السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احکام قربانی کے کیا کیا ہیں۔تفصیلا بیان فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اضحيه یعنی قربانی میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت موکدہ مگر مذہب صحیح و محقق یہی ہے۔کہ سنت موکدہ ہے۔اور یہی مذہب ہے۔جمہور کا اور بخاری نے ایک باب اس کی سنیت کا منعقد کیا ہے۔اور یہی دلائل اس کی سنیت پر ہیں۔بخوف تطویل اختصار کیا۔واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب پر کوئی دلیل نہیں اور نہ کسی صحابی سے وجوب منقول ہے۔اور حدیث جو ابن ماجہ میں بھی ہے۔کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے شخص باوجود قدرت کے قربانی نہ کرے وہ ہماے مصلی میں نہ حاضر ہو۔
عن ابي هريره ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال من كان له سعة ولم يضح فلا يقر بن مصلانا (رواہ ابن ماجه)
اول تو اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔اصوب یہی ہے کہ موقوف ہے۔دوسرے اس سے وجوب نہیں نکلتا۔بلک تاکید نکلتی ہے۔جیسا کہ کچے پیاس وغیرہ کے کھانے میں فرمایا کہ مسجد میں کھا کر نہ آئو حالانکہ بالاتفاق اس سے حرمت نہیں نکلتی اسی واسطے حضرت سے حلت ثابت ہے۔كما لا يخفي عن من له قهم سليماور سنت دلائل سےثابت ہے۔جنکی تفصیل یہاں اختصاراً نہیں کی گئی۔
اور اس کے لئے صاحب نصاب ۔زکواۃ ہونا شرط نہیں۔کیونکہ کوئی دلیل اس شرط پر نہیں ہے۔بلکہ صرف استطاعت یعنی قدرت ہونی چاہیے۔جیساکہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
كما لا يخفي اور اقامت یعنی مسافر نہ ہونا بھی شرط نہیں۔کیونکہ اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔بلکہ دلیل سے اس کا خلاف ثابت ہے۔کہ بخاری نے مسافر کی قربانی کر نے کا ایک باب منعقد کیا ہے۔اور اس میں حدیث لایا ہے کہ آپﷺ نے سفر مکہ میں قربانی کی ۔
باب الاضحية للمسافر و(النساء)فيه اشارة الي خلاف من قال ان المسافرلااضحية عليه انتهي ما في فتح الباري
اس سے صراحۃً مستفاد ہوتا ہے۔کہ اقامت شرط نہیں ہےكما لا يخفي اور مذہب حنفی میں واجب ہے صاحب نصاب زکواۃ پر جیسا کہ صدقہ فطر میں شرط اس کے کہ مسافر نہ ہو۔
اور جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھے۔اس کو چاہیے کہ جب سے زوالحجہ کا چاند دیکھے۔تب سے قربانی تک سروریش کا بال ، ناخن وغیرہ نہ لے۔
عن ام سلمة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذا رايتم هلال ذي الحجة وارادي احدكم ان يضحي فليمسك عن شعره واظفاره رواه الجماعة الا البخاري كذاني
اور وقت اس کا بعد نماز کے ہے۔قبل نماز کے جائز نہیں۔اور اگرکوئی نماز کے قبل کرے گا تو جائز نہ ہوگا۔دوسرا کرنا ہوگا۔کیونکہ بخاری میں روایت ہے۔کہ آپﷺ نے فرمایا!سنت یہ کہ پہلے نماز پڑھے پھر قربانی کرے۔اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اس کی قربانی صحیح نہ ہوئی۔وہ اس کے کھانے کا گوشت ہے۔دوسری قربانی کرے۔
عن البراء قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان اول ما نبد ا في يومنا هذا ان نصليثم فرجع فتنحر من نعله فقد اصاب سنتنا و من ذبحقبل فانما هو لم قد مه لا هله ليس من النسك فيشئ الحديث رواه البخاري
اور حنفی مذہب میں بھی یہی وقت ہے۔مگردیہاتی لوگوں کے لئے وقت
اورسن بکری1 کا ایک سال یعنی ایک پورا اور دوسرا شروع اورگائے اوربھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسراشروع اوراونٹ کا پانچ سال اور چھٹا شروع ہوناچا ہیے۔اور بھیڑ ایک سال سے کم کا بھی جائز ہے۔بشرط یہ کہ خوب موٹا اور تازہ ہو۔کہ سال بھر کا معلوم ہوتاہو۔اسلئے کہ حدیث میں آیا ہے۔کہ سال سے کم عمر کی قربانی نہ کرو۔اورضرورت کے وقت بھیڑ کا جزعہ کرلو۔
عن جابر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تذبحوا الا مسنة الا ان يعسر عليكم فتذبحو ا جذعة من الضان رواه الجماعة الا البخاري كذافي منتقي الاخيار
اور مسنہ پرجانور میں سے ثنی کو کہتے ہیں۔اورثنی کہتے ہیں بکری میں سے جو ایک سال کی ہو۔دوسرا شروع اورگائے بھینس میں جو دوس سال کی ہو تیسراشروع اوراونٹ کا جو پانچ سال ہو چھٹا شروع ہو۔
1۔یعنی بکری دوسرے سال میں او رگائے بھینس تیسرے سال اوراونٹ چھٹے سال میں عموما ً دودانت ہوتے ہیں۔اسلئے بکری کیلئےدو سال گائے کیلئے تین سال اور اونٹ کیلئے چھٹے سال کازکر کیا ہے۔
قوله الامسنة قال العلماء المسنة هي الثنية من كل شئ من الابل والبقر والغنم انتهي ما في نيل الاوطار والثني من الشاةما دخل في السنة الثانية كذافي مفردات القران للامام الراغب القاسم الحسين وهوا المقدم علي الغزالي والقاضيى ناصر الدين البيضاوي منتهي
العرب میں ہے۔
ثني كغتي شتر در سال ششم در امده انتهي والثني منها ومن المعزين سنة ومن البقر ين سنتين ومن الابل بن خمس سنين ويد خل في البقرة الجاموس لانه من جنسه انتهي ما في الهداية
اورجزعہ بھیڑ میں سے اس کوکہتے ہیں۔جوسال سے کم ہو۔
الجزع من الضان ما تمت له ستة اشهر في مذهب الفقهاء وذكر الزعضراني انه ابن سبعة اشهرا نتهي ما في الهداية
مگربشرط مذکورہ
قالو اهذا اذا كانت عظيمة بحيث لو خلط باثنا يا يشبته علي الناظر من بعيد انتهي ما في الهداية 1
1۔یہ سب فقہی عبارتیں جمع کی گئی ہیں۔لغت عرب اورمحدثین کی تحقیق مقصود ہوتو قربانی کے جانوروں پر ایک تحقیقی مقالہ جوآگے آرہا ہے۔اس کا غور سے مطالعہ کریں۔(سعیدی)
اور شرط یہ ہے کہ جانور قربانی اتنے عیوب سے خالی ہو۔او ر یہ کہ سینگ اُس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ نہ کٹا ہو۔دوسرے اس طرح کان نہ کٹا ہو تیسرے کانا یا ندھا نہ ہو۔چوتھے یہ کہ چوتھے یہ کہ ظاہر لنگڑا نہ ہو۔پانچویں یہ کہ بیمار نہ ہو چھٹے یہ کہ اتنا بوڑھا نہ ہو کہ اسکی ہڈی کا گودانہ باقی رہا ہو ۔ساتویں یہ کہ اس کاکان نہ پھٹا ہو۔
(رواه الترمذي ۔ وابو داود۔دارمی۔ابن ماجہ۔مشکواۃ)
اور حنفی مذہب میں بھی ان سب عیوب سے خالی ہونا چا ہیے۔اور سوا ان کے دم بھی اس کی نصف سےزیادہ نہ کٹی ہو۔مگر یہ کے سینگ کٹے ہوئے ہوں۔ یا کان پھٹا۔یہ حنفی مذہب میں عیب نہیں ہے اور کان آدھے سے زیادہ کٹا ہو۔تب عیب ہے ورنہ نہیں۔
اور یہ عیوب جب معتبر ہیں۔کہ وقت خریدنے کے موجود ہوں۔اور جب وقت خریدنے کے جمیع عیوب مذکورہ سے مبراتھا۔اور بہ نیت قربانی کے جمیع عیوب سے سالم خرید لیا تب کوئی نیا عیب حادث ہو تو اس کی قربانی صیح ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
اور حنفی مذہب میں امیر تودوسری بدل لے اور غریب کیلئے وہی صحیح و کافی ہے۔
وهذا الذي ذكرنا اذا كانت هذه العيوب قائمة وقت الشراء ولو اشتراها سليمة ثم تعيب بعيب ما نع ان كان غنيا عليه غيره و ان كان فقيرا تجزيه هذه لان الوجوب علي الغني با لشرع ابتداء لا با لشراء فلم تتعين به وعلي الفقير ما بشرائه الا ضحية فتعينت انتهي ما في الهدايه
اور خصی کی قربانی جائز ہے۔کیونکہ رسول اللہﷺ نے خصی کی قربانی کی ہے۔
اور بہت سی حدیثیں اس مضمون کی آئیں ہیں۔بخوف طویل ایک ہی پر اکتفا کیا حنفی مذہب میں ہے۔
اورقربانی میں سے ازروئے قرآن و حدیث کے خود کھائے اور فقیروں محتاجوں کو کھلائے۔کوئی قید نہیں کہ کس قدر کھائے کس قدر فقیروں کو دے ۔فرمایا اللہ تعالیٰ نے
ترجمہ۔کھائو ان میں سے اور کھلائو بے سوال فقیر اور سوال کرنے والوں کو۔
اور حنفی مذہب میں مستحب ہے کہ تہائی فقیروں محتاجوں کو دے۔
اور قصاب کی اجرت قربانی میں سے نہ دے۔اپنے پاس سے علیحدہ دے۔
عن علي قال بعثني النبي صلي الله عليه وسلم فقمت علي البدن فامرني فقسمت لحومها ثم فقسمت جلالها و جلودها وقال سفيان حدثني عبد الكريم عن عبد الرحمان بن ابي ليلي عن علي قال امرني النبي صلي الله عليه وسلم ان اقوم علي البدن ولااعطي منها شيا في جزارتها رواه البخاري
ترجمہ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا آپ نے بھیجا مجھ کو نبی کریمﷺ نے پس کھڑا ہوا۔میں قربانیوں پر پس حکم کیامجھ کو پس تقسیم کیا میں نے گوشت ان کا پھر حکم کیا مجھ کو پس تقسیم کی میں نے جھولیں ان کی اور چمڑے ان کے او کہا سفیان ۔۔۔نے حدیث سنائی مجھ کو عبد الکریم نے مجاہد سے اور اس نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت علی سے فرمایا۔اور حضرت علی نے حکم کیا مجھ کو کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کہ کھڑا ہوں میں قربانیوں پر اور نہ دوں ان سے قصائی کی اجرت میں کھچ۔۔۔اور قربانی کے چمڑوں کو یا تو صدقہ کر دے۔جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے ظاہر ہے۔یا اس سے کوئی چیز استعمال کی مثل مشک ڈول وغیرہ کے بنا لے۔بیچے نہیں جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے ظاہر ہے اورحنفی مذہب میں بھی یہی ہے۔
ويتصدق بجلد ها لا نه جز ء منها او يعمل منه الة تستعمل في البيت كالنطع والجواب والغربال وغيرها انتهي ما في الهداية
(فتاویٰ نزیریہ جلد 2 ص 52۔53)
1۔مشہور تین دن تک ہے۔10۔11۔12 اور بعض احادیث سے چار دن 13 تک ہے۔اوربعض نے آخر ماہ تک جواز بتایا ہے دیکھو کتاب سے پہلے کا دوسرا ورق میں نے اسپر مختصر بتایا ہے۔
(سید اقتدار احمد سہسوانی)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب