سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) بھیڑ کا جزعہ باوجود مسنہ میسر ہونے کے قربانی کے لئے خریدنا

  • 3381
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1234

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حکم ہے شرع محمدی کا اس مسئلہ میں کہ بھیڑ کا جزعہ باوجود مسنہ میسر ہونے کے قربانی کے لئے خریدنا اور زبح کرنا جازئ ہے یا نہیں ؟اہل حدیث اور حنفیہ اکثر بھیڑ کا جزعہ جائز سمجھتے ہیں اور جزعہ آٹھ نو ماہ کے چھترا کو کہتے ہیں۔کیا یہ ٹھیک ہے۔کہ آپ سے یہ سنا جاتا ہے۔کہ اگر مسنہ ملے تو جزعہ کرنا جائز نہیں۔اس کی دلیل شرعی درکارہے۔بینوا توجروا۔(السلائل ماسٹر یحیٰ ساکن چک۔نمبر173 ای ۔بی ساہیوال)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پس واضح  ہو کہ جمہور علما کا مذہب اس بارہ میں یہی ہے جہ مسنہ ملے یا نہ ملے جزعہ یعنی کھیرا چھترا قربانی کرنا جائز ہے۔لیکن صحیح حدیث میں مسنہ میسر ہونے پرجزعہ کرنے کی ممانعت آئی ہے۔اس لئے مسنہ  یعنی دودانت میسر ہونے پرجزعہ قربانی کے لئے زبح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہ ہوگی۔کیونکہ خلاف فرمان نبویﷺ اس نے قربانی کی ہے۔اور جس نے خلاف فرمان رسولﷺ کوئی عبادت کی تو وہ قبول نہ ہوگی۔چنانچہ ثبوت اس کا یہ ہے کہ مشکواۃ میں صحیح مسلم کی روایت وارد ہے۔جو حضرت جائز  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔کہ فرمایا!رسول اللہ ﷺ نے

لا تذبحوا الا مسنة الا ان يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضان

یعنی مت زبح کرو قربانی میں کوئی جانور مگر یہ کہ وہ جانور دو  دانت سامنے نکال چکا ہو۔لیکن اگردو دانت ملنا مشکل اوردشوار ہو جائے تو بھیڑ کا کھیرا چھترا زبح کر دو۔

یہ حدیث صحیح ہے جس کی صحت قطعی ہے۔اورقطعی الدلالت ہے۔کہ جب مسنہ میسر ہو۔اور ملنا  دشوارنہ ہو۔تو مسنہ ہی قربانی کرنا چاہیے۔ہاں اگر مسنہ خریدنے کی وسعت مالی نہ ہو یا کسی جگہ دو دانت والا جانور نہ ملنا  ہو اورقربانی کاوقت آگیا ہو تو پھر جزعہ جوایک سال کاہواور دیکھنے والے کومسنہ کی مانند لگتا ہو قربانی کرنا جائز ہے۔

سبل السلام جلدنمبر 4 میں  ص93 میں حدیث مذکور ہ پر یہ لکھا ہوا ہے۔

یعنی یہ حدیث جابر کی روایت کردہ اس مسئلہ پر دلیل ہے  بھیڑ کا جزعہ قربانی میں کسی حال اور صورت میں کفایت نہ کرے گا مگر یہ کہ مسنہ ملنا مشکل اور دشوار ہو تو پھر جزعہ بھیڑ کا جائز ہے پھر جزعہ کے جواز کی علی لاطلاق جو حدیثیں پیش کرتے ہیں ان کا جواب دیا ہے۔

ان ذالك كله عند تعسر المسنة

یعنی یہ سب روایتیں جو مسلم کی قطعی حدیث کے مقابلہ میں کم درجہ کی ہیں۔اس بات  پرمحمول ہیں کہ مسنہ میسر وہ تو پھر  جزعہ  جائز ہے۔یہ اصول کے مطابق فیصلہ ہے۔کیونکہ اصول یہ ہے کہ مطلق مقید پر محمول ہوتا ہے۔یہ علماء اہل حدیث کا مسلمہ اصول ہے۔ علاوہ ازیں ایک دیگر حدیث سے  میرے اس مسلک کی تایئد ہوتی ہے۔جو مجمع الزوائد جلد 4 ص24 میں مذکور ہے۔کہ ابو بردہ بن دینار بیان کرتے ہیں۔کہ میں نماز عید کے لئے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ حاضر ہوا تو میری زوجہ نے میرے خلاف یہ عمل کیا کہ جب  میں نماز پڑھنے چلا گیا تو اس نے میری قربانی والا جانور زبح کر کے کھانا تیار کر لیا۔جب میں نماز عید سے فارغ ہوکر گھر آیا تو اس نے میرے سامنے کھانا حاضر کیا میں نے کہا کہ یہ کہاں سے آیا  اس نے کہا کہ یہ آپ کی قربانی کاگوشت ہے۔ہم نے اس جانور  قربانی کو زبح کر کے کھانا تیار کر دیا تاکہ آپ نماز عید سے واپس آکر صبح کا کھانا تناول فرما لیں۔میں نے کہا کہ قسم بخدا  مجھے تو یہ اندیشہ ہو گیا ہے ۔کہ نماز سے پہلے یہ کام کرنا لائق اور مناسب نہ تھا۔پھر میں دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوا۔اور اپنی بیوی کے کارنامے کا سب قصہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا!ليست بشئ فضحکہ یہ عمل کوئی چیز نہیں ہے۔قربانی دوبارہ کرو۔

فالتمست مسنة فما وجدت قال فالتمس جذعا من الضان

میں نے دوسری قربانی کے لئے مسنہ جانور تلاش کیا وہ مجھے نہ ملا تو آپ ﷺ نے فرمایا!

فالتمس جذعا من الضان فضح به

فرخص له رسول الله صلي الله عليه وسلم في الجذع من الضان فضحي به حيث لم يجد مسنة (رواہ احمد و رجالہ ثقات)

یعنی اس کے لئے رسول اللہﷺ نے بھیڑ کا جزعہ قربانی کرنے کی رخصت دے دی۔پس ا س نے جزعہ اس وقت قربانی کیا جب مسنہ نہ پایا یہ حدیث صحیح و حسن ہے۔ اس نے حدیث مسلم مذکورہ کی پوری تفسیر کر دی ہے کہ مسنہ نہ ملے تو جزعہ جائز ہے۔مسلم کی حدیث جابر والی مسند احمد میں بھی ہے۔اور ابو بردہ کی بھی ہے۔مسند احمد کی شرح فتح الریانی جلد 13 ص90 میں حدیث ابو ہریرہ پر یہ لکھا ہے۔

وفي هذا انه لا يضحي بالجذعة من الضان الا اذا لم يجد المسنة

یعنی اس حدیث میں یہ مسئلہ ہے کہ بھیڑ کا جزعہ قربانی نہ  کرنا چاہیے۔مگر اس صورت میں کہ مسنہ میسر نہ ہو  بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ ابو بردہ کا قصہ ہے اس کے دوسرے طریق میں جزعہ بکری کاازکر ہے تو اس سے استدلال درست نہ رہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ میں تعدد ہے ایک غلطی اس سے ہوئی اور دوسری غلطی اس  کی عورت سے ہوئی چنانچہ فتح الربانی میں ہے۔

يجمع منها  بتعدد الواقعة

یعنی دو مختلف روایتوں میں تطبیق یوں دیجائے گی۔کہ اس واقعے میں تعدد ہے۔اور بکر کے جزعے کی رخصت تو ابو بردہ سے مخصوص تھی۔اورپھر حکم دیا گیا۔

لا يجذي عن احد بعده

کہ بکری کاجزعہ اس کے بعد کسی کیلئے کفایت نہ کرے گا۔یعنی اب جائز نہیں ہے۔لیکن عورت والے واقعے میں تو صاف یہ ذکر ہے۔ کہ اس نے مسنہ تلاش کیا نہ ملا تو پھر اس کو یہ رخصت  کہ اچھا اب بھیڑ کا جزعہ کر دو اور یہ کہا کہ جزعہ تب قربانی کیا گیا کہ جب مسنہ نہ ملا اس سے جمہور علماء کی یہ تاویل کہ یہ حدیث استحباب پر محمول ہے۔باطل ہوگئی ہے۔اور ان حدیثوں سے صاف یہ ثابت ہوا کہ مسنہ کے بغیرکوئی جانور  زبح نہ کرنا چاہیئے۔(اہل حدیث لاہور جلد2 ش 6)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 98

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ