السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اموال زکوٰۃ سے مدارس اسلامیہ کی تعمیر جائز ہے یا نہیں اور مدرسین و اساتذہ و مکاتب اسلامیہ کو زکوٰۃ سے تنخواہ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ سے دینی مدارس کی تعلیم بعض علماء کے نزدیک جائز ہے اور غریب مدرسین کی تنخواہ بھی جائز ہے چونکہ فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور فی سبیل اللہ عام ہے چنانچہ تفسیر خازن:
((قال بعضہم ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہٗ علی الغزاة فقط ولہذا جائز بعض الفقہاء صرف سہم سبیل اللّٰہ الی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الجسور والحصون وعمارت المسجد وغیر ذالک لان قوله وفی سبیل اللّٰہ فی الکل فلاء یختص دون غیرہٖ انتہیٰ ومطبوعه مصر جلد ۱ ص۲۴۰))
بعض مفسرین ((قفال مروزی)) وغیرہ نے کہا ہے کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے پس اس کو محض نمازیوں پر منحصر کرنا جائز نہیں۔ اس لیے بعض فقہاء نے حصہ سبیل اللہ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز رکھا ہے۔ جیسے مردوں کا کفن دفن اور پل اور قلعوں کا بنانا۔ مساجد کی تعمیر اور اس کے سوا جیسے مدرسہ کی تعمیر وغیرہ اس لیے کے اللہ کے فرمان فی سبیل اللہ ہر ایک کو عام ہے پس وہ غزوہ ہی کے ساتھ خاص نہ ہو گا۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
((اعلم ان ظاہرا للفظ فی قوله وَفِی سَبِیْلَِ اللّٰہِ لا یوجب القصر علی الغزوة فلہٰذا المعنی نقل القفال فی تفسیرہٖ عن الفقہاء انہم اجاز واصرف الصدقات الی جمیع الوجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الحصون وعمارت المساجد الن قوله فی سبیل اللّٰہ عام فی الکل انتہیٰ مفاتیح الغیب مصری ص ۶۸۱ جلد ۲))
یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کے قول وفی سبیل اللہ کا ظاہ لفظ موجب حصر مجاہدین پر نہیں ہے اس معنی کے لحاظ سے امام قفال مروزی رحمۃ اللہ علیہ (محدث) نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے۔ کہ انہوں نے زکوٰۃ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز کررکھا ہے جیسے تکفین موتیٰ اور قلعوں کا بنانا اور مساجد کی تعمیر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قول وفی سبیل اللہ ہر (امور خیر) کو عام ہے ایسا ہی خاتم المفسرین نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ خان صاحب نے تفسیر فتح البیان میں فرمایا:
((وحیث قال ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہٗ علی نوعٍ خاص ویدخل فی وجوہ الخیر من تکفین الموتی ونبائے الجسور والحصون وعمارت المساجد وغیر ذلک انتہیٰ و فتح البیان)) (مصری ص ۱۲۴ جلد ۴)
بے شک (لفظ فی سبیل اللہ) عام ہے۔ پس اس کو ایک خاص قسم (غزوہ) پر منحصر کرنا جائز نہیں، اس میں نیکی کے تمام اقسام داخل ہیں کفن موتیٰ پل اور قلعوںکا بنانا، مسجدوں کا تعمیر کرنا اور اس کے سوا (جیسے تعمیر مدرسہ وغیرہ) انتہیٰ۔ا ن عبارات سے ظاہر و باہر ہے کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے جو ہر ایک نیک کام کو شامل ہے اس میں طلبہ کی امداد و اعانت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے:
((من انفق ماله فی طلبة العلم صدق انه انفق فی سبیل اللّٰہ)) (ص۵۱ مطبوعہ ہاشمی)
’’جس نے اپنا مال طالب علموں پر خرچ کیا اس کی بابت یقینا کہا جائے گا کہ یہ خرچ ثمانیہ سے فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔‘‘
کام مر بیسانہٗ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے فقیر کے نزدیک اسی طرح پر تنخواہ علماء مدرسین بھی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ اور امام شوکانی و اہل الغمام میں لکھتے ہیں:
((ومن جملة فی سبیل اللّٰہ الصرف فی العلماء الصحابة فان لہم فی مال اللّٰہ نصیباً سواء کانوا اغنیاء وفقراء بل الصرف فی هذہ الجہته من اهم الامور وقد کان علماء الصحابة یاخذون من جملة بذہٖ الاموال التی کانت تفرق بین المسلمین علی هذہ الصفنفة من الذکوٰة الیٰ اخر ملخصاً)) (دلیل الطالب ص ۴۳۲)
’’من جملہ فی سبیل اللہ علماء کرام پر صرف کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے۔ خواہ وہ امیر ہوں خواہ فقیر، بلکہ اس راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے۔ علماء صحابہ رضی اللہ عنہ بھی ان مالوں سے لیتے تھے جو مسلمانوں پر زکوٰۃ سے خرچ کیے جاتے تھے۔‘‘
اور بعض علماء کے نزدیک فی سبیل اللہ صرف مجاہدین کے لیے ہے اس لیے ان کے نزدیک مدارس و مدرسین فی سبیل اللہ سے خارج ہیں۔ میںنے ماہ نامہ الاسلام مجریہ ۱۵ اگرش ۱۹۵۹ء میں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ مبارک پوری اور حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کو درج کیا ہے جس سے عدم جواز نکلتا ہے۔ لیکن راقم الحروف کے نزدیک فی سبیل اللہ عام ہے اس لیے دینی مدارس اور دینی مداس کے خدام فی سبیل اللہ میں داخل ہی۔ لہٰذا مدارس کی تعمیر میں غریب مدرسین کے مشاہرہ میں دینا جائز ہے کیونکہ موجودہ زمانہ میں دینی مدارس کا دارومدار انہی پر ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے بچوں کو کسی مدرس سے تعلیم دلاتے ہوں اور انہیں اپنے طور پر ملازم رکھتے ہوں تو ایسے ملازم مدرس کو زکوٰۃ کا روپیہ تنخواہ کے بدلہ میں دینا جائز نہیں ہے۔ ہم نے جو ماہ نامہ اسلام مجریہ ۱۵ اگشت ۱۹۵۹ء میں عدم جواز لکھا ہے۔ اس قسم کے مدرسین مراد ہیں۔ جو خصوصی طور پر بعض لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے رکھ لیتے ہیں اور اگر زکوٰۃ دینے والا اس کو اپنے طور سے ملازم نہ رکھے بلکہ وہ مدرس کسی دینی اسلامی مدرسہ کا خادم ہے۔ اور درس و تدریس کا بھی سرانجام دیتا ہے تو ایسے کو زکوٰۃ دینا بشرطیکہ وہ مستحق ہو تو جائز ہے لفظ فی سبیل اللہ کو صرف جہاد ہی کے لیے خاص کرنا اور مجاہدین کے لیے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے ہاں فی سبیل اللہ کے فردوں میں سے ایک فرد یہ بھی ہے جو کہ وہ بھی فی سبیل اللہ میں ہی داخل ہے۔
ابو داود شریف میں معقل سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((فان الحج فی سبیل اللّٰہ)) ’’فی سبیل اللہ حج میں داخل ہے۔‘‘اور دین اور اسلام بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہیں۔
چنانچہ مندرجہ ذیل آیتوں میں لفظ فی سبیل اللہ سے دین اور اسلام مراد ہے:
﴿یَصَدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (سورة الانفال و توبه و ابراهیم)
﴿لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (حج و لقمان)
﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیْلَ اللّٰہِ﴾ (قتال نحل)
﴿حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (نساء)
﴿وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾
﴿وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (نور)
بہرحال بعض علماء کے نزدیک چونکہ فی سبیل اللہ عام ہے اس لیے دینی مدارس کے سلسلے میں دینا جائز ہے جبکہ موجودہ دور میں دینی مدارس کا چلنا اسی پر موقوف ہو رہا ہے۔تو یہ بھی ایک ضرورت شدید ہے۔ جس طرح بعض فقہاء نے ضرورۃ تعلیم پر اجرت لینا درست لکھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
عبد السلام بستوی مدرس ریاض العلوم اردو بازار دہلی۔ اخبار اہل حدیث دہلی جلد ۹ شمارہ ۱۶ ۱۳۷۹ھ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب