السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقہ فطر میں نقد قیمت دینا درست ہے یا نہیں؟ تو آپ کے پاس اس کی دلیل کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ فطر قیمت دینے کا کوئی حرج نہیں، بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:
((قال معاذ لاھل الیمن أتونی بعض یثا بخمیص او لیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))
’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کو کہا کہ بجائے جو اور جوار کے باریک کپڑے اور عام پہننے کے کپڑے صدقہ میں ادا کرو یہ تمہارے لیے آسان ہے اور اصحاب رسول کے لے زیادہ فائدہ مند ہے۔‘‘
اس روایت میں اگرچہ انقطاع ہے، لیکن اما م بخاری محدث کا اس سے استدلال کرنا اس کو تقویت دیتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقات میں مصرف کی حاجت کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمت ادا کرنے سے کوئی ہرج نہیں۔
یہ روایت اگرچہ زکوٰۃ کے بارے میں ہے لیکن جیسے صدقہ فطر میں آیا ہے کہ فلاں فلاں شے کا صاع دو پس زکوٰۃ میں قیمت کی طرف عدول جائز ہوا تو وہ صدقہ بھی جائز ہوا۔ فرق کی کوئی وجہ نہیں۔ نیز صدقہ فطر کی غرض حدیث میں یہ آئی ہے: ((اغنوا هم فی هذا الیوم)) (دارقطنی) ’’یعنی عید کے دن غرباء کو بے پرواہ کرو‘‘ اس سے بھی معلوم ہوا کہ غرباء کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نقد کے حساب سے نقد قیمت دی جا سکتی ہے اس کے علاوہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نصف صاع گندم کو دوسری اشیاء کے برابر قرار دیا اور ہر نصف صاع وزن میں تو باقی اشیاء کے صاع کے برابر نہیں۔ لہٰذا مراد قیمت ہو گی۔ اس سے مسئلہ ثابت ہوا کہ غلہ کے حساب سے نقد دینا بھی جائز ہے۔ (تنظیم اہل حدیث لاہور ۲۹ دسمبر۶۷، و ۵ جنوری ۱۹۶۸ جلد ۲۰ شمارہ۳۳،۳۴۔ عبد اللہ امرتسری روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب