کیا یہ تیسری قسم کے صاحبابن کا خیال صحیح ہے یا کہ اندراج شدہ سودی رقم کو وصول کر کے ضائع ہی کر دینا ززیادہ مناسب ہے؟
لے کر ضائع کرنے کی بجائے لینے سے انکار کرنا درست ہے اگر کسی کے کھا جانے کا اندیشہ ہوتو بینک کے انچارج کو لکھ دینا چاہیے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا۔(اہل حدیث لاہور جلد3 شمارہ 35)
(حضرت العالم سلطان محمود شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد)
کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ مولوی عبد الرحمٰن کا امامیہ کالونی شاہدرہ میں ایک بھٹہ ہے جس میں وہ اکیلے دن رات رہتے ہیں لیکن ان کا کنبہ لاہور وسن پورہ میں مقیم ہے وسن پورہ میں مولوی ابو بکر صدیق نے بھٹہ میں حصہ حاصل کر نے کی خواہش کی اور پانچ ہزار روپیہ برائے مضاربت دے دیا۔بعد ازاں مولوی ابو بکر صاحب کے دل میں از خود یہ خیال تھا کہ ایک ہزار روپے مزید ترسیل کیاجائے۔چنانچہ اس نے 2 جنوری 1974 کو ساڑھے آٹھ صد روپے مولوی عبد الرحمان کا بیٹا نجیب الرحمٰن کے گھر پہنچتا ہے تین مسلح ڈاکو اسی رات مولوی عبد الرحمٰن کے گھر ڈاکہ ڈالتے ہیں مولوی عبد الرحمٰن کی بیوی کو جان سے مار دینے کی دھمکی دیتے ہیں بیوی نے 1150 روپےے ایک گھڑی ایک دو بالیاں دے کرجان چھڑائی شبہ یہ بھی ہے کہ وہ ڈاکو اس واقعہ کو معلوم کر کے مولوی ابو بکر نے مزید ڈیڑھ صد روپیہ کسی آدمی کے ہاتھ بھیجا اور ساتھ ہی یہ رقعہ تحریر کیا ۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم!محترمی مولوی عبد الرحمٰن گیلانی زید مجدہ السلام علیکم !مزاج شریف قبل ازیں مبلغ ساڑھے آٹھ صد روپیہ بھیج چکا ہوں اب مزید ڈیڑھ صد روپیہ بیج رہا ہوں اب یہ کل قم ایک ہزار وپیہ ہوگیا اس رقم کوپہلی پانچ ہزار میں شامل فرما لیں اب آپ کےپاس کل چھ ہزار روپے ہو گئے (آپ کا مخلص ابومحمد صدعیق)3۔1۔73
جو شخص مولوی عبد الرحمٰن کو حادثے کی اطلاع دینے گیا وہی یہ رقعہ اور ڈیڑھ صدروپیے کرگیا اب یہ رقم جو مولوی عبد الرحماٰن کے مشورہ ار علم کے بغیر اس خود مولوی ابو کر نے بھیجی وہ مولوی عبد الرحمٰن تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈکیتی کی شکار ہوگئی بلکہ کچھ اور بھی لے ڈوبی اور ہوسکتا ہے کہ وہ ڈکیتی کی بنیاد بھی ہو تو کای یہ رقم مولوی عبد الرحمٰن کو واپس کرنا آتی ہے ؟بینوا توجروا
(السائل عبد الصمد محمد مسلم گیلانی کوٹ شاہ محمد ضلع شیخو پورہ)
عبارت سوال سے ایسا معلوم ہوتا ہے ہ ساڑھے آٹھ روپے جو پہلی مضاربت کے انعاد کے بعد مولوی ابو بکر صاحب نےج بھیجا ہے وہ روپے نہ و مولوی صاحب کی طلب پربھیجا ہے اور نہ ہی مولو عبد الرحمٰن نےخود یا اس کے وکیل نے قبضہ کیا ہے۔اس لئے یہ روپیہ مولوی کی زمہ داری میں نہیں آیا۔ یہویہ مضاربت کے راس لامال میں اوس وقت شمار ہوتا جب مولوی صاحب اسے اس کام کیلئے قبول کر لیتا پس ان حالات میں روپیہ قابض کے پاس بطور امانت تھا ۔جس کے ضائع ہونے ر اابض پر کسی قسم کی واجب نہین
(سلطان محمودشیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد)