السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بھینس یا بھینسا جو مشہور جانور ہے کیا ا س کی قربانی شریعت سے ثابت ہے ؟کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کیجئے۔آپ کی تحقیق مسائل سے میری تسلی ہوجاتی ہے۔؟
(السائل محمد حسین بن اسماعیل رئیس صدر شعبہ اسلامیات لارنس کالج مری پنجاب)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد للہ رب العالمین۔اما بعد فاقول و باللہ التوفیق۔واضح ہو کہ بھینس ۔بھینسا جو مشہور حیوان ہے اورپنجاب وغیرہ ملک عجم میں عام پایا جاتا ہے۔عہد نبو یﷺ صحابہ میں ملک عرب خصوصاً حجاز میں پایا نہیں گیا۔کتاب و سنت میں خصوصی طور پر اس کا کہیں زکر نہیں ملتا یہ ملک عجم کی پیداوار ہے۔ اس لئے اس کانام معرب جاموس ہے۔حیواۃ الحیوان ج1 ص 232میں ہے۔علامہ دمیری ؒ یہ فرماتے ہیں۔الجاموس واحد الجوامیس
فارسی معرب یعنی جاموس جوامیس صیغہ جمع کا واحد ہے۔یہ لفظ فارسی سے معرب ہے۔ جیسے بھیڑ دنبہ بکری کی جنس سے ہیں۔اس طرح جاموس بقر یعنی بھینس گائے کی جنس سے ہے۔چنانچہ حیواۃ الحیوان کے صفحہ میں لکھا "حکمہ و خواصہ کا بقر" یعنی بھینس کا حکم مثل گائے کے ہے۔یعنی اس کی جنس سے ہے۔ہدایہ فقہ کی مشہور درسی کتاب کی جلد 2 ص 229 میں یہ لکھا ہے۔
يدخل في البقر الجاموس لا نه من جنسه
یعنی قربانی کے بارہ میں بھینس گائے کا ھکم رکھتی ہے۔کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے۔امام ابو بکر ابن ابی شیبۃ نے کہا باب الزکوٰۃ میں زکواۃ کے احکام بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک جماعت باسناد یوں درج کیا ہے۔
یعنی امام بصری ؒ سے ر وایت ہے کہ بھینس گائے کے درجے میں ہے۔یعنی جیسے تیس گایوں پرزکواۃ ہے۔ویسے ہی تیس بھینسوں پر ہے۔امام حسن بصری نے بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے علم قرآن و حدیث کا حاصل کیا ہے۔انھوں نے بھینس کو گائے کی جنس ٹھرا کر اس پر وہی حکم لگایا ہے۔امام مالک نے اپنی کتاب موطا کے ص 213 مع شرح مصطفیٰ میں حیوانوں کی زکواۃ کا حکم بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھاہے۔
قال ما لك به العراب والبخت والبقر والجواميس نحو مالك
یعنی امام مالک نے فرمایا کہ جیسے گوسفند بکر ی سے زکواۃ لینے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ایسے ہی عربی اونٹوں اور بختی اونٹوں اور گایئوں اور بھینسوں سے زکواۃ لینی چاہیے۔امام مالک تبع تابعین سے ہیں۔جو جاموس کو گائے شمار کرتے ہیں۔پس تابعین او ر تبع تابعین کے عہد میں جاموس گائے کی جنس میں شمار ہوا۔کنوز الحقائق میں ایک روایت یوں درج ہے۔
الجاموس في الاضحية عن سبعة
یعنی بھینس قربانی میں سا ت کی طرف سے شمار ہے۔اس حدیث کی اسناد کا کچھ علم نہیں1ہے۔لیکن جاموس کوگائے کے ساتھ شمار کرنے میں اکابر محدثین کا مسلک ہے۔چنانچہ مرعاۃ المفاتیح جلد 2 ص 303 میں ہے۔
یعنی فقہا محدثین امام مالک امام حسن بصری امام عمربن عبدالعزیز قاضی ابو یوسف امام ابن مہدی وغیرہ جاموس کو گائے کی ایک قسم شمار کر تے ہیں۔اس لئے زکواۃ بھینس کے گئے کے حساب سے بیان کرتے ہیں۔نیز یہ ککھا ہے۔
یعنی یہ بات جان لینی چاہیے۔کہبهيمة الانعام کے بغیر کوئی جانورقربانی میں کفایت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ کا فرمان قرآن میں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نام قربانی کے مویشیوں پر یاد کریں۔جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں۔ او ر وہ اونٹ
1۔کنوز الحقائق میں فردوس ویلمی کا حوالہ ہے۔اورمعلوم ہے کہ فردوس کی روایات عموماً کمزور ہوتی ہیں۔کنز العمال کے مقدمہ میں بحوالہ حافظ سیوطی جن چار کتابوں کی روایتوں کو علی العموم کمزور کہا ہے ان میں اس کا بھی شمار ہے
واديلمي في مسند الفردوس فهوا ضعيف فيسقغتي بالشر اليها او الي بعضها عن بيان ضعفخ (ص 3 جلد اول ج۔ح)
گائے غنم ہیں۔غنم کی دو قسمیں ہیں۔ایک بکر ی دوسری بھیڑ ان جانوروں کے بغیر کسی جانور کی قربانی نبی کریمﷺ اورصحابہ کرام سے منقول نہیں۔پھرلکھتے ہیں۔
واما الجاموس فمذهب الحنفية وغير هم جواز التضحية به
یعنی مذہب حنفی وغیرہ میں بھینس کی قربانی جائز لکھتے ہیں۔پھر یہ لکھا ہے۔
یعنی فقہا حنفیہ وغیرہ یہ لکھتے ہیں۔کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔ اور ان کی تایئد یہ بات کرتی ہے۔کہ بھینس زکواۃ کے بارے میں مثل گائے کے ہے۔تو قربانی میں بھی اس کی مثل ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس بات پرسب کا اجماع ہے۔کہ بھینس حلال ہے ا س کی دلیل کہ سورہ مائدہ کی آیت
قرآن!
(تمہارے لئے چار پائے مویشی حلال کئے گئے ہیں۔)
تفصیل کاخاز ن وغیرہ میں سب چارپائے حیوانوں کو جو مویشی ہیں گھوڑے کی طرح سم در نہیں اور نہ شکار کرنے والے درندے ہیں سب کو بهيمة الانعام میں شمار ی کیا ہے تو بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔اس لئے حلال ہے۔اور بهيمة الانعام کی قربانی نص قرآن سے ثابت ہے۔چنانچہ سورہ حج میں یہ آیت ہے۔
قرآن!
یعنی ہم نے ہر امت کیلئے طریقہ قربانی کا مقرر کیا ہے۔تاکہ اللہ کانام زبح کے وقت ان مویشیوں پرزکر کریں۔ جو اللہ نے ان کو دیئے ہیں۔اور انہوں نے پال رکھے ہیں۔موضع القرآن میں بهيمة الانعام پر لکھا ہے۔انعام وہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں۔کھانے کو جیسے گائے بکری بھیڑ جنگل کے ہرن اور نیل گائے وغیرہ اس میں داخل ہیں کہ جنس ایک ہے۔بنا بریں بھینس بھی بهيمة الانعام میں داخل ہے۔چنانچہ فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 ص 520 میں سوال جواب یوں درج ہیں۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب