السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ حدیث شریف میں جو صاع کا لفظ آیا ہے، جس سے بہت سے احکام متعلق ہیں، اس کا وزن ہندوستانی قول میں کیا ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیے کہ صاع کا جو لفظ حدیث میں آیا ہے، وہ صاع آنحضرتﷺ کا ہے، اسے صاع حجازی کہتے ہیں، اسی صاع حجازی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے، صاع عراقی سے نہیں، کیونکہ صاع عراقی آنحضرتﷺ کا صاع نہیں ہے، چنانچہ اس کی تصریح کتب حدیث میں موجود ہے، اور جراء احکام اسی صاع سے ہونا چاہیے، جو صاع آنحضرتﷺ کا ہے، اور اس کا وزن سیروں کے حساب سے یہ ہے، جو مسک الختام شرح بلوغ المرام میں ہے۔
پس صدقہ فطر بسیر پختہ لکھنؤ کہ نود و شش روپیہ است د روپیہ یاز دو ماشہ نصف صاع از گندم ایک آثار و شش چھٹانک وسہ، ماشہ باشد واز جود وچند آن یعنی دو آثار ونیم پاؤ شش ماشہ کہ وزن صاع است و نصف صاع بسیر انگریزی کہ ہشتاد روپیہ چہرہ دار است وہر روپیہ یا زدہ ماشہ وچہار رتی است یک سیر د نیم پاؤ و نیم چھٹانک دیکتولہ وسہ ماشہ باشد انتہیٰ
اور یہ بھی معلوم کرنا چاہیے، کہ اصل صدقہ فطر میں کیل یعنی پیمانہ تانبے کا ہے اور وزن کے قدر کی جو حاجت پڑتی ہے تو صرف استفہار او ستعانۃًلطب حفظ الاحکام کما لا یخفی علی الماہر اور لا محالہ قدر وزن میں قدر قلیل اختلاف معلوم ہوتا ہے، اور حقیقت میں مشکل ہی ہے، ضبط صاع کا ساتھ ارطال وغیرہ کے کیونکہ صاع جو حضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میںتھا، اس سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے، تو وہ پیمانہ معروف و مشہور تھا۔ اب اندازہ و قدر اس کا وزناً ہوتا ہے، ساتھ مختلف ہونے اجناس صدقہ کے مثل حمص و ذرہ وغیرہ کے تو ضروری ہے کہ ایسے پیمانہ سے صدقہ دینا چاہیے۔ کہ موافق صاع و پیمانہ رسول اللہﷺ کے ہو اور جو شخص اس کو نہ پائے، تو لازم ہے کہ اس طرح سے ادا کرے کہ تیقن کامل ہو کہ یہ اس سے کم و ناقص نہیںہو گا، مسلک الختام میں لکھا ہے کہ احتیاطاً در صڈقہ فطر دو سیر انگریزی گندم باید داود صاع از جودو چندآن یعنی دو سیر ویک نیم چھٹانک واحتیاطاً از جو چہار سیر باید وانتہیٰ۔ پس مقدر کرنا صاع کو ساتھ پانچ رطل و ثلث رطل کے بہت قریب الی الصواب ہے، اور کہ صاحب روضہ نے :
((وقد یشکل ضبط الصاع بالارطال فان الصاع المخرج به فی زمن رسول اللّٰہ ﷺ مکیان معروف ویختلف قدرۂ وزناً باختلاف جنس، ما یخرج کالذرة والحمص وغیرہما والصواب ما قاله الدارمی ان الاعتماد علی الکیل بصاع مغائر بالصاع الذی کان یخرج به فی عصر النبی ﷺ ومن لم یجدہٗ لزمه اخراج قدر یتقن انه ادلة البخاری))
اور بعض علماء نے کہا ہے کہ صاع چار لپ یعنی چار بک متوسط آدمی کا ہے، اور یہ تجربہ بھی کیا گیا ہے، پس صحیح اور موافق ہے، صاع رسول اللہﷺ کے کذا فی القاموس وحکاہٗ النووی ایضاً فی الروضۃ۔
اور اہل پنجاب اس امر میں بہت اچھے اور خوب ہیں، کیونکہ ان کے یہاں پیمانہ مثل مد کے پڑوپی ہے، اور مثل صاع کے ٹوپہ ہے، اور وہ اسی پر اجراء احکام وغیرہ کرتے ہیں، فقط واللہ اعلم بالصواب والیه المرجع والمأب۔ (فتاویٰ نذیریہ ص ۱۶ھ ج۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب