السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احکام صدقۃ الفطر کیا کیا ہیں، تفصیلاً بیان فرما دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیے کہ صدقہ فطر ازروئے آیت کریمہ و احادیث صحیحہ کے فرض عین ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾ ’’فلاح پائی، جس نے صدقہ فطر ادا کیا،‘‘ کیونکہ یہاں تزکی سے مراد ازروئے حدیث مرفوع کے صدقہ فطر ادا کرنا ہے، اور یہ آیت صدقہ فطر کے بارہ میں نازل ہوئی ہے،
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰی﴾
((ولا بن خزیمة من طریق کثیر بن عبد اللّٰہ عن ابیه عن جدہٖ ان رسول اللّٰہ ﷺ سئل ان ھذہٖ الآیة فال نزلت فی زکوٰة الفطر انتہیٰ ما فی نیل الاوطار للعلامة الشوکانی ))
اور ابی سعید خدری اور ابن عمر سے بھی یہی روایت ہے، اور ابو العالیہ اور ابن سیرین بھی یہی کہتے ہیں، اور اکثر لوگ ان کے سوا
(( قال الامام البغوی فی التفسیر المعالم تحت هذه الآیة وقال الآخرون هو صدقة الفطر روی عن ابی سعید الخدری فی قوله تعالیٰ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی قال اعطیٰ وصدقة الفطر وقال نافع کان ابن عمر اذا صلی الغداة یعنی من یوم العین قال یا نافع اخرجت الصدقة فان قلت نعم مضی الی المصلی وان قلت لا قال فالآن فاخرج فانما نزلت ہذہٖ الآیة فی ہذا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔ الآیة وهو قول ابی العالیة وابن سیرین انتہیٰ ملحضاً۔))
اور صحیحین میں یعنی بخاری اور مسلم میں اعرابی کے قصہ میں فلاح اس کے لیے ثابت ہوئی ہے، جو صرف فرائض ادا کرے، اور صدقہ فطر ادا کرنے والے کو بھی {اَفْلَحَ } یعنی (فلاح پائی) فرمایا تو معلوم ہوا کہ صدقہ الفطر بھی فرض ہے، کما لا یخفی علی الفطین ۔
((قال الحافظ بن حجر العسقلانی فی فتح الباری شرح البخاری وقال اللّٰہ تعالیٰ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وثبت انہا نزلت فی زکوٰة الفطر وثبت فی صحیحین اثبات حقیقة الفلاح لم اقتصر علی الواجبات انتہیٰ))
ان احادیث صحیحہ موعودہ میں سے ایک یہ ہے:
((عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ قال فرض رسول اللّٰہ ﷺ زکوٰة الفطر صاعاً من تمر)) اور
((صاعاً من شعیر علی العبد والحر والذکر والانثیٰ والصغیر والکبیر من المسلمین وامر بہا ان تؤدی قبل خروج الناس الی الصلوٰة)) (رواہ البخاری و مسلم)
’’یعنی روایت ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا فرض کیا، رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع خرما سے یا ایک صاع جو سے اس سے جوا ن کے سوا کھانے کی چیزیں ہوں، جن کا بیان انشاء اللہ آئے گا، ہر غلام و آزاد مرد دو عورت لڑے اور جو ان پر مسلمانوں سے اور حکم کیا حضرتﷺ نے ادا کیا جائے، صدقہ فطر پہلے اس سے کہ لوگ نماز کو نکلیں، روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔‘‘
اس حدیث سے صراحتاً صدقۃ الفطر کی فرضیت ثابت ہوتی ہے، حدیث میں لفظ فرض کا موجود ہے، اور فرض کے دوسرے معنی مراد لینا بغیر کسی قرینہ صارفہ کے صحیح نہیں کیونکہ یہ معنی فرض کا حقیقت شرعیہ ہے، کما تقرر فی الاصول اور اس کے سوا بہت سی حدیثیں ہیں، ایک ہی پر اکتفا کیا ہے، تاکہ طول نہ ہو، چنانچہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صدقہ فطر کے فرض ہونے پر ایک باب منعقد کیا لے، مگر اس کی قضا نہیں ہے، اور قاعدہ حکمیہ نہیں ہے، کہ جو فرض عین ہے، اس کی قضا لازم محض بے دلیل ہے، کما تقرر فی الاصول۔ اور ہر مسلمان پر فرض ہے، جو اس کی استطاعت رکھا ہو ، خواہ مرد ہو یا عورت، خواہ لڑکا ہو، خواہ جوان، خواہ غلام ہو، خواہ آزاد، خواہ امیر ہو، خواہ غریب جیسا کہ حدیث مذکورہ الصدر سے واضح ہے کہ مطلق ہے، شرط صاحب نصاب ہونے کی نہیں، بلکہ دارقطنی اور احمد کی روایت میں تصریح بھی آ گئی ہے کہ فقیر پر بھی فرض ہے۔
((واستدلال لقوله فی حدیث ابن عباس فطرة الصائم علی انہا تجب علی الفقیر کما تجب علی الغنی وقدر ورد ذالک صریحاً فی حدیث ابی هریرة عند احمد و فی حدیث الثعلبة ابن ابی صعیر عند الدارقطنی انتہیٰ ما فی فتح الباری))
مگر استطاعت ضروری ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ ’’نہیں تکلیف دیتا اللہ تعالیٰ کسی کو لیکن اس کی طاقت کے موافق۔‘‘ لڑکے کا اگر مال ہو تو اس کا ولی اس میں سے صدقہ فطر نکالے، اور اگر مال نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ یا جس پر اس کا نفقہ واجب ہو ادا کرے یہی قول جمہور کا ہے۔
((وجوب فطرة الصغیر فی ماله والمخاطب باخراجہا ولیه ان کان للصغیر مال والا وجبت علیٰ من تلزمه نفقة والیٰ بذا ذہب الجمہور انتہیٰ ما فی نیل الاوطار قوله الصغیر والکبیز ظاهرہ وجوبہا علی الصغیر لکن المخاطب عنه ولیه فوجوبہا علی ہذا فی مال الصغیر والا فعلی امن تلزمه نفقة وہذا قول الجمہور انتہیٰ ما فی فتح الباری ص ۶۱ ج۱۶))
اور غلام کا مولا ادا کرے کیونکہ مسلم کی حدیث میں آیا ہے کہ مولیٰ پر غلام کا صدقہ نہیں مگر صدقہ فطر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام کا صدقہ فطر مولیٰ ادا کرے۔
((قوله علی العبد الخ ظاهرہ اخراج العبد عن فقیر والم یقیل به الا داؤد خائفه اصحابه والنا واحتجوا بحدیث ابی هریرة مرفوعاً لیس فی العبد، صدقة الاصدقة الفطر اخرجه، مسلم، مفتضاہ انہا علی السید انتہیٰ ما فی فتح الباری ص ۶۱ جلد ۶ ملخصاً بقدر الحاجت))
حنفی مذہب میں صدقہ فطر واجب ہے صاحب نصاب پر یعنی جس کے پاس زکوٰۃ کا نصاب ہو اور لڑکے کا صدقہ صرف باپ ادا کرے اور سب باتوں میں موافق اس کے ہے جو گزرا ہے، ہدایہ میں ہے:
((صدقة الفطر واجبة علی الحر المسلم اذا کان مالکا لمقدار النصاف فاضلا عن مسکنه وثیابه واثاففة وفرسه وسلاحه وعبیدہ یخرج ذالك عن نفسه یخرج عن اولاہٖ الصغار ومما لیکه انتہیٰ ملخصاً))
اور وقت ادائے صدقہ کا قبل نماز عید الفطر کے ہے اور اگر کوئی تین روز یا زیادہ عید سے پہلے ادا کر دے تو جائز ہے اور بعد نماز اگر دے گا تو ادا نہ ہو گا۔ کیونکہ آیت مذکورہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾ کے بعد ﴿وَذَکَرَ اسم رَبِّه فَصَلّٰی﴾ فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر نماز پر مقدم ہے کیونکہ فصلی کے ساتھ فائے تعقیب کے ذکر کیا ہے جس سے تعقیب صلاۃ کی صدقہ سے مستفاد ہوتی ہے، کما لا یخفی علی من لہٗ اولی تامل اور حدیث میں آیا ہے:
((وعن عباس رضی اللّٰہ عنه قال فرض رسول اللّٰہ ﷺ زکوٰة الفطر طہرة للصائم من اللغو والرفث وطعمه للمساکین فمن اداہا قبل الصلوٰة فہی زکوٰة مقبولة ومن اداہا بعد الصلوٰة فہی الصدقة من الصدقات رواہ ابو داؤد وابن ماجة والدارقطنی والحاکم وصححه کدا فی منتقی الاخبار وللبخاری وکان یعطون قبل الفطر بیوم اویو مین انتہیٰ))
((وفی موضع آخر والظاہر من اخرج الفطر بعد صلوٰة کا کمن لم یخرجہا باعتبار اشترا کہما فی ترک ہذہٖ الصدقة الواجبة انتہیٰ ما فی نیل الاوطار))
اور جو چیز طعام یعنی قابل خوراک ہے۔ مثلاً گیہوں، جو، پنیر، خرما، ستو وغیرہ کے اس میں سے صدقہ فطر ادا کرنا صحیح ہے۔
((عن عیاض عن عبد اللّٰہ بن ابی سرح العامری انه سمع ابا سعید الخدری یقول کنا نخرج زکوٰة الفطر صاعاً من طعام او صاعاً عأمن شعیر او صاعاً من تمراد صاعا من اقطر او صاعاً من زبیب رواہ البخاری))
مقدار اس کی گیہوں سے آدھا صاع اور سب چیزوں سے ایک پورا صاع ہے۔
((عن الحسن قال خطب ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه فی آخ رمضان علی منبر البصرة فقال اخرجوا صدقة صومکم فکان الناس لم یعلموا فقال من ہہنا من اہل المدینة توموا الیٰ اخوانکم فعلموہم فانہم لا یعلمون فرض رسول اللّٰہ ﷺ هذہ الصدقة صاعاً من تمراد شعیر اور نصف صاع من قمح الحدیث رواہٗ ابو داؤد وقد نمقہ المبین محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی عفی عنه۔ سیاته۔ لقد اصاب من اجاب ابو القاسم محمد عبد الرحمن اللاہوری، اصاب من اجاب محمد حسین خان خورخوی))
یہ جواب صحیح ہے۔ حررہ ابو العلیٰ محمد عبد الرحمن الاعظم گڈھی المبارکفوری۔
جواب باصواب حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔ المجیب مصیب محمد فقیر اللہ۔
الجواب صحیح والرائے نجیح (سید محمد نذیر حسین) (محمد شمس الدین ۱۳۱۵) (عبد الجلیل) عربی (ابو محمد عبد الحق۱۳۰۵) (عبد الروف ۱۳۰۳) (خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین ۱۲۹۲) (خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبد الوہاب ۳۰۰) (سید محمد عبد السلام غفرلہٗ) (عبد الطیف) (محمد طاہر ۱۳۰۱)
وہ غریب مسلمان کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو بہت ہی بھوکا ہو۔ اس پر یہ فطرہ کسی صورت سے نہیں ہے، اگر اسے دو وقت کی فراغت حاصل ہو تو اس کو دینا چاہیے۔ یہ فطرہ خواہ اپنے خویش کو یا غیر کو دے جو فطر دے سکتا ہے، اس پر فرض ہے۔ (حررہ محمد امیر الدین حنفی واعظ جامع مسجد دہلی (محمد امیر الدین:۱۳۰۱) (فتاویٰ نذیریہ ص ۵۱۳ جلد ۱ مطبوعہ دہلی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب