سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(196) مروجہ مزارعت

  • 3315
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 2142

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں ایک شخص نے بٹائی پر زمین دینے کے مروجہ سلسلہ کو سودی کاروبار قرار دے دیاہے میرے ساتھ اس کی گفتگو ہوئی تو ۔المعلم۔ترجمہ صحیح مسلم شریف  صفھۃ 1628۔ تا 1632 جلدنمبر 2 پیش  کر کے تعامل نبوی و صحابہ کے علاوہ حضرت ابن عباس سے مخابرہ کی تعریف دکھلائی تو اس اثر صحابی قرآر دے کرمندجہ زیل اعتراض  لکھ کر تفصیل طلب کی ہے  ابو داود شریف میں باب المزارعۃ مین مندرجہ  زیل دو احادیث ہیں جن میں رسول کریم ﷺ ن فرمایا کہ بٹائی پر زمین دینا سود ہے اور جو اس کو چھوڑنے پر تیار نہ ہو وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ لڑائی پر تیار ہوجائے۔

1۔عن رافع بن خديج یعنی انہوں نے جو کھیتی کر رکھی  تھی۔اس کی مزارعت کے متعلق  رسول کریم ﷺ نے فرمایا!کہ یہ سود کا کاروبار ہے زمین واپس کرو اور اپنا خرچ ان سے لو

2۔جابر۔(جو) بٹائی چھوڑنے  پر تیار نہ ہو۔وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ لڑائی کرنے پر تیار ہو جائے۔اس کے علاوہ بھی رسول اکرم ﷺ سے بہت بہت سی احادیث نہی کی بابت وارد ہیں اس سلسلہ میں خیبر  والی حدیث سے استدلال کیاجاتا ہے لیکن تاریخی  طور پر  یہ ثابت ہے کہ  حضرت عمر نے جب  ان کو نکالا تو ان کو ان کی اراضی کی قیمت ادا کی اگر وہ مالک تھے تو پھر بٹائی کا سوا ہی نہیں پیدا ہوتا سود کی جو تعریف کی جاتی ہے اس ےس بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سود  ہے مثلا ایک آدمی کے پاس ایک ہزار رویہ ہے اگر بینک  میں جمع کرائے وہ اس سے بیس وپے سود لے تو اس کو حرام کہاجاتا ہے اگر اس رقم کی زمین لی جائے اور اس سے تقریبا دو صد روپےلے لئے جاییں۔تو  وہ کیسے  سود نہیں بنتا پھر زمین کومزارعت پر دینے کا جو رواج عام ہے اس ملک میں اگر یہ غلطب ہے تو اب تک خاموشی کیوں ری۔ابو دائود شریف کی جن احادیث مذکور کیو پیش کیا گیا ہے اس کے الفاظ یا رواۃ میں بھی مجھے شک ہے مگر صحیح مسلم میں منع کی احادیث بھی  آئی ہیں ان کے متعلق دیگر آئمہ اہل حدیث کے علاوہ امام ابو حنیفہ اور امام زفر سے حرم ت کا فتوی بھی دیگر آئمہ سے بڑھکر ہے۔(معلم) لہذا جناب مفصل روشنی ڈال کر ممنون فرمایئں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۔ مزارعت کی مختلف صوتیں ہیں 1۔ایک صورت یہ ہے  پیداوار کے حصوں پر زمین دی جائے۔یعنی جو پیدا ہو اس سے مزارع اتنا حصہ لے اور باقی مالک۔امام ابو حنیفہ اسے منع خیال کرتے ہیں امام شافعی اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب مزارعت تبعی صورت یعنی اصل معاملہ باغات مین ہو۔اور سفید زمین میں تبعی طور پر مزارعت جائز ہے اگر صرف زمین کا معاملہ  ہو تو اس میں مزارعت نا جائز سمجھتے ہیں۔امام مالک بھی تبعی صدقات میں مزارعت  کو جائز قرار دیتے ہیں مگر یہ قید لگاتے ہیں کہ سفید زمین ثلث ایک بٹہ تین تکیہ ہو تو جائز ہے ونہ جائز نہین امام احمد بن حنبل ۔امام محمد ۔امام ابو یوسف۔ابن ابی لیلیٰ۔سعید بن مسیب  ۔محمد بن سیرن ۔زہری۔ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جائز سمجھتے ہیں۔

2۔دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کوسونے چاندی کے عوض دیاجائے اسکو آئمہ اربعہ جائز سمجھتے  ہیں۔

3۔تیسری صورت یہ ہے کہ زمین کے حصے کئے جائیں مزارع تمام زمین کاشت کرے۔مگر بعض حصوں میں اپنے لئے کاشت کرے اور بعض حصوں میں مالک کے لئے یہصورت  بلاتفاق ممبوع ہے یعنی زمین کے تیسرے حصہ میں مالک کے لئے اور دو حصوں میں اپنے لئے اور یہ حصہ معین کرے۔

4۔چوتھی صورت یہ ہے کہ جو پانی کے سامنے اور نالی کے قریب ہو ۔سو مالک کے لئے  اور جو دور ہو وہ کاشتکار کیلئے یہ بھی بالاتفاق منع ہے۔جن احادیث میں مزارعت کی ممانعت آئی ہے وہ حدیثیں دو قسم کی ہیں بعض ضعیف اور بعض صحیح اور صحیح بھی دو قسم کی ہیں بعض میں مطلق مزارعت کی ممانعت ہے اور بعض میں تیسری اور  چوتھی صورت کی تصریح موجود ہے یعنی زمین کے حصے کرنے کی صورت ہے یا پانی کے قریب و بعید کی صورت ہے اور بعض حدیثوں میں پہلی صورت کی ممانعت کا زکر ہے اور بعض میں جواز کا زکر ہے۔اب تفصیل سنئے وہ حدیث جس میں بٹائی پر زمین دینا سود شمار کیا گیا ہے وہ حدیث ضعیف ہے قابل احتجاج نہیں ہے ابو داود میں جو اس کی سند مذکور ہے اس  میں بکیربن عامر ہے اور حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کوہ ضعیف ہے میزان میں ہے ابن  معین اور نسائی نے اس کو ضعیف قراردیا ہے ابوزرعہ  نے کہا نے کہا کہ وہ قوی نہیں ہے۔اس حدیث میں لفظ ہیں کہ یہ  سود کا کاروبار ہے زمین واپس کرو ان سے اپنا خرچ واپس لو پھر اس حدیث مین یہ زکر نہین کہ انہوں نے پیداوار کے حصے کس صورت میں مقرر کیے تھے کیا زمین کے حصے نصف نصف کر رکھے تھے یا خارج کئے دوسری حدیث میں چونکہ اس امر کی تصریح ہے۔کہ جس مزارعت کی ممانعت ہے اس کی صورت یہ ہے زمین کے حصے مقرر کیے ہوں ممانعت والی حدیث کے راوی رافع بن خدیج سے بھی ابوداود اور مسلم وغیرہ میں اس امر کا تزکرہ موجود ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔انما كان الناس يواجرون علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وبما علي المازيانا ت واقبل الجد اول واشيا من الزرع فيهلك هذ ويستم هذ ويسلم هذا ويهلك هذا ولم يكن للناس كراهة والا هذا فذلك ذجرعه ابو داود وغيره

2۔جابر کی حدیث جس میں یہ زکر ہے۔جو بٹائی چھوڑنے پر تیار نہ ہو وہ اللہ اور اس کےرسولﷺ کے ساتھ لڑائی لڑنے پر تیار ہو جائے یہ حدیث بھی ابو داود کی ہے اس حدیث کی سند میں ابو الزیر مکی ہے وہ مدلس ہے۔ مدلس کے متعلق یہ اصول ہے جب اس کی سند میں لفظ عن ہو تو وہ حدیث صحیح  نہیں ہوتی ۔لہذایہ حدیث صحیح نہ ہوتی کیوں کہ اسکی سند میں ابو الزیر مکی عن کہہ ک روایت کرتا ہے۔تقریب میں حافظ ابن حجر نے میزان میں علامہ ذہبی نے اورخلاصہ وغیرہ  میں اس کو مدلس قرار دیا ہے۔وہ احادیث جن میں مزارعت کی ممانعت ہے ان  احادیث میں مزارعت  سے مراد وہ مزارعت ہے جس میں زمین کے حصے کر کے زمین کاشت پر دی جائے ایک حصہ مالک کا ہو دوسرا حصہ کاشتکار کا کیونکہ بعض روایات میں اس کی تصریح موجود ہے اور یہ قاعدہ ہے جب ایک جگہ نص مطلق وارد ہو اور دوسری جگہ مقید ہو۔ تو اگر ایک ہی حارثہ اور ایک ہی حکم ہو تو مطلق مزارعت کی ممانعت ہے ان کو قید پر محمول کیا جائے گا یعنی ان سے ممانعت کی  وہی صورت مراد لی جائے جگی جس کی تخصیص و تقید ددوسری احادیث مقیدہ میں وارد  ہے پس جن احادیث میں مخابرہ یا مشاعرت یا کرایہ پر لینے سے مرادف وہ صورت ہوگی جس کا خاس طور پر حضرت رافع بن خدیج کی روایات میں زکر وارد  ہے۔یعنی زمین کےبعض حصے کرنے کی صورت میں یا پانی کے قریب وبعید مواقع متعین کرنے کی صورت میں ہو۔اور جن احادیث  میں پیداوار کے حصہ ریا ٹھیکہ پرزمین ا پنے سے روکا گیاہے۔ان احدیث میں در اصل مخالفت کا زکر نہیں بلکہ مواسات کی صورت بتائی گئی۔۔ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں۔

ان رسول الله صلي الله عليه وسلم لم ينهعنها ولكن قال ليمنع احد كم ارضه خير له من ان يا خذ عليها اجر معلوما (ابوداود)

رسول اللہ ﷺ نے بٹائی پرزمین دینے سے منع نہیں کیا  بلکہ یہ فرمایا ہے کہ زمین کو بٹائی پر دینے سے بہتریہ ہے کہ کسی کو مفت کاشتکاری کیلئے دی جائے اور بعض روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہےکہ آپ نے جو منع فرمایا تھا س کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ مالک او مزارع آپس میں جھگڑے اور لڑے پھر آپ ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ نے فرمایا۔ان كان هذا شائنكم فلا تكروا المزارع ذ اد مسدر فسمع قوله لا تكروا المزارع (ابوداود)

زید بن ثابت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج پر رحم کرے اللہ کی قسم ہے مجھے اس حدیث کا علم رافع بن خدیج سے زیداہ ہ اصل واقعہ یہ ہے کہ مالکاور مزارع آپس میں لڑ پڑے پھر آپ ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ایسا کر نا ہے تو کھیت بٹائی پرمت دو  حالانکہ آپ ﷺنے فرمایا تھا۔کہ اگر تم مصالحت کی صورت میں کام نہیں کرتے  بلک لڑائی کرنے لگتے ہو۔اگر ایسا کرنا ہے تو آیندہ بٹائی پر زمین نہ دینا۔امام بخاری نے مخالفت کی روایات کو مواسات پر محمول کیاہے۔اور اہل مدینہ کے متفقہ مسائل سے جواز پر استدلال کیاہے۔چنانچہ ممانعت کی احادیث کو مندرجہ زیل باب میں زکر کیا ہے۔باب ماكان اصحابرسول الله صلي الله عليه وسلم يواسي بعضم بعضا في الزراعة (بخاري جلد 1 س 35)

اس باب میں اس  بات کا زکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کےصحابہ زراعت  میں ایک دوسرے کے ساتھ مواسات کیا کرتے تھے یعنی بٹائی اور  اجرت کے ۔۔۔ایک دوسرے کو زمین سے دیا کرتے تھے۔اور مزارعت کے ثبوت میں لکھا ہے۔

حضرت امام باقر فرماتے ہیں مدینہ میں جتنے مہاجر خاندان تھے سب بٹائی پر کاشت کرتے تھے۔حضرت علی۔حضرت سعد بن مالک۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود۔حضرت عمر بن عبد العزیز ۔حضرت قاسم ۔حضرت عروہ۔حضرت ابو بکر  کا خاندان ۔حضرت عمر  کا خاندان۔حضرت علی کا خاندان ابن سیرین ۔یہ سب بٹائی پر زمین دیتے تھے۔ خیبر کی زمین کے مالک مسلمان تھے۔یہود صرف کاشت کار تھے۔ جب ان کونکالا گیا تھا تو اس وقت جو ان کا حصہ کاشتکاری کا تھا صرف اس کا معاوضہ ان کو دیا گیا تھا۔اور یہ بات کہ ان کو زمین کا معاوضہ دیا گیا تھا۔صحیح طور پر ثابت نہیں ہے اور حدیث میں ہے۔

وكانت الارض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين بخاري جلد اول ص 315

جب رسول اللہ ﷺ خیبر پر ٖغالب ہوئے تو وہ زمین اللہ اور اس کے رسول اور اہل اسلام کی ہوگئی تھی۔بٹائی اور سود میں فرق واضح ہے سود کی صورت میں اگر رقم ضائع ہو جائے تو مدیون زمہ دار ہوتا ہے۔ اصل مالک زمہ دار نہیں ہوتا اور بٹائی کی صورت میں اگر زمین سیلاب یا دریا برد ہو جائے تو مزارع  زمہ دا رنہیں ہوتا۔یہ تاوان سب مالک پر پڑتا ہے اصل میں یہ صورت مضاربت کے ساتھ ملتی ہے جیسے مضاربت میں ایک شخص کی ر قم ہوتی ہے اور  دوسرے کا عمل اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں اسی طرح بٹائی کی صورت میں جو  پیداوار ہوگی اس میں دونوں شریک ہوں گے اگر زمین ہلاک ہوتی ہے تو مالک کی ہوتی ہے۔مضاربت میں اگر رقم ضائع ہو تو مالک کی ہوگی ۔بخلاف سود کے اس میں رقم باقی رہتی ہے۔اس کازمہ دار مدیون ہوتا ہے وہ صرف نفع ہی حاصل کرتا ہے اگر بالفرض بٹائی کی صورت میں  پیداوار تباہ ہو جائے تو اس صورت میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ مالک بقدر تباہی رقم واپس کر دکے اگر تباہ نہ ہو تو بالکل مضاربت کی صورت  ہوگی۔(فی الحال اسیر مختصر تحریر کافی ہے)

(بحوالہ الاعتصام جلد 13 شمارہ 9)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 195-201

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ