السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مصارف زکوٰۃ کے بارے میں آیا، اس میں ایسا مدرسہ جس میں تعلیم قرآن و حدیث ہوتی ہے، اور اکثر اطفال مساکین تحصیل علم میں مشغول ہیں، اور ان کے اکل و شرب و کتب ولباس کی خبر بذریعہ مہتمم لی جاتی ہے، داخل ہے یا نہیں؟ اور مالک زکوٰۃ اس مدرسہ میں زکوٰۃ خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غریب و مساکین طلبہ بلاشبہ مصرف زکوٰۃ ہیں ایسے مدرسہ میں مالک زکوٰۃ زکوٰۃ خرچ کر سکتے ہیں، چاہے خود آپ بلا واسطہ مہتمم کے ان طلبہ کو دیں یا بواسطہ مہتمم کے ان کو دیں، اور مہتمم کو اس امر کی ہدایت کر دیں کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ ہے، اس کو صرف غریب و مسکین طلبہ پر خرچ کریں، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ کتبہٗ محمد عبد الرحمان المبارکفوری عفا اللہ عنہٗ (فتاویٰ نذیریہ ۴۹۸ ج۱) (سید محمد نذیر حسین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب