سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) قربانی میں شریک سب حصہ داروں کا اہل توحید ہونا ضروری ہے۔

  • 3370
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2363

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا جانور دبلا ہو تو اسے فروخت کرکے اُس کی رقم میں مذید رقم ملا کر اس سے عمدہ یہ جانور خرید کر قربانی کرنا جائز ہے۔؟

قربانی کی گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوں۔تو کیا ان سب کامسلمان ہونا ضروری ہے۔چند حصہ دار موحد نمازی ہوں۔اور ان کے ساتھ چند مشرک بدعتی بے نماز بھی ہوں تو کیا اس صورت میں اہل توحید کی قربانی صحیح ہوگی۔؟

قربانی کا جانور خریدا گیا بعد خیال ہوا کہ یہ جانور دبلہ ہے۔اس کو فروخت کر کے جو رقم حاصل ہو۔اس میں کچھ مذید رقم ملا کر کوئی اور فربہ موٹا جانور خرید کر قربانی کر دیا جائے۔کیا یہ جائز ہے۔؟

(عبد الرحمٰن حصاری خطیب جامع اہل حدیث چک نمبر 475گ ب ڈاک خانہ خاص براستہ کنجوانی ضلع لائل پور)

مولنا حافظ عبد لقادر روپڑی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب نمبر1

ایک جانور کی جان ایک ہے۔چاہیے تھا کہ ایک گائے ایک ہی گھر یا شخص کی طرف سے قربانی ہو۔کیونکہ قربانی خون بہانے کا نام ہے۔گوشت کے حصوں کا نام نہیں وہ تو انسان خود ہی کھا لیتا ہے۔اورجان بکری دنبے اور گائے کی ایک ہی ہے پس گائے کا سات کے قائم مقام ہونا محض خدا کی مہربانی ہے۔اس لئے قربانی میں شریک بھی ایک ہی قسم  کے ہونے چاہیں۔یعنی سب موحد مسلمان ہوں مشرک نہ ہوں۔اور نیت بھی سب کی قربانی کی ہو۔نہ کسی کی نذر یا عقیقہ وغیرہ کی اسی لئے گائے کے سات حصے ہونے میں شبہ ہے۔کیونکہ عقیقہ کے متعلق حدیث میں صراحت نہیں آئی۔اور قربانی کی بارے میں صراحت آگئی ہے۔کہ سات کی طرف سے ہوسکتی ہے۔

خلاصہ

یہ کہ جو بات شریعت میں قیاس کے خلاف ہو۔وہ اسی مقام پر بند رہتی ہے۔ کیونکہ جب علت معلوم نہیں تو اس کاحکم دوسری جگہ کس طرح  جاری ہوسکتا ہے۔اس مسئلہ پر تنظیم اہل حدیث دسمبر 1973ء میں حضرت مولانا عبدالقادر حصاری کا مضمون چاح ہوچکا ہے اس کاافتتاح درج زیل ہے۔

قربانی حلال مال طیب سے خریدنی ضروری ہے۔اگر قربانی میں ایک  روپیہ حرام کا شامل ہوگیا۔توقربانی مردود ہے۔اس طرح قربانی کے جانور میں شریک ہونے والے تمام اشخاص نمازی موحد ہونے ضروری ہیں۔اگر ان میں کوئی حرام کار حرام خور کافر مشرک بدعتی بے نماز وغیرہ بے دین شامل ہوا تو قربانی سب کی ضائع ہو جائے گی۔

قرآن مجید میں ہے۔

اللہ  تعالیٰ متقین کی قربانی و نیک عمل قبول فرماتا ہے۔

یہ اصول اس وقت کا مقرر کردہ ہے۔ ہابیل قابیل کی قربانی کا مقابلہ ہوا تھا۔جس  کوقرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔حرام کھانے والا  متقی نہیں ہے۔

حدیث میں ہے۔اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک مال پاک عمل کو قبول کرتا ہے۔

مشکواۃ میں یہ حدیث ہے اگر کسی شخص نے دس روپے کا کوئی کپڑا خریدا ایک روپیہ ان میں حرام مال کا تھا۔باقی  تو حلال تھے۔اب اگ اس نے اس کپڑا کو پہن کرنماز پڑھی توجب تک وہ بد ن پر رہا۔تب تک نماز نہ ہوگی جب ایک حرام کے روپے نے نو ر وپیہ حلال بے کارکردیا تو قربانی میں سالاشخاص میں سے ایک کا روپیہ حرام کاہے۔تو وہ باقی لوگوں کے حلال مال کو بیکار کر دےگا۔اور قربانی قبول نہ ہوگی۔ ٹھیک ان میں سے سے سات میں سے ایک شریک قربانی  حرام کار حرام خور کافر مشرک بدعتی بے نماز وغیرہ بے دین شامل ہوا تو قربانی سب کی ضائع ہو جائے گی۔لہذا قربانی میں ایسے لوگوں کی شرکت سے پرہیز لازم ہے۔

جواب۔ نمبر2

پہلا جانور جو قربانی کی نیت سے خریدا اور نامزد کیا گیا اگر معمولی دبلا ہے یعنی شرعاً قربانی ہوسکتا ہے۔تو اسی پر کفایت کریں۔تبدیلی کی ضرورت نہیں۔کیونکہ مقصد حاصل ہے۔لیکن اگر کوئی شخص پہلے دبلے جانور کی جگہ دوسرا عمدہ فربہ او ر بیش قیمت جانور قربانی کرنا چاہتا ہے۔تو سوال میں جس صورت کا زکر ہے وہ جائز ہے۔کیونکہ ادنیٰ کی بجائے اعلیٰ اور بہتر دیا گیا ہے۔اس کی دلیل یہ ہے۔حدیث میں ہے۔

کہ اگر اونٹوں کی ذکواۃ میں کسی شخص کے زمہ بنت بسون ہے (مادہ بچہ جو دو سال کا ہو کر تیسرے سال میں داخل ہو جائے۔)لیکن اس شخص کے پاس بنت بسون نہیں ہے۔ بلکہ حقہ ہے۔(جو تین سال پورے کر کے چوتھے میں داخل ہو جائے۔)تو اس صورت میں اگر زکواۃ ادا کرنے والا بنت بسون کی جگہ حقہ دینا چاہے تو اس سے لیا جا سکتا ہے۔ٹھیک اسی طرح قربانی میں جانور کی بجائے اس1سے بہتر دینا جائز  ہوگا۔(ابن قدامہ جلد 8 ص 638)میں یہ مسئلہ مفصل بیان ہوا ہے۔وہاں عبارت بھی ہے۔(عن ابن قدامہ)

(قربانی  کا جانور اس صورت میں تبدیل کرنا جائز ہے۔جب اس کی جگہ دوسرا بہتر دیا جائے یہ امام احمدؒ سے منصوص ہے۔عطاء۔مجاہد۔عکرمہ۔امام مالک۔اورامام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔)

مختصر یہ کہ قربانی کا یہ جانور بصورت مسولہ کرنا جائز ہے۔

(تنظیم اہل حدیث 21 دسمبر 1973ء)(حافظ عبد القادرروپڑی)

لفظ مسنه کی تحقیق

قربانی کے جانور کےلئے فرمان نبویﷺ یہ ہے۔

لا تذبحو الا مسنة الا ان يعسر عليكم فتذ بحو جذعة من الضان(مسلم)

(یعنی قربانی میں مسنہ جانور زبح کرو۔)

یعنی لوگ مسنہ کا معنی سال والا کرتے ہیں۔یہ بالکل غلط ہے کیونکہ مسنہ کا نون مشدد ہے اور یہ مسن سے مشتق ہے۔جس کے معنی ہیں دانت ۔سنۃ سے مشتق نہیں۔جس کے معنی سال ہیں۔مسن باب افعال اسنن يسنسے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔اصل مین مسنن تھا۔نون کو نون میں ازعام کیا مسنن ہو۔اس پر۔۔ة۔۔نقل کی زیاد ہ کی تو مسنةہو گیا۔نقل کی ۔۔ة۔۔وہ ہوتی ہے۔جس میں صفت وغیرہ اسمیت کی طرف منتقلی ہو جاتی ہے۔مسنن ہر دانت والے کو کہتے ہیں۔۔۔ة۔۔زیادہ کرنےسے اسمیت کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔یعنیمسنةدودانت والے کا گویانام ہوگیا جیسےزبیح ہر زبح شدہ جانور کوکہتے ہیں۔اس پرة زیادہ کرنے سے ذبيحة جانور کے ساتھ خاص ہوکر گویا اس کا نام ہوگیا۔

1۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ قربانی کا جانور خریدتے وقت تمام عیوب سے دیکھ بھال کرلینی چایئے۔اس میں ہے کہ ایسا لاغر بھی نہ ہو۔کہ جس میں چربی نہ ہوایسا  جانور خریدنا ہی منع ہے۔اورحدیث میں بھی آیا ہے۔کہ قربانی کاجانور خریدنے کے بعد اسکو بدلنا منع ہے۔جیس کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے۔او روہ کتب  حدیث میں مشہور ہے۔(سعیدی)

پسمسنة کا معنی  دو دانت والا ہوا۔اس کا معنی سال والا غلط بالکل غلط ہے۔اوربے فہمی کا نتیجہ ہے۔مسنة اورثنی کے اصل معنی دودانت والا ہیں۔بعض آئمہ دین سے سالوں کا اندازہ منقول ہے۔مثلا حضرت ابو حنیفہ کا خیال ہے کہ بکرا ایک سال کا ہو جائے تو مسنة اور ثنی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں۔کہ تیسرےسال میں داخل ہوجائے اسی طرح بعض شارحین اور اہل لغت نے بھی سال دو سال کا اندازہ لکھدیا ہے۔مگر یہ کوئی اختلاف نہیں اس کی اصل وجہ مختلف ممالک اور  علاقوں کی آب و ہوا او ر خوراک وغیرہ کا فرق ہے۔یعنی ملکوں میں دو دانت جلد ہی نکل آتے  ہیں۔اور بعض میں کچھ دیر سے اس لئے آئمہ دین نے اپنے اپنے ملک اور علاقہ کے لہاظ سے سالوں کا اندازہ بیان فرما دیا۔پس فرمان نبویﷺ کی رو سے بکری۔گائے۔اونٹ۔دو دانت سے کم ہر گز قربانی نہیں ہو سکتے۔(اخبار تنظیم اہل حدیث جلد 26 ش22)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 13 ص 66-68

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ