سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) قربانی پر پابندی عائد کرنے کی تجویز

  • 3375
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1255

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا  غلام مرشد صاحب کا خطبہءعید قربان

قربانی پر پابندی عائد کرنے کی تجویز

مولانا سید دائود صاحب غزنوی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد صاحب نے عید کے خطبہ میں قربانی کےجانوروں کی قیمت کسی قومی فنڈ میں ادا کرنے کی تجویز پیش کر کے فقہاء کام کے حوالہ سے یہ اعلان کیا ہے۔کہاگر قربانی کے جناوروں قیمت کسی قومی فنڈ میں ادا کر دی جائے تو اس رقم کی ادایئگی مذہباً قربانی تصور کی جائے گی۔(نوائے وقت 20۔6۔1959)

مولنا غلام مرشد صاحب نے اپنا یہ نظریہ پیش کر کے حکومت کو اس کیلئے ابھارا اوریہ ارشاد فرمایا کہ ارباب اقتدار کو مصطفےٰ کمال پاشا کی طرح پاکستان میں جانوروں کی قربانی کی ایک حد مقرر کرنی چاہیے۔آپ نے کہا کہ اگر ہماری حکومت منصوبہ بندی کرے تو ملی مفاد کی خاطر لاکھوں جانوروں کی قیمت قربانی کے نام پروصول کر کے بہت سےہسپتال اور  تعلیم گاہیں تعمیر کر سکتی ہے۔(نوائے وقت)

مولانا کے اس خطبے نے بےچینی اور اضطراب پیدا کردیاہے۔دیندار طبقہ مغموم اور متفکر ہے کہ اگر اس طر ح اسلام کے احکام کی قطع وبرید ہوتی رہی اور مادسین کے اثر سے متاثر ہوکر صرف معاشی اقدار سے احکام اسلامی کو تولا گیا تو جو کچھ روس میں ہوا وہی کچھ پاکستان میں ہوکر رہے گا۔

عید کےدوسرے دن حضرت مولنا مفتی محمد حسن صاحب(نیلا گنبد)سے ملاقات کا شر ف حاصل ہواتو میں نے دیکھا کہ وہ مغموم اور رنجیدہ ہیں۔اور مولنا غلام مرشد صاحب کے خطبہ پر انتہائی ناراضگی کا اظہارفرما رہے ہیں۔حضرت مفتی صاحب نے فرما یا کہ مادیت یا مادہ پرستی کااس قدر وہمہ گیراثر ہے تو عوام تو درکنارعلماء بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔مولانا نے جو کچھ کہا اس کا تعلق اسلام کی  روحانیت سے قطعاً نہیں۔نہ فقہا نے کہیں اس کی اجازت دی ہے۔یہ ان کی خالص مادہ پرستی ہے۔اور سنت ابراہیمی اور سنت محمدیہ سنت صحابہ کرام اور تمام سلف و خلف کے طریقہ مرضیہ کے خلاف ہے۔پھر فرمایا کہ ان کی یہ تقریر اسلام پر شدید حملہ ہے۔اسلام تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے۔اور جس وقت مشترکہ جائداد پرحملہ ہوتا  ہےاس وقت اس جائداد کے تمام شرکاء کا فرض ہوتا ہے۔کہ حملہ آور کا مقابلہ کریں مولانا غلام مرشد نے اسلام کی سیزدہ صدسالہ روایات پر حملہ کیا ہے۔ہرعالم اور ہرعامی کا فرض ہے کہ اس حملے کی مدافعت کرے۔اوراسلام کی پاکیزہ تعلیم کواس الحاد سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔پھر مجھ سے ارشاد فرمایا کہ

فقہا کی طرف اس بدعت کی نسب ظلم عظیم ہے۔اس مسئلہ کو فقہی نظر سے تم لکھو اور شائع کرو۔اس کے بعد نوائے وقت نے اپنے ایک مقالہ افتتاحیہ میں ایک قابل غور تجویز کا عنوان قائم کرکے علماء کو دعوت دی کہ وہ ،مولنا غلام مرشد کے اس دعویٰ کوپرکھیں۔

حضرت مفتی صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں اورمحترم مد پر نوائے وقت کی دعوت پر یہ چند سطور سپرد قلم کر رہا ہوں۔امید ہے  کہ ان چند سطور کے مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ فقہاکرام کا اس بارے میں فیصلہ کیا ہے۔

فقہا کرام کا فیصلہ

فقہا کرام نےاضحیہ(قربانی) کی تعریف شرائط اور رکن بیان کرتے ہوئے  لکھا ہے کہ۔۔۔قربانی کے جانور کازبح کرنا  رکن قربانی ہے۔اس لئے تضحیہ یعنی اہراق دم (خون بہانا)واجب ہے۔اورامر وجوب کاتعلق جب کسی معین فعل کے ساتھ ہو تو کوئی دوسری چیز یا دوسرا فعل اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔اس لئے قربانی ایام نحر میں اہراق دم سے ہو سکتی ہے۔اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خرید کر زندہ کسی کوصدقہ کر دےتو بھی قربانی ادا نہیں ہوگی چہ جائیکے قربانی کے جانور کی قیمت کسی کو صدقہ کردے۔فقہا کرام کا یہ ارشاد قرآن کریم اور احادیث نبویہ پر مبنی ہے۔

قرآن کریم

قرآن کریم میں سورہ انعام کےآخر میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو ارشاد فرمایا!آپ اپنی قوم کواور  تمام امت دعوت کو یہ اعلان کردیں کہ

مجھے میرے رب العالمین نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔اوروہی راستہ درست۔صحیح دین او ابراہیم ؑ حنیف کا طریقہ ہے جو ہر گز مشرکوں میں نہ تھا۔

مشرکین کی عباددت غیر اللہ کےلئے ۔ان کی نذرونیاز اور قربانیاں غیر اللہ کے لئے ہوتی ہیں مگرآپ اعلان کردیں کہ

میری نماز میری قربانی میری ساری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کیلے ہے۔مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

اس آیت میں ۔۔نسک۔کے لفظ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں لیکن راحج قول یہی ہے کہ ۔نسکی۔سے مراد قربانی ہے۔جیسا کہ سعید بن جبیر قتادہ اور دوسرے تابعین سے مروی ہے۔لیکن سب سے واضح قرینہ اس کیلئے خود رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحاح میں مروی ہے۔کہ آپ نے دو دنبوں کی قربانی دی۔جب آپ نے انھیں قبلہ رخ لٹایا تو یہ دعا پڑھی۔

اس دعا میں نسکی کا لفظ جبھی برمحل ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد قربانی ہو۔ او ر یہی دعا نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھائی فرمایا! اے فاطمہ اپنی قربانی کے پاس کھڑی ہو۔اورقربانی ہوتے دیکھ خون کے ہر قطرہ کے بدلے میں تیراگنا ہ معاف ہوگا اور یہ دعا پڑھ

اس سے معلوم ہوا کہ نسکی سے مرا د قربانی ہی ہے۔اس تشریح کے مطابق اس آیت میں نماز اورقربانی کو ایک ساتھ اسطرح زکر کیا گیا ہے۔جسطرح سورت کوثر میں

نماز  او ر قربانی کا ایکساتھ زکر  کر کے یو ں حکم دیا گیا کہ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی دے۔

احادیث

قرآن کریم کے اس حکم

﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَوَانْحَرْ ﴿٢﴾

کے مطابق نبی کریم ﷺ کا عمل مبارک کیا تھا۔؟وہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔

نمبر 1۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔(ترمذی)

رسول اکرم ﷺ نے مدینہ میں دس سال اقامت فرمائی ہر سال آپ قربانی دیتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کیا قربانی واجب ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عمر نے فرمایا!

 میں ! اتنا جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی دی۔اورصحابہ کرام نے قربانی دی۔سائل نے پھر وہی سوال دہرایا حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا! تم سمجھتے نہیں میں نے کیا کہا۔میں نے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ قربانی دیتے  رہےاورمسلمان قربانی دیتے رہے۔

حضرت عبد اللہ ابن عمر کا مقصد یہ تھا کہ میں ان اصطلاحات میں نہیں جاتا سیدھی سادی بات جانتا ہوں۔کہ رسول اللہ ﷺ قربانی دیتے رہے۔اورمسلمان بھی آپ کی اتباع میں قربانی دیتے رہے۔

براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!

من ذبح بعد الصلواة فقد تم نسكه واصاب سنة المسلمين

جس نے نماز کے بعد قربانی کاجانور زبح کیا اس کی قربانی ٹھیک ہو گئی۔اور مسلمانوں کی سنت کے مطابق اس کا عمل رہا۔(صحیحین)

اس روایت میں مذید الفاظ یوں مروی ہیں۔آپﷺ نے فرمایا!

اس دن (یوم الاضحیٰ) میں ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور گھروں کو لوٹ آیئں۔اورقربانی کاجانور زبح کریں۔جس نے اس کے مطابق عمل کیا یقیناً اس کا عمل ہمارے طریقے کے مطابق رہا۔

4۔زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول رضوان اللہ عنہم اجمعین نے آپ ﷺ سے دریافت کیا۔

یا رسول اللہﷺ یہ قربانیاں کیاہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ  تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔

کوئی مسلمان اس حقیقت سے نا آشنا نہیں ہوگا کہ  حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کی کی جو قربانی اللہ کی راہ میں پیش کی عید الاضحیٰ اس واقعہ کی یاد گار ہے۔ابراہیم ؑ کی اس قربانی پر چار ہزار سال گزر گئے۔کروڑوں انسان چار ہزار سال سےاس واقعہ کی یاد گار مناتے چلے آرہے ہیں۔اور جب تک مسلما ن اس کرہ ارضی پر آباد ہیں۔اس  یاد گار میں قربانیاں دیتے ر ہیں گے۔کسی واعظ کا وعظ ۔کسی خطیب کی سحر بیانی اور کسی حکومت کا جبر و قہر اس سنت  ابراہیمی کاختم نہیں کر سکتا۔کوئی پہاڑ سے سر ٹکرانا چاہتاہے تو ٹکرا لے لیکن سوائے سر پھوڑنے اس کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم یاد گار میں مسلمان عید قربان مناتے رہیں گے۔اور ہزاروں خوبصورت جانور موٹے تازے۔خوب پلے ہوئے جانور ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گا ر میں  زبح ہوتے  رہیں گے۔

5۔حضرت جابر سے صحاح میں یہ روایت مروی ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے دو خصی دنبوں کی قربانی دی۔اور مسند عبد الرزاق میں حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے۔

كان اذا اراد ان يضحي اشتري كبشين عظيمين سمينين

جب آپ ﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے بڑے دنبے خریدتے

روایات میں یہ بھی تصریح ہے کہ ایک دنبہ اپنی طرف سے اور آل محمدﷺ کی طرف سے زبح فرماتے اور دوسرادنبہ غرباء امت کیطرف سے زبح فرماتے۔

اس حدیث کی زیل میں ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ متعدد جانور قربانی میں دینا پسندیدہ فعل ہے۔اس کے بعد فرماتے ہیں۔(فتح الباری جلد 23 ص 327)

شافعی علماء نے یہ تصریح کی ہے۔کہ سات بکریوں کی قربانی ایک اونٹ سے افضل ہے۔اس لئے کہ سات بکریوں کے زبح میں اراقۃ الدم ( خون بہانا)زیادہ ہے اور اسی مناسبت سے ثواب بھی زیادہ ہوتاہے۔

6۔نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک سو اونٹ کی قربانی دی 230 جانور اپنے دست مبارک سے زبح کیے باقی جانور حضرت علی نے زبح کیے۔یہ مادیین یہ تجدد پسند یہ معاشی اقدار سےاسلامی احکام کو ناپنے والے اس خون بہانے کی حکمت کو کیا سمجھیں یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص جس کے سر پر دستار فضیلت بندھی ہوئی ہو اور منبر خطابت کوزینت دے رہا ہو۔و ہ اس قربانی کے فلسفے کو بھی سمجھ سکے۔

ہزار نکتہ باریک تر رموانیجاست

نہ ہر کہ سر بتر اشد قلندری داند

7۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنیے کہ وہ زبان رسالت ماب سے اس اہراق دم پرکیاروایت کرتی ہیں۔(تحفۃ الاحوزی شرح جامع الترمذی ج2 ص 352 و ابن ماجہ ص 233)

کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانی کے دن کسی شخص کا کوئی عمل اللہ کو  اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ خون بہائے۔(بہقی ۔و۔طبرانی)

اے فاطمہ اپنی قربانی کیلئے کھڑی ہوجا اور اس کے پاس موجود رہ ہر قطرہ خون کے بدلے میں تیرے گناہ بخشے جایئن گے۔حضرت فاطمہ نے عرض کیا کیا یہ ثواب صرف ہم اہل بیت کے لیے ہے۔یا سب مسلمانوں کےلئے؟آپ ﷺ نے فر مایا صرف اہل بیت کےلئے نہیں بلکہ اہل بیت اور تمام مسلمانوں کےلئے ہے۔

9۔حضرت علی کی ایک روایت کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے انھیں وصیت کررکھی تھے۔کہ میرے بعد میرے لئے قربانی دیتے رہنا حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ دو دنبوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے۔؟حضرت علی نے جواب دیا۔

(ابو رازی۔ترمذی)

کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی۔ کہ میں ان کی طرف سے قربانی دیتا رہوں۔اس لئے یہ دوسری قربانی آپ ﷺ کی طرف سے دیتا ہوں۔اور ایک روایت کے مطابق فرمایا میں اسے کبھی ترک نہیں کروں گا۔

10۔عتبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریمﷺ نے قربانی کے جانور صحابہ میں تقسیم کیے امام بخاری نے اس روایت سے یہ مسئلہ استنباط کیا

قسمة الامام الاضاحي بين الناس

کہ امام غرباء میں قربانی کے جانور تقسیم کرے۔تاکہ وہ بھی اس دن قربانی زبح کر کے سنت ابراہیمی کے ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔

زرا غور فرمایئے کہ عہد نبویﷺ میں صورت حال یہ تھی کہ آپﷺ غرباء میں قربانی کے جانور تقسیم کرتے تھے کہ وہ قربانی بھی دے سکیں۔اور آج مولانا یہ کوشش فرما  رہے ہیں کہ خوش بھی قربانی نہ دیں۔بلکہ اس کے بدلے قومی فنڈ میں چندہ دیں۔اتباع سنت کا صحیح تقاضا تو یہ تھا کہ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے  کہ وہ رقم مخصوص کرے او ر اس سے قربانی کے جانور غرباء میں تقسیم کرے تاکہ آج بھی سنت محمدیہ کے مطابق غرباء قربانی دے سکیں۔

بہر حال ان تمام روایات کے زک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شارع علیہ السلام کے نزدیک جانوروں کا زبح کرنا ہی مطلوب اور  سنت ابراہیمی کے ادا کرنے کی صحیح صورت ہے اور کوئی دوسری چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی  اور اسی حقیقت کی طرف فقہا کرام نے رہنمائی کی ہے۔

فقہاء کرام کی تصریحات

اب آپ کے سامنے فقہاء کرام کی تصریحات پیش کرتا ہوں۔درمختار اور اس کا حاشیہ ردالمختار فقہ حنفیہ کی مشہوراور مستند کتاب ہے۔صاحب در مختار کتاب الضحیہ کے زیل میں الضحیہ(قربانی )کی تعریف قربانی کے شرائط قربانی کا وقت بیان کرنے کے بعد قربانی کا رکن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

درمختار

یعنی قربانی کا رکن ان جانوروں کا زبح کرنا جن کی قربانی دی جاسکتی ہے۔پس واجب الراقۃ الدم  یعنی خون بہانا ہے۔

علامہ شامی لکھتے ہیں۔(رد المختار ص 220 ج5)

اس لئے کہ کسی چیز کا رکن وہی ہوسکتا ہے۔جس کا قیام اسی کے ساتھ ہو قربانی چونکہ زبح ہی کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ اس لئے زبح جانور قربانی کارکن ہوا۔

اس کے بعد علامہ شامی الراقۃ الدم کے وجوب پر لکھتے ہیں۔

والد لبل علي انها الاراقة مص تصدق بعين الحيوان لم بجز

(رد المختار ص 230 جلد5)

یعنی اراقۃ الدم کے وجوب پردلیل یہ ہے  کہ اگر کوئی شخص زندہ جانور قربانی کا کسی کو بطور صدقہ دے دے تو یہ قربانی تصور نہ ہوگی۔

فتاویٰ عالمگیری

فقہ حنفیہ کی مشہور فتاویٰ عالم گیریہ میں یوں وضاحت کی گئی ہے۔ فرماتے ہیں۔

(ص 326ج5)

قربانی کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی دوسری چیز ایام نحر میں اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔بنا بریں اگر کوئ زندہ بکری کسی کو صدقہ کر دے یا اسکی قیمت کسی کو صدقہ کر دے تو قربانی اس کے زمہ بحال رہے گی۔

بدائع الصنائع

بدائع الصنائع فقہ حنفی کی بلند پائع کتاب ہے۔یہ کتاب ترتیب مضامین اورحسن بیان کے لہاظ سے بے مثل ہے۔اس کے مصنف امام علماء(الدین الکاسانی)ملک العلماء کے لقب سے  پکارے جاتے تھے۔انھوں نے کیفیت وجوب اضحیہ کے زیل میں متعدد احکام لکھے ہیں۔زیر بحث مسئلہ کے متعلق فرما تے ہیں۔(جز 5 ص66)

یعنی وجوب وجوب قربانی کی کیفیات میں سے ایک یہ ہے کہ قربانی یعنی زبح جانور کا کوئی بدل یا اس کا قائم مقام کوئی نہیں ہوسکتا حتی کہ اگر کوئی شخص بجائے زبح کرنے کے زندہ بکر ی کسی کو صدقہ کر دے۔یا اس کی قیمت صدقہ کر دے۔تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ قربانی کے وجوب کا تعلق خون بہانے کے ساتھ ہے اورقاعدہ یہ ہے کہ وجوب کا تعلق اگر ایک معین فعل کے ساتھ ہو تو کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں  ہوسکتی۔

اس کے بعد اس سوال کوپیش نظر رکھ کر صدقہ فطر میں جنس کے بجائے قیمت دینا جائز ہے۔توقربانی میں بھی یہ صورت جائز ہونی چاہیے۔کہ بجائے قربانی کے اس کی قیمت ک صدقہ کردیا جائے۔فرماتے ہیں۔(ص 67جز5)

یعنی ایام نحر میں جو چیز واجب ہے وہ ہے خون بہانا یعنی زبح جانور شرتگ نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔اس لئے وجوب کا حکم مورد شرع کے ساتےھ مخصوص ہوگا بخلاف صدقہ فطر کے اس میں نبی ﷺ نے علت بیان کر دی کہ مساکین کوعید الفطر کے دنوں میں سوال سے بے نیاز کردو یہ سوال سے بے نیازی صدقہ فطر میں جنس کے ادا کر دینے سے بھی ہو سکتی ہے۔اور اس کی قیمت اداکر دینے سے بھی ہوتی ہے۔اس لئے ہمارے نزدیک صدقہ فطر میں تو قیمت دی جاسکتی ہے۔ لیکن قربانی میں قیمت نہیں دی جا سکتی۔

فقہا کرام کے فتویٰ کو واضح کر نے کیلئے یہ چند عبارات کافی ہیں۔ اس میں یہ حقیقت صاف طور پر سامنے آگئی ہے۔کہ قربانی کے ایام میں جانورزبح کرنے سے ہی قربانی ادا ہوسکتی ہے۔قیمت تو درکنار خودزندہ جانور کے صدقہ کرنے سے بھی قربانی کے وجوب سے کوئی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا اس میں شک نہیں کہ بعض صورتیں ایسی ہیں۔مثلا اگر کوئی شخص ایام قربانی میں قربانی نہیں دے سکا اور بعد میں وہ قربانی دینا چاہتا ہے تو اس کیلئے فقہا نے لکھا ہے۔کہ قربانی کی قیمت بھی دے سکتا ہے۔اور قربانی بھی دے سکتا ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ جن کو فقہا نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کا  زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ایام قربانی میں قربانی کے جانوروں کی قیمت حکومت وصول کر کے رفاہی کاموں میں خرچ کرے۔مولانا غلام مرشد صاحب کے پیش نظر فقہا کی اگر کچھ تصریحات  ایسی ہیں۔جو اُن کی تجویز کے حق میں ہیں۔تو وہ پیش کریں۔اس کے بعد غور کیا جاسکتا ہے۔کہ مولانا صاحب کی تجویز کی تائید ان عبارات سے ہوتی ہے یا نہیں ہم کھلے دل سے ان کا مطالعہ کریں گے۔

اگر کتاب وسنت سے اور فقہا کرام کی تصریحات سے اپنی تجویز کو موئید کر دیا تو ا س کے قبول کرنے میں کوئی تعامل نہ ہوگا۔بہرحال ان کے ارشادات کا انتظار رہے گا۔

(اخبار الاعتصام جلد 10 ش 48)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 80-89

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ