہے اور عقیقہ کے لوازمات میں سے ہے۔

وعن ابي رافع ان حسن بن علي لما ولد و ارادا فاطمة ان تعق عنه بكبشين فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تقي عنه ولكن احلقي شعر راسه فتصدقي بوزقه من الورق ثم ولد حسين فضعت مثل ذالك رواه احمد

اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت حسن کے عقیقہ کرنے سے جو منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی  کہ حضرت ﷺ ان کا عقیقہ کر چکے  تھے۔جیسا کہ حدیث سابق میں گزر ا

اور عقیقہ کے مناسبت سے یہ بھی ہے۔اس لئے زکر کرتا ہوں۔ کہ لڑکے کے پیدا ہونے کے دن کان میں آذان دینی چاہیے۔

نازل شدہ درشان محمد لیس۔فقیر محمد عب الحق۔1295

الجواب صحیح۔حمید اللہ۔مدرس مدرسہ مطلع العلوم میرٹھ الجواب صحیح محمد طاہرسیٹھی۔محمد عبید اللہ مصنف تحفۃ الہند۔محمد عبید اللہ 1291

اصاب من اجاب۔حسبنا اللہ لیس حفیظ اللہ

عقیقہ سنت ہے اگر کیفیت اور کمیت میں سہولت ہے۔

امیر احمد پشاوری۔

یہ جواب صحیح ہے۔

حررہ ابو العلی محمد عبد الرحمٰن۔الاعظم گڑھی المباک پوری

الجواب صحیح والمجیب۔

حررہ  ابو عبد اللہ فقیر اللہ ۔مہتم ضلع شاہپور پنجاب ۔

مجیب صاحب نے جواب محققانہ دیا ہے۔اور بہت صحیح ہے۔لیکن یہ ضرور معلوکرنا چاہیے کہ یہ جوعوام الناس بلکہ بعض  خواص میں بھی مشتہر ہو  رہا ہے۔کہ لڑکے کیلئے نر چاہے اور لڑکی کےلئے مادہ سو یہ بات بالکل غلط ہے اور بے اثر ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے۔کے کچھ حرج و مضائقہ  نہیں۔خواہ نر ہو یا مادہ اورآذان کا حکم یہ ہے کہ داہنے کان میں آذان کہنی چاہیے اور بایئں میں تکبیر حضرات فرماتے ہیں۔کہ مولود ابو صبیان سے  محضوظ رہے گا۔

خادم شریعت رسول الاداب ابو عبد الوہاب 1300۔

الجواب صحیح۔

محمد امیر الدین۔حنفی واعظ جامع مسجد دہلی۔

خادم شریعت رسول الثقلین محمد تطف حسین 1292۔

(سید محمد نزیر حسین ۔فتاوی نزیریہ جلد2 آص 147)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 199-208

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ