زید دس سال سے سودی لین دین کر رہاہے۔ آج اللہ سے ڈر کر توبہ کرتا ہے۔اور اپنے کل مال کی زکواۃ نکالتا ہے لوگوں ک ے زمہ باقی ماندہ سود کو چھور دیتا ہے لیکن جو مال اس نے سود لیکر جمع کیا ہے اس میں اصل بھی ہے آیا یہ مال پاک ہے یا ناپاک؟
سود کا لینا دینا ہر صورت میں حرام ہے۔توبہ کرنے سے لمعاف ہوجائے گا قبل از توبہ حالل و مخلوط از سود مال بعد توبہ کے پاک ہوجائے گا توبہ کرنے سے شرک و کفر تک معاف ہوجاتے ہیں انہیں گنا کبائر میں سے سود بھی ہے وہ بھی معاف ہوجائے گا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا! التائلب من الذنب كمن لا ذنب له (ترجمہ)گناہوں سے توبہ کرنیوالا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔مسئلہ مذکور میں قرآن اپنے ان الفاظ میں ناطق ہے۔
لَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟ ۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ ﴿٢٧٥﴾(بقرۃ)
ترجمہ۔جو لوگ سود کھاتے ہیں۔نہیں اٹھتے ہیں مگر جیسے وہ شخص جس کو شیطان نے اچک لیا ہو۔(یعنی مجنون) یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے خرید فروخت اور سود کو ایک کیا ۔حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کوحلال کیا اور سود کو حرام جو اللہ کی طرف سے نصیحت آجانے کے بعد باز رہے تو وہ مال اسی کا ہے جو اس نے پہلے لیا اس کا امر خدا کے سپرد ہے لیکن جو باز نہ آئے وہی ان اہل نار میں سے ہے جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے قول۔ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مال توبہ سے پہلے اور حرمت سے پہلے لے چکا ہے۔وہاس کا ہوگیا یعنی اس کا رکھنا اس کےلئے جائز ہے۔ اس کے واپس کرنے کا صراحۃ حکم نہیں ہے۔چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ۔ الخ
حدیث اي من بلغه ني الله عن اربو فانتهي حال وصولالشرعاليه فله ما سلفمن العاملة لقولهعفاالله عما سلفوكما قال النبي صلي الله عليه وسلم يوم فتح مكة وكل ربوا في الجاهلية موضوع تحت قدمي هاتينواول اضع ربا لاعباس ولميامرهمبرد الزيادات الماخوذة في الجاهلية بل عفا عما سلف كما قال الله فله ما سلف وامره الي الله الخ
اور تفسیر مواہب الرحمٰن میں آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے یعنی جس شخص کے پاس آگئی نصیحت اس کے رب عزوجل کی طرف سے پس وہ باز رہا۔یعنی بیاج کھانے سے جو گزر چکا ہے وہ اس کئلئے ہے۔
فائدہ۔یعنی وہ بیاج اس سے واپس نہیں لیا جائے گا جو حکم الہٰی کہ پہنچنے سے پہلے وہ جمع کر چکا ہے۔الخ اوراگر توبہ کے وقت اصلرقم اور سود کے مال سے لوگوں کے زمہ باقی ہے تو توبہ کے بعد اپنی اصل رقم لے لے اور سود کو چھوڑ دے۔قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾(بقرۃ)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے پھر اگر نہ کرو گے تو خبردار ہوجائو لڑنے کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اور اگر توبہ کرو گے تو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔(اہل حدیث دہلی 15 مئی سن1954ء)
دنیا میں بالعموم اور عربوں میں بالخصوص کئی اور روگ تھے۔جو پورے معاشرے کو تباہ و برباد کئے ہوئے تھے۔اور دامن انسانیت پر بد نماداغ تھے ان میں سے سود اورشراب بھی ہے۔ چونکہ آپ ﷺ کے پیش نظر ان تمام برایئوں کا استیحصال تھا جوانسانی معاشرے میں تھیں اور پھر آئندہ اس عظیم اجتماع کو خطاب کرنے کا موقع بھی باقی نہیں رہا تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس موقع پر اس کے بارے میں بھی آخری فیصلہ فرما دیا۔آپ ﷺ نے فرمایا!ربوا لجاهلية موضوع اول ربوا صغ ربوا عباس بن عبد المطلبیعنی سودی لین دین آج سے حرام قرار دیا جاتا ہے۔اور وہ تمام سود جو کسی کا بھی ہو اور کسی کے زمے ہو اور چاہے اس کی کتبی ہی بری مقدار کیوں نہ ہو آج سے کالعدم قرار دیاجاتا ہے۔نہ سود لینے کا استحقاق رکھنے والا سود کا مطالبہ کرسکتا ہے اور نہ سود دینے پر مجبور انسان اب سود کی رقم ادا کر سکتا ہے اور سب سے پہہلے میں اپنے خاندان کا سود کالعدم قرار دیتا ہوں۔
آج کے دور میں جب کہ سودی کاروبار بہت برے پیمانے پر ہو رہے ہیں اور ایک طبقہ کے نزدیک سود تجارت کا جزو بن کر رہ گیا ہے۔ اور بظاہر اس کی وجہ سے ایک طبقے کو بڑے بڑے منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔اس طبقے کے ترجمان اسلام کے اس حکم پر حیرت زدہ ہیں کہ اسلام نے اتنے نفع بخش کام کو حرام قرار دے کر اپنے ماننے والوں کو اقتصادی معاشی تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ اور اس کے مرتکب کو بڑی بڑی سزائوں کی وعیدیں سنا کر ان کی خوش حالی کی موت کو ان کے سروں پر مسلط کر دیا ہے۔لیکن آپ غور کریں۔تو آپ بھی اس یقین پر مجبور ہوں گے کہ اسلام نے کود کو حرام قرار دیکر انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
اسلام دنیا میں ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈال رہا تھا جس میں رحم وکرم محبت و مودت ایثار و تعاون اور بھائی چارہ ہو اس معاشرے میں تمام انسان مل جل کر زندگی گزاریںایک دوسرے کی مصیبتوں میں کام آیئں ہرایک کو دوسرے کے ساتھ پوری پوری ہمدردی ہو اور دوسروں کی مصیبت کو اپنی مڈیبت تصور کر کے اسے مل جل کر دور کرنے کی کوشش کریں امیر و غریب کے الگ الگ فرائض مقرر کیے خیرا و صدقات اور زکواۃ کے اصول وضع کرکے سرمایہ داروں کو خزانے کا سانپ بننے سے روکا ہے۔غریب کو گداگری اور سوال کی ذات سے بچنے کی تاکید کی ہے۔اسلام شخصی ملیکت کو فطری اور صحیح تسلیم کرتے ہوئے۔سرمایہ کی تقسم اور غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کے گزارنے کے انتظام کے لئے اسلامی حکومت کے ہاتھ میں وسیع اختیارات سونپنا ہے سرمایہ داروں کے سرمایہ کے بارے میں اس کا صول ہے نو خذ من اغنيائهم وتر ء علي فقرائهم یعنی ہر آبادی کے سرمایہ داروں کے سرمایہ سے ایکج مقررہ حصۃ وصول کرکے غریبوں میں تقسم کیاجائے گا۔اصول زکواۃ کی وجہ سے دولت کا فن کرنا نا ممکن ہوگیا۔قانون وراثت نے سرمایہ کو ایک ہی خاندان میں سمٹ جانے سے وک دیا ہے۔احتکار کی سخت ممانعت کی ئی ہے زکواۃ صدات عشر کفارہ وراثت جیسے قوانین نے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹے بڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط کردیا ہے کہ کوئی ایکدوسرے سے بے نیاز ہو کر صحیح معنی ٰمیں مسلمان کہلوانے کامستحق نہیں رہ جاتا ہے۔
بخلاف اس کے سود انسان میں خود غرضی بے رحمی سنگدلی زر پرستی حرص و از کنجوسی و بخالت کو جنم دیتا ہے ایک سود خوار کیلئے اخلاق و اقدار کی اہمیت کا کوئی سوال نہیں رہ جاتا ہے قرض دینے والے ساہو کار کو صرف اپنے سود کی پرواہوتی ہے اس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ قرض لینے والا تباہ و برباد ہوریا ہے اس کے بچے فاقوں کی وجہ سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اگروہ رحم و کرم ایثار وقربانی ہمدردی و مھب سے کام لے تو اس کا سارا کاروبار تباہ اور برباد ہوجائے اس لئے اس نام کی اس کے یہاں کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔یہ جزبات کود غرضی کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ انسان جبلت و فطرت کے اعتبار سے ایک انسان کو دوسرے انسان سے جتنی ہمدردی ہونی چاہیے۔ اتنی بھی ان سرمایہ داروں کے دلوں میں نہیں ہوتی ہے اگر ایک شخص کے گھر مٰن بے گوروکفن لاش پڑی رہ جائے یا کسی کا اکلوتا بیٹا غریب و بے کس ماں باپ کے سامے اس لئے دم توڑ رہا ہے کہ علاج کئلئے اس کے پاس پیشے نہیں ہیں ایسے اشخاص بھی اگر کسی سودی لین دین کرنے والے سے قرض مانگیں تو وہ مہاجن یا تو انکار کردے گا یا تمام انسانی ہمدردی کو بالائے طاق رکھ کر اس سے عام نرخ سے زیادہ شرح سود کا مطالبہ کرے گا۔یہ روز مرہ کے تجربات ہیں قساوت قلبی اور دل کی سیاہی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ انسانی شرافت اور فطری ہمدردی کی روشنی کی جھلک بھی وہاں تکک نہیں پہنچ پاتی۔
آپ ﷺ نے اس عظیم اجتماع میں اسی لئے سود کی حرمت اور اس کے فوری استیحصال پر زور دیا ہے کہ یہ طریقہ در حقیقت اسام ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت اس کی وجہ سے کراہ رہی ہے۔
یہ تو اخلاقی لہاظ سے سود کی مضرتیں تھیں۔معاشی و اقتصادی لہاظ سے بھی سود متعدد نقصانات کا حامل ہے۔تجارت و صنعت زراعت یا کسی بھی منفعت بخش کاروبار کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ اور محنت میں بہتر قسم کاتوازن ہوا میں سے کسی طرف بھی ڈھیل اور کمزوری ہے تو وہ کاروبار بار آور نہیں ہوکستا لیکن سودی قرض دینے عالوں کو اس سے کوئی غرضنہیں ہوتی کہ تجارت میں منافع ہورہا ہے یا بقصان سرمایہ دار صرف اس وقت مقررہ کا انتظار کرتا ہے جب اس کے سود کی مقررہ رقم دگنی اور سہ گنی ہوجائے جتنی بھی زیادہ مدت تک رقپیہ اس کام میں رکا رہے گا اس کا منافع بڑھتا رہے گا۔چاہے اصل کام کرنے والے کو مسلسل نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ سرمایہدار اپنا بہت سا سرمایہ اس لئے کاروبار مٰن نہیں گاتا ہے کہ وہ شرح سود کے بڑھنے کاانتظار کرتا ہے اگر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں مٰں سرمایہ لگا کر اُسے تین چار فیڈسی سود ملنے والا ہو اور کسی فلم کمپنی سینما ڈانس گھر یا شراب کے کاروبار جیسے غیر اخلاقی کاموں میں ر وپیہ لگا کر اسے دس بارہ فیصدی سود مل سکتا ہے تو وہ سرمایہ دار ان عوامی بہبود کے کام کو چھوڑ کرانہیںغیر اخلاقی کاموں میں اپنا سرمایہ لگائےگا خدارا آپ بتایئں کہ یہ ذہنیت کسی ملک اور قوم کو کس طرف لے جائے گی۔؟
بینکنگ سسٹم کو جو صرف سودی کاروبار کیلئے ہے۔ اس کی وابستگی عوامی زندگی سے کچھ اس طرح کی ہے کہ اب اس کے ظاہری مفاد کے سامنے اس کی مضرت کا کوئی پہلو ہی نظر نہیں آتا حالانکہ آپ اس طریقہ کار کا غائر مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بینکنگ سسٹم بھی ملک و قوم کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث ہے۔بینک درحقیقت چند ساہو کاروں کا مشترکہ سودی کاروبار ہے اس طریقے میں ابتدا ہی سے کود غرضی کا پہلو سب سے زیداہ نمیاں ہے بین کا سارا کاروبار ان سرمایہ داروں کے سرمائے کی بجائے ان امانت داروں کے سرمایہ سے چلتا ہے جو اپنا روپیہ بغرض حفاظت بین میں رکھتے ہیں اور اس پر ایک حقیر رقم تین چاارفیصدی سود کے نام سے وصول کرتے ہیں بینک کا یہی سرمایہ اس کی روح رواں ہوتا ہے۔ لیکن بینک کی پالیسی سے ان امانت داروں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔روپے کو کس طرح استعمال کیا جائے شرح سود کیا ہو؟اسکی مینجنگ کنیٹی کیسے مرتب ہو؟ انتمامناہم امور کاتصفیہ ان چند سرمایہ داروں کی منشاء پر منحصر ہے۔جو اس بینک کے شیئرز(حصہ دار )ہیں۔جن حصہ داروں کے حصے زیادہ ہوتے ہیں۔سارا عمل دخل انہیں کا ہوتا ہے۔بقیہ چھوٹے حصہ داروں کاک بینک سے صرف اس قدر تعلق ہوتا ہے۔ کہ منافع کی تقسم پر ان کا حصہ رسدی پہنچ جائے۔یہ چند سرمایہ دار اپنی مرضی کے مطابق بینک کا روپیہ سود پر دیتے ہیں۔ سرمایہ کا ایک حصہ یہ لوگ روز مرہ کیضرورتوں کےلئے اپہنے پاس رکھتے ہیں کچھ صراجہ بازار کو قرض دیا جاتا ہے اور کچھ قلیل المیعاد قرضوں میں صرف کیا جاتا ہے ان قرضوں پر بینک کو ایک سے لے کر تین چار فیصدی تک سود ملتا ہے رقم کا بڑا حصہ کاروباری لوگوں کو بڑی بڑی کمپنیوں اور اجتماعی اداروں کو دیا جاتا ہے جو بالعموم مجمعوعی سرمایہ مٰن سے 30 فیصدی سے لے کر 60 فیصد تک ہوتا ہے۔ بینک کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی قرضے ہیں۔ہر بینک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ سرمایا کا زیادہ سے زیادہ حصہ اسی قسم کے قرضوں میں لگے اس لئے کہ ان قرضوں پر سب سے زیادہ شرح سود ملتا ہے۔
اس طریقے سے جو آمدنی بینک کو ہوتی ہے۔وہ بینک کے شرکاء کے درمیان اسی طرح تقسم ہوتی ہے۔ جس طرح عام تجارتی کمپنیوں میں ہوتی ہے عام سود کے لالچ میں اپنی رقمیں بین میں جمع کرتے رہتے ہیں اور ایک حقیر منافع پر قانع ہیں اور انہیں کیرقم سے ورا پورا نفع چند سرمایہ دار اٹھاتے ہیں یہ لوگ غریب اور کم دولت مند لوگوں کو قرضے نہیں دیتے بلکہ وہ ہمیشہ ان بڑے سرمایہ داروں کو روپے دیتے ہیں جو اچھی شرح سود ادا کرسکیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ مٹھی بھر انسانوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتا ہے اور یہ اس خزانے کی بدولت سارے ملک اور قوم کی قسمت کے مالک بن بیٹھتے ہیں سیادی معاملات سے لے کر معاشی و اقتصادی اتار چڑھائو سب کچھ ان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے بعض ملکوں میں تو حکومت کی پوری مشینری انکے اغراض و مقاصد کے مطابق چلتی ہے۔وہ جب چاہتے ہیں حکومت کی لگام کھیچ کر اس راہ پر موڑ دیتے ہیں جو ان کے مفاد ی راہ ہے بیکوں کے یہ درفمایہ دار جب چاہتے ہیں اشیاء کو بازار سے غائب کر کے اس کے دام چڑھا دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں بازار میں اس کی بہتات کر کے اسکو ارزاں کر کے چھوٹے چھوٹے دوکانداروں کوج تباہ وبرباد کر دیتے ہیں یہ درمایہ ادار اپنے منافع کے پیش نظر قحط تک برپا کرا دیتے ہیں غرض کہ یہ پوری قوم کا خون چوستے رہتے ہیں۔اور قوم خوش ہے کہ بینک اس کی اقتصادی ومعاشی زندگی میں اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
اسلام کی نگاہ میں یہ سارے طریقے ظالمانہ اور خلاف انسانیت ہیں۔اسلام نے ان ساری صورتوں کو سود کے زمرے میں شمار کر کے اس کے مرتکب کو سخت سزاوں کی وعید سنائی ہے اہل فقہ نے اس کی مختلف صورتیں لکھی ہیں ان میں سے بعض کاروبار اسلامی طریقے کے مطابق ہیں اور بقیہ سب سود میں شامل ہیں حاجت مندانہ اور صرفی قرضہ ہو یا تجارتی کسی پر سود لینا اسلام کے نشدیک جائز نہیں ہے اور جو لگو یہ کہتے ہیںکہ یورپ نے موجودہ سودی نظام کا جو ڈھانچہ بنایا ہے۔وہ حضور پاک ﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا۔اس لئے یہ صورت حرام نہیں ہے۔ وہ لوگ اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو گمراہی میں مبتلا کرتے ہیں۔اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(اخبار الاعتصام لاہور جلد10 شمارہ نمبر 49)
عرصہ سے میرا خیال تھا کہ مسئلہ ربا اور سود کے متعلق ایک مذاکرہ علمیہ جاری کیا جائے جس میں علمائے کرام جی کھول کر مضامین لکھیں۔آج اتفاقیہ ایک مضمون ہاتھ میں آیا تو وہی پرانا خیال یاد آگیا۔اس لئے آج سلسلہ شروع کیا جاتا ہے سلسلہ سے پہلے واقعات کا پیش کر دینا ضروری ہے۔
(الف)ایک واقعہ یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے ایک بینک جاری ہے جس کا نام سیونگ بینک ہے یہ ڈاک خانہ میں ہوتا ہے۔ اس کے جاری کرنے سے سرکار کی یہ غرض ہے کہ جو لوگ تجارت پیشہ نہیں ہیں وہ اپنی بچت کا کچھ روپیہ برائے رفع ضرورت اس بنک میںرکھا کریں چونکہ وہ روپہیہ سرکار کسی نہ کسی کام مثلا بہر ریل وغیرہ صیغہ ہائے آمدنی میں لگاتی ہے۔ اس لئے روپے کے مالکوں کو بھی سالانہ کچھ دیتی ہے۔
)ب)دوسرا واقعہ یہ ہے بینک جو مہاجنی اصولل پر چلتے ہیں جن سے تجارت پیشہ لوگ سود پر روپیہ لیتے ہیں اور امانت دار روپیہ ان میں رکھتے ہیں جس کا سود اہل بینک امانت داروں کو عیتے ہیں مگر اس سود سے جوبنک کود لیتا ہے امنتداروں کو کم دیتا ہے باوجود اس کے بینک کو اگر خسارہ ہوجائے تو حسہ داروں کے ستاھ ہی امانتداروں کو بھی نقصان میں شرکت ہوتی ہے۔
جواب۔بعض بینکوں میں یہ بھی دستور ہے کہ امانتدار ان سے جو سود نہ لے وہ اس سودی رقم کو یدائی مشن کے سپرد کردیتے ہیں جس کو وہ اپنی تبلیغ میں کرچ کرتے ہیں اس تیوری صورت کے متعلق بعض مقامات سے مسجاد رقوم کی بابت استفتاء آئے ہیں۔ کہ یہاں مسجد کیرقوم فلاں بین میں نکع ہیں اہل بین سود لینے پر مجبور کرتے ہیں کہتے ہیں اگر تم نہ لو گے تو ہم حسب قانون عیدائی مشن کو دیں گے ایسی صورت میں وہ اس سود کولوگوں کے عئدائی بنانے پر صرف کریں گے ان واقعات کے علاوہ روز مرہ کا واقعی یہ ہے جہ تجارتی اصول سے کہ دوکاندار آپس میں ایک دوسرے سے مال خریدتے ہیں۔ان کیلئے کچھ دنوں کی مدت مقرر ہوتی ہے۔اس مدت کے اندر اندر روپیہ ادا نہ کرسکیں۔تو مہاجنی سود دیں اگر سود دینا منظور نہ کریں تو دیوالیہ نکل جائے گا جس سے تمام کاروبار بند منڈی میں دیعالیہ مشہور یہ اور اس قسم کے اور بھی واقعات ہیں جن کو زیر غور رکھیں اور حرمت ربا کے متصل ہی کتاب اللہ میں یہ لفظ بھی قابل غور ہیں۔
لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیاجائےگا۔ان واقعات اور حکم خداوندی کو ملحوظ خاطر رکھ کر ارباب علم قلم اٹھائیں پھر جو لکھیں گے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔آج جومضمون درجج ہوتا اس کے لکھتے وقت راقم مضمون کو ان واقعات کا علم نہ ہوگا مگر آئندہ لکھنے عالوں کو ملحوظ رہنے چاہییں بہر حال مضمون آمدہ درج زیل ہے۔(ایڈیٹر)
ناظرین کرام !السلام علیکم ۔حضرات مسلمانوں میں آجکل جاں سینکڑوں برایئاں سرائیت کرگئی ہیں وہاں ایک مرض مہکک سود کا بھی روز بروز ترقی پزیر ہوتا جاتا ہے بہت کم مسلمان ایسے ہیں جو اس فعل حرام سے بچے ہیں مسلمو غور کرو فرمان باری تعالیٰ کھلےلفظوں میں اس کی تردید کریا ہے۔ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟ یعنی حلال کیا اللہہ نے خریدوفروخت کو اور حرام کیا ہے سود کواہل جاہہلیت کی یہ عادت تھی کہ جب قرضدار سے اپنا روپہیہ وصول کرنے کا وقت آتا تو تقاضا کیا کرتے تھے پس قرضدار کہتا تھا کہ میری کچھ مہلت بڑھا دو میں کچھ رقم بڑھا دوں گا چنانچہ دونوں ایسا کیاکرتے تھے اور یوں کہتے تھے۔کہ اول خریدو فروخت کے وقت نفع بڑھانا یا مدت مہلت ختم ہونے پر تاخیر کی وجہ سے کچھ رقم میں اضافہ کر دینا دونوں برابر ہیں پس حق تعالیٰ نے ان کی تکذیب میں آیت مذکورہ کو نازل فرمایا کہ (دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں حالانکہ )بیع و شچراء کےزریعہ سے تجارت مٰںنفع کو اللہ نے حلال کیا ہے اور تاخیرمہلت کی وجہ سے مال میں زیادتی کرے کو جس کا نام سود ہے اللہ نے حرام کیا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔پس ساری مخلوق اسکے غلام ہیں۔وہ سب کا مالک ہے جو چاہے ان میں حکم جاری فرما دے۔ اور غلامی کا جو چاہے کام لے کسی کو اس کے حرام و حلال کئے ہوئے پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں۔کہ
میرے پیارے بھایئو سنو! ایک جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾
ترجمہ۔یعنی اے مسلمانوں اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سےڈر کر سود خوری چھوڑ دو۔ورنہ یاد رکھو! فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ یعنی اگر تم سو دخواری نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جائو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کیلئے۔
بھویئو کیا تم میں حق تعالیٰ سے لڑنے کی طاقت اور اُس کے رسولﷺ سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہے اور کیا تمہارے پاس وہ آلات حرب ہیں جن سے تم شہنشاہ حقیقی دو جہاں سے لڑائی کر سکو ہم نے مانا کہ تم سود سے کچھ دنیا وی نفع اٹھالوگے مگر انجام کیا ہوگا رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔میں نےخون کی ایک نہر دیکھی۔جس میں ایک شخص غوطے کھا رہا ہے اور مرتا پچھٹرتا جب کنارے کی طرف پہنچ کر نکلناچاہتا ہے۔تو ایک فرشتہ اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جسی کی تاب نہیں لاسکتا اور پھر اندر چلا جاتا ہے۔ یہہی حالج اُس کا ہو رہا ہے میں نے دریافت کیا اسے یہ عذاب کیوں ہورہا ہے۔حکم ہوا یہ سود خوار ہے (بخاری) آپ ﷺ فرماتے ہیں سود لینے والا اور دینے عالا لکھنے والا گواہ رہنے والا سب ملعون ہیں اور فرمایا ۔هم سواءاور سب گناہ میں برابر ہیں (مسلم) اور آپ نے فرمایا !الربوا سبعون جذااليزها ان ينكح الرجل امه سود کے ستر گناہ ہیں جن میںسب سے ہلکا گناہ اپنی سگی ماں کے ساتھ زنا کرنے کے برابر ہے ( حاکم و احمد و مشکواۃ) بلکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ سودکے کچھ اوپر ستر گناہ ہیں اورشرک بھی سود کے مانند ہے۔(بزار)شاید یہ لوگ سود کو چھوٹا گناہ سمجھے ہوئے ہیں۔حالانکہ نبی امی فداہ ابی و امی ﷺ فرماتے ہیں ایک درہم سود کا لینا چھتیس زنا کاریوں سے بدتر ہے (دارقطنی و طبرانی واحمد) اور ایک زنا کاری ساٹھ سال کی عبادت خالص کو غارت کر دیتی ہے (ابن حبان) پھر اےہ لوگو جو ہزاروں لاکھوں سودی روپ کھا گئے جن کی سار ی تجارتیں سودی کاروبار پر چل رہی ہیں کبھی تم نے بھی اپنی عاقبت پرغور کیا یا صرف پیٹ پالنے اور امیر بننے ہی سے مطلب ہے کیا تم نے نہیں سنا رسول ﷺ فرماتے ہیں میں نے شب معراج میں دیکھا ایک قوم ہے جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں کی طرح اونچے ہور ہے ہیں۔ان میں بڑے بڑے سانپ پھر رہے ہیں۔اور انہیں ڈس رہے ہیں کوئی نہیں جو ان کی ہائے وائے پر رحم کرے بری طرح تڑپ تڑپ کر جان ہلاک کر رہے ہیں۔پوچھا یہ کون لوگ ہیں کہا گیا یہ سود خوار لوگ ہیں۔(مسند احمد)اسی واسطے آپ ﷺ فرمایا کرتے ۔لوگو! سات گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں۔
1۔ایک اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا2۔جادو کرنا3۔بلا اجازت شرعی کسی کو مارڈالنا 4۔سود کھانا۔5۔یتیم کا مال ناحق کھانا6۔جہاد کے وقت بھاگ کھڑے ہونا۔7۔پاکدامن نفس مسلمان عورتوں پر بہتان باندھ کر بدنام کرنا(بخاری و مسلم)
ہمارے پیشوا فداہ ابی و امی ﷺ فرماتے ہیں۔ چار قسم کے لوگ ہیں جنھیں نہ اللہ جنت میں داخل کرے گا نہ ان کوکوئی نعمت نصیب ہوگی۔1۔سود خور۔2۔شرابی۔3۔یتیم کا مال کھا جانے والا۔4۔۔ماں باپ کا نافرمان (حاکم)سود خوار سمجھتا ہے۔کہ میرا مال بڑھتا ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ گھٹتا ہے۔قرآن
اللہ کریم سود کو گھٹاتا ہے۔اور صدقہ کو بڑھاتا ہے۔ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا سود اگرچہ بظاہر کتنا ہی بڑھے مگر انجام اس کا کمی ہی ہے۔(ابن ماجہ) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سود خواروں نے زیادتی مال کے واسطے سودکو اخٹیار کیا بغیر اس طرف توجہ کئے کہ اللہ ناراض و غصہ ہوگا لہذا یہ زیادتی مٹ جائےگی بلکہ ساتھ میں راس المال بھی جائے گا۔اور لوگوں کا قرضدار بھی ہوگا۔ جس کاانجام کار یہ ہوگاکہ دیوالیہ کی درخواست دے کر مفلسوں اور دیعالیوں کے دفتر میں ناملکھایا جائے (اعازنا اللہ منہ)جیساکہ اکثر سود کا لین دین کرنے والے کودیکھاگیا ہے۔ اور فرض کرو کہ وہ معزوربحالت تمول ہی مرے تو اس کے ورثاء کے ہاتھ میں مال جا کر کم ہوا کہ تھوڑا مانہ بھی نہیں گزرا کہ غائت درجہ فقیر وزلیل و خوار بن گئے (کمافی بصائر العشائر مطبوعہ دیلی ص394)
سود خوار کا خیال ہے کہ میں نہایت عقل مند ہوں حالانکہ میدان محشر میں وہ دیوانہ بنا ہوا ہوگا ۔قرآن میں ہے کہ وَإِن لَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن مجنون بن کر قبروں سے اٹھیں گے سودکی کمائی حرام اور نبی ﷺ فرماتے ہیں مال حرام سے پیٹ پالنے والا جہنمی ہے۔(طبرانی)اسی طرح مال حرام نہ صدقہ قبول ہوتا ہے نہ حج وعمرہ وغیرہ (بخاری و مسلم)بھایئوآجکل جوہم طرح طرح کے عذاب و مصائب آلام کے شکار ہو رہے ہیں اور جو ادبار و ست ہمیں گھیرے ہوئے ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب سود خواری بھی ہے رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جس جگہ سود خواری و زنا کاری ہوگی وہاں کے لوگوں پر عذاب نازل ہوں گے۔(حاکم) جس قوم مٰں وود خواری ہوگی اس پر قھط سالی کا عذاب دائمی ہوگا (احمد) آج کوئی انسان اس پیشگوئی کی صداقت میں شک کرسکتا ہے ؟کونسا عذاب آسمانی ایسا ہے ہم پر نہیں آیا وہ کونسا سال ہے جس کے اندر قھط سالی نے اپنا تسلط ہم سے اٹھایا ہوآفتوں مصیبتوں کی موسلا دھار بارش اطراف عالم میں ہورہی ہے ۔آج کل لوگوں نے سود خوری کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے بے تکلف علی الاعلان سود لیتے دیتے ہیں او رکچھ پرواہ نہیں کرتے کہ اس کی کیسی ممانعت ہے لیکن یاد رکھو!
جو بدن پالا گیا ہو لقمائے سود سے داخل جنت نہ ہو حضرت کا یہ فرمان ہے۔
من نبت لحمه من الستحت فالنار اولي به کئی دفعہ بیہقی میں موجود ہے ہم لوگوں پر طاعون عذاب عام ہوگیا ہے۔اور کوئی علاج بھی کیسی ہی کوشش سے ایجاد کیوں نہ ہوا ہو مطلق مفید ہوا مگر مسلمانوں کی غفلتاب تک وہی ہے پس چکے برباد ہو چکے مگر اکڑ فوں نہیں گئی ۔وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
بھایئو۔اللہ کے آگے جھکو اللہ کے رسول کی ماتحتی اختیار کرو تاکہ اللہ اپنی رحمت کےدروازے تم پرکھولدے۔ اپنے عذابوں سے ہمیں نجات دے ورنہ اندیشہ ہ ے کہ کہیں حالت بد سے بدترنہ ہوجائے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں قسم اللہ کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میری امت کےکچھ لوگ آرام و اطمینان ہنسی خوشی بے خوف و خطرات کو سیئں گے اور صبح کو اللہ دفعتاً ان کی صورتیں مسخ کر دے گاکیونکہ وہ حرام کو حلال کئے ہوئے ہوں گے گانا بجانا شرابیں پینا سود کھانا ریشم پہننا ان کا شیوہ ہوگیا ہوگا ایک اور حدیث میں ارشاد نبویﷺ ہے کہ میری امت میں وہ لوگ جو شراب یتے ہیں اور ریشم ہنتے ہیں اور گانا سنتے ہیں اور سود کھاتے ہیں اور قطع رحمی کرتے ہیں ان کو پروردیگار عالم دنیا میں ہی طرح طرح کے عذاب کرے گا کہیں انکی صورتیں مسخ کر دی جایئں گی۔بندر اور سور بنادیئے جایئں گے۔کہیں زمین میں دھنسا دیئے جایئں گے کہیں آسمان سے پتھر برسائے جایئں گے۔کہیں آندھی اور طوفان سے برباد کیے جایئں گے۔(بیہقی)
اللہ اکبر۔باوجود اس قدر وعید شدید کے بھی جو مسلمان اس حرام کام سے نہیں بچتے یا توانہیں اللہ جل شانہ کی ذات پر ایمان ہی نہیں یا خوف خدا ان کے دلوں سے اٹھ گیا ہے یا وہ خدا کی باتوں پریقین نہیں رکھتے اس لئے کہ اگر یقین کامل ہوتا تو یقین سے عمل جدا نہیں ہوتا ہے دیکھیے پائخانہ پیشاب کی نجاست کاانسان کو یقین ہے آپ نے کبھی کسی صحیح المزاج آدمی کو اس کو کھاتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔اسی طرح جس کو سود و شراب وغیرہ کی نجاست پر حسب فرمان نبوی ﷺ یقین ہے۔بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ اس نجاست کو چھو بھی لے۔ہمارا یہ زمانہ وہ زمانہ ہے جس کی بابت پیغمبر آخر الزمان ﷺ نے فرمایا تھا۔ياتي علي الناس ذمان لا يبقي من الاسلام الا اسمه ولا يبقي من القران الا رسمه (بيهقي) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں صرف اسلام کا نام ہی نام رہ جائے گا۔اور قرآن شریف کے صرف حرووف لکھے رہ جایئں گے۔نام تو مسلمان ہوگا مگر کام اسلام کے خلاف ہوں گے قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے مگر عمل سے کوسوں دور رہوں گے اور یہ بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسا بھی زمانہ آئے گا جن میں سود خوری پھیل جائے گی اگر سود نہ کھائےگا تو غبار تو ضرور پہنچے گا (ابو دائود)آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کی نشانیوں میں سے شراب خوری زنا کاری سود خوری کا ظاہر ہونا بھی ہے (طبرانی)ایسے زمانہ میں اپنے کاروبار یا تجارت بیو پار میں شریعت کی پابندی کرنا اجر عظیم حاصل کرنا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺنے فرمایا ہے۔التاجر الصدوق الامين معي النبيين والصديقين والشهداء (ترمذی)یعنی تاجر سچا ایمانت دار قیامت کونبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔مسلمانوں رسول اللہﷺ نے دنیا میں مبعوث ہوکر جہاں اور اصلاحیں کی تھی وہاں ایک اصلاح سود کی ممانعت ہے۔آپ کی بعثت سے پہلے عام طور پر سود لیا جاتا تھا جب آپ مدینہ تشریف لے گئے سب سے پلے آپ نے سونے کو سونے کے بدلے چاند ی کو چاندی کے بدلے جب لیا جائے تو ادھار اور کمی بیشی کوسود قرار دے کرحرام فرمایا اس کے بعد عرب میں جو دونے چوگنے سود لینے کا رواج تھا اس کی حرمت کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوا۟ ٱلرِّبَوٰٓا۟ أَضْعَـٰفًا مُّضَـٰعَفَةً الخ مسلمانو! دوگنا چوگنا سود نہ لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہوتاکہ تم فلاح پائو اور سن8 ہجری میں مطلق سود کے بارے میں سوۃ بقر کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ الخ یعنی جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کو شیطان نے چھو کرخبطی بنادیاہو۔پھر یہ آیت تھوڑے ہی وقفہ کے بعد نازل ہوئی۔ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ الخ اور مطلق سود حرام ہوا۔آپ ﷺ نے آیت کے نازل ہوتے ہی لوگوں کو جمع کیا اور مسجد میں خطبہ سنایااور تمام سود ہی کاروبار لین دین حرام کردیا ۔چنانچہ سن9 ہجری میں اہل نجران سے یہ بھی عہد لیا گیا کہ وہ سود نہ لیں اور سن10 ہجری میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر جبکہ اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔شاہ اسلام نے لاکھوں آدمیوں کے مجمع میں رخصتانہ نصیحتیں کرتے ہوئے صاف فرما دیا کہ سودی کاروبار باطل ہے گزشتہ سود نہ لیاجائے نہ دیا جائے عین اسی وقت یہ آیت ناز ہوتی ہے۔ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣﴾
یعنی میں نے آج اپنا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کیں اور تہارے لئے دین اسلام کو میں نے پسند کرلیا سلسلہ احکام الاسلام کی آخری کڑی حرمت سود کی آیت ہے (بخاری شریف)
مسلمانو!فرمان خداوندی کو مد نظر رکھو رسول اللہ ﷺ کا ادب کرو لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ
نبی ﷺ کے خلاف اپنی آوازیں نہ اٹھائو جس کام سے آپ ﷺ نے منع کر دیا اس کا خلاف کر کے تم کبھی سرسبز نہیں رہ سکتے۔ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
اللہ کے رسول کا خلاف کرنے والے کسی زبردست فتنہ یا عذاب درد ناک کیلئے امادہ رہیں۔
دوستو!اللہ کی ناراضگی رسول کی مخالفت اور عذاب آخرت کا خوف دل میں رکھ کرسچے دل سے توبہ کرو سنو !رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ۔النائب من الذنب كمن لا ذنب له گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والےکے برابر ہے۔والسلام وما علینا الا البلاغ (حررہ ابو العالیۃ المدعو محمد ہاشم محمدی ٹانڈوی عینی)(اخبار اہل حدیث امرتسرجلد21 شمارہ 5)