السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا صدقہ فطر عید کا چاند دیکھ کر ادا کرنا چاہیے۔ یا چاند دیکھنے سے پہلے بھی ادا ہو جاتا ہے؟ حوالہ صحیح حدیث سے واضح فرمایا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوٰۃ شریف کتاب فضائل القرآن میں بحوالہ بخاری شریف حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو پہرہ دار مقرر کیا تھا تو دو روز چور آتا رہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرتے رہے مگر اس پر ترس کھا کر چھوڑتے رہے، تیسرے روز پھر آیا تو حضرت ابو ہریرہ نے اس پر سختی کی اور فرمایا میں تمہیں ضرور دربار نبویﷺ میں پیش کروں گا، آکر چور نے یہ وظیفہ بتای اکہ رات کو آیت الکرسی پڑھ لیا کر شیطان کے فریب میں نہیں آئے گا۔ تو اس پر ابو ہریرہ نے چھوڑ دیا نبی اکرمﷺ نے صبح حضرت ابو ہریرہ کو فرمایا کہ تجھے معلوم ہے کہ تین رات سے مسلسل تیر ی بات کس سے ہو رہی تھی؟ یہ شیطان تھا اور چھوٹا ہے لیکن اس نے وظیفہ بتایا ہے یہ حدیث کا خلاصہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر جمع ہونے کو تین دن یا اس سے زیادہ ہو گئے تھے اور ظاہر کہ یہ جمع ہونا عید سے پہلے تھے، کیونکہ صدقہ فطر کی غرض حدیث میں یہ آئی ہے کہ مساکین کو عید کے دن سوال سے مستغنیٰ کر دیا جائے ، اسے سے حکم ہے کہ صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کیا جائے تاکہ مساکین عید کی تیاری کر سکیں۔ پس ثابت ہوا کہ عید کا چاند دیکھنے سے پہلے صدقہ فطر ادا ہو سکتا ہے۔ (عبد اللہ امرت سری روپڑی) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۵ شمارہ ۳۱،۳۲، ۲۷ رمضان المبارک ۴ شوال المکرم ۱۳۸۲ھج ۲۲ فروری یکم مارچ ۱۹۶۳ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب