السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں اہل علم اس مسئلہ میں کہ عید الاضحیٰ کے بعد قربانی کرنا کتنے دن تک درست ہے۔مذہب آئمہ اوراحادیث سے اس کی وضاحت فرمائی جاوے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں آئمہ کے قریبا ً سات قول ہیں۔عید کے بعد دو دن2۔امام مالکؒ ۔امام ابو حنیفہؒ۔امام احمدؒ کا جو مسلک ہے۔عید کے بعد تین دن ۔عطا۔حسن بصری۔امام اوضاعیؒ۔امام شافعیؒ۔ابو ثوری وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔
3۔عید کے بعد چھ دن تک یہ قتادہ کا مذہب ہے۔
4۔دس دن تک یہ ابن تیمیہ ؒ کا خیال ہے۔
5۔زوالحجہ کے بیس دن یعنی آخر ماہ تک (حسن بصری۔محمد بن عبد العزیز۔سلیمان بن یسا۔ابو مسلم بن عبد الرحمٰن۔
6۔عام شہروں میں صرف ایک دن اور منٰی میں تین دن سعید بن جبیر۔جابر بن زید۔)
7۔صرف عید کے دن (ابن سیرین۔حمید بن عبد الرحمٰن۔محمد القاری ص114 ج 10 نیل الاوطار ص216 ج 5 معنی ابن قدامہ مع شرح ص114 ج 11 فتح الباری ص323۔325)
ان مذہب سے سب سے پہلا اور دوسرا مذہب معمول بہا ہے فقہا حنفیہ کا رجحان پہلے مسلک کی طرف ہے۔ہمارے ملک میں چونکہ عام لوگ حنفیہ ہیں۔اور وہ دوسرے مسلک کو ناپسند کرتے ہیں۔اس لئے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ دوسرے مسلک کی وضاحت کی جائے۔تاکہ کم علم۔اور جاہل لوگ عامۃ المسلمین میں منافرت پھیلا کر مسکین اور مسلمان جس پر چاہیں عمل کریں۔۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں۔
الاضحية جائزة يوم النحر وايام من كلها مني لانها ايام الفسك الخ
قربانی منٰی کے تمام دن جائز ہے۔کیونکہ یہ حج کے ایام ہیں۔پھر فرماتے ہیں۔
فان قال قائل في الحجة وان ايام مني ايام اضحي كلها قيل كما كانت الحجة بان يومن بعد يوم النحر يومي الضحية فان قال قائل فكيف ذالك قيل نحر النبي صلي الله عليه وسلم
اگر پوچھا جائے کہ اس کی کیادلیل ہے کہ سارے ایام منیٰ(10 زی الحجہ سے 13 تک میں قربانی درست ہے۔) جواب یہ ہے کہ عید کے دو دن قربانی جس دلیل سے درست ہے۔اسی دلیل سے تیسرے دن بھی جائز ہے۔آپﷺ نے خود تو قربانی عید کے پہلے دن فرمائی اس کے بعد نہ دو دن قربانی سے روکا نہ تیسرے دن کےلئے یعنی 13 تاریخ کیلئے۔گیارہ اور 12 سے الگ نہیں دیا۔ بلکہ جب احکام حج میں وہ ان کے ساتھ برابر ہے۔تو قربانی میں ان سے بلا دلیل الگ کیوں کیا جائے۔اگر پوچھا جائے کہ اس کے متعلق کوئی حدیث ہے۔تو جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سنت مٰں اس پر دلیل موجود ہے۔مختصر مزنی ص214 ۔جلد5 بر حاشیہ کتاب الام میں بھی مختصراً اس کی تایئد موجود ہے۔
ابن قدامہ مغنی میں اس مسلک کے متعلق فرماتے ہیں۔
روي ان علي اخره اخر ايام تشريق وهو ومذهب الشافعي وقول عطاء والحسن لانه روي عن جبير بن مطعم ان النبي رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ايام مني كلها منحر(ص112 ج 11)
ذبح آخری ایام تشریق تک درست ہے۔امام شافعی عطا ء حسن بصری کا یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل جبیر بن مطعم کی حدیث ہے۔
امام شوکانی جبیر بن مطعم کی حدیث پر گفتگو کے بعد فرماتے ہیں۔
وقد اسفدل الحديث علي ان ايام التشريق كلها ايام ذبح وهي يوم النحر و ثلثهت ايام بعده وقد تقدم الخلاففيها في كتابالعيدين وكذالك روي في الهدي عن علي انه قال ايام النحر يوم الاضحي وثلثة ايام بعده و كذا احكاء النووي عنه في شرح مسلم وحكاه اليضا عن جبير بن مطعم وابن عباس وعطاء والحسن البصري وعمر بن عيد العزيز وسليمان بن موسي الاسدي فقيه اهل الشام ومكحول والشافعي و داود الظاهري وحكاه صاحب الهدي عن عطاء ولاوزاعي وابن المنذر ثم قال روي من وجهين مختلفين يشد احد هما الاخر عن النبي صلي الله عليه وسلم انه قال كل مني منحر و كل ايام تشريق ذبح وروي من حديث جبير بن مطعم وفيه النقطاع ومن حديث اسا مه بن ذيد عن عطاء عن جابر قال يعقوب بن سفيان اسامة ابن ذيد عنه اهل المد ينة ثققه مامون
یہ حدیث دلیل ہے ۔اس امر کی کہ تمام تشریق میں ذبح درست ہے۔یعنی یوم النحر اور اس کے بعد تین دن زادالمعاد میں حضرت علی سے منقول ہے۔کہ قربانی عید کے بعد تین دن تک درست ہے۔اسی طرح نووی نے مسلم کی شرح میں لکھا ہے۔او ر جبیر بن مطعم اور ابن عباس عطا حسن بصری۔عمر بن عبد العزیز۔سلمان موسیٰ اسدی سے جو شام کے فقہیہ ہیں۔مکھول امام شافعی اور دائود ظاہری سے نقل کیا ہے۔ابن قیم نے عطا اور اوزاعی اور بن منذر کا مذہب بیان کیا ہے۔پھر فرمایا یہ حدیث دو طریق سے مروی ہے۔جو ایک دوسرے کیلئے تقویت کا موجب ہے۔ جبیر بن مطعم کے طریقے میں انقطاع ہے۔جابر کی حدیث اسامہ بن زید کے طریق سےمروی ہے۔کہ اسامہ بن زید اہل مدینہ میں بہت ثقہ ہیں۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
قال اين بطال تيما للطحاوي لم ينقل عن الصحابة غير هذين اللقولين
صحابہ سے ان دو مذاہب کے سوا کوئی منقول نہیں۔اوردوسرے قول (یعنی قربانی چار دن ہے) کو جمہور کا قول فرماتے ہیں۔
وحجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رفعه فجاج مني منحر وفي كل ايام التشريق ذبح اخر جه احمد لكن في اسنادهاانقطاع ووصله الدار قطني و رجاله ثقات
(فتح الباری ہند ص325۔323)
جمہور کی دلیل جبیر بن مطعم کی حدیث ہے۔سارے ایام تشریق میں ذبح کرنا درست ہے۔اسے احمد نے معارض فرمایا اس کی روایۃ میں انقطاع ہے۔دارقطنی نے اسے موصول بیان فرمایا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
اس حدیث کو احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں زکر کیا ہے۔لیکن اسی انقطاع میں عبد الرحمٰن بن ابی حسین جبیر بن مطعم سے نہیں بقی نے اسے معرفۃ السنن والاثار میں زکر فرمایا ہے۔اور انقطاع کا زکر نہیں کیا۔دار قطنی نے ابو سعید کے طریق سے زکر کیا ہے ۔اورابو سعید میں معمولی ضعف ہے۔بزار کی زکر میں سوید ثقہ نہیں۔انفراد کی صورت میں یہ حجت نہیں۔
جبیر بن مطعم کی حدیث مختلف طریق سے مقطوع مرفوع ثقات ضعاف سب سے مروی ہے۔تمام طریق میں کچھ نہ کچھ نقص ہے۔مگر اس کے باوجود مجموع طرق سے ثابت ہے۔کہ حدیث کی کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے۔اسی لئے آئمہ حدیث کا رجحان اسی طرف ہے۔کیونکہ باقی مسلک یا تو بالکل نے دلیل ہیں۔یا ان کی بنیاد محض آثار صحابہ پر ہے۔چنانچہ احناف کے مسلک کا بھی یہی حال ہے۔پھر ان آثار میں غرابت بھی ہے۔زیلعی نصب الرایہ میں حضرت عمرو ابن عباس کے آثار کا زکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔قلت غریب جدا۔بہت ہی غرابت ہے۔(ج2 ص212)
ظاہر ہے امام شافعی کا مسلک جمہور کا مسلک ہونے کے علاوہ دلیل کے حساب سے بھی نسبتاً مضبو ط ہے۔اس لئے اس مسلک پ عمل درست ہے۔اور انکار جہالت۔
امام بیہقینے جبیر بن مطعم کی حدیث کے تمام طرق کا زکر کیا ہے۔اور معاویہ بن یحیٰ صد فی کے طریق میں ابو سعید اور ابو ہریرہ دونوں س نقل کیا ہے۔ابن عباس۔عطا۔عمربن عبد العزیز۔ سلمان بن موسیٰ اور مکحول کے آثار کی رسانید بھی زکر کی ہیں۔جن سے مجموعی طور پر اس مسلک کے ماخذ کی قوت معلوم ہوتی ہے۔
(سنن بہقی۔ج2 ص 295)
علامہ ترکمانی حنفیہ کے لئےمتعصب مشہور ہیں۔وہ بھی فرماتے ہیں۔
لم يصح في هذا الباب عن النبي صلي الله عليه وسلم شئ (ج8 ص267)
یعنی آنحضرت ﷺ سے اس مسئلہ میں دونوں طرف کوئی حدیث ثابت نہیں۔سارا مدار آثار صحابہ پر ظاہر ہے۔کہ اس صورت میں کسی مسلک پر انکار دیانت کے بھی خلاف ہے۔
علامہ جبیر بن مطعم کی حدیث کے بعد فرماتے ہیں۔
رواه احمد وروي الطبراني في الاوسط عنه ايام التشريق كلها ذبح و رجال احمد وغيره ثقات(مجمع الزوائد ج4 ص34)
احمد اور طبرانی نے اوسط میں اس حدیث کا زکر کیا اوراحمد وغیرہ نے رجال ثقہ ہیں۔
حافظ دارقطنی نے حدیث جبیر بن مطعم کو مرفوعاً زکر فرمایا ہے۔اور صاحب تعلیق المغنی نے نصب الرایہ کا اقتباس نقل فرمایا ہے۔جس سے حدیث جبیر بن مطعم کا مقام ظاہر ہوتا ہے۔اور اس کے ساتھ احناف کے مسلک اور ان کے دلائل کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔دیانت دا ر آدمی کیلئے دونوں مسلکوں میں ترجیح کے وجوہ آشکار ہو جاتے ہیں۔معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی دشوار ی نہیں۔مگر تنگ دل اور متعصب کیلئے نصوص بھی کفایت نہیں کر سکتے۔
حافظ ابن القیم فروع میں فرماتے ہیں۔اور حنابلہ کا مسلک اس مسئلہ میں احناف ہی سے ملتا ہے۔مگر دلیل کی قوت کے پیش نظر ان کی رائے کا رجحان امام شافعی اور آئمہ حدیث کی طرف ہے وہ پوری جرائت ک ساتھ اس مسلک کی حمایت کرتے ہیں۔مختصر بحث کے بعد فرماتے ہیں۔
وقد قال علي ابن ابي طالب ايام النحر يوم الاضحي وثلثة ايام بعده وهو مذهب ايام اهل البصرة والحسن وامام اهل مكه عطاء ابن ابي رباح و امام اهل الشام الاوزاعي وامام فقها ء اهل الحديث الشافعي واقتاده ابن المنذر ولان الثلاثة مختص بكونها ايام مني و ايام الوحي وايام التشريق و يوم السيا مها نهي لغوة في هذا الاحكام فكيف تصدق في جواز الذبح بغير نص1ولا اجماع وروي من وجهين مختلفين بسند احد هما الاخر عن النبي صلي الله عليه وسلم انه قال كل مني نحر كل ايام التشريق ذبح وروي عن حديث جبيير بن مطعم وفيه انقطاع ومن حديث عطاءعن جابر قال يعقوب بن سفيان اسامة بن زيد عند اهل المدينة ثققه ما مون ذادالمعاد (ج1 ص 246)
بعض کم فہم اور متعصب حضرات سارا زور جبیر بن مطعم کی حدیث اور اس کی جرح میں صرف کر دیتے ہیں۔حالانکہ جبیر بن مطعم کی حدیث استدلال کی بنیاد نہیں۔بلک موید ہے۔اصل بنیاد دونوں مسلکوں میں مشابہت ہے۔جہاں دونوں کا زکر ہے وہاں تیسرے سےروکنے کا کوئی قرینہ نہیں۔اور ایام منیٰ میں تشابہہ اور مضاحات ظاہر ہے۔اس لئے حافظ ؒ نے جبیر بن مطعم کی حدیث کا زکر صرف تذکرہ اور تائیداً کیا ہے۔اسے اساس استدلال قرار نہیں بتایا یہ وہ انصاف پسندی ہے۔جو تقلید اور جمہود کے بعد کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔وہ امام احمد کے مسلک کوجانتے ہیں۔مگر دلائل کے ساتھ جا رہے ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جن سے ایمان اور دیانت کی سر زمین ہمیشہ سر سبز و شاداب رہے گی۔رضی اللہ عنہم
الحافظ ابن تیمیہ نے جبیر بن مطعم کی حدیث کے بعض طرق زکر کر کے فرمایا۔
هذا الطرق التي روي بها كلها متقطعات ولكن رواه ابن حبان في صحيح موصولا بنحر هذا المتن (منتقی الاحبار جلد 2 ص 308)
یہ تمام طرق منقطع ہیں۔لیکن ابن حبان نے یہ تین موصول بیان کیا ہے۔یہ عبارت منتقی کے مصری نسخہ میں ہے۔غالباً ہندوستانی نسخے میں نہیں۔اس سے ظاہر ہے کہ ابن حبان نے اس تین کو موصولاً بیان کیا ہے۔گویا انقطاع کی علت جاتی رہی۔اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے۔ تو یہ مسلک بہت جلد مظبوط ہو جائے گا۔
اس وقت کسی مسلک پر تنقید کرنا مقصود نہیں۔ویسے بھی موضوع بہت طویل ہو گیا ہے۔تلخیص الجبر الدوایہ نے تخریج احادیث الہدایہ س استفادہ اسی لئے نظر انداز کر دیا ہے۔لیکن علامہ ترکمانی کی روش عجیب ہے۔وہ اپنے مخالف کو بھی نہیں بخشتے۔اور نہ ہی کسی کو جائز رعایت دینے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں۔لیکن اپنے مسلک کی تمام کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے جیسے قول ابن قیم و علامہ ترکمانی اس موضوع پر کوئی حدیث مرفوع نہیں۔آیا یہ جرح سے خالی نہیں۔علامہ طحاوی کا ارشاد ابن عباس کے قول کی سند جید ہے۔یہ بھی محض تسکین قلب کا سامان ہے ورنہ ابن حزم چونکہ بقیہ زوالحجہ میں قربانی کے قائل ہیں۔اس لئے انھوں نے دونوں مسالک کے آثار پر بھی گفتگو فرمائی ہے۔ان کی رسانید کا جائزہ لیا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلک کوبھی دوسرے پر اعتراض کا حق نہیں۔امت کا تعامل دونوں مسالک پرعمل کرتے تھے۔بلکہ عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر سے دونوں مسلک مروی ہیں۔(محلی ج7 ص377)
آثار کی رسانید پر بحث فرمائی۔زرقانی نے شرح موطا میں امام شافعیؒ کا مسلک زکر فرما کر ابن حبان کی حدیث کو زکر کیا ہے۔اس کی سند پرجرح نہیں کی۔البتہ اپنے مسلک کے مطابق اس کی توجیہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔(زرقانی مطبوعہ مصر ج3 ص79)(اخبار الاعتصام لاہور جلد 2 ش 4۔5)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب