السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقہ فطر قبل نماز عید کے نکال کر رکھ لیا، پھر یہ سبب بھول کے یا تحصیلدار کے نہ پہنچنے کے بعد نماز عید کے دیا تو صدقہ فطر ادا ہو ا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ تو یہی ہے کہ نماز عید کے قبل ادا کر دینا چاہیے، مگر بھول چوک معاف ہے، ایسی حالت میں بعد بھی ادا کرے گا تو درست ہو گا۔ رسول اللہﷺ سے ایسے کام کی نسبت دریافت کیا گیا جو کہ پہلے کرنا تھا، مگر بوجہ بھول کے پیچھے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ((لَا حَرَجَ)) ’’کوئی حرج نہیں۔ ‘‘ آئندہ کے واسطے خیال رکھنا چاہیے۔ (مفتی ابو محمد عبد الستار غفرلہ الغفار المہاجری) (صحیفہ اہل حدیث دہلی بابت ماہ شوال ۱۳۴۶ھ جلد ۷ نمبر ۱۰) (فتاویٰ ستاریہ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۸۳)
توضیح:… بھول چوک تو معاف ہے، لیکن تحصیلدار کے پاس نہ پہنچنے میں تو بھول چوک نہیں ہے یہ تو دیدہ دانستہ مستحق صدقہ الفطر کے پاس نہ پہنچانا ہے، جو مندرجہ ذیل حدیث کے صریح خلاف ہے۔
((عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه قال فرض رسول اللّٰہ ﷺ زکوٰة الفطر طھرة للصائم من اللغو والرفث عطعمة للمساکین فمن ادَّا ھا قبل الصلوة وھی زکوٰة مقبولة ومن اداھا بعد الصلوٰة فھی صدقة من الصدقات رواہ ابو داؤد وابن ماجة والدارقطنی والحاکم وصححه کذا فی منتقی الاخبار والنیل مأخوذ از فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر۱ ص ۵۱۵))
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص تحصیلدار کے انتظار کی وجہ سے قبل از نماز عید صدقہ الفطر ادا نہیں کرتا بلکہ بعد از نماز ادا کرتا ہے، اس کا صدقہ فطر ادا نہیں ہوتا، عام صدقات میں سے صدقہ ہے، ((فافہم و تدبر علی محمد سعیدی جامعیہ سعیدیہ خانیوال ۷۱۔۱۔۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب