السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امامان مسجد کو دینا جائز ہے یا نہیں۔ آجکل عام دستور ہے۔کہ دیہات وغیرہ میں امامان مساجد کو مقرر کرتے ہوئے لوگ یہ شرط کرلیتے ہیں۔کہ دیگر خدمات کے علاوہ صدقہ فطر اور قربانی کے چمڑے بھی تمہیں دئے جائیں گے کیا یہ صورتیں شرعاً ٹھیک ہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امامان مساجد کو زکواۃ عشر اور چمڑہ قربانی دینا منع ہے کیونکہ حدیث میں اذان پر اجرت لینی منع آئی ہے ازان امامت کے لئے ہوتی ہے تو امام پر اجرت بطور اولیٰ منع ہوئی امام کی ڈیوٹی صرف وقت کی حاضری ہے اور موذن کی ڈیوٹی اس سے زیادہ احتیاط والی ہے۔کیونکہ اصل وقت کی اطلاع وہی دیتا ہے۔جب اذان پر اجرت منع ہوئی تو معلوم ہوا کے عبادت کےلئے وقت کی حاضری اجرت کا سبب نہیں ہے اور اس میں امام بھی شامل ہے پس محض امامت پر اجرت کسی طرح بھی جائز نہ ہوئی۔ ہاں بچوں کی تعلیم وغیر پر جو محنت ہے اس کی اجرت جائز ہے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ عاملین کے حکم میں ہوگا البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کل عموماً دیہات وغیرہ میں بچوں کی تعلیم کے لئے صدقہ فطر عشر زکواۃ اور چمڑہ قربانی وغیرہ جس صور ت سے دئے جاتے ہیں یہ جائز نہیں کیونکہ اس طرح گھر کی چیز گھر ہی رہ جاتی ہے یعنی لوگوں کے اپنے ہی بچے ہوتے ہیں اور اپنے ہی صدقات ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ یہ سب چیزیں نظام امارت کے سپرد ہوکر بیت المال میں جمع ہو جا یئں۔تو اس بیت المال سے اس گائوں کے مدرس کی تنخواہ ہ دی جاسکتی ہے۔صحیح معنوں میں شرعی بیت المال کی صورت یہ ہے کہ جماعت کا امیر ہو اس کے ماتحت دیہات وغیرہ میں مقامی امیر ہوںجن کے ما تحت مقامی بیت المال ہوان کا نظام امیر جماعت کے تحت ہو اس صورت میں عشر زکواہ فطرانہ اور چمڑہ قربانی کاتعلق دینے والوں کے ساتھ نہیں رہتا بلکہ ان کے قبضہ تصرف سے نکلکرامیر کے اختیار میں ہو جاتا ہے اب گھر کی چیز گھر میں رہنے والی صورت نہ رہے گی بلکہ حسب ضرورت یہاں خرچ ہوگا اور باقی جہاں ضرورت ہوگی وہاں منتقل ہو جائے گا۔
یہ کہ صدقہ فطر عشر زکواۃ اور قربانی کے چمڑ ے یہ سب چیزیں ادا کرنے کے بعد ان کواپنے قبضہ و تصرف میں رکھ کراپنے ہی بچوں وغیرہکیتعلیم پر صرف کرناجیسے عموماً دہیات وغیرہ میں رواج ہے یہ صورت جائز نہیں۔
اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعتی دینی ادارے جو زکواۃ عشر اورچرم قربانی وغیرہ دینے والوں سے آذاد ہیں۔ان پر اُن کا تصرف و اختیار نہیں ہوتا ان میں دینے سے یہ چیزیں ادا ہوجاتی ہیں۔(اخبار تنظیم اہل حدیث 27 مئی 1960ء)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب