سرکاری و غیر سرکاری بینکوں و پوسٹ آفس سیونگ بینک کا سود اہل اسلام کیلئے شرع محمدی کے مطابق جائز ہے یا نہیں اگر جائز ہے تو سودی رقوم کا مصرف فتویٰ شرعی کے مطابق کیا ہونا چاہیے۔؟
بار ہاں بتایا گیا ہے روپیہ بغرض حفاظت ان بینکوں میں رکھا جائے تو حسب فائدہ جواس پر ان ٹرسٹ ملے بعض علماء مثل دیوبند،مفتی جمعیت العلماء دہلی مرہم،مفتی مسجد چینیاں لاہور وغیرہ. جائز رکھتے ہیں جمہور علماء ناجائز )اہل حدیث ١٤ اپریل ١٩٣٣(
بینک یا ڈاک خانہ میں جو لوگ اپنا روپیہ جمع کر کے ان سے نفع لیتے ہیں۔یہ قطعاً جائز نہیں حرام ہے۔اس لیے کہ بینک والے اس روپیہ کو سود پر چلات ہیں اور ان کا حساب کرکے جتنا سود میں سے اس کا حصہ بنتا ہے دیتے ہیں۔اور سود حرام ہے۔اور بحکم
وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ
اگرکوئی نفع نہ بھی لے تب بھی حرام ہے۔ تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ ہے۔لہذا مفتیوں کے فتاویٰ مذکورہ باطل ہیں۔اظهر يركب بنفقته سے باطل ہے اس لیے کہ قیاس مع الفارق ہے۔سواری کا جانور بلا غذا ہلاک ہو جاتا ہے۔بخلاف ارض۔ زمین کے بلا جوتنے کے اور عمدہ ہو جاتی ہے۔اور نیز زمین سے بعد استعمال قرض سے دوگنا چوگنا سے زائد حاصل ہوتا ہے اس کو محسوب کرنا لازم ہے۔کما فی الحدیث ملاحظہ ہو۔
(فتاوی نزیریہ)
از قلم خطیب الاسلام مولناٰ عبد الرئوف خان رحمانی جھنڈے نگری
اسلام میں سود لینا ۔سود دینا۔سود کے کا غذات مرتب کرنا اور سودکی شہادتیں دینا تک حرام ہے۔اور سود خوار کی وہی پوزیشن ہے۔جوایک زانی ۔شرابی۔اور قمار باز کی ہوتی ہے۔لیکن یورپ سے جب بینک کی بیماری انڈیا پہنچی۔تو ہم مسلمانوں بھی اسی طرح اس کا خیر مقدم کیا۔جس طرح اور قوموں نے کیا۔ہم نے بھی دوسری غیر مسلم قوموں کی طرح سود کا لین دین شروع کر دیا۔اقبالمرحوم ہمارے اس کا فرانہ نظام کے قبول کرنے پر لکھتے ہیں۔
چنیں دور آسمان کم دیدہ باشد جبریل امین را دل خراش
بنا کر دند خوش دیدے کہ این جا پرستد مومن و کافر تراشد
کافر فاسد نظریات گھڑتا ہے۔اور مسلمان اس فاسد نظام زندگی کا عملاً پجاری بنتا ہے۔اکظر علماء نے اس نظام کی مخالفت بھی کی ہے۔لیکن مسلمانوں نے اپنے زعم میں کسی کی بھی پراوہ نہ کی اور برابر سود کا کا روبار کرتے رہے۔مگر اس میں وہی سیاسی الجھنیں پیدا ہوگئیں۔جو دوسرے سیاسی مسائل میں پیدا ہوتی ہیںیعنی مسلمانوں میں سود دینے والے کم ۔اس طرح مسلمانوں کا ادا کیا ہوا سود غیر مسلموں کے پاس جانے لگا۔تو اسے صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کیلئے مسلم بینک قائم کیا گیا۔حالنکہ لفظ مسلم کو بینک سے اتنی ضدہے جتنی کے لفظ شمس کو لفظ لیل سے لیکن ہم نے آج تک شمس لیل کا وجود نہیں دیکھا۔اور نہ ہی قیامت تک دیکھ سکیں گے۔لیکن مسلم بینک کا وجود ضرور دنیا کو دیکھا دیا جس کا واحدمقصد مسلم غرباء سے سود وصول کر کے مسلم امراء کے خزانے میں بھرنا ہے۔اور اسی طرح ہم نے کھلم کھلا اسلام اور سود کا ایک خود ساختہ مقدس اتحاد دنیا کو دکھلا دیا۔عقلی نقطہ نظر سے اور مشاہدات اور تجربات کے لہاظ سے یہ سود لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات ہے ۔اقبال نے خوب لکھا ہے۔سود ایک کا لاکھوں کیلئے مرگ مفاجات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے علامہ اقبال اس سود کو لاکھوں کیلئے مرگ مفاجات کا مترادف سمجھتے ہیں۔
اب سنیے!ایک اور خطرہ بھی اس سلسلے میں درپیش ہے۔اور یہ خطرہ بھی یقینی ہے۔شریعت اسلام میں سود ۔شراب ۔زنا۔قمار بازی۔وغیرہ کا مرتبہ بحیثیت حرمت تقریباً برابر ہی ہے۔لیکن آج جب یورپ نے سود کو عام کر دیا ہے۔اور قانوناً اس کیلئے جواب مہیا کر دیا۔تو ہم نے فخر کے ساتھ مسلم بینک قائم کر دیا۔اور اگر کل کو یورپ کے سرمایہ داروں نے اپنی عیاشی اور سرمایہ داری کی افزائش کے لئے شراب نوشی زنا کاری قمار بازی وغیرہ کیلئے بھی قانون جواز مہیا دکردیا۔تومسلم شراب خانہ۔مسلم زنا خانہ اور مسلم قمار خانہ کے قیام پربھی فخر ہونے لگے گا۔(معاذ اللہ) کیونکہ ہم یورپ کی سرمایا داری کوقبول کر چکے ہیں۔اور اسلام کالفظ تو ہم کو ورثہ میں مل ہی چکا ہے۔او ر اس کے استعمال سے ہم کو کوئی روکنے والا نہیں۔اکبر الہ آبادی نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں لکھا ہے۔
جو جی میں آئے آپ کے وہ کام کیجئے بس انجمن میں دعویٰ اسلام کیجئے
بہر حال مسلم بینک کا واحد مقصد مفلوک الحال غریب لوگوں کو روپیہ قرض دے کر سود ہی وصول کرنا ہے۔اور چونکہ ہر مسلم بینک کو بھی ایک مضبوط قانونی طاقت حاصل ہے۔جو غریب کاشت کاروں سے وصول کے وقت ہر ممکن طریقہ اختیار کر لیتی ہے۔اور مفلس کاشتکار جو دانہ دانہ کو محتاج ہوتا ہے۔اپنی زمین مکان مویشی وغیرہ گرد رکھنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔
اقبال مرحوم نے ایسے ہی مفلوک غریب اور مظلوم کاشتکاروں کے متعلق لکھا ہے۔
دہقاں ہے کسی قبر کا گلا ہو مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے
جاں بھی گرد عنبربدن بھی گرد عنبر افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے۔
)مصباح بابت رجب و شعبان سنہ ١٣٧٢ھ فتاویٰ ثنائیہ جلد ٢ صفحہ نمبر ٣٩٦۔٣٩٧(