السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال۔1آجکل یہ رواج بہت عام ہوگیا ہے۔کہ زندہ جانور تراز ومیں رکھ کر وزن کر کے وہ سارا وزن دو روپے یا تین روپے فی سیرخرید لیاجاتا ہے۔عموماً لوگ قربانی کے جانور بھی اسی طرح خریدتے ہیں۔کیا یہ بیع شرعاً جائز ہے۔ اگرناجائز ہے تو ایسےجانور کی قربانی ہوسکتی ہے۔؟مفصل بادلائل تحریر فرمایئں۔
سوال۔2 قربانی کی نیت سے جانور خریداجائے تو اسکے زبح ہونے سے پہلے اس کی اُون اتار نا یا دودھ دوہنا جائز ہے۔اگر اُون اُتاری جائے یا دودھ دوہا جائے تو کیااس کو خود استعال کر سکتا ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب۔1 حدیث میں اُون کو جانور کے بدن سے اُتارے بغیر فروخت کرنا منع ہے۔
چنانچہ بلوغ المرام کتاب البیوع ص74 میں حدیث ہے۔
ولا يباع صوب علي ظهر ولا لبن في ضرع
یعنی اُون جانور کی پیٹھ پرنہ فروخت کی جائے اور نہ دودھ لیوٹی(تھنوں میں) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ جانور کے گوشت وغیرہ کا اندازہ کر کے فروخت کرنا اور خریدنا جائز نہیں کیونکہ صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔جب ایسی خریدوفروخت کرنا منع ہے۔توا س کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔
جواب۔2 ترغیب و ترہیب میں ہے۔(رواہ ابن ماجہ۔و رترمذی۔)(ترغیب و ترہیب ص189)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔کہ بقر عید کے دن آدم کے بیٹے نے کوئی عمل نہیں کیا کہ قربانی سے زیادہ اللہ کو پیارا ہو۔اور قربانی قیامت کے دن سینگوں۔بالوں ۔کھروں سمیت آئے گی۔اور خون زمین پر پڑنے سے پہلے خداکے پاس قبولیت کے مقام پر پہنچتا ہے۔پس قربانیوں کے ساتھ دل سے خوش رہو۔اور اس حدث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے بال نہیں کٹانے چاہیں۔
جیسے سینگ وغیرہ کیونکہ قیامت کے دن قربانی ان اشیاء کے ساتھ آئے گی۔ہاں اگرقربانی کاجانور بہت مدت پہلے کا خریدا ہوا ہو۔اور اُون اتنی بڑی ہوگئی ہو۔ تو پھر بقر عید کے دن سے اتنی پہلے کاٹے کے بقر عید کے دن تک کافی بڑھ جائے تاکہ اس حدیث کے مطابق ہو جائے۔اس صورت میں کاٹنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوگی۔اور قربانی کا جانور تکلیف سے بھی محفوظ رہے گا۔اور جو اُون کاٹے وہ صدقہ کر دینی چاہیئے۔کیونکہ قربانی کے زبح ہونے سے پہلے قربانی کی کوئی شے استعمال کرنا شُبہ سے خالی ہیں۔جو قربانی مکہ شریف میں بھیجی جاتی ہے۔اس کی بابت حدیث میں آیاہے۔اگر راستہ میں رہ جائے تو اس کو زبح کردو۔اور لوگوں کیلئے چھوڑ دو۔ تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی نہ کھائےملاحظہ ہو۔
(مشکواۃ باب لہدائے فصل اول ص231)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شے راہ للہ ہو جائے وہ وقت سے پہلے استعمال نہ کرنی چاہیے۔ہاں لاچاری کی حالت میں سواری کی اجازت آئی ہے۔چنانچہ مشکواۃ کے اسی باب میں ہے۔
یعنی قربانی کے جانور کےدودھ میں بھی علماء کا اختالف ہے۔اہل بیت شافعیہ حنفیہ کہتے ہیں۔جب کچھ دودھ دوہے تو صدقہ کرے۔ اگر کہیں پی گیا تو اس کی قیمت صدقہ کرے۔اور امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ پینے کی اجازت نہیں لیکن اگر کوئی شخص پی لے تو اس پر تاوان کچھ نہیں۔
یہ زبح سے پہلے قربانی کی کوئی شے اپنے استعمال میں نہ لائے۔زبح کے بعد استعال میں لا سکتا ہے۔چمڑا استعمال کر سکتا ہے۔اور اُون وغیرہ چمڑے سےعلیحدہ کر کے کوئی سے بنانی چاہے تو بنا سکتا ہے۔لیکن ان میں سے کسی شے کو فروخت کر کے پیسے کھانے کی اجازت نہیں۔
چنانچہ۔حدیثوں میں چمڑوں وغیرہ کے فروخت کرنے سے صریحاً منع فرما یا گیا ہے۔ (تنظیم اہل حدیث جلد8 ش 27)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب