سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) گائے کا عقیقہ جائز ہے یا نہیں؟

  • 3437
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1904

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گائے کا عقیقہ جائز ہے یا نہیں۔اگر جائز ہے تو سات حصے شمار کیے جائے گے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گائے کا عقیقہ کسی حدیث میں مجھے یاد نہیں۔پھر شرکت تو اور بھی قابل ثبوت ہے۔قربانی میں گائے لگتی ہے۔ مگر عقیقے کا حکم خاص ہے۔جس کی بابت فرمایا۔عن الغلام شامان لڑکے سے دو بکریاں زبح کی جایئں۔(2 زی قعدہ 1339ہجری)

تعاقب

بقرہ ما جزائے بقر عقیقہ میں آپ کو تردد ہے۔لہذا ثبوت پیش خدمت ہے۔

تریدیہ ص448 باب العقیقہ  ابن حجر (ہثیمی ) سے ہے۔

وسبع البقرة والبدنة كشاة

از حکیم عبد الرزاق آسنول ومولانا ابو القاسم  بنارسی مرحوم مفتی ۔اس اطلاع کےلئے آپ اور مولوی ابو القاسم بنارسی شکریہ کے مستحق ہیں۔گائے کا عقیقہ جائز ہے۔ (اہل حدیث سوہدرہ 16 مئی 1952عیسوی)

تعاقب۔برتعاقب اور پھر اس کا جواب۔

نوٹ۔

تعاقب کا ملخص بھی چونکہ جواب تعاقب میں آگیا ہے۔اس لئے اسی کی نقل ضروری نہیں سمجھی گئی۔(راز) از قلم جناب مولانا ابو القاسم صاحب بنارسی۔

اخبار اہل حدیث 10 اکتوبر ص13 پر ایک طویل تعاقب مضمون شائع ہوا ہے۔جس میں طبرانی  صغیر کی حدیث گائے اونٹ عقیقہ می ذبح کرنے جواز والی کے ہر راویوں پر جرح نقل کی گئی ہے۔یہ ساری بحث ایک دو رسالوں س نقل کی گئی ہے۔جو اس باب میں کچھ عرصہ ہوا ایک مولوی صاحب نے بنگال میں شائعہ کیا تھا۔یہی جرحین مولوی عبد الحنان صاحب دلال پوری نے بھی 1921 میں اخبار اہل حدیث میں شائع کرائی تھی۔میں نے انھی دنوں اس مسئلہ پر ایک مضمون اخبار اہل حدیث میں شائع کروایا تھا۔جس میں نہایت تفصیل سے ان اعتراضوں کا جواب دیا گیا تھا۔ جن کو اب مولوی عین الحق صاحب دلال پوری نے دوبارہ اخبار اہل حدیث میں شآئع کرادیا۔اور اسکے وما لہ وماعلیہ پر معقول بحث کی جا چکی ہے۔میں نے لکھا تھا کہ حافظ ابن حجر جو اصول حدیث کے بھی مصنف ہیں۔اور اسماء الرجال کے بھی جن کی شرح نخبہ سے اب بھی متعاقب نے استدلال کیا ہے۔جنھوں نے ذہبی کی میزان الاعتدال پر لسان میزان لکھی ہے۔اور اس میں ان راویوں پر وہ تمام جرحین مرقوم ہیں۔جو متعاقب نے لکھی ہیں۔باوجود اس بات کے علم کے وہ حدیث مذکور کوفتح الباری میں نقل کرتے ہیں۔اور کسی راوی پرکوئی جرح نہیں کرتے۔اور مقدمہ بھی لکھ چکے ہیں۔ کہ شرح بخاری میں جن احادیث کو میں بغیر جرح کے نقل کروں گا۔وہ صحیح ہوگی یا حسن علاوہ ازیں اسی حدیث کے راوی انس اپنے بچوں کے عقیقے میں اونٹ ذبح کر تے ہیں۔ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اونٹ زبح کرتے ہیں۔دیگر صحابہ کا بھی یہی تعامل رہا ہے۔جیس کہ حافظ ابن قیم نے تحفۃ الودود باحکام المولود میں بالتفصیل نقل کیا ہے۔پھر جمہور محدثین کا بھی یہی تعامل رہا ہے۔ اور دلیل وہی ہے۔حدیث آخر میاں صاحب کا بھی (فتاوی نزیریہ جلد دوم ص448 راز) بھی یہی ہے۔اور جرحین سب کے سب مبہم اور غیر مفسر ہیں۔تو کیونکہ حدیث مذکورہ مردود ہوگی۔یہ ساری بحثیں اخبار اہل حدیث جلد19 ص2 23 دسمبر 1921ء نمبر 5۔32۔34۔35۔36۔37۔39 از 9 جون 1923 تا 28 جولائی نمبر 32 میںشائع ہو چکی  ہیں۔جن صاحبوں کے پاس مذکورہ پرچے موجود ہوں۔ وہ دلال پوری صاحب کے اعتراض کا شافعی جواب ملاحظہ کرلیں۔اور مدیر اہل حدیث اگر مناسب سمجھیں تو اس مضمون کو کسی پرچے میں شائع کر دیں۔غرض متعاقب کے تعاقب سے کوئی صاحب  دھوکا نہ اٹھائیں۔ان کی ساری جرحین مرفوی ہیں۔

نوٹ۔

کوئی صاحب  متعاقب کا اصل مضمون ملاحظہ کرنا چاہیں۔ تو وہ اہل حدیث 10 اکتوبر 1930 ء پھر 17 اکتوبر 30 ملاحظہ کر لیں۔راز مرحوم (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر1 ص596۔597 دہلی)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 193

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ