سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) مسئلہ قربانی مرغ

  • 3374
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2571

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مدعیان عمل بالحدیث کا  ایک گروہ مرغ کی قربانی کو مشروع اورصحابہ کرام کا معمول بہ قرار دیتا ہے۔اور ان میں سے بعض لوگ بقرہ عید کو مرغ کی قربانی کرتے ہیں۔اور اس میں احیاء سنت کا ثواب جانتے ہیں۔اور کہتے ہیں کے امام ابن حزم جو بڑے عظیم الشان محدث فقیہ مجدد وقت فخر الندلس تھے۔اس کے مجوز تھے۔کیا یہ بات صحیح ہے یا غلط ہے؟اگر صحیح ہے تو قرآن وسنت میں اس کا ثبوت کیاہے۔اورجماعت اہل حدیث کا اس پر عمل کیوں نہیں ہے۔بلکہ بعض اہل حدیث علماء اُس کو منع کرتے ہیں۔

1،۔عموم سے مراد یہ آیت ہے۔قرآن

اس عہد کی تمام سواریوں کا زکر کر کے فرمایا پیدا کرے گا وہ سواریاں جو تم نہیں جانتے۔(الراقم علی محمد سعیدی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد للہ رب العالمین۔امابعد فااقول وباللہ التوفیق۔واضح ہو کہ قرآن کریم سورۃ حج میں  ہے کہ

یعنی ہر امت کیلئے ہم نے زبح مناسک کے طریقے مقرر کئے ہیں۔تاکہ وہ جو چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔ جو اللہ نے ان کو دے رکھے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس

آیت کریمہ میں قربانیوں کیلئے 1،۔عموم سے مراد یہ آیت ہے۔قرآن

اس عہد کی تمام سواریوں کا زکر کر کے فرمایا پیدا کرے گا وہ سواریاں جو تم نہیں جانتے۔(الراقم علی محمد سعیدی)

کا زکر فرمایا ہے۔بهيمة الانعام اطلاق قرآن وحدیث کی زبان میں بھیڑ۔بکری گائے بھینس اونٹ اور دنبہ پر آیا ہے۔اور یہ ازواج ثمانیہ ہیں۔جن کا زکر سورہ انعام میں ہے۔بروئے قرآن وحدیث قربانی انھیں جانوروں سے مخصوص ہے۔عہد نبویﷺ او ر قرن سلف و خلف اہل اسلام میں بالاجماع تعامل انہی جانوروں کی قربانی پر چلا آیا ہے۔او ر یہی سنت ابراہیمی ہے۔)زاد المعادجز اول ص 328 افضل رفی ہدیہ )میں ہے۔

یعنی حرم کی قربانیاں اور خانگی قربانیاں اور عقیقہ یہ سب ان چارپایئوں کے ساتھ مخصوص ہیں جو سورہ انعام  میں مذکور ہیں۔نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے عہد میں ان جانوروں کے سوا کسی جانور کی قربانی ثابت نہیں ہے۔درایہ تخریج ہدایہ ص 326 میں ہے۔

یعنی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے قربانی اُونٹ گائے بکری کے بغیر منقول نہیں ہے۔ان کی قربانی جامع صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے۔اور ان کے علاوہ غیر جنس کے جانوروں کی قربانی صحیح بخاری یا  کتب صحاح کی حدیثوں سے ثابت نہیں ہے۔بلکہ ممانعت آئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔

لا تزبحواالامسنة الا ان يعسر عليكم فتزبحو جذعة من الضان

یعنی دو دانت جانور کے  بغیر کسی کو زبح نہ کرو اگر دو دانت والامیسر نہ ہو تو اٹھ دس1 ماہ کا میڈھا قربانی کر دو۔

پس پرندے مرٖغ وغیرہ نہ مسنہ ہیں نہ جزع ہیں اس لئے منع ہیں مرغ کی قربانی کا ثبوت نہ کسی نص قطعی الثبوت اورقطعی الاثبات سے نہیں اور نہ قرون ثلاثہ میں اس پر تعامل پایا گیا ہے۔اس کو سنت قرار دینا جہالت ہے۔جس سے بچنا واجب ہے۔کیونکہ سنت وہ کام ہے جس پر نبی کریمﷺ اور خلفاءراشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کا تعامل پایا گیا ہے۔جیسا کہ حدیث

فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين

سے ظاہر ہے۔جن جانوروں کی قربانی شعائر اللہ میں شعار ہے وہ ازواج ثمانیہ ہیں جن کا زکر ہوچکا ہے۔مرغ کی قربانی شعائر اللہ میں داخل نہیں نہ یہ ہدی میں ذبح ہوا اور نہ اضحیہ اور نہ عقیقہ میں یہ بعد رائے سے ایجاد کیا گیا ہے۔کہ اس کی قربانی مشروع ہے۔حالانکہ یہ

کا مصداق ہے۔قرآن مجید میں حاجی کیلئے جو

کا حکم وارد ہے۔اس کی تفسیر بھی اونٹ ۔گائے۔بکری۔سے کی گئی ہے۔(جامع البیان)

مجوزین کا استدلال اور اس پر تنقید

جو مدعیان عمل بالحدیث مرغ کی قربانی کے مجوزہیں۔وہ اپنے دعویٰ کے اثبات میں تلخیص کے والہ سے حضرت ابو ہریرہ کا اثر پیش کرتے ہیں جس سے یہ دعوٰی ثابت نہیں ہے۔کیونکہ یہ اثر بے سند ہے۔جوحجت نہیں ہے۔تلخیص میں تو اس کا ابوہریرہ کی طرف نسبت کرنا ہی مخدوس ہے الفاظ اس کے یہ ہیں۔

وعن ابي هرهرة انه ضحي بذالك و في نسخة بديك

(تلخیص الجیر جلد 2 ص 384)

یعنی اس اثر ابی ہریرہ کے الفاظ ضحيآگے دو نسخے ہیں ایک میں بذالک اوردوسرے میں بدیک ہے۔جس مشار الیہ لفظ ۔خیل ہے جو اس سے پہلے سہیلی کی ایک غیر معروف روایت میں وارد ہے۔اگردیک کانسخہ درست ہے۔تو اس میں مرغ کا زکر ہے۔مگر یہ تصحیف ہوگا جو بذالک کا بدیک بن گیا۔جب یہ شبہ پر گیا تو استدلال ساقط ہوا۔

اذا الاحتمال بطل الاستدلال

دوسرا ثبوت اسی اثر کا سبل السلام سے پیش کیا جاتا ہے۔کہ وہاں عبارت یوں ہے۔

وما روي عن ابي هريرة انه ضحي بديك

یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔کہ انہوں نے مرغ قربانی دیا سبل السلام کوئی حدیث کی کتاب نہیں ہے۔صرف بلوغ المرام حدیث کی کتاب کی شرح ہے۔جس کے شارح علامہ اسماعیل امیر ہیں  انہوں نے یہ الفاظ تلخیص ہی سے غالباً نقل کیے ہیں۔کیونکہ سوائے تلخیص کے کسی معتبر کتاب میں روایت نہیں پائی گئی۔لہذا اس میں لفظ بدیک مخدوش ہے۔پھر اگر اس  لفظ کو بدیک ہی تسلیم کیاجائے تو بھی یہ اثر قبول نہیں کیونکہ بلا اسناد نقل کیا گیا ہے۔

1۔اٹھ دس ماہ کا میڈھا قول مرجوح ہے اور ایک سال کا میڈھا قول صحیح ہے۔جیس کہ شروح حدیث میں ہے۔(سعیدی)

یہ ضابطہ محدثین میں مسلم ہے کہ کوئی حدیث با اثر صحابی بلا اسناد مقبول نہیں۔اہل بدعت میں کئی آثار مشہور ہیں۔اوربعض روایات کتب فقہ میں اور شروح اور حواشی میں بصیغہ مجہول لفظ روی سے منقول ہیں۔ جن کی کوئی سند نہیں ہے۔اس لئے وہ قابل التفات ہیں جو لوگ ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو حجت سمجھتے ہیں۔ان کو چاہیئے کہ اس کی اسناد پیش کریں۔دونہ خرط التفات نہیں جب سند پیش ہوگی تو پھر غور کیا جائے گا۔کہ وہ صحیح ہے۔یا ضعیف ہے۔اسی طرح سہیلی کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔ جو بغیر سند ہے لہذا امام رافعی کا یہ فرمان سولہ آنہ درست ہے۔

تلخیص بحوالہ مذکور ۔یعنی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے اونٹ  ۔گائے۔بکری کے بغیر کسی جانور کی قربانی ثابت نہیں۔

پس یہ کہہ کر حافظ ابن حجر نے جو اس اجماع پرقابل نظر ہے جلد نمبر 10 ش نمبر3 وہ ناکام رہا۔اور یہ مضبوط  قلعہ تعامل اجماعی کا بدستور قائم ہے یہی وجہ کہ درایہ میں حافظ نے اس قلعہ میں  پناہ لیکر اتفاق کر لیا ہے۔کما تقدم اکر بالغرض یہ اثر درست ہو تو حجت نہیں کیونکہ اثر ہے۔جو قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث میںبهيمة الانعام کی قربانی وارد ہے۔مرغ کا قربانی یا عقیقہ میں ذبح  کرنا ثابت نہیں۔اول اثر ہے ۔۔۔دوم بلاسندہے۔۔۔۔سوم کسی مستند کتاب میں صحیح الفاظ سے ثابت نہیں۔۔۔تو پھر یہ قابل استدلال کس طرح ہوسکتا ہے۔اوراس پر سنیۃ کا دارومدار کس طرح رکھا جاسکتا ہے۔؟

دوسری دلیل

محلی ابن حزم سے یہ منقول ہے کہ(محلی جلد 7 ص 358)

یعنی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں مرغ قربانی کردوں تو کوئی پروا نہیں اور  اگر قربانی کے جانور کی قیمت لے کر کسی مفلس تنگ دست پر صدقہ کردوں تو  یہ مجھے قربانی زبح کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔

دوسری دلیل پر جرح

یہ قول بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مثبت دعویٰ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں نہ تومرغ قربانی میں زبح کرنے کا زکر ہے۔اور نہ حکم ہے کہ مرغ قربانی کر دو۔بلکہ اس میں لفظ لو کے ساتھ کلام کی گئی ہے۔جس کو تمنا کے معنی میں استعال کیا گیا ہے۔تمنا کے معنی میں لو کا ستعمال آجاتا ہے جس سے تمنا کا مفہوم سمجھا جاتا ہے۔فعل تمنا زکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔پس۔مقصد حضرت بلال کاقربانی کا عدم وجوب ظاہر کرنا ہے۔کہ قربانی معروف مخص تطوع ہے فرض نہیں اگر مرغ قربانی کر دیتا تو پروانہ تھی۔اورقیمت قربانی کی صدقہ کر دیتا تو کیا پرواہ تھی۔یہ بھی اچھا ہوتا۔چنانچہ اس پر حضرت بلال کا آخری کلام دلالت کر رہا ہے۔

حضرت ابن عباس کا اثر

اورحضرت ابن عباس کا  یہ اثر دال ہے۔کہ

یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کودودرہم دیئے کہ ان کے ساتھ گوشت بازار سے خرید لائو او ر جو شخص تم کو ملے ا س کو یہ کہہ دو کہ یہ ابن عباس کی قربانی ہے۔

اس کا مطلب بھی یہی ہے۔کہ قربانی معروف فرض نہیں تطوع ہے۔عید کے دنگوزت خرید  کرنا اور اس کو صدقہ کر دینا ثواب ہے جیسے کوئی تنگ دست حجامت  بنوالے اور عید کے بعد حجامت بنوائے تو قربانی کا ثواب ہے۔ لیکن اصل قربانی نہیں ہے۔یہ ایسے ہے جیسے کہا جائے ماں باپ کی طرف دیکھنا حج کرنا یہ اصل حج نہیں ہے۔با لو شرطیہ ہے یہ جب ماضی داخل ہوتاہے۔تو تعلیق فی الماضی کے لئے آتا ہے۔جہاں صرف جزاء کے وجود کو پختہ کرنا مقصود ہے خواہ۔شرط موجود ہویا مفقود ہو تو یہاں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قربانی سے لاپراوائی ظاہر کرنا ہے کہ یہ فرض نہیں ہے۔اگر میں مرغ قربانی میں زبح کر دیتا یا اس قربانی کی قیمت ہی کسی غریب کو دے دیتا تو کوئی مضائقہ نہ ہوتا یہ تعلیق ہے جس پر نہ عمل ملال نے کیا اور نہ کسی اور نےکیا جیسے حدیث میں ہے کہ

تصدقو ا ولو بظلف محرق

یعنی صدقہ دو اگرجہ جلا ہوا پایہ بکری ہو۔الغرض ما کنت اُبالی کہہ کر مرغ قربانی کرنے اور قیمت قربانی دینے کویکساں بنانے کی تمنا ظاہر کی ہے۔جیسے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ

ما ابالي شربت الخم او عبدت هذه السارية دون الله

یعنی میں پروا نہیں کرتا کہ شراب نوش  کروں یا اس ستون کی پوجاکروں یکساں گناہ ہے۔اس سے گناہ میں یکساں ظاہر کرنا ہے۔نہ کہ اصل حکم کہ ایک فسق ہے اور دوم شرک ہے ۔مقصد دونوں سےبچنا ہے اسی طرح حضرت بلال کا مطلب نہ مرغ کوقربانی کرنا ہے اورنہ قیمت دینا ہے اس سے اصل مقصد قربانی کی فرضیت سے انکار ہے۔اگر اس سے تعلیق فی الماضی سے سنیت کا ھکم ثابت کیاجئے توقربانی نہ کرنا اور اکی قیمت دینابھی مسنون اورمشروع ہوگا اورگوشت خرید کر دینا بھی سنت ہوگا۔ جس سے ملحدین کی بات صحیح ثابت ہوگی۔ جو کہتے ہیں کہ قربانیاں نہ کرو اہراق دم ضروری نہیں قیمتیں صدقہ کردو کہ مہاجرین بہت حاجت مند ہیں۔

چڑیا کی قربانی

نیز عقیقہ میں چڑیا کرنا بھی جائز ہوگا۔کیونکہ موطا امام مالک باب استحباب عقیقہ میں ہے۔کہ ابراہیم بن حارث تیمی نے کہا۔

مستحب العقيقة ولو بعصفور

 یعنی عقیقہ مستحب ہے۔اگرچہ چڑیا  زبح کردو۔تو کیا چڑیا بھی عقیقہ یا قربانی میں زبح کی جاسکتی ہے۔؟

آخری دلیل

ایک دلیل فضیلت جمعہ میں حدیث ساعات پیش کرتے ہیں۔کہ اس میں

كانما قرب دجاجة

وارد ہے کہ جو چہارم ساعت میں آئے اس کو مرغی قربانی دینے کا ثواب ہے۔ اس حدیث میں مرٖغی  قربانی دینے کا مطلب مرغی صدقہ کرنے کاہے۔نیل الاوطار میں ہے۔

اي تصدق بها

کہ اس کو صدقہ کیا اگر قربانی مشہور مراد ہے تو پھر بکروں بھیڑوں کی جگہ انڈے قربانی ہونے لگیں گے۔ کیونکہ اس  حدیث میں یہ ہے کہ

فكا نما قرب بيضة

پانچویں ساعت میں انڈا قربانی کرنے کاثواب پائے گا۔مرغ کی قربانی ثابت نہیں۔اور نہ اس پر سلف کاتعامل ثابت ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہےکہ ابن حزم گو بہت بڑے عالم ہیں۔مگر ان کی کوئی بھی بات نصوص قطعیہ کے خلاف اجماع کے خلاف مانی نہیں جا سکتی ان عاملین بالرائے کو جان لینا چاہیے کہ علامہ ابن حزم نے قریش کی ثابت کر کےغیر قریش کی امارت کو باطل قرار دیا۔اگر اس کو ہم نے مان لیا تو پھر مرغی والوں کی عمارت کا کارخانہ ہی منہدم ہوجائے گا۔ اسی طرح ابن حزم نے مدرک رکوع کو رکعات کے اعادہ کا وجوباً ورنہ نماز باطل ہے۔یہ بھی ماننی ہوگی اگر نہیں توقربانی مرغ میں ان کی بے دلیل بات کیسےمانی جاسکتی ہے۔؟

اور آجکل موسیقی کےجواز میں ابن حزم کو  بڑے شدومد سے عیاش اور بے دین لوگ پیش کررہے ہیں۔کہا یہ حضرات موسیقی کے جواز کا بھی فتویٰ دے دیں گے۔؟ (الاعتصام جلد 10 ش 20)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 74-80

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ