السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکوٰۃ الفطر کس جگہ جمع کرنا چاہیے۔ زید کا قول ہے کہ ہر شخص تقسیم کر سکتا ہے، اور بکر کا قول یہ ہے، کہ امام کے پاس جمع کرے، امام جس طرح چاہے تقسیم کرے، اب صورت مسؤلہ میں کس کا قول صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح باد کہ قولین میں سے زید کا قول غلط اور بکر کا قول صحیح موافق کتاب وسنت کے ہے، واقعی زکوٰۃ فرض و زکوٰۃ الفطر وغیرہ امام کے حوالہ کرنا چاہیے۔ اس کے متعلق متعدد احادیث واضح مروی ہیں۔ چنانچہ مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے، کہ ابن عمر صدقہ فطر عید کے دو دن پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیا کرتے تھے، جس کے پاس فطرہ جمع کیا جاتا تھا۔
((ان ابن عمر کان یبعث صدقة الفطر الی الذی تجمع عندہ قبل الفطر بیومین))
نزی فتح الباری کی تیسری جلد کے صفحہ ۲۹۸ میں ہے کہ ابن عمر صدقہ اس شخص کے حوالہ کر دیا کرتے تھے، جس کو امام نے فطرہ تحصیلنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ نیز مولانا عبد اللہ صاحب غازی پوری مرحوم بھی اپنے فتوے میں بای الفاظ رقمطراز ہیں کہ کل قسم کے صدقات (یعنی زکوٰۃ و صدقہ فطر وغیرہ وغیرہ) سب امام کے حوالے کر دینے واجب ہیں۔ (مفتی ابو محمد عبد الستار غفرلہ الغفار المہاجری) (صحیفہ اہل حدیث دہلی بابت ماہ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھج جلد نمبر ۵ نمبر ۸) (فتاویٰ ستاریہ ص ۹۶جلد اول)
توضیح:… مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری علیہ الرحمۃ نے اپنے فتویٰ طویل میں یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ جس جگہ یا جس وقت امام یا نائب امام نہ ہو تو عوام مسلمان اپنے صدقات، خیرات کیونکر تقسیم کرے، اس کی مکمل تفصیل ص ۹۱ سے تا ص ۹۹ تک نمبر ۲۰ علماء کرام کی تحقیقات میں دیکھیں۔ (الراقم علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب