زید نے بہ سبب اشد ضرورت کے اپنی کاشت کھیت ایک عبی گنا پر سال آیندہ کے واسطے روپے قرض لیا اورقرض روپیہ لیتے وقت یہ کہا اس وقت میرا کھیت گنا تین ماہ کا بویا ہوا ہے سال آیندہ کوگنا تیار ہونے پریہ نرخ چھ آنہ یا آٹھ آنا فی من بخوشی دوں گا۔ اس طور کی خریدفروخت شرعا صحیح ہے یانہیں؟
۔ صورت مرقومہ میں اس کو بیع سلم کہتے ہیں جو جائز ہے نرخ اورجگہ مقرر ہوینی چاہیے۔اللہ اعلم (اہل حدیث جلد 44 صفحۃ 10)
سوال کی عبارت سے اس کا بیع سلم میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کہ بیع سلم میں راس المال یعنی رقم قرض کی تعین لازم ہوتی ہے۔ایسے ہی مسلم فیہ اور اجل کی بھی اور صورت مرقومہ میں کچھ بھی نہیں۔اور شے معین میں بھی سلم نہیں ہوتی اوراجل معلوم سے مراد سال ماہ دن کی تعین ہوتی ہے اور صورت مرقومہ میں تاریخ دن کی تعین نہیں قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اسلف فيشئ فليسلف في كيل معلم ووزن معلم الي اجل معلم (متفق عليه مشكوات ج 1ص 350) وقال في نيل الا وطار قوله في كيل معلوم احترز بالكيل من السلم فيالا عيان و بقوله معلمعنالمجهول من امكيل ولاموذون وقد كانو ا في المدينة حين قدم النبي صلي الله عليه وسلم يسلفونفي ثمار نخيل باعيا تها فنها هم عن ذلك الخ ج5 ص 192
اور صورت مرقومہ فی السوال میں تعین کھیت کی ہے۔وقال في النيل ان للسلم شروطا غير ما اشتمل عليه الحديث مبسوطة في كتب الفقه ولا حاجة لنا في التعرضلما لا دليل عليه الا انه وقع الا جماع علي اشترا ط معرفة ضفة الشئ المسلم فيه علي وجه يتميز بتلك المعرفة عن غيره انتهي
پس صورت مرقومہ جائز نہیں ( ابو سعید شرف الدین دہلوی)
بیع سلم کا نام ہے اس بیع کا کا بالفعل روپیہ دے دیاجائے اور جنس ٹھرا لی جائے کہ اتنی مدت تک لوں گا۔مثلا سو روپیہ ایک شخص کو بالفعل دے دیا اور اس سے ٹھرایا کہ دو مہینے میں گہیوں سو من اس قسم کے لوں گا اس کوعربی میں بیع سلم کہتے ہیں پھر اگر شرطیں پائی جایں تو یہ بیع درست ہے جو کوئی بیع سلم کرے اس چیز میں کہ بیچی جتی ہے جیسے زعفران وغیرہ تو سلم کرے وزن معلوم میں مثلا چارتولے یا پانچ تولے اور مدت معلوم تک جیسے ایک مہینہ یا ایک سال اور مثل اس کے اس سے معلوم ہواکہ اس میں مدت کا معلوم ہونا شرط ہے اور یہی مذہب ہے ا۔امام ابو حنیفہ مالک و احمد کا حاشیہ ترمذی نو لکشور مترجم جلد 1 ص 409)