السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے کہا قربانی حاجی پر فرض ہے غیر حاجی مرضی کا مالک ہے کسی اور طریق سے خیرات کر سکتا ہے۔اول عشرۃ زالحجہ میں نماز سے پہلے حجامت بھی بنوا سکتاہے۔مکرر آنکہ مسائل قربانی میں سنا جاتا ہے۔کہ اگر غیر مستطیع بعد نماز حجامت بنوائے تو ہربال کے بدلے ایک ایک قربانی کا ثواب ہے۔مسئلہ فہم سے بالا تر ہے کیا یہ صحیح ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیر حاجی کے حق میں بھی قربانی سنت ہے۔یہ مضمون احادیث میں ہے۔جو قربانی نہ کرے وہ ہمار ی عید گاہ میں نہ آئے۔وغیرہ اور خود آپ ﷺ نے حالت حضر میں قربانی کی باقی حجامت والا مسئلہ کتابی نہیں خیالی ہوگا۔اللہ اعلم(اہل حدیث 26 اگست سن1932ء)
اہل حدیث مجریہ 26 اگست 1932ء میں قربانی غیر مستطیع کے متعلق فرمایا ہے۔حجامت والا مسئلہ کتابی نہیں خیالی ہوگا۔غالبا ً سائل کی نظر اس حدیث پر ہے خیالی نہیں۔
(رواہ احمد ابودائود و نسائی)
یعنی عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر میرے پاس سوائے اس بکری جو عطیہ کی میرے پاس ہے۔ایک شخص کی ہے۔کچھ نہ ہو تو اس کو قربانی کردوں۔آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔(کیونکہ وہ چیز غیر کی ہے۔تم اس کے مالک نہیں) ہاں اپنے سر کے بال کتروالو حجامت کر والو ناخن ترشوالو مونچھیں ترشوالو زیر ناف مونڈ لو پس یہی تمہارے لئے پوری قربانی کا ثواب اللہ کے نزدیک ہے۔(اہل حدیث 18 نومبر سن1932ء)(حکیم عبد الرزاق از رنگون)(فتاوی ثنائیہ جلد 1 ص 515)
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب