السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علماء اس مسئلہ میں کہ بعضے عالم بنگلہ کے کہتے ہیں کہ جو جوکوئی خصاء بہائم ما کول لحم ہو ۔یا غیر کول لحم ہوکر ے گا وہ فاسق ہے۔اس سے ترک اکل و شرب و ملاقات واجب ہے اور اس کے پیچھے نماز جائز ۔علمائے شرح برائے خداجواب با صواب ۔ارشاد فرما دیں۔اور اللہ تعالیٰ سے اس کا ثواب حاصل کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ور صورت مرقومہ اولا مدعی مزکور ہ پر ثبوت پہنچانا حدیث نہی خصاء بہائم کے بسند صحیح متصل لاسناد مطابق شرائط اہل حدیث و فقہ کے واجب ہے۔
ثانیاً بعد نبوت حدیث صحیح متؒالاسناد کے اس کی تعمیم میں کلام ہوگا کہ یہ نہی خصاء کے غیرماکول لحم میں وارد ہے نہ ماکول لحم میں اب ہم قطع نظر صحت حدیث و عدم صحت سے کر کے کہتے ہیں کہ نہی خصاء بہائم کے ساتھ جانور غیرماکول لحم کی خاص ہے جیسے خرو خچر وٖغیرہ اور ماکول لحم اس نہی میں شامل نہیں بدلالت نص قرآنی کے کیونکہ مقصود اعظم چار پایہ ماکول لحم سے اکل ہے قطع نظر دیگر منافع عام سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اانعام فرماتا ہے۔
﴿وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٤٢﴾ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ﴾
اور جانور ماکول میں لحم لزیز و مرٖغوب فیہ اورمشتی خصی اور موجود کا ہوتا ہے۔اور اسی جہت سے آپ ﷺ نےدو کبش موجوئیین کی قربانی کی ۔
عن جابر قال ذبح رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم الذيح كبشين اقربين املحين موجوين الي اخر ما رواه احمد و ابوداود و ابن ماجه ودارمي كذاني المشكواة
اور لحم نہیں یعنی بوک اورفحل غیر خصی کا بدبو دار اور بدمزہ ہوتا ہے۔چنانچہ ارباب طباع سیمہ اور لطیفہ پر مخفی نہیں۔تو لحم نہیں۔اورع فحل غیر خصی کا جب مستلذات و مشتہات سے نہ ہوا تو مستلذات سے خارج ہوا او ر قسم ضد طیب میں داخل ہوا۔اور حال یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کومستلذات کھانے کا ارشاد فرمایا۔تفصیل اس اجماع کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اول سورۃ مائدہ میں فرمایا۔
﴿أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُالْأَنْعَامِ ﴾
یعنی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں جانوروں کے اکل کا حکم دیا ہے۔فرمایا کہ جن کےاکل کا حکم سورۃ انعام میں صادر ہوا بعدازاں اسی صورت مائدہ میں پھر فرمایا۔
﴿يَسْأَلُونَكَ مَاذَاأُحِلَّلَهُمْ ﴾
پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم مطعوعات وماکولات مستلذات کے کھانے کا امر فرمایا۔اور شرح ان آیتوں کی تفسیر کبیر سے بخوبی لکھی جاتی ہے۔
﴿يَسْأَلُونَكَمَ اذَاأُحِلَّلَهُمْۖ قُلْ أُحِلَّلَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ﴾
وهذا متصل بما تقدم من ذكر المطاعم والماكل المسئلة الثالثة العرب في الجاهلية كانو ا يحرمون اشيا من الطيبات كالجيرة والسائبة والوصيلة والحكام فهم كانوا يحكمون بكونها طيبة الا انهم كانوا ايحرمون اكلها بشبهات ضعيفة فذكر تعالي ان كلما يستطاب فهو حلال واكد هذه الاية بقوله
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَاللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ وَيُحِلُّلَ هُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُالْخَبَائِثَ﴾
واعلم ان الطيب في اللغة هو المستلز والحلال الما ذون فيه يسمي الضا طيبا تشبيها بما هو مستلز لا نها اجتمعا في انتفاء المنصورة واعلم ان الطيب في اللغة هو المستلز والحلال الما ذون فيه يسمي الضا طيبا تشبيها بما هو مستلز لا نها اجتمعا في انتفاء المنصورة فلا يمكن ان يكون المراء بالطيبات ههنا المحللات و الا لصار تقديرا الا ية قل احل لكم المحللات ومعلوم ان هذا ركيك فوجب حمل الطيبات علي المستلزت المشتي فصار التقدير احل لكم ما يستلزويشتهي ثم اعلم ان العبرة في الا ستلزازوالا ستطابة با هل المروة والا خلاق بحيلة فان اهل البادية يستطيبون اكل جميع الحيوانات و يناكد دلامةهذه الاية بقوله تعالي فهذا يفقضي النمكن من النتفاع بكل ما في الارض الا انة تعالي ادخل التخصيص فيه ذلك العموم فقال
﴿وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُالْخَبَائِثَ﴾
ونص في هذه الايات الكثيرة علي اباحة المستلزات والطيبات فصار هذا اصلا و قانونا مرجوعا اليه في ما يحل و يحرم الاطعمة انتهي ما في التفسير الكبير بقدر الحاجة
اب دانش مندان شرع شریف غور فرمایئں۔اس مقام میں کہ اصل غرض و مطلب تحریر آیات بینات مذکورہ بالا ہے۔یہ کہ رب العباد نے اپنے بندگان مسلمین کو ازن واجازت کھانے پینے مستلزات کی فرمائی او ر ہدایت کی زیادہ ترطعام خور دنی روز مرہ عرب و عجم کا گوشت اونٹ اور بقر و غنم کا دستورالعمل رہا ہے اور غنم اور بقر میں خاص کرگوشت خصی کا لذیز اور کما ل مرغوب ہوتاہے۔چنانچہ اہل مذاق صافی طبع اسکو خوب جانتے ہیں۔اور گوشت تیس یعنی بوک اور مخل غیر خصی کا نہایت بدبو دار اور مکروہ ہوتا ہے۔ کیونکہ تیس میں گونہ خبث پائی جاتی ہے۔1کہ استی فائے منافع کما حقہ اسے حاصل نہیں ہوسکتا اسی سبب سے آپﷺ نے اس کو ذکواۃ میں دینے سے منع فرمایا
1۔کیونکہ کثرت شہوت کی وجہ سے اکثر آلہ تناسل کو چوستا ہے۔(سعیدی)
غور کرو کہ قسطلانی ؒ نے تیس کو افراد خبیث میں شمار کر کے مصداق آیت کریمہ مذکورہ کا ٹھیرایا اورعمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں کہا۔
اور اگر بزعم فاسد مدعی نا ہی غنم اور ب قر میں دستور خصی اور وجاء کرنے کا نا ہوتا تو کوئی قسم مستلذات کی غنم و بقر میں نا پائی جاتی حالانکہ شارع لطیف خبیر نے بندوں کو مستلذات کھانے کا حکم فرمایا اور جو کوئی خصی اووجاء کرنے سےمانع ہواورفاعل اس کے گناہ گار جانے وہ مخالف حکم الہیٰ کا ہوگا۔بنا بر انکار دلالت نص قرآنی مذکورہ بالا کے اور بسبب خبث بدبوئے لحم تیس کے علمائے ماہران نصوص قرآنی کے نہی خصاء بہائم میں غیر ماکول لحم کے قائل اورمجوز ہوئے اور ماکول لحم کو نہی سے خارج کیا کہ خبت بد بوئے کی او وجاہ کرنے سے زائل ہو اور طیب ، مستلذات خائص ہو جاوے۔بحکم شارع عزوجل کے اور جو تمام تر غنم او بقر تیس ہے او تحل ہے بزگم زاعم زمانہ آپﷺ میں رہتے اور خصی اور موجود نہ ہوتے توزکواۃ دینے میں ممانعت خاصی کی کیوں ہوتی اس لئے کہ اگر تمام غنم ، بقر غیر خصی ہوتے تو زکواۃ انہیں غیر خصی میں سے دیجاتی بنا بریں اس کے کس صفت کے جانور ہوں اسی صفتزکواۃ دی جاتی ہے۔شرعاً مثلا اگر سب جانور عیب دار ہوں۔تو زکواۃ لینے والا ہوئے۔ایک جانور عیب دار اوسط درجہ کا چنانچہ تشریح اس کی شرح حدیث اورفتاویٰ1مطولات ہر مذہب میں بوجہ بسط و تفصیل مذکورہ ہے کما لا يخفي علی الماہر المسائل الشرعیہ اورعرف عام اورعادت معہودہ قدیم الایام سے جاری بھی ہے۔بقدر اعداد ریوڑ غنم اور گلہ بقر کی تیس اورفل غیر خصی بقصد احبال اور گابہہ کی دو چار رہتے ہیں۔اور باقی سارے خصی اورموجوہ ہوا کرتے ہیں۔اوربنا پر اس اسم و رواج قدیم کے معمول تھا۔آپ ﷺ کا کہ دو کبش ،موجو خرید کر کے ہرسال قربانی کیا کرتے تھے۔ایک کبش موجور1امت کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور آل اطہار کی طرف سے چنانچہ ابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
1۔یعنی خصی کیا ہوا۔(سعیدی)
باب اضاحي رسول الله صلي الله عليه وسلم حدثنا محمد بن يحي حدثنا
پس حدیث ابن ماجہ سے صاف ظاہر ہوتاہے۔کہ عادت شریف آپ ﷺ کی یہ تھی ہر سالدو کبش موجوء یعنی خصیہ سودہ و کوفتہ قربانی کیا کرتے تھے۔چنانچہ ترکیب کان ازا کی عادت معہو وہ پر دال صریح ہوتی ہے۔(متفق علیہ)(رواہ مسلم۔نسائی۔عن البراء ولابخاری)
عن حذيفة كان اذا ارادا ان نيام وهو جنب غسل فوجه وتوضا للصلواة كما رواه الشيخان و ابو داود والنسائي كان اذا
اور نظائر ترکیب کان ازا کے بہت چند نظیریں واسطے تنبیہ نا واقفون کے لکھ دیں او ر جو خصی او غیر موجو کرنے کا دستور نہ ہوتا تو ہر سال آپﷺ موجوء خرید کر کہاں سے قربانی کرتے ۔
اور خصی کرنا بزعم زاعم مثلہ اور منی عنہ ہوتا شرعا ً تو زمانہ نزول وحی میں منع ہوتا ۔جیسے سرور کائنات نے نماز جنازہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی پڑھی تو اس پر نہی وارد ہوئی۔اور خصا کرنے میں نہی وارد نہ ہوئی بلکہ اس کاروج مستمر رہا۔پس اس میں جواز خصا کی پائی گئی نہ انکار۔اور جو چند اشخاص سلف سے تفسیر آیت کریمہ
فليغيرن خلق الله
میں خصا مروی ہے۔سو مرفوع نہیں اور غیر مرفوع حجت نہیں ہے۔
عند المحدثين كما لا يخفي علي الماهر با صول الحديث و الفقه
مثلا و اصل رحم محمود ہے با عتبار صلہ رحمی کے
كما لا يخفي علي المتامل الزكي
قال ابن عباس والحسن و مجاهد وقتادة وسعيد بن المسيب والضاك يعني دين الله نظيره لا تبديل لحق الله اي دين الله بتحليل الحرام و تحرير الحلال انتهي ما في المعالم مختصرا
پس از روایت ابن ماجہ وغیرہ ہوید اگر دید کہ مرٖغوب خاطر عاطر رسول اللہﷺ درقربانی گو سپند موجوء دخصی بودلہذا وقت ارادہ قربانی گوسپند موجوء و خصی بود دخصی خرید فرمودہ قربانی می کر دند و رغبت بسوئے شی نمی باشد مگر بعد ،وجودان شی پس اگر دستور ،و رواج خصی کردن ووجاء نمو دن بنو دے چگو نہ رغبت بان شی شد ہے واگر نہی عنہ بودے نہی ازامی فرمودند بحکم رسالت چنانکہ عادت شریف آنحضرت ﷺ بود کہ وقت یہ کہ چیز ے مہی عنہ مشد غصہ و ناخوش بودہ برسبیل عموم ارشاد می فرمودند کہ ما بال الناس يفعلون کز او کز وچوں دو بز موجو و و خصی برفارش نہی زجرنہ فرمودند پس در چیز اباحت بلا ریب داخل شد قطع نظر از سنت و مستحب بودن و سکوت و نقر یر بران مستزم جواز اباحت لامحالہ خواہد بودکما لا يخفي علی الماہر با شریقہ المحمدیہ علی صاحبہا الف صلواۃ و تحیۃ واللہ اعلم(سید محمد نزیر حسین عفی عنہ)(1281سید محمد نزیر حسین)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب