سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) مال زکوٰۃ سے مدرسین کی تنخواہ دینے کا حکم ۔

  • 3340
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2189

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس ملک کے مسلمانوں میں بسبب عدم تلقین و تعلیم احکام و ارکان اسلام وسلام وعلیک مروج نہ ہوئے ہوں۔ ایسے ملک میں مدرسہ اسلامیہ جاری ہونا ضروری ہے، یا نہیں، اور وہاں کے مسلمان صرف زکوٰۃ سے مدرسہ کی مدد کر سکتے ہیں۔ تو ایسی معذوری کی حالت میں مال زکوٰۃ میں سے مدرسین کی تنخواہ دینا یا سامان مدرسہ خریدنا یا تجارت میں لگا کر اس کے نفع سے مدرسہ کو قائم رکھنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مال زکوٰۃ سے مدرسین کو دینا یا سامان مدرسہ فراہم کرنا جائز نہیں ہے، ہاں مال زکوٰۃ غریب طلبہ کو دینا جائز ہے اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مال زکوٰۃ کے آٹھ مصرف بیان فرماتے ہیں، ان آٹھ مصارف میں غریب طلبہ داخل ہیں، اور مدرسہ کی تنخواہ اور سامان مدرسہ آٹھ مصارف سے خارج ہیں۔ اور جس ملک میں بوجہ عدم تعلیم و تلقین کے احکام وارکان اسلام جاری نہ ہوں، وہاں مدرسہ اسلامیہ ہونا بہت ضروری ہے، وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ علاوہ مال زکوٰۃ کے تھوڑی تھوڑی اعانت کر کے حسب حیثیت ایک مدرسہ قائم کریں بڑا نہیں تو چھوٹا ہی سہی، اور یہ عذر کہ وہاں کے مسلمان صرف زکوٰۃ سے مدرسہ کی مد کرسکتے ہیں، ٹھیک نہیں ہے کیونکہ وہاں کے مسلمان جیسے اپنی ضروری دنیاوی ضرورتوں میں خواہ مخواہ علاوہ زکوٰۃ کے اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں، اور ان کی کچھ معذوری نہیں ہے، اسی طرح وہاں ایک مدرسہ اسلامیہ کا قائم ہونا ایک دینی ضرورت ہے، اور شدید ضرورت ہے، تو ا س میں بھی علاوہ زکوٰۃ کے تھوڑا تھوڑا بقدر حیثیت ان کو خرچ کرنا چاہیے، اور اس میں بھی ان کو معذور نہیں بننا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہٗ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔(فتاویٰ نذیریہ ص ۴۹۶ ج۱) (سید محمد نذیر حسین)
توضیح:… ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اموال کو بیت المال کی شکل دیں، جس میں عشر، زکوٰۃ، صدقہ فطر اور دیگر عطیات کو بھی جمع کریں، اور بیت المال میں سے مصارف مدرسہ کو پورا کریں۔ اساتذہ کی تنخواہ، تعمیر مکان، روشنی کا انتظام۔ تعلیمی کتب کا انتظام۔ طلبہ کا کھانا او رپینا وغیرہ کا انتظام کرنا جائز ہے، قرآن مجید میں جو مال زکوٰۃ کے آٹھ مصرف بیان کئے ہیں، ان میں سے ایک فی سبیل اللہ بھی ہے، جو دین کے تمام شعبہ جات کو شامل ہے، عربی مدارس کے تمام اخراجات اس عموم میں داخل ہیں، مگر جس کی ممانعت آ چکی ہے، وہ اس عموم سے خارج ہے، جیسے سید ہاشمی وغیرہ کو زکوٰۃ دینا۔ لینا منع ہے۔ حضرت عمر کے زمانہ میں سرمایا دار اور غیر سرمایہ داروں کو وظائف اور عطیات دئیے جاتے ہیں، ان میں غنی بھی تھے، اور غیر غنی بھی اور بیت المال میں عشر زکوٰۃ بھی تھا، اور مال غنیمت بھی۔ فافہم وتقدیر۔ ۱۲ سعیدی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 213۔214

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ