سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) کیا قربانی کی کھالیں۔امام مسجد کو جائز ہیں۔؟

  • 3378
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 927

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا جانور بیمار ہونے کی وجہ سے فروخت کر دیا۔اب کیا حکم ہے۔؟قربانی کے گوشت اور چمڑے کا حکم؟

کیا قربانی کی کھالیں۔امام مسجد کو جائز ہیں۔؟

حضرت مولانا عبد القادر صاحب روپڑی۔۔۔۔السلام و علیکم ورحمۃ اللہ

حسب زیل مسئلہ کا فوری جواب عنایت فرماییں۔

سوال۔1

زید نے عید الاضحیٰ سے قریباً چھ ماہ پیشتر قربانی کیلیے 29 روپے میں دنبہ خریدا دو ماہ بعد بیمار ہوگیا جس کو ستر ہ روپے میں فروخت کردیا۔کیا زید کو اب ہی دنبہ خریدنا چاہیے۔یا گائےمیں بھی شریک ہوسکتاہے۔

سوال۔2

قربانی کے گوشت اور چمڑوں کا کیا حکم ہے۔؟

سوال ۔3

کیا قربانی کی کھالیں امام مسجد کو دینی جائز ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمبر1۔جتنے روپے میں جانور فروخت کیا گیا۔وہ قربانی کے علاوہ دوسری جگہ صرف نہیں ہو سکتے۔لہذا اگر زید کو اتنی رقم میں دنبہ وغیرہ نہ مل سکے تو گائے میں شریک ہوسکتاہے۔آجکل گرانی ہے۔اگراتنے میں حصے نہ مل سکے تو مذید روپے قربانی ہی میں صرف ہوں گے۔

نمبر۔2۔قربانی کا گوشت فروخت نہیں کرنا چاہیے۔خود کھائے ۔کچھاللہ کی راہ میں دے۔رشتہ داروں کو دینا بھی جائزہے۔قربانی کے گوشت کو خشک کر کے ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔قصاب کو گوشت اجرت میں نہ دینا چاہیے۔چمڑہ اور جھول وغیرہ بھی کسی اُجرت میں دینا منع ہے۔اگرکوئی ایسا کرے گا۔تو اس کی قربانی نہ ہوگی۔

نمبر 3۔زکواۃ فطرانہ ۔قربانی کی کھالیں یہ کسی چیز کا معاوضہ نہیں ہوسکتیں۔کیونکہ یہ صدقات خیرات کی قسم سے ہیں۔یہ مسکینوں وغیرہ کا حق ہے۔ان کی تنخواہ کے قائم مقام قرار دینا اس سے صدقہ خیرات باطل ہو جاتا ہے نہ زکواۃ نہ قربانی اور نہ فطرانہ ادا ہوتا ہے۔یہ چیزیں مساکین کو  مفت دینی چاہیے۔اگر امام مسکین ہے۔اور امام نہ ہونے کی حالت میں بھی  یہ چیزیں امام کو دی جاتی تھیں۔تو پھر امامت کے وقت بھی جائز ہوسکتی ہیں۔لیکن دیہات وغیرہ کا سلسلہ اس قسم کا نہیں۔وہ امام نہ ہونے کی حالت میں بچوں کو  تعلیم نہ دینے کی حالت میں امام کو نہیں دیتے۔اور امام ہونے کی حالت میں بھی دیتے ہیں۔اس  بناء پر ان لوگوں کے یہ صدقات خیرات ضائع ہیں۔

(تنظیم اہل حدیث جلد 17 ش 38۔39)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 93-94

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ