السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکوٰۃ کا روپیہ اسلامیہ سکول کو دے سکتے ہیں؟ اور اسلامی اسکول کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ کے مصارف قرآن مجید میں آٹھ مذکور ہیں۔ جن میں ایک فی سبیل اللہ بھی ہے۔ جمہور علماء اس لفظ کا معنی جہاد کرتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک ہر ایک کام فی سبیل اللہ کے مد میں داخل ہے آج کل ہندوستان میں جہاد جاری نہیں ہے۔ جمہور کے قول کے مطابق مصارف زکوٰۃ اس ملک میں سات رہ جاتے ہیں، وہ یہ ہیں۔ مذہب کے مطابق آٹھ بحال ہیں۔ پس دوسرے قول کے مطابق مذکورہ مصارف کے علاوہ زکوٰۃ ہر نیک کام میں لگ سکتی ہے۔ اللہ اعلم۔( اہل حدیث ۱۹ عجب ۱۳۶۶)
تنقید:… از حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مصنف تحفۃ الاحوذی رحمۃ اللہ علیہ۔
مال زکوٰۃ سے مدرسین کی تنخواہ دینا یا سامان مدرسہ فراہم کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں مال زکوٰۃ سے غریب طلباء کو دینا جائز ہے۔ اس واسطے کہ اللہ تعالیٰل نے قرآن مجید میں مال زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں۔ ان آٹھ مصارف میں غریب طلبہ داخل ہیں اور مدرس کی تنخواہ اور سامان مدرسہ ان آٹھ مصارف (؎۱) سے خارج ہیں۔ اور جس ملک میں بوجہ عدم تعلیم و تلقین کے احکام و ارکان اسلام کے جاری نہ ہوں، وہاں مدرسہ اسلامیہ ہونا بہت ضروری ہے وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ علاوہ مال زکوٰۃ کے تھوڑی تھوڑی اعانت کر کے حسب حیثیت ایک مدرسہ قائم کریں۔ بڑا نہیں تو چھوٹا ہی سہی اور یہ عذر کہ وہاں کے مسلمان صرف زکوٰۃ سے مدرسہ کی مدد کرسکتے ہیں کیونکہ وہاں کے مسلمان جیسے اپنے دنیاوی ضرورتوں میں خواہ مخواہ علاوہ زکوٰۃ کے اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں۔ اور ان کو کچھ معذوری نہیں ہے، اسی طرح وہاں ایک مدرسہ اسلامیہ کا قائم ہونا ایک دینی ضرورت ہے۔ اور شدید ضرورت ہے تو اس میں بھی علاوہ زکوٰۃ کے تھوڑا تھوڑا بقدر حیثیت ان کو خرچ کرنا چاہیے۔ اور اس میں بھی ان کو معذور نہیں بنانا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ محمد عبد الرحمن المبارک پوری عفاء اللہ عنہ
(؎۱) جب آٹھ مصارف میں غریب طلباء داخل ہیں تو ان کی ضروریات بھی داخل ہیں عدم دخول پر کوئی دلیل نہیں۔ سعیدی
اس میں شک نہیں کہ مال زکوٰۃ کا تبلیغ اسلام کے سلسلے میں خرچ کرنا اہل کفر پر یا ایسے مسلمانوں پر جو دین اسلام سے بجز اس کے نام کے کسی قسم کے واقفیت نہ رکھتے ہوں خرچ کرنا نہایت عمدہ اور پاکیزہ ہے۔ اور شرعاً یہ مصرف اس قدر واضح ہے کہ زبان و قلم کو اس کیا اظہار و بیان میں کسی قسم کا تامل اور تردد نہیں ہو سکتا۔ الی آخرہ
بحوالہ اخبار توحید امر تسر ۲ رمضان المبارک ۱۳۴۷ھ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۵۰)
کیا مساجد دینی مدارس تبلیغ اسلام پر زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے:
از مولانا فضل اللہ صاحب مدارسی ناظم جامعہ دارالسلام عمر آباد۔
آپ حضرات کو معلوم ہے کہ دینی ضروریات دن بدن بڑھتی جاتی ہیں اور ان میں سے اکثر کے لیے آمدنیوں کی قلت ہوتی ہے۔ اور شرعاً آج کل زکوٰۃ کے سوا کوئی ایسی مد نظر نہیں آتی جس کے ترک پر وعید شدید شرعی سنائی جائے اور اس زکوٰۃ میں حضرات فقہاء کرام نے تملیک (؎۱) کی شرط لگائی ہے جس کی وجہ سے مساجد مدارس دینی۔ تبلیغ اشاعت اسلام اور تصنیف تالیف کتب دینیہ کے بہت سے کام رک جاتے ہیں۔ یا جیسے چلنے کی ضرورت ہے۔ ویسے چلنے نہیں پاتے کیونکہ ان پر مال زکوٰۃ، فطر اور چرم قربانی خرچ نہیں کیے جا سکتے، اس لیے کہ امور مذکورہ میں تملیک نہیں ہو سکتی اور ان امور مذکورہ میں تملیک جاری کرنا ہو تو حیکہ کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ جس کا ثبوت آیات و احادیث اور اقوال سلف سے نہیں ملتا ہے۔ پس امور مذکورہ کا اجراء یا صدقات غیر واجب سے کیا جائے جن کے نہ دینے سے مسلمان وعید کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ یا آیات و احادیث کے عموم سے فائدہ اٹھائے ان امور مذکورہ کو مصارف زکوٰۃ میں داخل کیا جائے۔
(؎۱) لام تملیک کی شرط پر کوئی دلیل نہیں بلکہ لام بیان کے لیے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر فرمایا ہے۔ سعیدی
مسئلہ بالا کے متعلق ایک عرصہ دراز سے بلکہ زمانہ طالب علمی سے خلجان رہا اور حضرات شیوخ کرام کے افادات سے کچھ کچھ منزل مقصود کا نشان نظر آ رہا ہے۔ بالآخر دو چار سال کے عرصہ دراز سے بعض معززو محترم خیر خواہ حضرات ا س مسئلہ کو چھیڑتے رہے جس پر فاضل محقق عالی جناب مولانا محمد عبد الوہاب صدر مدرس جامع دارالسلام عمر آباد نے آیت فی سبیل اللہ تعمیم اور چند احادیث سے استدلال فرماکر امور مذکورہ کو مصارف زکوٰۃ میں شامل فرمایا، مولیٰنا ممدوح کی تحریر سے خاکسار کے خیالات میں امید و جرأت پیدا ہوئی جس کے بعد خاکسار بغرض استفادہ اپنے ما چیز منتشر خیالات کو حضرت رہنمایان دین کی خدمات میں پیش کرتا ہے جن کے متعلق امید کہ آں حضرات اپنے اپنے تنقیدانہ افادات سے ممنون فرمائیں گے۔ انما الشفاء العی السوال
جمیع حضرات علمائے کرام پر یہ بخوبی روشن ہے کہ امت محمدیہ کے پاس مصارف زکوٰۃ دلیل آیت عظیمہ ذیل ہے۔
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآء وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَة مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم﴾ (التوبه:۶۰)
’’صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں، اور محتاجوں کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات پر کام کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیف قلوب کی جائے اور غلاموں کے آزاد کرنے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کی مد د میںخرچ کیے جائیں۔خداوند پاک کی جانب سے یہ حکم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآء﴾ کا معنی (۱) للفقراء کا لام جمیع سلف صالحین کے نزدیک تملیک کے لیے ہے۔ یا نہیں؟ تفاسیر شرح حدیث کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرف بھی ائمہ کرام کی ایک جماعگ گئی ہے کہ لام اس آیت میں تملیک کے لیے نہیں ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ نے شرح بخاری میں یہ رقم فرمایا ہے:
((ان اللام فی قوله للفقراء لبیان المصرف لا للتملیک)) (لام)
فقراء کے شروع میں مصرف بیان کے لیے ہے۔ تملیک کے لیے نہیں اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اتفاق کی کتاب الادوات میں لام کے متعدد معنی جو پندرہ سے زیادہ ہوں گے۔ بیان کیے ہیں۔ ان میں سے صرف ’’لام‘‘ تعلیل کے متعلق حقیقی یا مجازی معنی ہونے کا اختلاف اہل لسان سے ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ باقی معنی حقیقی ہیں۔ اصول فقہ کی کتاب حصول الماموں من علم الاصول مطبوعہ مصرف میں ’’لام‘‘ کے بائیس معنی ذکر کیے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مثال قرآن پاک سے دی گئی ہے۔ اور کتب نحو میں عموماً اور شرح جامی میں خصوصاً یوں مرقوم ہے:
((اللام للاختصاص بملکیة و بغیر ملکیة)) (لام)
اختصاص کے لیے آتا ہے، خواہ ملکیت کے طور پر ہو یا بلا ملکیت کے۔ امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں چار مصرفوں میں دو ’’لام‘‘ کے آنے کے اور بعد کے چار مصرفوں میں ’’فی‘‘ کے آنے کا فرق یوں بیان فرمایا ہے۔ کہ پہلے چار مصرف والوں کو اپنے حاصل کردہ مال زکوٰۃ میں مالکانہ مصرف کا اختیار ہے اور پچھلے مصرف والوں کو حسب منشاء تصر ف کا اختیار نہیں۔ پس (لام) سے تملیک کی شرف اجتہادی متحمل چیز ہوئی نہ کہ قطعی اور منصوص۔
(۲) وفی سبیل اللّٰہ کا معنی: فی سبیل اللہ کے معنی میں تعیین اور اس تعیین پر اجماع ہوا ہے۔ یا نہیں؟ اگر تعیین اور اس پر اجماع ہو چکا ہے تو کتب فقہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شافعیہ کے نزدیک اغنیاء مجاہدین کو مال زکوٰۃ سے دے سکتے ہیں۔ اور یہ امر حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے۔ اور امام ابو یوسف نادار مجاہدین کو بھی مال زکوٰۃ دینے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور امام محمد نادار حاجیوں کو بھی مال زکوٰۃ سے دے کر حج کرانے کی اجازت اس لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے نکالتے ہیں۔ اتنے مختلف اقوال کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ ان اقوال و مذاہب کے سوا اپنا قول گویا اجماع مرکب کے خلاف ہے اس لیے وہ قول ناجائز قرار دیا جائے تو یہ عرض ہے کہ جن لوگوں نے اس مقام پر اجماع کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ اصولی اصطلاحی اجماع معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اجماع اور جمہور کی اضافہت خود اصولی اصطلاحی اجماع ہونے سے انکار کر سکتے ہیں ہے۔ علاوہ بریں امام قفال نے بعض ائمہ سے عام مصارف خیر جیسے کہ امور مذکورہ اوقاف وغیرہ کوئی سبیل اللہ کے معنی میں نقل فرمایا ہے جس کو امام رازی، علامہ بیضاوی اور صاحب خازن نے اپنی اپنی تفسیروں میں بیان فرمایا ہے۔ اور سب کے الفاظ قریب قریب حسب ذیل ہیں۔
((وقال بعضھم ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی الغزاة فقط ولھذا اجازہ بعض الفقہاء صرف سھم سبیل اللّٰہ الی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ او بناء الجسور والحصوف وعمارة المساجد وغیر ذلک وقال لان قوله تعالیٰ وفی سبیل اللّٰہ عام فی الکل فلا یختص بصنف دون غیرہ))
’’اور کہا بعض علمائل نے کہ لفظ عام ہے۔ اس کو صرف مجاہدین کے لیے مخصوص کرنا جائز نہیں۔ اسی لیے بعض فقہاء کرام نے سبیل اللہ حصہ سب نیک کاموں مثلاً تکفین موتیٰ پلوں اور قلعوں اور مساجد وغیرہ کے بنانے میں خرچ کرنے کو جائز رکھا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان فی سبیل اللہ، سب نیک کاموں کو شامل ہے۔صرف ایک جماعت کے ساتھ خاص نہیں۔‘‘
اور شرح وقایہ کے حاشیہ عمدۃ الرعایۃ میں حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی نے مصارف زکوٰۃ کے مقام میں فقہ کی کتاب ’’بدیع‘‘ سے نقل فرمایا ہے کہ:
((وذکر فی البدائع انه یشتمل جمیع القرب))
’’فی سبیل کا لفظ نیک مصرفوں میں شامل ہے۔‘‘
امام بخاری:… اپنی جامع صحیح البخاری کے ((باب العرض فی الزکوٰة)) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابن جمیل، خالد بن ولید اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے منع زکوٰۃ کی توجیہہ والی حدیث نقل فرماتے ہیں۔ اور اسی روایت کو باب والغارمین وفی سبیل اللہ میں مقرر لائے ہیں۔ امام بخاری کا مدعا ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں یوں ذکر فرمایا ہے۔
((واستدل البخاری بقصة خالد علی مشروعیة تجیس الحیوان والسلاح وان الوقف بقاء ہٗ تحت ید محتبسه وعلی جواز اخراج العروض فی الزکوٰة))
’’امام بخاری نے خالد رضی اللہ عنہ کے قصہ سے جانوروں اور ہتھیاروں کے وقف کرنے اور وقف کی ہوئی چیزوں کا واقف کی نگرانی میں رہنے، اور زکوٰۃ میں نقد کے عوض متاع سے دینے پر استدلال کیا ہے۔ بہر طور مال زکوٰۃ وقت میں دیا گیا۔‘‘
پس شرح بخاری سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خالد رضی اللہ عنہ کے واقعہ وقف زکوٰۃ میں شمار فرمایا اور آیت فی سبیل اللہ میں تملیک کو غیر ضروری سمجھا۔ جو حضرات احناف کرام کے خلاف ہے اور وقف منقول کوبھی جائز سمجھا اور یہ امر فقہائے کوفہ کے خلاف ہے اور زکوٰۃ کے نقد کے عوض متاع دنیا ثابت ہے جو فقہائے حنفیہ کے موافق ہے۔
الحاصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال کے جواب میں کون سی آیت یا حدیث صریح حضرات مانعین پیش فرما سکتے ہیں؟ رہے مانعین کے احتمالات وہ مجوزین کے پاس ناشئی عن الدلیل نہ ہوں، اور مجوزین کی تجویز ان کے احتمالات کی بہ نسبت واضح ترین اور اقرب الی الدلیل ہو تو امام بخاری کے استدلات کا قطعی اور تسلی بخش جواب کیا ہو گا؟
مذکورہ بالا معروضہ پیش کرنے کے بعد مجوزین کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آیت مصارف میں سے سات حصے خاص خاص جماعتوں یا افراد پر خرچ کیے جائیں، اور ایک حصہ عام مصارف خیر کے لیے رکھ دیا جائے ، تاکہ آٹھویں مصرف میں سہولت کے ساتھ امور مذکورہ ادا کیے جائیں ورنہ تبرعات تطوعات اختیار امور میں جن پر جبر و اکراہ نہیں کیا جا سکتا، اور نہ کرنے والوں پر وعید بھی نہیں ہوتی، اور بناء مساجد و مدارس دینی اور مصارف تبلیغ و غیرہ خدانخواستہ بالکل متروک کیے جائیں گے، چونکہ زمانہ موجودہ میں یہ مسئلہ مہمات مسائل میں سے ہے، لہٰذا بغرض استفادہ یہ امر بھی عرج کر نا چاہتا ہوں کہ بوقت شدت حاجت فقہائے کرام نے بھی اپنے امام کے خلاف دوسرے امام کے فتوے پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ اجرت تعلیم قرآن کی نسبت صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ اجرت علی تعلیم القرآن جائز نہیں، مگر متاخرین نے بوجہ ضرورت اجازت دی ہے، تاکہ تعلیم القرآن معدوم نہ ہو اور اسی طرح مفقودہ الزوج کے نکاح کا مسئلہ معروف بین العلماء ہے۔
انہیں امور کو مدنظر رکھ کر حضرت شیخ الاسلام شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک اختیار فرماتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے:
((وعن ابی الآس حملنا النبی ﷺ علی ابل الصدقة للحج وفی الصحیح واما خالد تظلمون خالداً وقد اجتس اداراعه واعتدہٗ فی سبیل اللّٰہ وفه شیئاًن جوازان یعطی مکان شیء شیئاً اذا کان انفع للفقراء وان الجس تجزیٔ عن الصدقة قلت وعلی ھدانا لحصر فی قوله تعالیٰ انما الصدقات اجافی بالنسبة الی ما طلبه المنافقون فی صرفھا فیما یشتھون علی ما یقتضیه سیاق الایة والسر فی ذالک ان الحاجات غیر محصورة ولیس فی بیت المال فی بلاد الخالصة للمسلمین غیر الزکوٰة کثیر مال فلا بد من توسعة لتکفیٰ نوائب المدینة واللّٰہ اعلم))
’’ابو الآس سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہم کو صدقہ (زکوٰۃ) اونٹوں پر حج کے لیے سوار کرایا اور صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم خالد پر ظلم کرتے ہو، جو اس سے زکوٰۃ طلب کرتے ہو، حالانکہ اس نے بکتر اور ہتھیار اللہ کی راہ میں وقف کیے ہیں،اس حدیث سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں، ایک تو ایک چیز کے عوض دوسری چیز زکوٰۃ میں دے سکتے ہیں، جبکہ دوسری چیز فقراء کے لیے زیادہ نافع ہو، اوریہ وقف صدقہ زکوٰۃ کے بدلے کافی ہے، میں کہتا ہوں، (یعنی شاہ صاحب فرماتے ہیں) کہ اس صورت میں حصر خداوندی انما الصدقات کے جملہ میں اضافی ہے، منافقوں کے مطلب کے مقابلہ میں گروہ چاہتے تھے کہ ان کی خواہشوں کے مطابق زکوٰۃ کی رقم بے جا صرف کی جائے، جیسا کہ آیت (روانی) کا مقتضا ہے، اور زکوٰۃ کے مصرف میں واقف کو داخل کرنے میں راز یہ ہے کہ ضروریات بے شمار ہیں، اور مسلمانوں کے خالص شہروں میں زکوٰۃ کے سوا کوئی معتدبہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا ضرور ہوا کہ مصرف زکوٰۃ میں وسعت ہو جو کافی حاجات ہو، جیسا کہ آیت کے نزول کے موقعہ پر مدینہ مسلمانوں کا خالص شہر تھا۔ ‘‘ واللہ اعلم۔ (توحید امر تسر) ۲ جمادی الاول ۴۷ھج
نوٹ:… مضمون ہذا کے جواب میں حضرت مولانا محمد اسماعیل مدارسی نے ایک طویل طویل مضمون لکھا جو اخبار توحید کی کئی اشاعتوں میں شائع ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت شریف للفقراء میں لا م محض تملیک کے لیے ہے، اور مدارس و مساجد پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں، افسوس کہ مضمون معلومات کے لحاظ سے قیمتی ہے، مگر عدم گنجائش کی وجہ سے رہ گیا، اس بحث پر بطور محاکمہ حضرت مقبول رب العالمین مصنف رحمۃ اللہ للعالمین قاضی سلیمان صاحب حج پٹیالہ رحمۃ اللہ علیہ کا قیمتی مضمون درج ذیل ہے۔
مزید تشریح:… از قلم جناب حضرت مولانا قاضی محمد سلیمان صاحب سلیمان منصور پوری (پٹیالہ)
(۱) آیت للفقراء: کا لام تخصیص کے لیے ہے، صاحب کشاف کے الفاظ اس پر دال ہیں: ((وانھا مختصة بھا لا تجاوزھا الیٰ غیرھا)) احمد آفتدی مدیر الجوائب نے اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالب وینتۃ الراغب میں لام تخصیص کا ذکر کیا ہے، اور مثال میں((الجنة للمؤمنین وھذا الحصیر للمسجد والمنبر للخطیب)) کا ذکر کیا ہے، وہ لام استحقاق کا بھی ذکر کرتے ہیں، مثال میں الحمد للہ اور العزۃ للہ پیش کرتے ہیں۔ لام تملیک کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے، اور ((له ما فی السمٰٰوات والارض)) کو مثال میں پیش کرتے ہیں۔ بعد ازاں فاضل مذکور یہ بھی لکھتا ہے:
((بعضہم یستغنی بذکر الاختصاص من ذکر المعنین الاخرین ویمثیل له بالا مثلة المذکورہ))
لہٰذا جن علماء نے لام کو تملیک کے لیے متعین نہیں کیا، ان کا مسلک صحیح ہے، حصول المامول نے بھی غالباً اسی لیے تخصیص کو ملک و عدم ملک ہر دو پر حاوی کیا۔ اور حافظ ابن حجر نے بھی لام کو بیان مصرف قرار دینے میں پورے تفقہ سے کام لیا ہے، یہ کہان کہ جمیع سلف نے اس لام کو تملیک ہی کے لیے قرار دیا ہے، داخل غلو ہے، ہاں صاحب کشاف نے آیت صدقہ کے لام اور فی کا فرق جتلاتے ہوئے لکھا ہے:
((فان قلت لم عدل عن اللام الی فے فی الربعة الاخیرة لکنا الایتمان بانھم ارسخ فی استحقاق التصدق علیھم لمن سبق ذکرہ لان فے للوعاء فنبه علی انھم احقاء بان توضع فیھم الصدقات الخ))
(۲) فی سبیل اللہ کے معنی ہیں تعین کی بابت گزارش ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں:
((ویعطی من سھم سبیل اللّٰہ جل وعز من غرا من جیران الصدقة فقیرا کان او اغنیاء ولا یعطی منه غیرھم الا ان یحتاج الی الدنع عنھم فیعطاہ من دفع عنھم المشرکین)) (کتاب الام الجزء الثانی ص۶۲)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کے مطابق غازی غنی و فقر کو فی سبیل اللہ میں سے دیا جا سکتا ہے، نیز حیلہ اور مدافعت ہر دو صورتوں میں دیا جا سکتا ہے۔
(ب) رسائل الارکان میں بحر العلوم لکھنوی (ابو العیاش عبد العلی محمد) تحریر فرماتے ہیں:
((الصنف والسادس سبیل اللّٰہ وان کان عاماً فی کل خیر لکن العموم لیس مراد فی الایة بالاجماع بل المراد السبیل المخصوص فعند الامام ابو حنیفه المراد الغزاة فمنقطع الغزاة یعطی من قال الزکوٰة یغزد مع الغازین وعند الامام محمد الحاج یعطی من مال الزکوٰة لحج ثم الفقراء وشرط عندنا فی منقطع الحاج فیعطی منقطع الغزاة عند الامام ابی حنیفة للفقراء ویعطی منقطع الحاج عند الامام محمد للفقر فلا خلاف فی الحکم کذا فی فتح القدیر وعند البعض یعطی الغزاة اغنیاء کانو او فقراء))
اس فاضل نے لفظ فی سبیل اللہ کو جملہ امور خیر کے لیے عام مان کر پھر اسے مرادی معنی میں خاس ٹھہرایا ہے، اور وجہ تخصیصاً اور اجماعاً بتلائی ہے۔ اور اجماع ادعائی کی صورت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صرف غزوہ کے لیے اور امام محمد نے صرف حجاج کے لیے بتایا ہے (اجماع کہاں رہا) پھر فقراء کو شرط بتلایا، پھر بعض کے نزدیک اس شرط کا نہ ہونا ظاہر کیا، جب ہم یہ خیال کریں، کہ عند البعض کا عطف شرط عند ہی ہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عدم شرط کا مذہب بھی خود علماء حنفیہ ہی کے اندر ہے، شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشد وہ اجتہاد مزید براں ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں بجانب شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ (اجماع کہاں رہا) اب یہ بھی غور طلب ہے کہ بحر العلوم نے صرف لفظ ’’اجماع‘‘ کو تحریر کیا ہے، مگر خازن نے اجماع الجمہور لکھا ہے اور یہ ظاہر ہے، کہ اجماع جمہور بمعنی اجماع امت نہیں۔
(ج) صاحب خازن نے (باتفاق بیضاوی وغیرہ) میں لکھا ہے:
((اجازو بعض الفقہاء صرف سھم سبیل اللّٰہ الی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الجسور والحصون وعمارة المساجد وغیر ذالک))
اور کنز الدقائق میں ہے:
((لا الی ذمی وبناء والمسجد وتکفین میت وقضاوین وشراء قن یعتق الخ))
ہر دو میں تضاد موجود ہے، اور نتیجہ صاف ہے کہ اجماع موجود نہیں۔
میرا خیال ہے کہ لفظ سبیل اللہ کا مفہوم متعین کرنے کے لیے موارو قرآنیہ پر بھی تدبر کیا جائے:
﴿وَلَا تَقُوْلَوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (البقرة)
﴿وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (البقرة)
﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (البقرة)
﴿وَمَنْ یُّقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (النساء)
﴿والمجاھدون فی سبیل اللّٰہ﴾ (النساء)
﴿وَااخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (المزمل)
ودیگر آیات ہم معنی میں سبیل اللہ سے مراد غزا لینا بالکل صحیح ہے، قتل و قتال،وہن، وحصور و جہاد کے الفاظ بطور قرینہ صحیحہ ان میں موجود ہیں، اب آیات ذیل پر بھی تدبر ضروری ہے۔
﴿وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہ﴾ (انفال۔ توبه۔ ابراہیم)
﴿لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (حج و لقمان)
﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (قتال و نحل)
﴿حَتَّی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (النساء)
﴿وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (ج)
﴿وَالْمُحَاجِرُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (النور)
ہر سہ آیات اول میں سبیل اللہ سے مراد دین حقہ اور اسلام اور سہ آیات مابعد میں سبیل اللہ سے مراد ہجرت لینا اور غزا مراد لینا زیادہ مناسب ہو گا۔ (ھ) اگر سبیل اللہ اور سبیل الرب ہم معنی ہیں تو آیت ﴿مَنْ شَاء اِتَّخَذَ اِلٰی رَبِّه سَبِیْلًا﴾ (المزمل و انسان) کو بھی زیر نظر رکھنا چاہیے، لفظ سبیل اللہ ضمائر کے ساتھ بھی مستعمل ہوا ہے، اور جہاں جہاں ضمیر کا مرجع اللہ ہے، ان سب کو بھی شامل تدبر کر لینا چاہیے، لفظ سبیل کی وسعت معنی کا خیال آیات ذیل کے شموں سے بھی ہو جاتا ہے۔
﴿اِنَّه کَانَ فَاحِشَة وَسَاء سَبِیْلًا﴾ (اسرائیل)
﴿فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ سَبِیْلًا﴾ (النساء)
﴿اِذَا لَا ابْتَعُوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشَ سِبِیْلًا﴾ (اسرائیل)
اس طریق سے صرف یہ اطمینان مقصود ہے کہ آیت مصرف صدقہ میں بھی لفظ سبیل اللہ کو وسیع معنی میں لیا گیا، جبکہ مفسرین نے تحریر فرمایا ہے کہ آیت مصرف صدقہ میں بھی لفظ سبیل اللہ کو وسیع معنی میں لیا گیا، جبکہ مفسرین نے تحریر فرمایا ہے، اور جبکہ فقہاء نے بھی لفظ کا معنی عموم بہ میں ہونا تسلیم فرمایا۔
(د) سنن ابو داؤد کی حدیث عن معقل میں نبیﷺ کے الفاظ مبارک یہ ہیں: ((فان الحج من سبیل اللّٰہ)) یہاں تخصیص غزا بو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ و شافعی رحمۃ اللہ علیہ تخصیص حج بقول محمد اٹھ جاتی ہے، اور حرف من اس لفظ کے وسیع المعنی ہونے پر دال ہے۔
حکیم الامت شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں:
((فاالحصر فی قوله اِنما الصدقات اضافی بالنسبة ما طلبه المنافقون فی صرفھا فی ما یشتھون علی ما یقتضیه سیانق الایة والسرفی ذالک ان الحاجات غیر محصورة ولیس فی بیت المال فی البلاد والخالصة للمسلمین غیر الزکوٰة کثیر مال۔ فلا بد من توسعته لتکفی نوائب المدینة واللّٰہ اعلم ص۲۴۹ حجة اللّٰہ البالغة))
امر مطلوب نوائب (ضروریات تمدن کی کفایت ہی) اور وہ غیر محصور ہیں، اور یہی امر وسعت کا معنی کا مقتضی ہے، یعنی نوائب المدینۃ کا ترجمۃ حاجات تمدن سمجھا ہے، بایں اعتبار کہ تقسیم حصص وغیرہ کی ضمن میں بھی متعدد روایات میں نوائب الناس یا نوائب المسلمین کے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔
(ح) امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((وکان رسول اللّٰہ ﷺ یصرف سھم اللّٰہ وسھمه فی مصالح الاسلام)) (زاد المعاد جلد ۱ ص۱۶۴)
ظاہر ہے کہ عبارت بالا میں سہم اللہ وسہمہ سے مراد وہ سہام مراد ہیں جن کا ذکر آیت غنیمت (سورۃ توبہ) و آیت فیء (سورۃ حشر) میں ہوا ہے۔ لہٰذا آیت صدقہ کے لفظ فی سبیل اللہ کو بھی اگر تحت مراد سہم اللہ قرار دیا جائے تو اس کا تعلق بھی مصالح اسلام سے واضح ہو جاتا ہے۔ (ط) اس فہم و استدلال کے ساتھ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ﴾ کی تفسیر میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں:
﴿فَالْمُوَلَّفَة قُلُوْبُھُمْ……………قَدْ ذَھَبُوْا﴾
﴿وَالْعَامِلُوْنَ عَلَیْھِمْ﴾……………یعطھم الامام ما یکفیھم وقسمت بقیة الصدقات بینھم}
﴿فَلِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِیْنِ……………سھم......... وَلِلْغَارِمِیْنَ…………… سھم﴾
﴿وَفِیْ اَبْنَاءِ السَّبِیْلِ المنقطع لھم……………سھم......... وَفِیْ الرِّقَابِ……………سھم﴾
﴿وَفِیْ اِصْلَاحِ الْمُسْلِمِیْنَ……………سھم﴾
(کیا الخراج مفصل فی الصدقات ص ۴۲ الطبعہ الاول بالمطبع المیربہ ببو لاق مصر ۱۳۲۲ھ)
یہ ظاہر ہے کہ امام قاضی القضاۃ نے فی اصلاح طرق المسلمین کے الفاظ لفظ فی سبیل اللہ کی ہی تفسیر میں تحریر فرمائے ہیں۔
(ی) ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں اگرچہ فی سبیل اللہ کے معنی الغزوۃ فی سبیل اللہ لکھے ہیں، مگر انہوں نے اصناف ثمانیہ کے دو اصول پر منقسم کیا ہے، (۱) شدت احتیاج فقراء و مساکین ورقاب وابن السبیل اس میں داخل ہیں (۲) منفعت عاملون مؤلفۃ القلوب غارمون غزاۃ اس میں داخل ہیں، ان کا آخری فقرہ قابل توجہ ہے:
((فان لم یکن للآخذ محتاجاً ولا فیه منفعة للمسلمین فلا سھم له فما الزکوٰة)) (ک)
امام بخاری کی حدیث باب عرض الزکوٰة میں نبیﷺ کا ارشاد ہوا:
((واما خالد فقد اجتس ادراعه واعتدہ فی سبیل اللّٰہ))
ان کی معنی پر ضرور مستعمل ہے، جو علامہ ابن حجر و عینی ابن رشید رحمہم اللہ نے بیان فرمائے ہیں، میرے نزدیک الفاظ مبارکہ وسعت معنی فی سبیل اللہ بھی بیان کرتے ہیں، اور نفی تملیک بھی اگرچہ فی سبیل اللہ کے الفاظ فی کے تحت میں ہیں اور لام کی تحت ہیں۔
(ل) آج تک کوئی روایت ایسی نہیں گزری جو استدلال بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ناقص ہو، جناب کا تحریر فرمانا کہ بوقت ضرورت شدت حاجت حضرات فقہائے کرام نے بھی اپنے مذہب کے خلاف دوسرے امام کے فتوے پر عمل کی اجازت دی ہے بالکل درست ہے اور اجرت علی تعلیم القرآن و نکاح مفقودہ الزوج کی نظاہر بحوالہ ہدایہ بھی درست ہیں، مزید برآں میں جناب کی توجہ قاضی ثناء اللہ صاحب کی تفسیر مظہری پر دلانا چاہتا ہوں تفسیر سورۃ انفال ص ۳۵ پر قاضی صاحب نے جن کو بیہقی وقت کہا گیا ہے، تحریر کیا ہے:
((فقال ابو حنیفة سھم ذوی القربیٰ ایضاً سقط بموت رسول اللّٰہ ﷺ))
چند سطور کے بعد لکھا ہے:
((وھو قول ابی حنیفة وابی یوسف ومحمد رحمة اللّٰہ علیہا))
بعد ازاں ان وجوہات کا اندراج کیا ہے، جو صاحب ہدایہ اور طحاوی نے مذہب بالا کی تائید میں لکھتے ہیں، بایں ہمہ اپنی تحقیقات اور دلائل لکھ کر تحریر فرمایا ہے:
((وبھذا ثبت ان سھم ذوی القربیٰ لم یسقط))
غور کیجئے کہ اس علامہ نے قوت دلائل کی وجہ سے امام صاحبین کے مذہب پر جمود نہیں کیا، اور صاحب ہدایہ اور طحاوی کے دلائل کی تضعیف میں بھی تامل نہیں کیا، حالانکہ ان کی تمام تفسیر فقہ حنفیہ کی تائید پر مشتمل ہیں۔
(ن) لیکن میں عرض کروں گا کہ جب امام القاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فی سبیل کے معنی میں فی اصلاح المسلمین تحریر فرما دئیے ہیں، تو اندریں صورت خود بخود مذہب حنفیہ کے اندر سند اور دلیل مل گئی ہے، اور اس تفسیری عبارت (اصلاح طرق المسلمین) نے زمانہ حال کے ضروریات کے اہتمام اور انصرام کے لیے سبیل الرشاد کو کھول دیا ہے۔
(س) علمائے ہند کے لیے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب اس ملک میں بزمانہ حال غزاۃ فی سبیل اللہ کی جماعت موجود ہی نہیں تو کیا ان کا سہم ساقط نہ ہو جائے گا، اور کیا اس سہم کا دیگر امور مرضیات الٰہی میں صرف کرنا صحیح نہ ہو گا، جبکہ امام ہمام اور صاحبین نے آیات غنیمت وفیء میں سقوط سہام رسول وذوی القربیٰ کے بعد ان کا مصرف دیگر اہل سہام کو قرار دیا ہے، اور آیات صدقات میں بھی مؤلفۃ القلوب کے متعلق بھی مسلک اختیار کیا ہے۔
(ع) میں اس طول کلامی کی معافی کا طالب ہوں، اور میں سمجھتا ہوں کہ میں آنجناب سے ہی متفق ہوں۔ والسلام
(توحید امر تسر ۲۰ رجب ۱۳۴۷ھ) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۵۷)
نوٹ:… یہ مضمون حضرت قاضی صاحب مرحوم نے مولانا فضل اللہ صاحب مرحوم کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا، اسی لیے طرز تحریر مخاطبانہ ہے۔ (اخبار مذکور)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب